امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

آلات قمار (جوا) کی تعریف اور فقہی حکم

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

آلات قمار یعنی چی؟ بررسی حکم خرید و فروش این وسایل - بت سایت

آلات قمار (جوا)
 
۱سوال: ہمارے دوستوں میں بغیر شرط کے تاش کھیلنا معمول ہے کبھی کبھی دس بیس بار میں ایک بار شرط بھی لگا لیتے ہیں، حالانکہ میں شرط والی صورت میں ان کے ساتھ نہیں کھیلتا ہوں مگر اس ماحول میں تاش کھیلنا کیسا ہے؟
جواب: احتیاط واجب کی بناء پر شرط کے بغیر بھی کھیلنا جایز نہیں ہے۔
۲سوال: آلات قمار سے بغیر شرط کے کھیلنا کیا حکم رکھتا ہے؟
جواب: شطرنج اور بیکگمون مطلقا حرام ہیں اور بیلیارڈ، دومینو، اور تاش شرط بندی کے ساتھ حرام ہے اور بغیر شرط بندی کے بھی احتیاط واجب کی بنا پر حرام ہے اور دوسرے گیمس شرط بندی کے ساتھ حرام ہے اور بغیر شرط بندی کے اگر آپ کے شہر میں جوا شمار ہوتا ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر حرام ہے اور اگر آپ کے شہر میں جوا شمار نہ ہوتا ہو تو بغیر شرط کے کھیلنا جایز ہے ۔
۳سوال: انعام کی خاطر یا شرط لگا کر فوٹبال وغیرہ کھیلنا کیا حکم رکھتا ہے؟
جواب: اگر اس میں پیسے کی شرط لگائی جائے تو حرام ہے لیکن اگر ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے کی طرف سے کوئی انعام رکھا گیا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
۴سوال: کمپیوٹر پر تاش کھیلنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: بنابر احتیاط واجب جایز نہیں ہے۔
۵سوال: تاش کھیلنا کیسا ہے؟
جواب: احتیاط واجب کی بناء پر شرط کے بغیر بھی کھیلنا جایز نہیں ہے۔
۶سوال: بیلیارڈ کھیلنا کیسا ہے؟
جواب: احتیاط واجب کی بناء پر شرط کے بغیر بھی کھیلنا جایز نہیں ہے۔

ماخوذ از سیستانی ویب سائٹ

----

آلات قمار کے بارے میں ایک اہم تحریر شیعہ ویکی پر پیش کیا ہے
اسے قارئین کی خدمت میں پیش خدمت ہے
---
آلات قمار

آلات قِمار، ان اوزاروں کو کہا جاتا ہے جو معمولا جوے میں استعمال ہوتے ہیں۔ فقہ میں شطرنج، بیکگمون، تاش اور بلیئرڈز کو آلات قمار میں شمار کیا جاتا ہے۔ احادیث میں بھی شطرنج اور بیکگمون وغیرہ کو آلات قمار کے نام سے یاد کرتے ہوئے ان سے منع کی گئی ہے۔ فقہاء آلات قمار کے ساتھ کھیلنے کو ہر صورت میں حرام قرار دیتے ہیں چاہے شرط بندی کے ساتھ ہو یا بغیر شرط بندی کے۔ البتہ فقہاء فرماتے ہیں کہ مذکورہ اوزار اگر عرف عام میں جوا کے ساتھ مختص نہ ہو تو فقہی اعتبار سے بھی یہ اوزار آلات قمار میں شامل نہیں ہوگا۔

تعریف

بعض معاصر فقہا من جملہ امام خمینی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر شطرنج آلات قمار میں شامل نہ ہو تو یہ حرام نہیں ہے۔
وہ اوزار جو عموما جوے میں استعمال کئے جاتے ہیں آلات قمار کہلاتے ہیں۔[1] شطرنج،[2] بیکگمون،[3] تاش اور بلیئرڈز کو آلات قمار میں شمار کئے جاتے ہیں۔[4] فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر یہ اوزار عرف عام میں جوے کے ساتھ مختص نہ ہوں تو فقہی اعتبار سے بھی آلات قمار میں شمار نہیں ہونگے۔[5]

احادیث
احادیث میں کھیلوں کے بعض اوزار جیسے شطرنج اور بیکگمون کو آلات قِمار میں سے قرار دیتے ہوئے[6] ان کے ساتھ کھیلنے سے منع کی گئی ہے۔[7] مثلا حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ شطرنج اور نرد جوا ہیں۔[8] معانی الأخبار میں امام صادقؑ سے منقول ہے کہ شطرنج اور تختہ نرد کے نزدیک بھی نہ ہو۔[9]

بعض آلات قِمار جیسے بلیئرڈز اور تاش وغیرہ مسلمانوں کے یہاں زیادہ پرانی نہیں ہے اسی وجہ سے ان کو مسائل مستحدثہ (جدید مسائل) میں شمار کیا جاتا ہے۔[10]

فقہی حکم
فقہا آلات قِمار کے ساتھ کھیلنے کو ہر صورت میں حرام قرار دیتے ہیں چاہے شرط کے ساتھ کھیلے یا بغیر شرط کے۔ البتہ بعض فقہاء آلات قمار کے ساتھ بغیر شرط‌ بندی کے کھیلنا حرام ہونے میں اشکال کرتے ہیں۔[11] اسی طرح فقہا کے مطابق آلات قمار کو بنانا، تحفے میں دینا یا ان سے کسی طرح کی لین دین جیسے خرید و فروخت یا اجارہ وغیرہ سب کے سب حرام ہیں۔[12] آلات قمار کے بارے میں دوسرا حکم یہ ہے کہ ان کو تلف کرنا واجب ہے۔ اس حکم کے مطابق جو بھی آلات قمار تک رسائی حاصل کرے اسے تلف کرنا اس پر واجب ہے اگر ممکن ہو تو۔[13]

فقہاء کے مطابق آلات قمار اگر عرف عام میں جوے کے ساتھ مختص نہ ہو تو فقہی اعتبار سے بھی یہ اوزار آلات قمار میں شمار نہیں ہو گا اور ان کے ساتھ شرط‌ بندی کے بغیر کھیلنا جایز ہے۔[14] البتہ شطرنج اور تختہ نرد(بیکگمون) کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہاء ان احادیث سے استناد کرتے ہوئے ان دونوں کو ہر صورت میں حرام سمجھتے ہیں جن میں ان دونوں کا نام لے کر نہی کی گئی ہے۔[15] جبکہ دوسرے فقہاء کے مطابق اگر شطرنج اور تختہ نرد بھی آلات قمار میں شمار نہ ہو تو دوسرے آلات قمار کی طرح ہے یعنی بغیر شرط بندی کے حرام نہیں ہے۔[16]

-- حوالہ جات
 جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۵۲۔
 رجوع کریں: شیخ انصاری، مکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۷۲۔
 رجوع کریں: شیخ انصاری، مکاسب، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۷۲۔
 رجوع کریں: مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۲۳۸۔
 منتظری، رسالہ استفتائات، چاپ اول، ج۳، ص۳۱۴، ۳۱۵۔
 حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۷، ص۳۲۱، ۳۲۴، ۳۲۵، ۳۲۶۔
 حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۷، ص۳۲۰، ۳۲۴، ۳۲۵۔
 حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۷، ص۳۲۴۔
 حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۷، ۳۲۰۔
 جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت، ج۴۱، ص۱۶۲۔
 جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۵۳۔
 جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۵۳۔
 جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۵۳۔
 منتظری، رسالہ استفتائات، چاپ اول، ج۳، ص۳۱۴، ۳۱۵۔
 شیخ انصاری، مکاسب محرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۷۳، ۳۷۴۔
 منتظری، رسالہ استفتائات، چاپ اول، ج۳، ص۳۱۴ و ۳۱۵۔

---

قمار بازی کے برے اثرات  اور قابل غور نکات

 اس حوالے سے
 >تفسیر نمونہ جلد 01 > قمار بازی کے برے اثرات
میں اہم تحریر قارئین کی خدمت میں پیش خدمت ہے
-
قمار بازی کے برے اثراتدوقابل غور نکات
ایسے افراد بہت کم ملیں گے جو قماربازی کے زبر دست نقصانات سے بے خبرہوں۔ وضاحت کے لیے اس منحوس کار و بار اور گھروں کی بربادی کے باعث کام، کے چند گوشوں کا تذکرہ کیاجاتاہے۔
قمار بازی ہیجان انگیزی کا بہت بڑا ذریعہ ہے: تمام علماء نفسیات کا یہ نظریہ ہے کہ روحانی ہیجانات اور اضطراب بہت سی بیماریوں کا باعث ہیں مثلا وٹا من کی کمی۔ زخم معدہ، جنون و دیوانگی ، کم و بیش اعصابی و روحانی بیماریاں و غیرہ۔
یہ بیماریاں زیادہ تر ہیجان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ قماربازی ہیجان کا سب سے بڑا عامل ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ کا ایک اسکالر کہتاہے کہ امریکہ میں ہر سال دوہزار افراد صرف قمار بازی کے ہیجان سے مرجاتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک لالو اوسطا ایک پوکر ۱
باز کا دل اوسطا ایک منٹ میں سوسے زیادہ مرتبہ دھڑکتاہے۔ کبھی کبھی قمار بازی سے دل و دماغ پر سکتہ بھے طاری ہوجاتاہے ۔ قمار بازی یقینی طورپر جلد بڑھا پالانے کا باعث بنتی ہے۔
علاوہ ازیں علماء کے بقول جو شخص قمار بازی میں مشغول ہے اس کا دل ہے تشنج کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اس کے تمام اعضاء جسم سخت حالت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے دل کی حرکت بڑھ جاتی ہے۔ شوگر کا مواد اس کے خون میں گرتاہے، داخلی غدودوں میں خلل واقع ہوتا، چہرے کا رنگ اڑجاتا ہی اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ قمار بازی کے ختم ہوںے پر جب جوا باز سوتاہے تو اس کے اندرا عصابی جنگ جاری ہوتی ہے اور جسم پر بحران کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جواری اکثر اوقات اعصاب کی تسکین اور بدن کے آرام کے لیے شراب اور دوسری نشہ آور چیزوں کا سہارا لیتا ہے اس طرح شراب اور قمار بازی کے نقصانات جمع ہوکر فزون تر ہوجاتے ہیں۔
بعض محققین کہتے ہیں کہ قمارباز ایک بیمار شخص ہے۔ یہ ہمیشہ روح کی نگرانی کا محتاج ہے۔ اُسے ہمیشہ سمجھانا چاہئیے اورنفسیاتی ذریعوں سے اسے قمار بازی سے روکنے کی کوشش کرنے چاہئیے شاید اس طرح وہ اپنی اصلاح کی طرف مائل ہوسکے۔
قمار بازی کا جرائم سے تعلق: عالمی اعداد و شمار کے ایک بہت بڑے ادارے نے ثابت کیاہے کہ ۳۰ فیصد جرائم کا تعلق قماربازی سے ہے اور ۷۰ فیصد دیگر جرائم کے عوامل میں بھی یہ حصہ دار ہے۔
قمار بازی کے اقتصادی نقصانات: ایک سال میں کئی ملین بلکہ کئی ارب ڈالر کی دولت دنیا میں اس راستے سے برباد ہوتی ہے

--

آیت کے آخری حصے میں ہے
”کذلک یبین اللہ لکم الایات لعلکم تتفکرون“
”خدا اپنی آیات کو اسی طرح بیان کرتاہے شاید تم غور و فکر کرو“
آیت کی ابتدا میں غور و فکر کی وضاحت یوں کی گئی ہے:
”فی الدنیا و الاخرة“
اس تعبیر سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔
پہلی یہ کہ انسان مامور ہے کہ خدا اور انبیاء کے سامنے سرتسلیم خم کردے اس کے باو جود اس کا فرض ہے کہ یہ اطاعت فکر و نظر سے انجام دے، نہ یہ کہ اندھا دھند اور بغیر سوچے سمجھے ان کی پیروی کرے، دوسرے لفظوں میں جتنا ہو سکے احکام الہی کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کرے اور انہیں صحیح شعور سے بجالائے۔
البتہ اس گفتگو کا یہ معنی نہیں ہے کہ احکام الہی کی اطاعت ان کے فلسفے کے سمجھنے سے مشروط ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان احکام کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ان کی روح اور اسرار کو جاننے کی بھی کوشش کی جانی چاہئیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسان کو یہ نہیں چاہئیے کہ وہ فقط عالم مادہ یا فقط عالم معنی ہی میں غور و فکر کرے، بلکہ دونوں پر غور و فکر کرے جسم کی ضروریات اور روح کے تقاضے دونوں ملحوظ نظر رہیں دونوں کے تکامل اور پیش رفت کے وسائل کی تلاش کی جانا چاہئیے کیونکہ دنیا و آخرت ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ایک کی بربادی دوسرے کی ویرانی میں حصہ دار ہوتی ہے، رہی یہ بات کہ شراب اور قماربازی کی حرمت کا حکم اور راہ خدا میں خرچ کرنے کی تشویق میں کیا ربط ہے۔ تو ممکن ہے یہ اس لحاظ سے ہو:
۱۔ جیسا کہ بیان کیاگیاہے ان احکام کا فلسفہ اور ان کے اسرار انسانی فکر و نظر کو متاخر کرتے ہیں۔
۲۔ انفاق عمومی، مجموعی اور اخروی پہلو رکھتاہے اور شراب و قماربازی زیادہ تر شخصی اور مادی پہلو رکھتے ہیں ۔ لہذا ان احکام کے ذریعے انسان کو دنیا و آخرت کی فلاح کے لیئے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔
۲۲۰۔ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْیَتَامَی قُلْ إِصْلاَحٌ لَہُمْ خَیْرٌ وَإِنْ تُخَالِطُوہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنْ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَاٴَعْنَتَکُمْ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ
ترجمہ
۲۲۰۔ (تا کہ) دنیا و آخرت میں (فکر کرو) اور تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دو کہ ان کے کام کی اصلاح کرنا بہتر ہے اور اگر اپنی زندگی کو ان کی زندگی میں ملالو (تو کوئی حرج نہیں) وہ تمہارے دینی بھائی ہیں (اور ان سے ایک بھائی کا سا سلوک کرو) خدا مفسدین کو مصلحین میں سے پہچانتا ہے اور اگر خدا چاہے تو تمہیں زحمت و تکلیف میں ڈال دے (اور حکم دے دے کہ یتیموں کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی اور اموال کاملا ان کے مال سے جدا رکھو لیکن خدا ایسا نہیں کرتا) کیونکہ وہ توانا اور حکیم ہے۔
شان نزول
تفسیر قمی میں امام صادق اور تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے منقول ہے کہ جب آیت
”و لا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ہن احسن“
یتیم کے مال کے نزدیک بھی نہ جانا۔ مگر یہ کہ یہ اس کے حق میں بہتر ہو۔ (بنی اسرائیل۔ ۳۴)
اور آیہ”ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما انما یاکلون فی بطونہم نار اوسیصلون سعیرا“
جو لوگ یتیموں کا مال نا حق کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس انگارے بھرتے ہیں اور عنقریب و اصل جہنم ہونگے (نساء۔۱۰)
نازل ہوئیں کہ جن میں یتیموں کے مال و دولت کے قریب جانے سے منع کیاگیاہے سوائے اس کے کہ ان کے لیے مفید ہو اور ان کا مال کھانے سے روکا گیا ہے تو جن کے گھروں میں یتیم تھے انہوں نے ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تو انہیں اپنے گھرہی سے نکال دیا اور جنہوں نے ایسا نہ کیا ان کے گھر میں بھی یتیموں کی کیفیت نکالے جانے سے مختلف نہ تھی۔ ان کے مال سے پکایاگیا کھانا اپنے کھانے سے نہ ملاتے ، ان کے لیے الگ کھانا پکتا، یتیم اپنے کمرے کے کو نے میں الگ سے کھانا کھاتا، اس کا بچا ہوا کھانا پڑا رہتاتا کہ پھر بھوک لگنے پر اسی کو کھائے اور کھانا خراب ہوجاتا تو پھینک دیاجاتا۔
یہ سب اہتمام اس لیے کیا جاتا کہ کہیں مال یتیم کھانے کا جرم سرزد نہ ہو۔ یہ صورت حال سرپرستوں اور یتیموں دونوں کے لیے بہت مشکلات کا باعث تھی۔ ان حالات میں متاثر افراد پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضورکی خدمت میں اپنے احوال پیش کیئے ۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔
تفسیر
قرآن مجید یتیموں کے سرپرستوں کو حکم دیتاہے کہ یتیموں کی سرپرستی سے دست کش ہوجانا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا درست نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ان کی سرپرستی قبول کرلو اور ان کے کام انجام دو اور جو کام ان کے فائدے میں ہو اور جس میں ان کی اصلاح اور بہتری سمجھو، اسے انجام دو (”قل اصلاح لہم خیر“)۔
اور اگر ان کی زندگی تمہاری زندگی سے مخلوط ہو تو ان سے ایک بھائی کا سا سلوک کرو۔ جب تمہارا مقصد ان کی بھلائی ہو تو ان کے مال اور کھانا تمہارے مال اور کھانے سے مل جائے تو کوئی اشکال نہیں و ان تخالطوہم فاخوانکم“)۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتاہے کہ خدا تمہاری نیتوں سے واقف ہے۔ بھلائی کا اظہار صحت عمل کی دلیل نہیں بلکہ حقیقت میں اصلاح طلب بنو، تمہاری نیت یتیموں کی خدمت کرنا ہو (”و اللہ یعلم المفسد من المصلح“)
آیت کے آخر میں فرماتاہے: خداوند عالم اگر چاہے تو تم پر معاملہ سخت کرسکتاہے اور یتیموں کی سرپرستی کو لازمی قرار دینے کے با وجود تمہیں اپنے مال اور کھانے کو ان کے مال اور کھانے سے الگ رکھنے کا حکم دے سکتاہے لیکن وہ قادر بھی ہے اور حکیم و دانا بھی ہے، کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنے بندوں پر سخت گیری کرے۔ (”و لو شاء اللہ لا عنتکم ان اللہ عزیز حکیم“)۔
۲۲۱۔َلاَتَنکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ وَلَاٴَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکَةٍ وَلَوْ اٴَعْجَبَتْکُمْ وَلاَتُنکِحُوا الْمُشْرِکِینَ حَتَّی یُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَیْرٌ مِنْ مُشْرِکٍ وَلَوْ اٴَعْجَبَکُمْ اٴُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ وَاللهُ یَدْعُو إِلَی الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِہِ وَیُبَیِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُون
ترجمہ
۲۲۱۔ مشرک اور بت پرست عورتیں جب تک ایمان نہ لے آئیں ان سے نکاح نہ کرو (اگر چہ تمہیں کنیزوں ہی سے رشتہ تزیج کیوں نہ قائم کرنا پڑے کیونکہ) ایماندار کنیزیں آزاد بت پرست عورت سے بہتر ہیں اگرچہ ان کی زیبائی، دولت، شخصیت اور وقعت) تمہیں بھلی معلوم ہوتی ہو اور اپنی عورتیں بت پرست مردوں سے نہ بیا ہو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں (اگرچہ تمہیں مجبورا ایماندار غلام ایک بت پرست مرد سے بہتر ہے اگرچہ (مال و مقام اور حسن و زیبائی میں) وہ تمہیں اچھا لگے۔ وہ تو آگ کو دعوت دیتے ہیں جب کہ خدا جنت اور اپنے حکم کے ذریعے بخشش کی دعوت دیتاہے اور اپنی آیات لوگوں کے لیے واضح کرتاہے کہ شاید وہ یاد رکھیں۔

شان نزول
”مرثد“ جو ایک بہادر انسان تھا پیغمبر اکرم نے اسے مدینے سے مکے کی طرف بھیجا اور حکم دیا کہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی ایک جماعت کو ساتھ لے آئے۔ وہ فرمان پیغمبر کی انجام دہی کے لیے مکہ پہنچا۔ وہاں اس کی ملاقات ایک خوبصورت عورت و عناق، سے ہوگئی۔ اسے وہ زمانہ جاہلیت سے پہچانتاتھا۔ اس عورت نے نکاح کا تقاضا کیاتو مرثد نے کہا کہ یہ معاملہ پیغمبر اکرم کی اجازت پرموقوف ہے۔ وہ اپنی ڈیوٹی ادا کرکے مدینے پلٹ آیا اور وہ واقعہ آنحضرت کے گوش گزار کیا۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی جس میں بیان کیاگیاہے کہ مشرک اور بت پرست عورتیں مسلمان مردوں کی ہمسری اور تزویج کے لائق نہیں۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک