امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

سورہ حجرات کی آیت 1 سے آیت5 تک کی تفسیر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

سورہ حجرات ۔ مع اردو ترجمہ

سورہ حجرات کی آیت 1 سے آیت5 تک کی تفسیر

آیت 1
 
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ احزاب
زرّ، ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں:

مجھ سے ابی بن کعب نے کہا: تم سورۃ الاحزاب کی آیات کتنی شمار کرتے ہو؟ کہا: ۷۳ آیات۔ کہا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ساتھ ابی بن کعب قسم کھاتا ہے کہ یہ سورہ سورۃ البقرۃ کے برابر یا اس سے زیادہ طویل ہے۔ ہم نے اس سورہ میں آیۂ رجم کی تلاوت کی ہے: الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ۔

اس روایت کو نسائی، حاکم، طبرانی، ابن حبان اور ابن مردویہ نے بیان کیا ہے۔

زمخشری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

ابی نے اس سے قرآن کا وہ حصہ مراد لیا ہے جو منسوخ ہو گیا ہے۔

پھر آگے لکھتے ہیں:

نقل کیا جاتا ہے کہ اس سورت کا زائد حصہ حضرت عائشہؓ کے گھر میں ایک صحیفہ میں تھا جو بکری کھا گئی۔ یہ بات ملحد اور رافضی لوگوں کی ساختہ و بافتہ ہے۔

فاضل محشی نے اس کے ذیل میں لکھا ہے:

قلت: بل راویھا ثقۃ غیر متہم بلکہ اس روایت کے راوی ثقہ ہیں۔ ان پر کوئی الزام بھی عائد نہیں ہے۔

آخر میں لکھتے ہیں:

بل ھذا مما نسخت تلاوتہ و بقی حکمہ و اکل الدواجن وقع بعد النسخ ۔ ( الکشاف ذیل آیہ)

بلکہ یہ اس حصہ کی بات ہے جس کی تلاوت نسخ ہو گئی اور حکم باقی رہ گیا۔ بکری کے کھانے کا واقعہ نسخ کے بعد پیش آیا۔

واضح رہے شیعہ امامیہ کے نزدیک قرآن تواتر سے ثابت ہوتا ہے، اس قسم کی روایت آحاد سے قرآن ثابت نہیں ہوتا کہ نسخ کی نوبت آئے۔ جو لوگ ایسی روایات سے قرآن ثابت ہونا قرار دیتے ہیں وہ نسخ تلاوت کے ذریعے قرآنیت سے ہاتھ اٹھاتے ہیں جب کہ نسخ تلاوت ایک مفروضہ ہے۔ ایک ثابت متواتر اجماعی موقف نہیں ہے جس سے قرآن منسوخ ہو جائے۔ لہٰذا ان روایات کے مضمون کو قرآن ماننے کے لیے تواتر درکار ہے۔ اگر وہ اسے قرآن مانتے ہیں تو نسخ کے لیے تواتر درکار ہے ورنہ جسے ان لوگوں نے قرآن تسلیم کیا ہے اس کی تحریف لازم آتی ہے۔ فافہم ذلک ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے نبی اللہ سے ڈریں اور کفار اور منافقین کی اطاعت نہ کریں، اللہ یقینا بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات
۱۔ یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ: اس آیت کو سمجھنے کے لیے شان نزول کا مطالعہ ضروری ہے۔ چونکہ شان نزول سے محل کلام اور رخ سخن کا علم ہو جاتا ہے۔ شان نزول اس طرح ہے:

جنگ احد کے بعد ابوسفیان کی سربراہی میں مکہ کا ایک وفد مدینہ آتا ہے اور منافقین کے سربراہ عبد اللہ بن ابی کے پاس ٹھہرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی انہیں امان دی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کریں۔ چنانچہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: ہمارے معبودوں لات، عزیٰ اور مناۃ کے خلاف کچھ نہ کہیں اور یہ کہدیں کہ جو ان کی پوجا کرتے ہیں یہ ان کی شفاعت کریں گے تو ہم بھی آپ کے رب کو کچھ نہیں کہیں گے۔ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے گراں گزری۔ حضرت عمر پاس بیٹھے تھے۔ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا انہیں قتل کر دوں؟ فرمایا: میں نے انہیں امان دی ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۔ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ: اس آیت کا موضوع سخن یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خلاف تقویٰ کوئی کام صادر ہونے کا خطرہ تھا یا کفار و منافقین کی اطاعت میں جانے کا اندیشہ تھا بلکہ موضوع سخن یہ ہے کہ کفار و منافقین نے مل کر ایک سازش کی ہے، اس سے بچنے کے لیے اللہ کی حفاظت میں رہیں۔ اتَّقِ اللّٰہَ: اور ان کی ہر تجویز کو مسترد کر دیجیے۔ وَ لَا تُطِعِ: اس تعبیر کا مطلب کفار و منافقین کی سازش کی ناکامی کی بشارت ہے۔

۳۔ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا: اللہ ان کی نیتوں کو جانتا ہے اور جو حکم دے رہا ہے وہ تیر بہدف ہو گا چونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حکیمانہ ہوتا ہے۔ اس جملے میں بھی کفار و منافقین کی مشترکہ سازش کی ناکامی کی طرف اشارہ ہے۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 11

آیت 2
 
وَّ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ۙ﴿۲﴾

۲۔ اور آپ کے رب کی طرف سے آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع کریں، اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات
ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وحی جیسی طاقت موجود ہے۔ بے خبری میں کسی سازش کا شکار ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس جملے سے سازشی کاموں کو ناامید کرنا مقصود ہو سکتا ہے کہ یہ وحی اس ذات کی طرف سے آئی ہے جو لوگوں کے اعمال سے سب سے زیادہ باخبر ہے۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 12
آیت 3
 
وَّ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۳﴾

۳۔ اور اللہ پر توکل کریں اور ضامن بننے کے لیے اللہ کافی ہے۔

تفسیر آیات
اس تعبیر میں بھی سازشی کاموں کو مایوس کرنا مقصود ہو سکتا ہے کہ اللہ پر تکیہ کرنے کی صورت میں کفار اور منافقین کی ملی بھگت کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل کام نہ ہو گا۔

اہم نکات
۱۔ کافر اور منافق اسلام کے خلاف ہمیشہ متفق ہو جاتے ہیں۔

۲۔ احکام وحی کی تعمیل اور اللہ پر بھروسہ کرنا ہر سازش کے خلاف ایک ناقابل تسخیر طاقت ہے۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 12
آیت 4
 
مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓیِٴۡ تُظٰہِرُوۡنَ مِنۡہُنَّ اُمَّہٰتِکُمۡ ۚ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَ ہُوَ یَہۡدِی السَّبِیۡلَ﴿۴﴾

۴۔ اللہ نے کسی شخص کے پہلو میں دو دل نہیں رکھے ہیں اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔

تفسیر آیات
۱۔ مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ: اللہ نے انسان کے پہلو میں دو قلب نہیں بنائے کہ دو متصادم نظریات ایک شخص میں جمع ہو جائیں۔ ایک دل میں کفر و ایمان میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جن کے دلوں میں نفاق ہے ان میں ایمان نہیں آ سکتا اور جن کے دلوں میں اسلام سے بغض ہے ان میں محبت نہیں آ سکتی۔ جو منافقین، مشرکین کے ساتھ مل کر اسلام کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تجاویز دیتے ہیں ان کے دلوں میں اسلام کے ساتھ عداوت ہے۔ ان دلوں میں اسلام کے ساتھ ہمدردی نہیں آ سکتی۔ لہٰذا تم ان کے فریب میں نہ آؤ۔

اس آیت میں ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کن موقف کا بیان ہے جو اسلام کو بھی ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ساتھ غیر اسلامی قوانین کے حامی ہیں۔ اس طرح وہ اسلام کو مسترد اور قبول کرنے میں کسی قسم کا تضاد نہیں سمجھتے۔ وہ بزعم خود شریعت کے منکر بھی نہیں ہیں اور شریعت سے متصادم طاغوت سے فیصلے لینے میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھتے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے معاصر مسلمانوں کے پہلو میں کئی قلب ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:

لا یجتمع حبّنا و حبّ عدوّنا فی جوف انسان ۔ ( بحارالانوار ۲۴: ۳۱۸)

کسی انسان کے دل میں ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں کی محبت جمع نہیں ہو سکتی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

ما جعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ یحب بھذا قوما و یحب بھذا اعدائہم ۔ ( مجمع البیان )

اللہ نے ایک شخص کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے کہ ایک دل سے کسی قوم سے محبت کرے اور دوسرے دل سے اس کے دشمنوں سے محبت کرے۔

۲۔ وَ مَا جَعَلَ اَزۡوَاجَکُمُ الّٰٓیِٴۡ تُظٰہِرُوۡنَ: عربوں میں رواج تھا کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہہ دیا: تیری پیٹھ میرے لیے میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے تو وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی۔ اصطلاح میں اسے ظہار کہتے ہیں۔ اس آیت میں صرف یہ فرمایا کہ کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ عورت ماں نہیں بنتی۔ ماں وہ ہے جس نے تمہیں جنا ہے۔ظہار کے احکام سورۂ مجادلہ آیت ۲۔ ۴ میں بیان کیے گئے ہیں۔

۳۔ وَ مَا جَعَلَ اَدۡعِیَآءَکُمۡ اَبۡنَآءَکُمۡ: نہ ہی اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا بنایا۔ اس آیت کے نزول کے بعد منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دینا ممنوع ہو گیا۔ سب سے پہلے حضرت زید بن حارثہ پر یہ حکم نافذ ہوا جنہیں لوگ زید بن محمد کہتے تھے اور اس رسم کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید کی مطلقہ زینب بنت حجش سے ازدواج فرمایا۔

۴۔ ذٰلِکُمۡ قَوۡلُکُمۡ بِاَفۡوَاہِکُمۡ: منہ بولے کو بیٹا کہنا صرف تمہاری لفظی تعبیر ہے۔ کسی امر واقع کی نشاندہی نہیں ہے۔ اس لفظی تعبیر سے حقیقت نہیں بدلتی۔ حقیقت میں وہ اپنے باپ کا بیٹا ہے۔

۵۔ وَ اللّٰہُ یَقُوۡلُ الۡحَقَّ: اللہ امر واقع اور حقیقت کی نشاندہی فرماتا ہے کہ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت دیا کرو۔

اہم نکات
۱۔ ایک دل میں دو متضاد عقیدے جمع نہیں ہو سکتے۔ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 12
آیت 5
 
اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ ہُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَہُمۡ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَ مَوَالِیۡکُمۡ ؕ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ فِیۡمَاۤ اَخۡطَاۡتُمۡ بِہٖ ۙ وَ لٰکِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۵﴾

۵۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو یہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور جو تم سے غلطی سے سرزد ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اس بات پر (گناہ ضرور ہے) جسے تمہارے دل جان بوجھ کر انجام دیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، رحیم ہے۔

تفسیر آیات
۱۔ اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ: ان کی نسبت اپنے باپوں کی طرف دینا منصفانہ عمل ہے اور جو اس کا حقیقی باپ نہیں ہے اسے باپ کی حیثیت دینا منصفانہ نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت اور امر واقع سے انحراف ہے۔

۲۔ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا: اگر حقیقی باپ کا علم نہیں ہے تو بھی غیر حقیقی باپ کی طرف نسبت دینا درست نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھائی کہلائیں گے۔ وَ مَوَالِیۡکُمۡ: وہ تمہارے دوست کہلائیں گے۔ موالی آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ زید رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام تھا۔ آپؐ نے اسے آزاد کیا۔ اس نے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار کیا تو باپ نے کہا یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: زید میرا بیٹا ہے۔ لوگ بھی زید بن محمد کہتے تھے۔ اس آیت کے نزول کے بعد زید کو مولی رسول اللہ (ص) کہا جانے لگا۔

۳۔ وَ لَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ: اگر تکیہ کلام کی وجہ سے یا پیار میں کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حرج اس میں ہے کہ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ تم دل سے حقیقتاً کسی کو واقعی بیٹا وغیرہ قرار دو اور نسلوں کو حقیقی بنیاد پر نہیں، جعلی بنیاد پر ملاؤ۔ یہ جائز نہیں ہے۔

اہم نکات
۱۔ حقیقی نسب کا تحفظ ہونا چاہیے: اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 7 صفحہ 14

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک