امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کلمہ انتظار فرج سے علط مطلب نکالنا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بعض لوگ امام کے ظہور اور فرج کی دعا میں انتظار فرج سے مراد معمولی حد تک امر بالمعروف و نہی عن المنکر مراد لیتے ہیں اس سے بڑھ کر اپنے لیے کوئ ذمہ داری نہیں سمجھتے –
جبکہ بعض دیگر معمولی حد تک بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قاﺋل نہیں ہیں بلکہ انکا نظریہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ہم کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہماری کوئ ذمہ داری ہے امام زمانہ جب ظہور کریں گے تو خود سب امور کی اصلاح فرماﺋیں گے –
ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ لوگوں کو انکے حال پر چھوڑ دینا چاہے جو چاہیں کریں جب ظلم و فساد بڑھے گا تو امام ظہور کریں گے-
ایک چوتھا گروہ انتظار کی یہ تفسیر کرتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کو گناہ کرنے سے نہ روکیں بلکہ خود بھی گناہ کرو تاکہ امام کا ظہور جلد ہو-
انہی لوگوں میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ زمانہ غیبت میں ہر حکومت کسی بھی شکل میں ہو باطل ہے اسلام و شریعت کے خلاف ہے کیونکہ روایات میں یہ آیا ہے کہ قاﺋم کے ظہور سے پہلے ہر علم اور پرچم باطل ہے-

 

ایسے نظریات کے نتاﺋج:

۱)اپنی یا معاشرہ کی موجود ہ غلط وضیعت پر قانع ہونا اور بہتر وضیعت کےلیے کوشش نہ کرنا –
۲) پسماندگی
۳) اغیار کی غلامی
۴) نا امید اور جلد شکست قبول کرنا
۵) حکومت اور ملک کا کمزور ہونا
۶)ظلم و ستم کا وسیع ہونا اور اس کے مد مقابل سست رد عمل
۷) ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ذات اور بد بختی کو قبول کرنا
۸) سست اور غیر ذمہ دار ہونا
۹) امام کے قیام اور اقدامات کو مشکل بنانا چونکہ جتنا فساد اور تباہی زیادہ ہوگی- امام کااس سے مقابلہ اتنا ہی سخت اور طولانی ہوگا
۱۰) بہت سی آیات اور روایات پر عمل درآمد نہ ہونا بلکہ وہ آیات و روایات جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر ٬اندرونی اور بیرونی سیاست کے حوالے سے راہنما ہیں ٬کفار اور مشرکین کے ساتھ طر ز عمل رویت ٬حدود تعزیرات اور محروم لوگوں کے دفاع کے حوالے ہیں-

 

ایسے منحرف نظریات کے اسباب:

اسے منحرف نظریات کی وجوہات اور اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
۱: کوتاہ فکری اور دین کے حوالے سے کافی بصیرت کا نہ ہونا
۲: اخلاقی انحرافات (دوسرے نظریے کے قاﺋل)
۳: سیاسی انحرافات (چوتھے اور پانچویں نظریے والے)
۴: یہ وہم رکھنا کہ امام زمانہ طاقت کے زور سے یا معجزہ کے ذریعے تمام کاموں کو انجام دیں گے لہذا انکے ظہور کےلیے اسباب فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے-
۵: یہ وہم رکھنا کہ امام زمانہ سے ہٹ کر کوئ شخض بھی مکمل طور پر برا ﺋیوں اور فساد کو ختم نہیں کرسکتا اور معاشرہ کے تمام پہلوں میں خیروصلاح کو نہیں جاری کرسکتا-
۶: اچھے ہدف تک پہنچنے کےلیے ہر قسم کے وسیلہ کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے لہذا جلد ظہور کے زمانہ تک پہنچے کےلےی فساد اور برائ کو عام کیا جاۓ-
۷: وہ روایات جو آخری زمانہ میں طلم و جور کی بات کرتی ہیں انہیں درست نہ سمجھنا بلکہ یہ غلط فکر کرنا کہ جو ہوتا ہے ہوتا رہے ہمارا ان براﺋیوں سے کوئ تعلق نہیں یا یہ کہ دوسروں کو بھی ان براﺋیوں کی طرف دعوت دینا-
۸: ایسے سیاستتدانوں یا وہ سیاست جو اسلامی معاشروں کو زوال کی طرف لے جارہی ہے اسے نظراندازکرنا ان سے بڑھ کر خودبہی ایسی روایات کو غلط انداز سے سمجھنا کہ جو ظہور سے پہلے ہر پرچم کو باطل قرار دے رہی ہیں

 

ایسے منحرف نظریات کا مقابلہ اور علاج

ان نظریات کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے چند مفید نکات جاننا ضروری ہے :
۱: ان غلط نظریات اور غلط سمجھنے کا مد مقابل دین میں علم و بصیرت پیدا کرنا –
۲: ہوا و ہوس کے مد مقابل تقوی
۳: سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں علم و بصیرت سے کام لنا تاکہ دشمن اور دوست کی پہچان ہو اور سیاست دانوں کی فعالیت واضح ہو-
۴: دینی و سیاسی اور معاشرتی مساﺋل کے بیان میں علماء اور دانشوروں کا واضح اور روشن کردار –
۵: ایسے سچے اور مخلص علماء کی پیروی کہ جو امام کے ناﺋب عام شمار ہوتے ہوں
۶: پسماندہ اور جمود میں ڈالنے والے نظریات کو پس پشت ڈالنا –

 

تفصیلی جواب :

۱: امام زمانہ(عج) کا قیام اور دیگر امور معمول کے مطابق انجام پاﺋیں گے ایسا نہیں ہے کہ یہ سب معجزہ کے ساتھ انجام پاۓ گا-جیسا کہ امام صادق ۜ فرماتے ہیں:
٫٫ لو قد خرج قاﺋمنا ۜ لم یکن الا العلق و العرق و النوم علی السروج ٬٬(غیبت نعمانی باب ۱۵ ص۲۸۵)
جب ہمارے قاﺋم قیام فرماﺋیں گے تو سب فقط زینوں (سواریوں )پر خون و پسینہ گراﺋیں گے اور چھوڑ دیں گے
یعنی ایسا نہیں کہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہیں گے اور امام معجزہ کے ساتھ جنگ کریں گے نہ بلکہ سب اس جنگ میں شریک ہونگے اپنا آرام و خون اس پر قربان کریں گے-


۲: امام زمانہ(عج) کے قیام سے پہلے لوگ اس قیام کے اسباب فراہم کریں گے اور تیاری کریں گے جیسا کہ روایات ایک گروہ کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ وہ امام مہدی کی حکومت کےلیے تیاری کریں گے -٫٫ فیوطﺋون للمہدی یعنی سلطانہ...(کشف الغمہ.ج2.باب5.ص477)دیگر روایات بہی حقیقی منتظرین کی توصیف کرتی ہیں مثلا
ان اهل زمان غیبته والقاﺋلین بامامته و المنتظرین لظهوره افضل من اهل کل زمان ۔ ۔ ۔ ۔ اولﺋک المخلصون حقا و شیعتنا صدقا و الدعاة الی دین الله سرا و جهرا (الاحتجاج ج۲ ص۳۱۷ )
غیبت کے زمانہ والے امام کی امامت کے قاﺋل اور انکے ظہور کے منتظر ہر زمانے والوں سے افضل ہیں ۔ ۔ ۔ وہ حقیقی طور پر مخلص ٬سچے شیعہ اور اللہ کے دین کی طرف علانیہ اور خفیہ دعوت دینے والے ہیں –


۳: اگر انسان کسی امر میں مکمل طور پر اصلاح نہیں کرسکتا اپنی طاقت کے مطابق کرنا اس پر فرض ہے یہ اس سے ساقط نہیں ہوگا-


۴: یہ نظریہ کہ جلد ظہور ہونے کیلئے گناہ کریں مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ جس طرح کہ امام مھدی (عج) کی حکومت ظلم و جور کو ختم کرنے والی اور عدل و انصاف کو قائم کرنے والی ہے اس حکومت تک پہنچنے کا راستہ بہی اسی طرح ہے کہ اس راستے میں نہ کسی پر ظلم ہے نہ شقاوت ہے نہ ریاکاری اور جھوٹ ہے کبہی بہی مقدس ھدف کی بنا پر گناہ جائز نہیں ہوتا کیونکہ گناہ سے گناہ پیدا ہوتا ہے اور ظلم سے کبہی عدل جنم نہیں لیتا۔


5۔ واضح سی بات ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ ظالم یا فاسد ہو جائیں تو پہر زمین کا ظلم سے بہر جانا ہوگا۔ نہ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں ظالم ہونگے اور مظلوم بہی ہونگے اور امام زمانہ(عج) کے عاشق بھی ہونگے جو مسلسل فعالیت اور کوشش سے آپکے ظہور کیلئے راہ ہموار کریں گے۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے !۔۔۔۔۔۔۔لا واللہ لایا متکم حتی یشقی من مشقی و یعد من بعد(کمال الدین ج ۲ ص ۳۴۶) یہ ظہور اسوقت تک بپا نہیں ہوگا جب تک ظالم اور نیک اپنے کام کاانجام نہ دیکہ لیں۔
پس معلوم ہوا کہ اس روز میں سب ظالم اور فاسد نہیں ہونگے بلکہ ظالموں کے ساتہ نیک بہی ہونگے البتہ ظالم اپنے ظلم کریں گے کہ معلوم ہوگا دنیا ظلم سے پرہوگئ ہے اور دنیا میں اب نیک لوگوں کے لئے جگہ نہیں رہی۔ دوسری بات یہ ہے کہ آیات اور روایات میں ہمیں ظلم و ستم سے جنگ کرنے کی دعوت دی گئ ہے جیسا کہ آنحضرت ۜ فرماتے ہیں:
یکون فی آخر الزمان قوم یعملون المعاصی و یقولون ان الله قد قدرها علیهم٬ الراد علیهم کشا هر سیفه فی سبیل الله(الطرائف ج ۲ ص۳۴۴)
آخری زمانہ میں ایک گروہ معصیت کرے گا اور کہیں گے کہ اللہ نے یہ انکی قسمت میں لکہا تہا(یعنی جبر کے قائل ہونگے) تو جو انکی باتوں کو رد کرے گا اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے اللہ کی راہ میں تلوار چلائی ہو۔
۶۔ یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ ظہور سے قبل ہر علم اور پرچم باطل ہے اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ معاشرہ کی اصلاح کیلئے ہر تحریک اور قیام با طل ہے نہ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ قیام اور تحریک امام زمانہ کے نام سے شروع ہو(کوئ جھوٹا دعوی نہ کرے)وہ باطل ہے ۔اسی لیے آئمہ نے حضرت زید کے قیام اور انکی مانند اسی طرح کی دیگر کوششوں کی تائید کی مثلا امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
رجل من اهل قم یدعو الناس الی الحق یجتمع معه قوم کزبر الحدید لا تزلهم الریاح العواصف و لا یملون من الحرب و لا یحبنون علی الله یتوکلون و العاقبة للمتقین (سفنیۃ البحار ۷ ص۷)
اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف دعوت دے گا اس کے حامی محکم اور فولادی جذبوں والے ہونگے کہ جو جنگ سے نہیں تھکیں گے اور نہ دشمن سے خوف کھاﺋیں گے فقط اللہ پر توکل کریں گے اور اچھی عاقبت ان کےلیے ہے کہ جو اھل تقوی ہوں
امام باقر علیہ السلام ظہور سے پہلے ظالموں سے جنگ کرتے ہوۓ قتل ہونے والوں کو شہدا کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ قتلا هم شهدا(غیبت نعمانی باب ۱۴ ص۲۷۳)
امام خمینی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں :پوری دنیا کو عدالت سے بھرنا یہ ہم نہیں کرسکتے اگر سکتے تو ضرور کرتے لیکن چونکہ ایسا نہیں کرسکتے تو ضروری ہے کہ امام مہدی (عج)تشریف لائیں اسی طرح دنیا ظلم سے پر ہےاگر طاقت ہوتی تو ہم ضرور روکتے چونکہ ظلم روکنا ہمارا شرعی وظیفہ ہے لیکن یہ پوری دنیا کا ظلم چونکہ ہم نہیں روک سکتے تو ضروری ہے آپ ۜ تشریف لاﺋیں لیکن ہم کو چاہیے کہ امام کی نصرت کے لیے کام کریں ان کے کام کے اسباب فراہم کریں اس طرح تیاری کریں کہ ان کے آنے تک تمام اسباب مہیا ہوں-
یہ جو کہتے ہیں کہ ہر حکومت اور پرچم انتطار فرج کے خلاف ہے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں،یہ جو لوگوں کے ذہنوں میں یہ ڈال خود نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں حکومت صالح نہ ہو یعنی لوگ ایک دوسرے پر تجاوز کریں-ایک دوسرے کو قتل کریں ماریں یہ سب قرآنی آیات کے خلاف بات ہے فرض کرو ایسی اگر ۲۰۰ روایات بھی ہو پس سب کو دیوار پر دے مارتے چونکہ یہ روایات قرآنی آیات کےخلاف ہیں جو روایات یہ کہتے ہیں کہ نہی عن المنکر کرو وہ قابل عمل نہیں ہے بلکہ آپ لوگ انکے تشریف لانے کے اسباب مہیا کریں اکٹھے ہوں مل جل کر کام کریں کہ انشاء اللہ حضرت ظہور فرماﺋیں ٬
اب جبکہ ہم زمانہ غیبت میں ہیں ضروری ہے اسلام کے حکومتی احکام باقی رہیں اور جاری ہوں تاکہ لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا نہ ہو ضروری ہے اسلامی حکومت تشکیل پاۓ عقل بھی یہی کہتی ہے تاکہ اگر دشمنان اسلام ہم پر حملہ کریں ہم ان کو روک سکیں اگر مسلمانوں کی ناموس پر حملہ ہوگا تو ہم دفاع کرسکیں-
غیبت صغری سے لیکر اب تک ہزار سال اور چند صدیاں گذر گﺋیں اور ممکن ہے لاکھوں سال اور گذر جاﺋیں کبھی مصلحت پیدا نہ ہو کہ آپۜ ظہور کریں تو کیا اس مدت میں اسلامی احکام اسی طرح پڑے رہیں گے ٬جاری نہ ہو ٬جو بھی کچھ کرے کرتا رہے ظلم و فساد ہوتا رہے؟
ایسی باتوں پر عقیدہ رکھنا تو اسلام کے منسوخ ہونے کے عقیدہ سے بھی بد تر ہے
اب جبکہ غیبت کا زمانے میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئ خاص شخص اسلامی حکومت کی تشکیل کےلیے معین نہیں ہے تو ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے ؟ آیا اسلام کو چھوڑ دیں آیا اسلام صرف دو سو سال تک تھا اب ہمارے لیے کوئ تکلیف نہیں یا یہ کہ حکومت بنانے کی کوئ ذمہ داری نہیں ہے اسلامی حکومت نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئ حدود نہیں (نہ کوئ قانون نہ کوئ اجراء)ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں-وہ جو کریں کرلیں ہم خاموش رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ (صحیفہ امام ج۲۱ ص۱۶ ٬۱۷٬۱۸)

 

نتیجہ گفتگو:

آیات و روایات سے ٫٫امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ٬٬ حدود کا اجرا کرنا ٬ دیتوں کا دیا جانا ٬دفاع ٬ھاد ٬محروم لوگوں کی مدد٬ظلم کا مقابلہ ٬وغیرہ موضوعات پر حکم ملنا بتاتا ہے کہ ہم مثبت انتظار کریں نہ منفی نظریے والا انتظار –
دوسری طرف باطنی پیغمبر یعنی عقل نے بھی ہماری ذمہ داریاں واضح کیں ہیں کہ :


۱)آیا یہ ممکن ہے کہ زمانہ غیبت میں زمانہ ظہور تک تمام احکام اور فرامین خدا ایک طرف پر رکھ دیے جاﺋیں انکو کوئ اجراء کرنے والا نہ ہو؟ ضروری ہے کہ انکا محافظ اور انکا اجراء کرنے والا ہو تاکہ دین خدا جاری رہے یہ دین قیامت تک ہر لحظہ لحظہ کےلیے ایسے لوگ ہوں جو اس کےنگہبان ہوں اس کے احکام اجرا کریں عمل کریں-
اس طرح لوگوں کو زمانہ ظہور کے لیے تیار کریں جیسا کہ روایات میں ہے ٫٫فیوطﺋون للمهدی یعنی سلطانه٬٬ (کشف الغمۃج۲ ،ص۴۷۷)


۲) امام زمانہ عج کا پروگرام بہت بلند لیکن مشکل ہے کیونکہ آپ نے پوری دنیا کی اصلاح کرنی ہے ۰دوسری طرف سے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ نے اپنے اصحاب اور ماننے والوں کے ساتھ کفر اور مادیت پرستوں کے خلاف جنگ و جہاد کرتی ہے اپنی جنگی قوتوں کی مدد دشمنوں اور ظالموں کی فو ج شکست دینی ہے ان مندرجہ بالا دو چیزوں کو دیکھتے ہوۓ اب مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے ؟


اول: اپنی اصلاح میں مشغول ہوں اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوں اپنے شخضی احکام اور ذمہ داریوں پر عمل کریں کہ جو قران و سنت کی طرف سے ان پر لاگو ہوتے ہیں-


دوم :اسلام کے اجتماعی حیثیت کے احکام کو ڈھونڈیں اور اسے مکمل طور پر اجراء کریں تاکہ اسلامی احکام کے عملی نتاﺋج دنیا والوں کے سامنے روشن ہوں۰
گویا اصلاح کرنے والے منتظرین پہلے خود اپنی اصلاح کریں، امام زمانہ(عج) کا عظیم ہدف ایک وسیع پیمانے کا انتظار چاہتا ہے کہ جس میں مسلمان خود کو تیار کریں کہ کیسے انہوں نے اسلام کی قدرت کو دنیا میں محقق کرنا ہے اور اسباب ظہور کو فراہم کرنا ہے –

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک