امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

بلوغ یا بالغ ہونا کیا ہے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

نشانه‌های بلوغ پسران و دختران |

بلوغ، شریعت اسلام کی روشنی میں بچہ کا عمر کے اس حصہ تک پہونچنا جب اس پر دین کی پابندی عائد ہو جائے یعنی دین کے احکام پر عمل کرنا اس پر واجب ہو جائے۔ بلوغ کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی لڑکے میں ان علامتوں میں سے کوئی ایک علامت ظاہر ہو جائے تو وہ بالغ ہو جاتا ہے: احتلام، شرمگاہ کے اطراف میں سخت بالوں کا اگ آنا اور عمر کے پندرہ سال مکمل ہو جانا۔

روایات میں تاکید ہے کہ اولاد کو بالغ ہونے سے پہلے ہی واجبات شرعیہ کا پابند بنا دیا جائے اور انہیں شرعی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی تشویق کی جائے۔ بلوغ سے پہلے صرف لوگوں کے مالی حقوق کی ادائیگی کا فریضہ عائد ہوتا ہے کہ بچہ کا ولی اس کے بلوغ سے پہلے اس حق کو ادا کرے ورنہ بلوغ کے بعد خود لڑکے پر اس حق کی ادائیگی واجب ہے۔

بلوغ کے دوران نوجوان کے جسم اور روح دونوں میں ہی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں مثلا جنسی شہوت کا پیدا ہونا، والدین سے ہماہنگ نہ ہو پانا اور جدید نظریات کا پیدا ہونا وغیرہ
بلوغ لغت، اصطلاح اور فقہ میں

عربی لغت میں بلوغ کے معنی ہیں کسی چیز تک پہونچنا، کسی مقصد تک پہونچنا، کامل ہونا، پھلوں کا درخت پر پک جانا اور بچہ کا منزل کمال تک پہونچ جانا[1] اور اصطلاحی طور پر بلوغ کا مفہوم یہ ہے کہ بچہ طبیعی طور پر عمر کے اس مرحلہ تک پہونچ جائے کہ جنسی شہوت بیدار ہو جائے، جسم و روح میں مختلف تبدیلیاں پیدا ہو جائیں اور بچہ عقل و شعور کی منزل پر فائز ہو جائے جس طرح دیگر مرد اور عورتیں معاشرہ میں عقل و شعور سے بہرہ مند ہیں۔ شریعت میں بلوغ کا مفہوم یہ ہے کہ بچہ عمر کے اس مرحلہ تک پہونچ جائے جب اس پر دین کے احکام اور واجبات کی پابندی عائد ہوتی ہے۔

شریعت میں بلوغ کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ بچہ شرعی ذمہ داریوں کا پابند ہو جاتا ہے۔ اور دین کے احکام کا تعلق اس کی ذات سے شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بلوغ کو سن تکلیف بھی کہا جاتا ہے۔
قرآن میں بلوغ کی قسمیں

قرآن مجید میں بلوغ کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں بلوِغِ نکاح،[2] بلوغِ حٔلٔم[3] اور بلوغِ اشٔد۔[4]

اکثر مفسرین کے نزدیک بلوغِ نکاح سے مراد انسان کا جسمانی اعتبار سے شادی کی توانائیوں تک پہونچ جانا ہے۔ لیکن بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد احتلام ہے۔[5] بلوغِ حٔلٔم سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک جنسی اعتبار سے بالغ ہونا ہے۔[6] بلوغِ اشٔد سے مراد اکثر مفسرین کی نگاہ میں جسم اور عقل کی توانائیوں کا کامل ہو جانا ہے۔[7]

بعض روایات میں، مذکورہ تیںوں الفاظ سے احتلام ہی مراد لیا گیا ہے۔[8]
علامات بلوغ

فقہ میں بنیادی طور پر بلوغ کی پانچ علامتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے تین علامتیں علماء کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے درمیان مشترک ہیں اور وہ یہ ہیں: احتلام، شرمگاہ کے اطراف میں سخت بالوں کا أگ آنا اور عمر کا مخصوص مرحلہ۔ ان تینوں علامتوں میں سے جو بھی پہلے نمودار ہو جائے وہی بلوغ کے لئے کافی ہے اور اسی کی بنا پر بچہ بالغ کہلائے گا۔

    احتلام: یعنی منی کا خارج ہونا۔ آیات[9] و روایات[10] کی روشنی میں تمام علماء کی نگاہ میں منی کا خارج ہونا بلوغ کی علامت ہے۔[11] چاہے سوتے میں خارج ہو یا بیداری میں منی کے نکلنے کے بعد انسان پر غسل جنابت واجب ہو جاتا ہے۔
    شرمگاہ کے اطراف میں سخت بالوں کا أگ آنا: شیعہ اور اہل سنت دونوں کی فقہ میں متعدد روایات کی بنا پر یہ بھی بلوغ کی علامت ہے۔ اگرچہ فقہ حنفی میں اسے بلوغ کی علامت نہیں مانا گیا ہے۔[12]
    سنِ بلوغ تک پہونچنا: لڑکے کا ایک مخصوص عمر تک پہونچنا روایات کی روشنی میں بلوغ کی علامت ہے چاہے ابھی اس کی منی خارج نہ ہوتی ہو مگر پھر بھی تمام شرعی ذمہ داریوں کا انجام دینا اس پر واجب ہے۔[13]

لڑکیوں کے بلوغ کی مخصوص علامت

شریعت اسلام میں لڑکیوں کے بلوغ کی مخصوص علامت، پہلی بار حیض کا آنا اور پہلی بار حاملہ ہونا ہے۔ مشہور شیعہ مجتہدین کی نظر اور بعض مکاتب اہل سنت مثلا مکتب حنبلی میں پہلا حیض اور پہلا حمل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لڑکی پہلے ہی بالغ ہو چکی ہے۔ شاید اسی بنا پر بعض مجتہدین نے حمل کو علامات بلوغ میں شمار نہیں کیا ہے۔[14]
سن تکلیف یا بلوغ
لڑکوں کے بلوغ کا زمانہ

مشہور شیعہ مجتہدین کی نگاہ میں، لڑکے کے بلوغ کا زمانہ قمری اعتبار سے عمر کے پندرہ سال کا مکمل ہونا ہے۔[15] (قمری پندرہ سال کی تکمیل، شمسی چودہ سال، چھ مہینے، بارہ دن میں ہوتی ہے۔ بعض مجتہدین نے پندرہ سال کے آغاز کو ہی زمانہ بلوغ قرار دیا ہے اور بعض نے چودہ سال کے آغاز کو،[16] مجتہدین کے اس اختلاف کا راز خود روایات کا اختلاف ہے۔ بعض مجتہدین نے روایات کو مختلف انداز سے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[17] اسی طرح چند روایات اور فتاوی میں زمانہ بلوغ، دس سال اور آٹھ سال بھی ذکر ہوا ہے۔ ان دونوں مدتوں کو اکثر مجتہدین نے بلوغ کی علامت قرار دینے کے بجائے حقوق الناس یعنی لوگوں کے حقوق کے بہ نسبت ذمہ دار بننے کی علامت قرار دیا ہے۔[18]
لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ

شیعہ مجتہدین کے مشہور فتوے کی بنا پر لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ قمری اعتبار سے عمر کے نو سال کا مکمل ہونا ہے اور قمری نو سال کی تکمیل، شمسی آٹھ سال، آٹھ مہینے اور بیس دن میں ہوتی ہے۔[19][20]

بعض مجتہدین نے دس سال یا تیرہ سال پورے ہونے کو زمانہ بلوغ قرار دیا ہے۔[21][22] بعض مجتہدین اور چند معاصر علماء نے لڑکی کے نو سال میں بالغ ہونے پر اشکال کیا ہے۔ ان کے اشکال کا سبب یہ ہے کہ لڑکی نو سال کی عمر میں عقلی اور جسمانی اعتبار سے شریعت کے تمام فرائض پر قادر نہیں ہوتی۔[23] لہذا ان کی نظر میں نو سال میں لڑکی کے بالغ ہونے کا احتمال نہایت ہی ضعیف ہے۔ اسی لئے ملا محسن فیض کاشانی[24] اور چند علماء [25] نے روایات کے تعارض اور تضاد کو برطرف کرنے کی غرض سے فرمایا ہے کہ لڑکی کے بلوغ کا زمانہ شریعت کے الگ الگ فریضہ کے لحاظ سے مختلف ہے مثلا روزہ کے واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی کی عمر کے تیرہ سال مکمل ہو جائیں۔

لیکن ان علماء کے مذکورہ اشکال کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ اگرچہ لڑکی کے زمانہ بلوغ کے بارے میں مجتہدین میں اختلاف ہے مگر پھر بھی اس مسئلہ میں سبھی کا اتفاق ہے کہ لڑکی کے بلوغ کا زمانہ شریعت کے تمام فرائض میں یکساں ہے۔[26] اس کے علاوہ یہ کہ اگر لڑکی نو سال کی عمر میں شریعت کے کچھ فرائض کی پابندی پر قادر نہیں ہے تو ایسے حالات کا حل شریعت کے بعض قوانین میں پایا جاتا ہے جیسے قانون نفی حرج اور قانون نفی ضرر (ان قوانین کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کو بعض حالات میں بعض قوانین شریعت کی پابندی سے غیر معمولی نقصان یا تکلیف کا اندیشہ ہے تو ایسے حالات میں ان قوانین کی پابندی انسان کی گردن سے ساقط ہے) عقد و معاملہ کے بارے میں بھی معاملہ کے صحیح ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ انسان بلوغ کے ساتھ ساتھ عقل کی نعمت سے مکمل طور پر بہرہ مند ہو۔[27]

خلاصہ یہ ہے کہ متواتر احادیث اور مشہور فتووں کی روشنی میں لڑکی کے بلوغ کا زمانہ، قمری اعتبار سے عمر کے نو سال کا مکمل ہونا ہے۔ اور جن احادیث میں لڑکی کے بلوغ کا زمانہ اس سے مختلف ذکر ہوا ہے وہ احادیث ضعیف ہیں۔ اس بنا پر نو سال کے قول کو ہی صحیح تسلیم کرنا ہوگا۔[28]
اہل سنت کا نظریہ

شافعی اور حنبلی مسلک میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے بلوغ کا زمانہ پندرہ سال کا مکمل ہونا قرار دیا گیا ہے۔ مالکی مسلک میں سترہ یا اٹھارہ سال قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ امام مالک کے بارے میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر بعض علماء کی طرح عمر کو بلوغ کی علامت نہیں سمجھتے تھے۔[29] امام ابو حنیفہ کے نزدیک لڑکی سترہ سال میں بالغ ہوتی ہے اور لڑکا سترہ یا اٹھارہ سال میں، لیکن امام ابو حنیفہ کے پیرو تمام علماء لڑکے اور لڑکی دونوں کو پندرہ سال مکمل ہونے پر بالغ سمجھتے ہیں۔[30] اہل سنت کے کچھ مصادر کے مطابق، مذکورہ مدتیں، بلوغ کی تکمیل ہیں۔ ورنہ بلوغ کا آغاز لڑکوں میں بارہ سال کی عمر سے اور لڑکیوں میں نو سال کی عمر سے ہو جاتا ہے اور اس پوری مدت میں بچے کو اصطلاحی طور پر مراھق کہتے ہیں۔[31] مالکی حضرات نے گذشتہ علامتوں کے علاوہ آواز میں بھاری پن پیدا ہو جانے کو بھی بلوغ کی علامتوں میں ذکر کیا ہے۔[32]
بلوغ میں عجلت یا تاخیر

کبھی کبھی لڑکے اور لڑکیاں جسمانی اعتبار سے اپنے ہم عمر دیگر لڑکوں اور لڑکیوں کے بہ نسبت جلدی بالغ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سے کبھی کبھی وہ اپنے ہم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے بہ نسبت دیر سے بالغ ہوتے ہیں[33] اور زیادہ تر ایسا لڑکوں میں ہوتا ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے جلدی بالغ ہو جاتے ہیں اور لڑکیاں دیر سے بالغ ہوتی ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر لڑکے میں سترہ سال کی عمر تک بلوغ کی علامتیں ظاہر نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے اس کے بلوغ میں تاخیر ہو گئی ہے۔[34]

اور بلوغ کے جلدی یا تاخیر سے ظاہر ہونے میں عام طور سے انسان کے خاندانی اور موروثی حالات کا دخل ہوتا ہے۔ جس طرح اس کی غذا بھی اس کے بلوغ میں عجلت یا تاخیر کا سبب ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں انسان کے بدن میں ہارمونس کی قوت یا ضعف کا سبب بنتی ہیں مثال کے طور پر ویٹامن ای کا بدن میں صحیح مقدار میں ہونا زیادہ تر بلوغ کے جلدی رونما ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح بلوغ کے جلدی رونما ہونے کا ایک سبب، جنسی تصاویر، فلموں اور معاشرہ میں شہوت کو تحریک کرنے والے مناظر کا دیکھنا ہے۔[35]

آب و ہوا کی تاثیر کے بارے میں بعض ماہرین کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغ آب و ہوا کے بہ نسبت انسان کی غذا، اصول صحت اور اجتماعی حالات سے زیادہ وابستہ ہے۔ عام طور سے معتدل آب و ہوا بلوغ کے جلدی ظاہر ہونے کا سبب بنتے ہیں۔[36]

حکم شریعت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کسی وجہ سے اگر پندرہ اور نو سال سے پہلے بالغ ہو جائے تو اس پر واجب ہے شرعی فرائض کو انجام دے اور اس کے لئے پندرہ اور نو سال کی تکمیل کا انتظار کرنا جائز نہیں ہے۔
نابالغوں کی شرعی ذمہ داریاں

شیعہ مجتہدین کے مشہور فتوے کی بنا پر اور اہل سنت کے بعض مکاتب میں زیادہ تر اعمال کے صحیح ہونے میں بالغ ہونا شرط نہیں ہے۔ اسی بنا پر روایات میں بچوں کو بھی نماز، روزہ اور حج کی ترغیب دلانے کی تاکید کی گئی ہے۔ ان روایات کی روشنی میں ممیز بچے کے نیک اعمال کو شریعت کی نظر میں معتبر قرار دیتے ہوئے خود بچے اور اس کے سرپرست کے لئے باعث ثواب مانا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مجتہدین نے بچے کے اعمال کو شرعی حیثیت دینے کے بجائے صرف اس کی تربیت اور ٹریننگ کا سبب قرار دیا ہے تاکہ بچے میں بلوغ سے پہلے ہی شرعی فرائض کو انجام دینے کی مکمل صلاحیت پیدا ہو جائے۔[37]

جو بچہ ابھی ابھی بالغ ہوا ہے وہ اگر شرعی طور پر معاملات انجام دینا چاہے تو اس کے لئے شریعت میں بلوغ کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ عقل کے اعتبار سے اس میں معاملات کو انجام دینے کی مکمل صلاحیت پائی جائے۔ اس صلاحیت کو اصطلاح میں رٔشد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شریعت کا یہ حکم قرآن مجید کے سورہ نساء کی آیت نمبر ۶ اور کچھ روایات سے ماخوذ ہے۔[38]
بلوغ کے فقہی و حقوقی آثار

شرعی فرائض کے وجوب اور عقد و معاملہ کی صحت کے علاوہ بھی انسان کی زندگی کے بہت سے مسائل میں شریعت کی نظر میں بلوغ کو اہمیت حاصل ہے مثلا قضاوت میں قاضی، مدعی، گواہ اور جرائم کا اقرار کرنے والے کے لئے بالغ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح پیش نماز کا بالغ ہونا بھی ضروری ہے اور حکومت کے کسی منصب کو سنبھالنے کے لئے بھی اسلام میں بلوغ شرط ہے۔[39] نابالغ بچوں اور ممنوع التصرف (محجور) افراد کی سرپرستی کے لئے بھی بالغ ہونا شرط ہے۔[40] اس کے علاوہ، حد اور قصاص کا حکم نافذ کرنے کے لئے بھی مجرم کا بالغ ہونا ضروری ہے لیکن تعزیر کرنے کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ہے۔ (لہذا اگر مجرم نابالغ ہے تو اسے تعزیر کیا جا سکتا ہے۔)[41]

شیعہ اور اہل سنت کے فقہاء کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ بہت سے احکام وضعیہ بالغوں سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان احکام کا تعلق نابالغوں سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ قوانین میراث، دیت، ضمانت تلف، ضمانت غصب، ضمانت خیانت، ولایت بر قصاص اور شٔفعہ جیسے بے شمار احکام نابالغوں سے بھی متعلق ہوتے ہیں۔ یعنی بچہ میں پیدا ہوتے ہی ان احکام کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے بلوغ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔[42] اگرچہ بلوغ سے پہلے ان تمام امور کو انجام دینے کا اختیار بچہ کے ولی (سرپرست) کو حاصل ہے اور بلوغ کے بعد خود بچہ کو۔ لہذا اگر بچہ کا کوئی حق کسی کی گردن پر ہو اور بلوغ سے پہلے اس کے ولی نے اس کا حق نہ لیا ہو تو بلوغ کے بعد بچہ خود اپنا حق لے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر خود بچہ کی گردن پر کسی کا حق ہو اور بلوغ سے پہلے اس کے ولی نے وہ حق ادا نہ کیا ہو تو بلوغ کے بعد خود بچہ پر اس حق کی ادائیگی واجب ہے۔[43]

 

حوالہ جات

 

  1.  راغب اصفہانی؛ ابن فارس؛ فیروزآبادی؛ ابن منظور؛ طُرَیحی؛ فیومی، ذیل «بلغ”
  2.  نساء:۶
  3.  نور:۵۸ـ۵۹
  4.  یوسف :۲۲؛ انعام :۱۵۲؛ قصص :۱۴؛ احقاف :۱۵؛ اسراء:۳۴ و آیات دیگر
  5.  طباطبائی؛طبرسی؛ زمخشری، ذیل نساء: ۶
  6.  همان منابع، ذیل نور: ۵۸ ـ۵۹
  7.  وہی منابع، ان ہی آیات کے ذیل میں؛ ان تین اصطلاح کے بارے میں سبحانی، ص۷ـ۱۴
  8.  مجلسی، ج ۱۰۰، ص۱۶۱ـ ۱۶۵؛ حر عاملی، ج ۱، ص۴۲، ج ۱۸، ص۴۰۹، ۴۱۲؛ بروجردی، ج ۱، ص۳۵۰ـ ۳۵۵
  9.  جیسے سورہ نور: ۵۸ ـ۵۹
  10.  جیسے حدیث معروف رفع قلم: «رُفِعَ القَلَمُ عَنِ الثّلاثِ ... عَنِ الصّبی حتّی یحتَلِمَ زحیلی، ج ۵، ص۴۲۳؛ حر عاملی، ج ۱، ص۴۲ـ۴۶؛ مجلسی، وہی
  11.  طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲۸۲؛ نجفی، ج ۹، ص۲۴۰؛ بحرانی، ج ۲۰، ص۳۴۵؛ فقیه، وہی
  12.  ابن قدامه، ج ۴، ص۵۱۴؛ نجفی، ج ۹، ص۲۳۷ـ ۲۳۸؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲۸۲ـ ۲۸۳؛ بحرانی، ج ۲۰، ص۳۴۶؛ شہید ثانی، ج ۲، ص۱۴۴
  13.  حر عاملی، ج ۱، ص۴۳؛ بروجردی، ج ۱، ص۳۵۰،۳۵۳
  14.  محقق حلی، ج ۲، ص۸۵؛ نجفی، ج ۹، ص۲۶۱ـ۲۶۳؛طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲۸۳؛ امام خمینی، وہیں؛ خوئی، ۱۳۹۷، وہیں
  15.  محقق حلّی، ج ۲، ص۸۵؛ حر عاملی، ج ۱، ص۴۲ـ۴۶، ج ۱۸، ص۴۱۰ـ۴۱۱؛ بروجردی، ج ۱، ص۳۵۰ـ ۳۵۱؛ امام خمینی، ج ۲، ص۱۲، مسئلہ ۳؛ نجفی، ج ۹، ص۲۴۳؛ بحرانی، ج ۲۰، ص۳۴۸؛ طوسی، ۱۳۸۷، وہیں؛ سبحانی، ص۲۱ـ۲۳؛ مہریزی، ص۳۲۶ به بعد
  16.  بحرانی، ج ۲۰، ص۳۵۰؛ مقدس اردبیلی، ج ۹، ص۱۹۰ـ۱۹۱؛ نجفی، ج ۹، ص۲۵۲
  17.  سبحانی، ص۳۳ـ۳۶
  18.  محقق حلی، ج ۲، ص۱۵۵، ۱۶۷؛ بحرانی، ج ۲۰، ص۳۴۹؛ نجفی، ج ۹، ص۲۵۱ـ۲۵۷؛ فقیہ، ص۱۷؛ سبحانی، ص۳۲؛ مہریزی، ص۲۳۲ـ۲۵۴، ۳۵۸ـ۳۶۴
  19.  حر عاملی، وہیں؛ بروجردی، ج ۱، ص۳۵۰ـ۳۵۵؛ محقق حلی، ج ۲، ص۸۵؛ نجفی، ج ۹، ص۲۵۸؛ بحرانی، ج ۲۰، ص۳۴۸؛ امام خمینی، وہیں؛ خوئی، ۱۳۹۷، ج ۲، ص۱۹۷؛ انصاری، ۱۴۱۳، ص۲۱۲
  20.  سبحانی، ص۴۳ـ۵۶
  21.  جیسے طوسی، ۱۳۸۷، ج ۱، ص۲۶۶؛ بحرانی، ج ۲۰، ص۳۴۹؛ نجفی، وہیں
  22.  سبحانی، ص۶۴ـ۷۱؛ مہریزی، ص۱۶۵ـ۱۷۳، ۳۴۲ـ۳۵۳؛ نجفی، ج ۹، ص۲۵۸ـ۲۵۹؛ انصاری ؛ بحرانی، وہیں
  23.  مهریزی، ص۱۰۰، ۱۱۴ـ ۱۱۸، ۱۷۴ـ ۱۷۵
  24.  ج ۱، ص۱۶
  25.  سبحانی، ص۷۹ـ۸۰
  26.  مہریزی، ص۳۹۶
  27.  گرامی، ص۳،۷؛ مہریزی، ص۳۸۸، ۴۱۴
  28.  سبحانی، ص۶۶ـ۷۱، ۷۳ـ ۷۸، ۸۰ ـ۸۱
  29.  طوسی، ۱۴۰۷ـ۱۴۱۱، ج ۳، ص۲۸۳؛ ابن قدامہ، ج ۴، ص۵۱۴
  30.  ابن قدامہ، ج ۴، ص۵۱۴ـ۵۱۵؛ جزیری، ج ۲، ص۳۵۰؛ زحیلی، ج ۵، ص۴۲۳ـ۴۲۴
  31.  جس کے آثار ہوتے ہیں۔ زحیلی، ج ۵، ص۴۲۳؛ زرقاء، ص۷۷۹
  32.  زحیلی، ج ۵، ص۴۲۴؛ جزیری، وہیں
  33.  بلوغ تولد جدید، ص۴۷
  34.  بلوغ تولد جدید، ص۴۹
  35.  احمد صبور اردوبادی، بلوغ، ص۱۵۰ـ۱۴۹
  36.  سید احمد احمدی، روان شناسی نوجوانان و جوانان، ص۲۱
  37.  انصاری، ۱۴۱۶، ص۱۱۴ـ۱۱۵؛ خوئی، ۱۳۷۱ ش، ج ۳، ص۲۴۱ـ۲۴۴؛ مراغی، عنوان ۸۴، ج ۲، ص۶۶۴ـ۶۷۲؛ نجفی، ج ۶، ص۱۲۲؛ بحرانی، ج ۱۳، ص۵۳؛ زحیلی، ج ۱، ص۵۶۵، ج ۲، ص۶۱۲، ج ۳، ص۲۰، ۲۳، ج ۴، ص۱۲۲؛ برای احادیث حر عاملی، ج ۴، ص۱۸ـ۲۲، ج ۱۰، ص۲۳۳ـ۲۳۷
  38.  زحیلی، ج ۴، ص۱۲۵؛ جزیری، ج ۲، ص۳۵۳؛ نجفی، ج ۹، ص۲۶۷؛ حر عاملی، ج ۱۸، ص۴۰۹ـ۴۱۲، ج ۱۹، ص۳۷۰ـ۳۷۱؛ امام خمینی، ج ۲، ص۱۲، مسئلہ ۴؛ خوئی، ۱۳۹۷، وہیں؛ طبرسی، ذیل سورہ نساء: ۶
  39.  محقق حلی، ج ۴، ص۵۹، ۹۱، ۹۷، ۱۱۴، ۱۳۸، ۱۴۶، ۱۴۸، ۱۵۱ـ ۱۵۲، ۱۶۳، ۲۰۱، ۲۰۳؛ نجفی، ج ۱۴، ص۳۰۸ـ۳۱۰؛ زحیلی، ج ۶، ص۸۸، ۴۸۱، ۵۶۲، ۶۹۳، ۷۴۳، ۷۷۳، ۷۷۹، ج ۷، ص۷۴
  40.  زحیلی، ج ۷، ص۷۲۶، ۷۴۷، ۷۵۱؛ شہید ثانی، ج ۵، ص۴۵۸ـ۴۶۳؛ نجفی، ج ۱۰، ص۴۴۲
  41.  زحیلی، ج ۶، ص۲۳ـ۲۴، ۱۸۵، ۲۶۵؛ محقق حلی، ج ۴، ص۱۳۷، ۱۵۹، ۱۷۰، ۱۸۰، ۲۰۰
  42.  مراغی، عنوان ۸۳، ج ۲، ص۶۶۰؛ انصاری، ۱۴۱۶، ص۱۱۴
  43.  اس نکتہ کے فقہی مستند کے لئے نجفی، ج ۱۰، ص۴۶۷ـ۴۶۸، ج ۱۳، ص۱۶۶ـ۱۶۷، ج ۱۵، ص۱۸۱؛ محقق حلّی، ج ۳، ص۲۰۱، ج ۴، ص۲۱۴ـ۲۱۵؛ طباطبایی یزدی، ج ۲، ص۸۶۶، مسئلہ ۶؛ خوئی، ۱۳۷۱ ش، ج ۳، ص۲۶۲؛ زحیلی، ج ۴، ص۳۷۸ـ۳۷۹، ج ۷، ص۳۵۰

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک