امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کے واقعات
امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کے واقعات
آپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے؛ قیس بن اشعث اور بحر بن کعب نے آپ کی قمیص [1]، اسود بن خالد اودی نے آپ کے نعلین، جمیع بن خلق اودی نے آپ کی تلوار شمشیر، اخنس بن مرثد نے آپ کا عمامہ، بجدل بن سلیم نے آپ کی انگوٹھی اور عمر بن سعد نے آپ کا زرہ۔[2]
خیموں کی غارت گری
اس کے بعد دشمن نے خیموں پر حملہ کیا اور ان میں موجود تمام سامان لوٹ لیا اور اس کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔[3] شمر امام سجادؑ کو قتل کرنے کی خاطر دشمن کے ایک گروہ کے ساتھ خیموں میں داخل ہوئے لیکن حضرت زینب(س) اس کام میں رکاوٹ بنیں۔ بعض مورخین کے مطابق دشمن کے بعض سپاہیوں نے شمر کے اس کام پر اعتراض کیا اور اسے اس کام سے باز رکھا۔[4] ابن سعد نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر بعض سپاہیوں کی پہرے لگا دیا گیا۔[5]
لاشوں پر گھوڑے دوڑایا جانا
ابن زیاد کے حکم پر عمر سعد نے اپنی فوج کے دس سپاہیوں کے ذریعے امام حسینؑ اور ان کے با وفا اصحاب کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جس سے شہداء کے جنازے پایمال ہو گئے۔[6]
اسحاق بن حویہ[7]، اخنس بن مرثد[8] حکیم بن طفیل، عمرو بن صبیح، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خیثمہ جعفی، واحظ بن ناعم، صالح بن وہب جعفی، ہانی بن ثبیت حضرمی اور اسید بن مالک [9] ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے شہداء کے بدن پر گھوڑے دوڑائے۔
شہداء کے سروں کی کوفہ اور شام بھیجوانا
عمر بن سعد نے اسی دن امام حسینؑ کے سر مبارک کو خولی اور حمید ابن مسلم کے ساتھ کوفہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح اس نے اپنی سپاہیوں کو دیگر شہداء کے سروں کو بھی ان کے جسم سے جدا کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو جن کی تعداد 72 تھیں، شمر بن ذی الجوشن، قیس بن اشعث، عمرو بن حجاج اور عزره بن قیس کے ساتھ کوفہ روانہ کیا۔[10]
اہل حرم کی اسیری
واقعہ عاشورا کے دن امام زین العابدینؑ سخت بیمار تھے۔ اسی وجہ سے آپ جنگ میں شرکت نہ کر سکے یوں مردوں میں سے صرف آپ زندہ بچ گئے اور حضرت زینب(س) سمیت اہل حرم کے دوسرے افراد کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔ عمر بن سعد اور اسکے سپاہی اسرا کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس لے گئے پھر وہاں سے انہیں یزید بن معاویہ کے پاس شام میں لے جایا گیا۔
شہدائے عاشورا کی تدفین
مؤرخین کے مطابق عمر بن سعد کے کربلا سے چلے جانے کے بعد شہداء کو 11 محرم الحرام کے دن دفن کیا گیا؛[11]
جبکہ بعض مورخین کے مطابق 13 محرم[12] شہداء کی تدفین کا دن ہے۔ سنی مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو 11 محرم سنہ 61 ہجری کے دن سپرد خاک کیا گیا ہے۔[13]
---
1-ابناثیر، الکامل، ج۴، ص۷۸؛ طبری، ج۵، ص۵۴۳.
2- سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۳۰.
3-قمی، نفس المهموم، ص۴۷۹
4-قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰.
5-قمی، نفس المهموم، ص۴۸۲؛ نک: طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴-۴۵۳
6-الإرشاد، المفید ،ج۲،ص۱۱۳، بلاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ مسعودی، مروجالذهب، ج۳، ص۲۵۹
7-لاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵.
8-طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ ابن طاوس، لہوف، ص۱۳۵.
9-ابن طاوس، لهوف، ص۱۳۵.
10-بلاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۴۱۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۶؛ مسعودی، مروجالذہب، ج۳، ص۲۵۹.
11-محمد بن جریرالطبری، التاریخ، ج5، ص455؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص63 ۔
12-المقرم، مقتل الحسینؑ، ص319۔
13-سید بن طاوس؛ اللہوف علی قتلی الطفوف، ص107۔