امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت آدم ع کی نسل کیسے چلی؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

May be an image of text

ابتدائے نسل کی کیفیت...
حضرت آدم علیہ السلام کی نسل آگے کیسے چلی؟
(فقہ ءاثناعشری کا نظریہ)
حسن بن مقاتل نے کسی ایک شخص سے جس نے یہ روایت سنی وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نسل آدم علیہ السلام کی ابتداء کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ کیسے چلی اسلئے کہ ہمارے وہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو وحی کی کہ تم اپنے لڑکوں کا نکاح اپنی لڑکیوں سے کردو اور یہ سارے انسانوں کی اصل بھائی بہنوں کا نکاح ہیں.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ الله تعالیٰ اس سے بہت بالاتر ہے اور جو یہ کہتا ہے وہ اس بات قائل ہے کہ  الله تعالیٰ اپنے بندوں اپنے دوستوں کو اپنے انبیاء کو اپنے رسولوں کو مومنین و مومنات کو مسلمین اور مسلمات کو حرام سے پیدا کیا. اور اس میں اتنی قدرت نہ تھی کہ وہ ان لوگوں کو حلال سے پیدا کرے حالانکہ اس نے ان لوگوں سے حلال و طاہر پر عہد و پیمان لیا ہے اور خدا کی قسم یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ بعض جانور ایسے بھی ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کو نہیں پہچانا اور جفتی کھائی اور جب انکو معلوم ہوا کہ یہ ان کی بہن تھی. تو انہوں نے اپنا عضو تناسل نکالا اور اپنے دانتوں سے کاٹ کر پھینک دیا اور مرگئے.
اور دوسرے جانور کے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ اس نے اپنے ماں کو نہیں پہچانا اور اس سے یہی حرکت کر بیٹھا مگر بعد میں جب اسے معلوم ہوا کہ اسکی ماں تھی تو اس نے بھی ایسا ہی کیا. پھر بھلا انسان جو انسان ہے جانور نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اسے علم و فضل عطا کیا ہے اس کے لیے یہ بات کب جائز ہے سنو اصل بات یہ ہے کہ.
کہ انسانوں کا ایک گروہ اہلبیت نبوت سے منہ موڑے ہوئے ہے اور علم وہاں سے لیتا ہے جہاں سے اسے علم لینے کا حکم نہیں اسلئے وہ لوگ اس پستی پر پہنچ گئے جو تم دیکھ رہے ہو کہ یہ جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں حقیقتاً ماضی میں ابتدائے خلقت سے جو اشیاء کا نظام قائم ہے وہی مستقبل میں تا ابد قائم رہے گا.
پھر آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں پر افسوس کہ وہ اس حدیث کو کیوں بھولے ہوئے ہیں کہ جس پر فقہائے اہل عراق کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے دو ہزار سال پہلے قلم کو حکم دیا جو لوح محفوظ پر جاری ہوا اور قیامت تک جو ہونے والا ہے اسکو لکھا گیا اور قلم قدرت نے جو کچھ بھی لوح محفوظ پر لکھا جن جن باتوں کو حرام لکھا اس میں یہ بھی لکھا کہ بہنیں اپنے بھائیوں پر حرام ہیں اور ہم لوگ ان میں سے چار کتابوں کو تو اس عالم میں دیکھ ہی رہے ہیں۔
 توریت و انجیل و زبور اور قرآن جو اللہ نے لوح محفوظ سے اپنے رسولوں پر نازل فرمائیں. توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر زبور داؤد علیہ السلام پر انجیل حضرت عیسٰی علیہ السلام پر اور قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کتابوں میں یہ چیز کہیں بھی حلال نہیں ہے۔
میں سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ یہ بات یا اس کے مثل جو بات کہتے ہیں وہ مجوسیوں کی دلیلوں کو تقویت دیتے ہیں اللہ ان کو موت دے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے.
پھر آپ نے بتانا شروع کیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی نسل کی ابتداء کیوں کر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ستر پیٹوں سے ہوئی اور ہر پیٹ سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی یہاں تک کہ ہابیل قتل ہو گئے اور قابیل نے ہابیل کو قتل کیا تو حضرت آدم علیہ السلام کو ہابیل کے قتل کا بہت غم ہوا اور اس غم میں انہوں نے عورت کے پاس جانا چھوڑ دیا. اور پانچ سو سال تک حضرت حوا سلام اللہ علیہا سے کنارہ کش رہے اسکے بعد جب غم دور ہوا تو حضرت حوا سے مباشرت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے انکو شیث عطا کیا اور انکے ساتھ کوئی اور پیدا نہ ہوا شیث ہی نام هبتة الله ہے انسانوں میں یہ پہلے وصی ہے روئے زمین پر پھر شیث کے بعد دوسری مرتبہ پیٹ سے یافث پیدا ہوئے اور وہ بھی تنہا پیدا ہوئے انکے ساتھ کوئی پیدا نہیں ہوا. اور پھر دونوں بڑے اور بالغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کی نسل پڑھے اور چونکہ قلم قدرت لوح محفوظ پر لکھ چکا تھا کہ بھائی پر بہن حرام ہے۔
لہذا اللہ نے پنجشبہ کے دن بعد عصر ایک حور نازل کی جس کا نام نزلة تھا اللہ تعالیٰ نے آدم کو حکم دیا کہ اسکا نکاح شیث سے کردو اور اسکے بعد دوسرے دن بعد عصر ایک حوریہ نازل کی جسکا نام منزلة تھا الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اسکا نکاح یافث سے کردو۔ اب شیث کا ایک لڑکا پیدا ہوا اور یافث کی لڑکی پیدا ہوئی جب دونوں جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو حکم دیا کہ یافث کی لڑکی کا نکاح شیث کے لڑکے سے کردو۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا پھر انہی دونوں کی نسل سے اللہ کے مختلف انبیاء و مرسلین پیدا ہوئے اور یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ بھائی بہن کی شادی ہوئی اور اسے سب پیدا ہوئے معاذ اللہ۔ (الله کی پناہ)
حوالہ:
علل الشرائع - الشيخ الصدوق - ج ١ - الصفحة ١٧۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

سیدانصار حسین:سوال
2024-01-23 20:50:21

آپ نے لکھا ہے کہ شیث کے ہاں لڑکا ہوا اور یافث کے ہاں لڑکی اور اللہ کے حکم سے ان دونوں میں شادی ہوگئی اور انہی دونوں سے اللہ کے مختلف انبیاء و مرسلین پیدا ہوئے تو یہاں پھر سوال پیدا ہوتا ہے کی ان کے بچے بھی تو آپس میں بہن بھائی ہوئے تو ان میں کیسے شادی ہوگئی؟؟

--

سلام علیکم سید عزیز. جزاک اللہ۔

آپ کے سوال بہت اہم ہے لیکن اس کا جواب مختصر یہ ہے ۔

حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کے ازدواج کے بارے میں اسلامی دانشوروں کے درمیان دو نظریئے پائے جاتے هیں :

١- اس زمانه میں چونکه خدا کی طرف سے بھائی بهن کے در میان ازدواج کے حرام هو نے کا قانون نافذ نهیں هوا تھا اور انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے سوا اور کوئی راسته نهیں تھا ، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بهن کے در میان ازدواج عمل میں آیا هے-

٢- دوسرا نظریه یه هے که چونکه محرم کے ساتھـ از دواج کر نا قبیح عمل هے، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کر نا ممکن نهیں تھا اور آدم علیه السلام  کےفرزندوں نے زمین پر موجود دوسری مخلوق کی بیٹیوں سے شادی کی- جب اس کے بعد ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے در میان ازدواجی زندگی عمل میں آگئی اور اس طرح انسانی نسل پھیل گئی-

مذکوره دو نظریات میں سے پهلے نظریه کی مفسر المیزان علامه طباطبائی نے تائید کی هے-
تفصیلی جوابات

یه سوال قدیم زمانه سے زیر بحث رها هے که حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں نے کن سے ازدواج کیا ؟ کیا انهوں نے اپنی بهنوں کے ساتھـ ازدواج کیا هے؟ کیا انهوں نے جنس ملک یا جن کی بیٹیوں سے شادی کی هے ؟ کیا انهوں نے دوسرے انسانوں سے شادی کی هے؟ اگر انهوں نے اپنی بهنوں سے شادی کی هو تو تمام ادیان وشرائع کے مطابق بھائی بهن کے در میان از دواج کے حرام هو نے کے پیش نظر اس ازدواج کی کیسے توجیه کی جاسکتی هے؟

اس سلسله میں اسلامی دانشوروں کے در میان دونظریئے پائے جاتے هیں اور هر نظریه کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث سے کچھـ دلائل بیان کئے گئے هیں –یهاں پر هم دونوں نظریات کو اجمالی طور پر نقل کر تے هیں :

١- انهوں نے اپنی بهنوں کے ساتھـ شادی کی هے ـ چونکه اس زمانه (آغاز خلقت) میں خدا وند متعال کی طرف سے بھائی بهن کے در میان از دواج کے حرام هو نے کا قانون اعلان نهیں هوا تھا اور دوسری جانب سے انسانی نسل کی بقاء کے لئے اس کے علاوه کوئی اور طریقه نهیں تھا، اس لئے حضرت آدم علیه السلام کے فرزندوں میں بھائی بهن کے در میان شادی انجام پائی هے ، کیو نکه قانون نافذ کر نے کا حق خدا وند متعال کو هے اور قرآن مجید میں ارشاد هوا هے :" ان الحکم الا لله " حکم صرف خدا کی طرف سے جاری هو تا هے-" [1]

علامه طباطبائی اس سلسله میں فرماتے هیں : حضرت آدم (ع) اور حوا(ع) کی خلقت کے بعد پهلے مرحله ازدواج ، حضرت آدم(ع) وحوا(ع) کے بلافصل فرزندوں میں بھائی اور بهن کے درمیان انجام پایا هے اور حضرت آدم علیه السلام کے بیٹوں نے ان کے بیٹوں سے شادی کی هے ، چونکه اس زمانه میں دنیا میں انسانی نسل انهی فرزندوں میں منحصر تھی--- اس لئے اس میں کوئی حرج نهیں هے (اگر چه همارے زمانے میں یه مسئله تعجب خیز هے)

چونکه یه مسئله ، ایک شرعی مسئله هے اور شرع بھی صرف خداوند متعال کا کام هے، لهذا وه ایک دن کسی کام کو حلال اور دوسرے دن اسی کام کو حرام قرار دے سکتا هے-[2]

صاحب تفسیر نمونه کے مطابق اس نظریه کا قائل هو نا عجیب نهیں هے : "کوئی حرج نهیں هے که ضرورت کے پیش نظر عارضی طور پر اس قسم کا ازدواج اس زمانه میں کچھـ لوگوں کے لئے جائز اور مباح هو اور دوسرے لوگوں کے لئے عام طور پر ابدی حرام هو-"[3]

اس نظریه کے حامی اپنے لئے قرآن مجید کی آیات سے بھی دلیل لاتے هیں که خدا وند متعال کا ارشاد هے : " (خداوند متعال نے) ان دونوں( ادم(غ) وحوا) سے زمین پر بهت سے مرد اور عورتیں پھیلائے-"[4]

اس کے علاوه مرحوم طبری کی کتاب " احتجاج" میں امام سجاد علیه السلام سے نقل کی گئی ایک روایت میں اس مطلب کی تائید هوتی هے-[5]

٢- دوسرانظریه یه هے که چونکه حضرت آدم(ع) کے فرزندوں کا آپس میں ازدواج کر نا ممکن نهیں تھا ، کیو نکه محارم سے ازدواج کر نا ایک قبیح ، برا اور شرعاً حرام کام هے ، لهذا آدم کے بیٹوں نے جنسی بشر کی کچھـ ایسی بیٹوں سے شادی کی جو دوسری نسلوں سےتعلق رکھتی تھیں اور گزشته نسلوں سے زمین پر باقی رهی تھیں- جب بعد میں ان کے فرزند آپس میں چچیرے بھائی بن گئے تو ان کے در میان ازدواجی زندگی تشکیل پائی اس نظریه کی بھی بعض روایتیں تائید کرتی هیں ، کیونکه حضرت آدم (ع) کے فرزند زمین پر سب سے پهلے انسان نهیں تھے ، بلکه اس سے پهلے بھی کچھـ انسان زمین پر زندگی کرتے تھے – لیکن یه قول بظاهر قرآن مجید کی آیات سے مطابقت نهیں رکھتا هے، کیونکه قرآن مجید کی آیت کے مطابقانسانی نسل صرف ان دو(آدم(ع)و حوا) کے توسط سے وجود میں آئی هے –پس حقیقت میں اس قسم کی روایتیں قرآن مجید تناقص رکھتی هیں اور هم انھیں قبول نهیں کرسکتے هیں-

اس استدلال سے یه نتیجه اخذ کیا جاسکتا هے که قرآن مجید کی آیات کے مطابق هابیل وقابیل کے ملائکه یا جنات کی بیٹوں سے ازدواج کر نے کا نظریه بھی باطل هے ، کیو نکه اس آیت سے به ظاهر معلوم هوتا هے که انسان نسل صرف ان دونوں (آدم(ع) وحوا) کے ذریعه وجود میں آئی هے [6]،

اور اگر ان دو کے علاوه ان کی نسل بقا میں کوئی اور دخالت کر تاتو کهنا چاهئے تھا که : ان دو اور ان کے علاوه کسی اور ذریعه سے---

اس سلسله میں علامه طباطبائی (رح) فر ماتے هیں : " انسان کی موجوده نسل صرف حضرت آدم(ع) اور ان کی بیوی حوا سے مربوط هے اور ان دو کے علاوه ان کی نسل کے پھیلنے میں کسی اور کی مداخلت نهیں هے-[7]

اس لئے ، همیں ان روایات کو قبول کر نا چاهئے جو قرآن مجید کی آیات کے مطابق و موافق هوں اور اس کا ماحصل پهلا قول هے-

حوالہ جات:

ماخوذ از اسلام کوئست
[1] - سوره یوسف،٤٠-

[2] - ترجمه المیزان،ج٤ص٢١٦-

[3] - ملا حظه هو: تفسیر نمونه ،ج٣،ص ٢٤٧-

[4] - سوره نساء،١،"وبث منهمارجالاًکثیراًونساءاً-"

[5] - الاحتجاج ،ج٢،ص٣١٤-

[6] - سوره نساء ،١،" وبث منهمارجالاً کثیراًو نساءاً-

[7] - ترجمه المیزان،ج٤،ص٢١٦-

*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک