امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسیران کربلا،

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

نوزدهم محرم؛ سالروز حرکت اسرای کربلا از کوفه بطرف شام(61 ه.ق) -  show-content - دانشکده مدیریت و حسابداری رزن

اسیران کربلا

اسیران کربلا، واقعۂ کربلا میں عمر بن سعد کے ہاتھوں اسیر ہونے والے اسراء کو کہا جاتا ہے جن میں شیعوں کے چوتھے امام، امام سجادؑ، حضرت علیؑ کی بیٹی حضرت زینب اور اہل بیتؑ کے دوسرے مستورات اور بچے شامل ہیں۔ عمر سعد کے حکم پر 11 محرم کی رات اسیران کربلا کو کربلا میں ہی رکھا گیا اور گیارہ محرم کو ظہر کے بعد کوفہ میں ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا۔ عبید اللہ بن زیاد نے قافلہ اسراء کو ایک گروہ جس میں شمر و طارق بن محفز شامل تھے، کے ساتھ یزید کے پاس شام بھیجا۔

ابن زیاد نے اسیروں کو محملوں پر اور امام سجادؑ کو طوق و زنجیر میں جکڑ کر شام روانہ کیا۔ ایک نقل کے مطابق مختلف مقامات پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے سامنے حضرت زینب اور امام سجادؑ کے دیئے جانے والے خطبے یزید اور بعض دوسرے لوگوں کی پشیمانی کا باعث بنے۔

کچھ مورخین کے مطابق کاروان اہل بیتؑ اربعین یعنی شہادت امام حسینؑ کے چالیسویں دن کربلا لوٹ آئے جبکہ شیخ مفید اور شیخ طوسی کے مطابق اہل بیتؑ آزادی کے بعد کربلا نہیں بلکہ مدینہ چلے گئے تھے۔

آغاز اسیری

واقعہ عاشورا کے بعد 11 محرم کو عمر سعد اپنے مقتولین کو دفنا کر اسرائے آل محمد کے ساتھ کوفہ روانہ ہوا۔[1]

 

عمر سعد کی فوج نے اسرائے آل محمد کو شہدا کے اجساد کے پاس سے گزارا۔ اس موقع پر اہل بیت کی مستورات گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے چہروں کو پیٹ رہی تھیں۔ چنانچہ قرة بن قیس سے منقول ہے کہ حضرت زینب جب اپنے بھائی کے نعش پر پہنچی تو انہوں نے شدت غم سے اس قدر گریہ کیا کہ دوست و دشمن سب ان کے ساتھ رونے لگے۔[2]

 

مروی ہے کہ حضرت زینب نے امام حسینؑ کے جسد اطہر کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ جملات کہے:

 

یا محمداہ، یا محمداہ! صلی علیک ملائکة السماء، ہذا الحسین بالعراء، مرمل بالدماء، مقطع الأعضاء، یا محمداہ! و بناتک سبایا، و ذریتک مقتلہ، تسفی علیہا الصبا قال: فابکت واللہ کل عدو و صدیق [3]

ترجمہ: «یا محمدا! وا محمدا! آسمان کے فرشتے آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، (لیکن) یہ حسینؑ دشت میں ہے جس کا بدن خون میں غلطاں اور اس کے اعضائے بدن جدا ہیں! اے محمد! آپ کی بیٹیاں اسیر ہیں اور ان کی مقتول ذریت کو ہوا چھو رہی ہے۔ راوی کہتا ہے: خدا کی قسم! یہ نالہ و شیون سن کر دوست و دشمن سب نے گریہ کیا۔

اسرا کی تعداد اور ان کے اسامی

اہل بیتؑ اور باقی بچ جانے والے اصحاب امام حسینؑ کے ناموں اور تعداد کے بارے میں مورخین کے اختلاف پایا جاتا ہے، مختلف مصادر میں مذکور اسما: امام سجادؑ، امام باقرؑ،امام حسین کے دو بیٹے: محمد و عمر، امام حسنؑ کا بیٹا محمد اور نواسہ زید،[4] اسی طرح حضرت علی کی بیٹیوں میں سے حضرت زینب، فاطمہ اور ام کلثوم۔[5] امام حسینؑ کی چار بیٹیاں: سکینہ، فاطمہ، رقیہ اور زینب کا بھی مصادر میں نام آیا ہے۔[6] اسی طرح رباب زوجہ امام حسینؑ[7] اور فاطمہ بنت امام حسن کربلا کے اسیروں میں موجود تھیں۔[8]

 

کوفہ اور شام کی طرف حرکت

دشمنوں نے اسیروں کو بے کجاوہ انٹوں پر سوار کیا۔[9] جب اسراء کوفہ میں داخل ہوئے تو لوگ ان کا تماشا دیکھنے جمع ہو گئے تھے حالانکہ کوفہ کی عورتیں ان پر گریہ کر رہی تھیں۔ خذلم بن ستیر نامی شخص کہتا ہے: اس وقت میں نے علی بن حسینؑ کو دیکھا جس کی گردن میں طوق اور ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے تھے۔[10]

 

قدیمی مصادر میں اسرائے اہل بیتؑ کے کوفہ میں داخل ہونے کے بارے میں کوئی دقیق معلومات ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس حوالے سے شیخ مفید کی بعض عبارات موجود ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائے کربلا محرم کی بارہ تاریخ کو کوفے میں داخل ہوئے۔[11]

 

عمر سعد کے سپاہیوں نے کوفہ کے کوچوں سے گزار کر انہیں قصر عبیداللہ بن زیاد میں لائے۔ حضرت زینب اور عبیداللہ کے درمیان سخت گفتگو ہوئی اور عبیداللہ نے امام سجادؑ کے قتل کا حکم صادر کیا[12] لیکن حضرت زینب کے اعتراض کرنے اور عبید اللہ اور حضرت زینب کے درمیان تند و تیز لہجے میں گفتگو کے بعد عبید اللہ نے قتل سے صرف نظر کیا۔[13]

 

کوفہ سے شام کا راستہ

ابن زیاد نے کربلا کے اسیروں کو شمر اور طارق بن مُحَفِّز سمیت ایک گروہ کی معیت میں شام روانہ کیا۔[14] بعض تاریخی روایات کے مطابق زحر بن قیس بھی ان کے ساتھ تھا۔[15] کوفہ سے شام تک کے راستے کا دقیق علم نہیں ہے؛ بعض قائل ہیں کہ کوفہ سے شام کے راستے کے درمیان میں موجود امام حسین سے منسوب مقامات کے ذریعے قافلے کے راستے کو مشخص کیا جا سکتا ہے؛ ان میں سے مقام راس الحسین اور امام زین العابدین دمشق میں،‌[16] حِمص،[17] حماء،[18] بعلبعک،[19] حَجَر[20] اور طُرح۔[21] نیز ایسے مقامات بھی ہیں جو کافی مشہور ہیں؛ جیسے:

 

عراق کے شہر موصل میں مقام راس الحسین: ہروی کے مطابق یہ مقام ساتویں صدی ہجری تک موجود تھا۔[22]

ترکی کے شہر نصیبین میں مسجد امام زین العابدینؑ اور مقام راس الحسین: اس وقت یہ شہر ترکی میں موجود ہے۔[23] کہا گیا ہے کہ اس جگہ امام حسینؑ کے سر مبارک کے خون کا اثر یہاں موجود رہا۔[24] ہروی نے اس مقام کو مشہد النقطہ کے نام سے ذکر کیا ہے۔[25]

سپاہیوں کا برتاؤ

ابن اعثم اور خوارزمی کے بقول عبیدالله بن زیاد کے سپاہیوں نے اسیران کربلا کو کوفہ سے شام تک پوشش و پردے کے بغیر محملوں پر اس طرح شہر شہر لے کر گئے جس طرح ترک و دیلم کے کافر قیدیوں کو لے جاتے تھے۔[26] شیخ مفید کی منقول روایت کے مطابق امام سجادؑ کو قید میں پابند غل و زنجیر دیکھا گیا۔[27]

 

امام سجاد سے منسوب روایات میں ابن زیاد کا قیدیوں سے برتاؤ یوں منقول ہوا ہے: علی بن حسینؑ کو ایک لاغر و نحیف اونٹ پر اس حال میں سوار کیا گیا کہ امام حسینؑ کا سر نیزے پر، قیدی عورتیں ان کے پیچھے اور نیزے بردار ان کے اطراف میں موجود تھے۔ اگر امام کی آنکھ سے آنسو جاری جاری ہوتا تو وہ ان کے سر پر نیزے مارتے یہاں کہ اسی حالت میں وہ شام میں داخل ہوئے۔[28]

 

قیدیوں کا شام میں داخل ہونا

تاریخی مصادر میں اسرا کے شام میں داخل ہونے، سپاہیوں کے برتاؤ، ان کے رہنے کی جگہ اور ان کے خطبات کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ ان روایات کے مطابق یہ قافلہ شام میں اول صفر کو داخل ہوا۔[29] انہیں اس روز دروازۂ «توما» یا «ساعات» کے راستے شہر میں لایا گیا۔ سہل بن سعد کے مطابق یزید کے دستور پر شہر کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔[30]

 

شہر میں داخل ہونے کے بعد اسیروں کو مسجد جامع کے دروازے کے پاس ایک چبوترے پر بٹھایا گیا۔[31] موجودہ زمانے میں مسجد اموی کا دروازہ اصلی مسجد کے محراب و منبر کے مقابلے میں ہے جہاں پتھر اور لکڑی کے سیڑھیاں موجود ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے قیدیوں کو یہاں بٹھایا گیا۔[32]

 

بعض مصادر میں شام میں داخلے کے موقع پر حضور اہل بیت امام حسینؑ کو دو دن تک [33] اور خرابۂ شام کے نام سے معروف ایسی عمارت میں رکھا گیا جس کی چھت نہیں تھی۔[34] لیکن شیخ مفید قیدیوں کے آنے کی جگہ قصر یزید کے پاس بیان کی ہے۔[35] مشہور قول کے مطابق شام میں قیدیوں کے رہنے کی مدت تین دن [36] لیکن ہفت روز[37] اور یک مہینہ بھی منقول ہوئی ہے۔[38] شام میں قیدیوں کے آنے سے متعلق بعض تاریخی روایات کا ذکر:

 

قصر یزید میں اسیروں کی آمد: شام میں آنے کے بعد زَحر بن قَیس نے واقعہ کربلا کی جنگ کی رپورٹ بیان کی۔[39] یزید نے سارا ماجرا سننے کے بعد حکم دیا کہ محل کو سجایا جائے، بزرگان شام کو بلایا جائے اور اسیروں کو حاضر کیا جائے۔[40] روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسیروں کو رسیوں سے جکڑے ہوئی حالت میں پیش کیا گیا۔[41] اس دوران فاطمہ بنت امام حسینؑ نے کہا: اے یزید! کیا شائستہ ہے کہ بنات رسول اللہ اسیر ہوں؟ اس وقت حاضرین اور یزید کے اہل خانہ سے گریہ کیا۔[42]

یزید کا سر امام حسین کے ساتھ ناروا سلوک: یزید قیدیوں کی موجودگی میں سونے کے تھال میں رکھے ہوئے سر امام حسینؑ[43] کو لکڑی کی چوب سے ما رہا تھا[44] جب سکینہ اور فاطمہ یہ منظر دیکھا تو انہوں نے اس طرح فریاد کی کہ یزید اور معاویہ بن ابوسفیان کی بیٹیوں نے گریہ کرنا شروع کیا۔[45] شیخ صدوق سے امام رضاؑ کی مروی روایت کے مطابق یزید نے سر امام حسین کو طشت میں رکھا اور اسے کھانے کی میز پر رکھ دیا۔ پھر اپنے اصحاب کے ساتھ کھانے میں مشغول ہو گیااس کے بعد اسے شطرنج کی میز پر رکھ کر شطرنج کھیلنے مشغول ہوا۔ کہتے ہیں جب وہ بازی جیت جاتا تو ایک جام فقاع (جَو کی شرآب) کا پیتا اور اس کا آخری بچا ہوا پانی طشت کے پاس زمین پر گرا دیتا۔[46]

حاضرین کا اعتراض: یزید کی اس رفتار پر حاضرین میں سے بعض نے اعتراض کیا، ان میں سے مروان بن حکم کا بھائی یحیی بن حکم تھا جس کے اعتراض کے جواب میں یزید نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا۔[47] اَبوبَرْزہ اَسْلَمی نے بھی اعتراض کیا تو یزید کے حکم پر اسے دربار سے نکال دیا گیا۔[48]

خطبات

قیدیوں کے کوفہ میں آنے کے بعد امام سجاد نے خطبہ دیا[49] اور حضرت زینب نے خطبہ دیا تاریخی مآخذ کے مطابق اس خطبے میں امام حسین کی مدد نہ کرنے پر کوفیوں کی سرزنش کی۔[50] لیکن تاریخ کے معاصرین محققین میں سے سید جعفر شهیدی کوفی حکومت کی سختیوں، کوفیوں کے خوف اور ترس کی وجہ سے کوفہ میں ایسے خطبے کے دئے جانے کو مشکل سمجھتے ہیں۔[51] نیز فاطمہ صغری بنت امام حسین[52] اور ام کلثوم کی طرف خطبوں کی نسبت دی گئی ہے۔[53]

 

امام سجادؑ اور حضرت زینب (س)، نے شام میں بھی خطبات دیئے۔ حضرت امام حسین ؑ اور ان کے اہل بیت کے ساتھ ناروا سلوک پر یزید کی سرزنش اور انہیں مختلف شہروں میں دربدر پھرانے پر احتجاج،[54] اور فضائل اهل بیت پیامبرؑ و علیؑ ان خطبات کے مضامین تھے۔[55] یہ خطبات شام میں حضرت امام سجاد اور حضرت زینب کے خطبات کے نام سے معروف ہیں۔[56]

-- حوالہ جات

  1.  طبری، تاریخ‌ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۵۵-۴۵۶.
  2.  مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۴؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۵۶.
  3.  ابو مخنف، وقعة الطف، ۱۴۱۷ق، ص۲۵۹؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۵۶.
  4.  قاضی نعمان، شرح الاخبار، موسسہ نشرالاسلامی، ج۳، ص۱۹۸-۱۹۹؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۳۸۵ق، ص۷۹؛ ابن سعد، ترجمة الحسین و مقتلہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۸۷.
  5.  بیضون، موسوعة کربلاء، بیروت، ج۱، ص۵۲۸.
  6.  ابن شداد، الاعلاق الخطیرہ، ۲۰۰۶م، ص۴۸-۵۰.
  7.  ری‌ شہری، دانشنامہ امام حسینؑ، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۲۸۳.
  8.  ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۷۰، ص۲۶۱.
  9.  ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۵ص ۲۳۶
  10.  شیخ مفید، امالی، ص۳۲۱
  11.  شیخ مفید، ارشاد، ج۲ص۱۱۴
  12.  مفید، ارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۵-۱۱۶؛ طبری، تاریخ، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص.۴۵۷.
  13.  ابن اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۳، خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۴۳.
  14.  بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۱۶.
  15.  دینوری، اخبار الطوال، ۱۴۲۱ق، ص۳۸۴-۳۸۵.
  16.  ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۳۰۴؛ نعیمی، الدارس فی تاریخ مدارس، ۱۳۶۷ق، فہرست جای‌ہا.
  17.  ابن ‌شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۸۲.
  18.  ابن شہر‌ آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۸۲.
  19.  مہاجر، کارون غم، ۱۳۹۰ش، ص۳۶-۳۸.
  20.  ابن شداد، الاعلاق الخطیرہ، ۲۰۰۶م، ص۱۷۸.
  21.  مہاجر، کاروان غم، ۱۳۹۰ش، ص۳۰.
  22.  مہاجر، کاروان غم،۱۳۹۰ش، ص۲۹.
  23.  مہاجر، کاروان غم، ۱۳۹۰ش، ص۳۰.
  24.  ہروی، الإشارات الی معرفة الزیارات، ۱۹۵۳م، ص۶۶.
  25.  ہروی، الإشارات الی معرفة الزیارات، ۱۹۵۳م، ص۶۶.
  26.  ابن اعثم، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۷؛ خوارزمی، مقتل الحسین، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۵۵-۵۶.
  27.  شیخ مفید، امالی، ۱۴۰۳ق، ص۳۲۱.
  28.  سید بن طاووس، الاقبال، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۸۹.
  29.  ابو ریحان بیرونی، آثار الباقیة، ۱۳۸۶ش، ص۵۲۷.
  30.  شیخ صدوق، امالی، ۱۴۱۷ق، مجلس ۳۱، ص۲۳۰.
  31.  ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۲۹-۱۳۰
  32.  محل حضور اسرای کربلا در مسجد اموی
  33.  صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۳۳۹.
  34.  شیخ صدوق، امالی، ۱۴۱۷ق، مجلس ۳۱، ص۲۳۱، ح۴.
  35.  شیخ مفید، ارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۲.
  36.  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵ ص۴۶۲؛ خوارزمی، مقتل، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۷۴.
  37.  طبری، کامل بہایی، ۱۳۳۴ق، ج۲، ص۳۰۲.
  38.  ابن طاووس، الاقبال، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۱۰۱.
  39.  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۶۰.
  40.  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۶۱.
  41.  ابن طاووس، الملہوف، ۱۴۱۷ق، ص۲۱۳.
  42.  ابن نما، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۹۹
  43.  خوارزمی، مقتل، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۶۴.
  44.  یعقوبی، تاریخ، دار صادر، ج۲، ص۶۴
  45.  ابن اثیر، الکامل، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۷۷.
  46.  صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۵، ح۵۰.
  47.  طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۴۶۵.
  48.  بلاذری، انساب الاشراف،۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۱۶.
  49.  ابن ‌نما، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۸۹-۹۰.
  50.  ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۷۸ش، ص۲۶.
  51.  شهیدی، زندگانی علی ابن الحسینؑ، ۱۳۸۵ش، ص۵۷.
  52.  طبرسی، احتجاج، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۱۴۰-۱۰۸.
  53.  ابن طاووس، الملهوف، ۱۴۱۷ق، ص۱۹۸.
  54.  ابن طاووس، الملهوف، ۱۴۱۷ق، ص۲۱۳-۲۱۸.
  55.  ربانی گلپایگانی، «افشاگری امام سجاد در قیام کربلا (۲)»، ص۱۱۹.
  56.  ابن ‌نما، مثیر الاحزان، ۱۴۰۶ق، ص۸۹-۹۰؛ ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۷۸ش، ص۲۶.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک