کھانے اور پینے کے احکام
اَطْعِمَہ و اَشْرِبَہ، فقہ کے ابواب میں سے ایک باب ہے جو کھانے اور پینے کے احکام سے مختص ہے۔ یہ احکام اس باب کے علاوہ شکار اور ذبح، طہارت، حج اور مکاسب کے ابواب میں بھی بیان ہوئے ہیں۔
کھانے والی چیزیں
ایک عام تقسیم کے مطابق کھانے والی چیزیں دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں یا جانوروں سے حاصل ہوتی ہیں یا جانوروں کے علاوہ کسی اور چیز سے حاصل ہوتی ہیں۔
الف. حیوانات
جانوروں سے حاصل ہونے والی چیزوں میں بھی بحث دو حصوں پر مشتمل ہے جانوروں کی تقسیم بندی نیز حرام گوشت اور حلال گوشت جانوروں کی پہچان۔ جانور تین قسم کے ہیں:
خشکی کے جانور
خشکی کے جانور: جو دو قسم کے ہیں:
پالتو جانور.
غیر پالتو جانور: اس قسم کے جانور بھی ان کے خوراک کو دیکھ کر دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:
وہ جانور جو گھاس کھانے میں مشترک ہیں۔
وہ جانور جس کے کاٹنے والے دانت ہیں اور گوشتخوار ہیں۔
دریایی جانور
دریایی جانور: بعض مذاہب میں ان جانوروں کی اقسام بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکہ شیعہ مذہب میں دریائی جانور بھی مچھلی اور غیر مچھلی میں تقسیم ہوتے ہیں اور مچھلی بھی دو قسم کی ہے یا بدن پر چھلکے ہیں یا نہیں۔
پرندے: پرندے بھی دو طرح کے ہیں پنجہ ہے یا پنجہ نہیں۔
ب. غیر جانور
یہ اکثر مختلف جڑی بوٹیوں کو شامل ہے لیکن فقہ میں بعض مخصوص موضوعات جیسے مٹی اور نجاسات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فقہ میں ایسے موضوعات ان کو دو عنوان کھانے والی چیزیں اور نہ کھائی جانے والی چیزوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔
بعض کھانے والی چیزوں کا حرم ہونے کا مآخذ
بعض کھانے پینے والی چیزیں حرام ہونے کا سبب قرآن مجید کی بعض آیات ہیں جہاں ان کو استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خاص کر بعض آیات میں مردار، خون اور سور کا گوشت کو حرام قرار دیا ہے۔[1] اور یہ منع سنت نبوی میں کھانے والی چیزوں کے بارے میں زیادہ بیان ہوئی ہے اور مذکورہ موارد کے علاوہ بعض دیگر موارد کو بھی ان کے ساتھ شامل کیا ہے۔
فقہی اختلاف کا منشاء
کھانے پینے کی مختلف چیزوں کی شرعی حکم کے بارے میں مختلف مذاہب کے فقہا باہم فرق کرنے کی کچھ وجوہات ہیں:
آیات کو سمجھنے میں فرق
متعارض احادیث کا وجود
طیبات کا حلال ہونا اور خبائث کا حرام ہونے میں طیب اور خبیث کی عرفی تعریف میں اختلاف [2]
اصلی اور ثانوی احکام
فقہ میں کھانے پینے کے بارے میں جو احکام بیان ہوئے ہیں وہ اصلی احکام ہیں اور عادی حالات کے ہیں لیکن بعض اضطراری اور مجبوری حالات میں حرمت کے حکم میں تبدیلی آتی ہے۔ کیونکہ حالات عادی اور معمول کے مطابق نہیں ہیں۔
پینے کی چیزیں
پینے والی چیزیں اگرچہ فقہ میں ان تمام چیزوں کو شامل ہوتی ہیں جن کو پیا جاتا ہے لیکن فقہی مآخذ میں اطعمہ اور اشربہ کے باب میں جن پینے والی چیزوں کا ذکر ہوتا ہے وہ اکثر مست کرنے والی مایع چیزوں کے احکام کے بارے میں خاص ہے۔
مسکرات کا حکم اور اس کا مآخذ
مآخذ کے مطابق مسکر (مست کرنے والی) چیزیں مسلمانوں پر بعثت کے ابتدائی سالوں میں حرام نہیں ہوئی ہیں اس بارے میں زیادہ تاکید مكی دو آیتیں [3] اور مدنی تین آیتوں[4] میں ہوئی ہے۔[5]
مُسکر مایعات
مست کرنے والی مایع چیزوں کو پینا حرام ہونے میں اسلامی مذاہب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن مصداق میں اختلاف ہے کہ کہ کونسی چیز مست کرنے والی ہے اور کونسی نہیں اس میں خاص کر نبیذ [نوٹ 1] اور فقّاع تاریخ میں مختلف مذاہب کے درمیان مورد اختلاف رہے ہیں۔.[6]
کھانے پینے کے بارے میں لکھی گئی کتابیں
اس بارے میں الاشربہ کے نام سے بہت ساری کتابیں ملتی ہیں جن میں سے معتزلہ کے علما جیسے جعفر بن مبشر اور ابو جعفر اسکافی[7]، اور اصحاب حدیث میں سے احمد بن حنبل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔[8] صفویہ دور کے بعد بعض فقہی کتابیں الاطعمہ و الاشربہ کے نام سے شیعہ فقہ میں لکھی گئی ہیں جیسے رضی الدین خوانساری (متوفی 1125 ھ) کی کتاب قابل ذکر ہے۔[9]
حوالہ جات
- ↑ بقرہ، آیہ۱۷۳؛ مائدہ، آیہ ۳؛ انعام، آیہ۱۴۵؛ نحل، آیہ ۱۱۵
- ↑ اعراف، آیہ۱۵۷. تفصیل کیلیے مراجعہ کریں: ماوردی، الحاوی الکبیر، ج۵، ص۱۳۷ کے بعد؛ ابن رشد، الفہرست، ج۱، ص۴۶۴ کے بعد؛ محقق حلی، شرایع الاسلام، ج۳، ص۲۱۷ کے بعد؛ مرداوی، الانصاف، ج۱۰، ص۳۰۴ کے بعد؛ شہید ثانی، الروضہ البہیہ، ج۲، ص۲۷۷ کے بعد
- ↑ اعراف(۷): ۳۲؛ نحل(۱۶):۶۷
- ↑ نساء، آیہ۴۳؛ بقرہ، آیہ۲۱۹؛ مائدہ، آیہ۹۰
- ↑ مراجعہ کریں: سرخسی، المبسوط، ج۲۴، ص۲-۳؛ نیز طوسی، المبسوط، ج۷، ص۵۷-۵۸؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ج۱۳، ص۳۷۸-۳۸۴
- ↑ بعض موارد کے لیے مراجعہ کریں: رودانی، صلة الخلف، ص۱۲۹؛ آقابزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۲۱۷
- ↑ مراجعہ کریں: ابن ندیم، الفہرست، ص۲۰۸، ۲۱۳
- ↑ مراجعہ کریں: I/507؛ GAS, دیگر کتابوں کے لئے مراجعہ کریں: ابن ندیم، الفہرست، ص۲۸۶، جاہای مختلف؛ رودانی، صلة الخلف؛ آقابزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۱۰۴-۱۰۶
- ↑ مراجعہ کریں: آقابزرگ، الذریعہ، ج۲، ص۲۱۷-۲۱۸