امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شخصیت و سیرت زینب کبری سلام اللہ علیھا

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مجلس بعنوان: شخصیت و سیرت زینب کبری سلام اللہ علیھا
وہ کس قدر مبارک و مسعود گھڑی تھی، جب پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ رہی تھی ۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر میں تھے، علی ابن ابی طالب (ع) نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے سب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ دیکھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی نواسی کے لیے کیا نام منتخب کرتے ہیں۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر سلام کر کے رخصت ہوئے اور جب بھی کہیں سے واپس آتے تو سب سے پہلے در سیدہ پر آ کر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے۔ آج سب، جیسے ہی سفر سے پلٹے سب سے پہلے فاطمہ سلام اللہ کے گھر میں داخل ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا۔
روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامّل کے بعد فرمایا: خدا نے اس بچی کا نام ” زینب ” منتخب کیا ہے۔
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی (ع) و فاطمہ (س) کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک ‏غیر معمولی کردار بن گیا ہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمۂ ‏غیر معلمہ اور فہیمۂ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں۔
جب بھی ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف حصول پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں مہکتی اور مسکراتی تین چار سال کی ایک معصوم بچی ہو چاہے وہ کوفہ میں خلیفۂ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی ” عقیلۂ قریش ” ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی حسین غریب (ع) کی شریک و پشت پناہ فاتح کوفہ و شام ہو ہرجگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہیں۔
روایت کے مطابق ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ علی ابن ابی طالب (ع) ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لیے کھانے کی فرمائش کی، معصومۂ عالم نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب کے لیے رکھی ہے، یہ سن کر علی و فاطمہ ؑ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اور مسکراتے ہوئے کہا :
مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھا لوں گی اور ماں نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں: تم واقعا زینب ہو ، سچ ہے کہ حادثے کسی سے کہہ کر نہیں آیا کرتے مگر بعض افراد حادثوں سے متاثر ہو کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گھرانہ، حادثوں کے ہجوم میں بھی اپنے فرائض اور اپنے نورانی وجود کو حالات کی نذر ہونے نہیں دیتا۔ جناب زینب (س) کو بھی بچپن میں ہی نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سایۂ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی درد و مصا‏ئب میں مبتلا مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا، لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لیے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کر دیا تھا۔
اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا ” اور ” عقیلۂ بنی ہاشم ” جیسے خطاب عطا کرنے پر مجبور ہو گئی۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت کے پھول اس طرح سے اپنے دامن میں سمیٹ لیے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لیے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھا تھا، جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی ۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لیے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا، جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں۔
حضرت علی (ع) نے اپنی بیٹی جناب زینب کبری (س) کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے جناب عبد اللہ ابن جعفر سے کی تھی، جن کی کفالت و تربیت، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب (ع) نے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی اس کے باوجود روایت میں ہے کہ حضرت علی (ع) نے عبد اللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے، اگر وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہوں گی۔ چنانچہ جناب عبد اللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی (ع) کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی پشت پناہی کے عمل میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی حمایت اور نصرت و مدد کی ۔حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد جناب زینب کو اپنے شوہر کے گھر میں بھی آرام و آسایش کی زندگی میسر تھی، جناب عبد اللہ اقتصادی اعتبار سے موفق تھے انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے لیے مہیا کر رکھی تھیں۔ وہ جانتے تھے جناب زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے بھائیوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت ہے اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔ خاص طور پر جناب زینب امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں میں پرورش پا رہی تھی۔
چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن معصومۂ عالم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ بابا ! مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین ؑ کو ایک لمحے کے لیے نہیں دیکھتی تو بے چین ہو جاتی ہے، اس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا : بیٹی ! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہو گی ” اسی لیے جناب زینب عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کر دی اور جب امام حسین نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی حفاظت اور ملت اسلامیہ کی اصلاح کے لیے کربلا کا سفر اختیار کیا تو جناب زینب بھی بھائی کے ساتھ ہو گئیں۔
جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرے میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر یہ دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھا ہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کر رہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہو گئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لیے امام حسین علیہ السلام سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کا پورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا۔
جناب زینب (س) نے واقعۂ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سر بلندی کے لیے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سر فروشی کے سب سے بڑے معرکے کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لیےجاوداں بنا دیا۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ خداوند کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادے نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے۔ جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کیے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا ہے جن لوگوں نے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کر کے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی، سر دربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کر کے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کیے ہیں۔ اور اس کے بوجود کہ ظاہری طور پر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے، لیکن جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کر دیا۔
آپ فرماتی ہیں کہ:
خداوند متعال کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے، اس کو پیش نظر رکھ کر گناہ کرنے سے شرم کرو۔
علم و معرفت حضرت زینب (س):
زہد و عبادت:
عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں عظمت والی تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پر سخت ترین حالات میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی۔ جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہو گیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آ گئی۔
زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کی رضا کی خاطر دنیا کی لذتوں کو ترک کرے۔
بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہوا و ہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے۔ زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے، اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے:
وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ۔
جو بھی دنیا میں زھد اختیار کرے تو خداوند متعال اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا، اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا، اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا، اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔
(من ‏لايحضره ‏الفقيه ، ج 4، ص410)
زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندگی ،زہد و تقوی اور اطاعت خداوند کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصدا ق اتّم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور و غل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہو جاؤ، تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رک کر رہ گئیں اور بات کرنے کی جرات نہ کر سکے۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی راتوں کو عبادت کیا کرتی تھیں اور کوئی بھی مصیبت انہیں عبادت سے نہیں روک سکی۔ امام سجاد (علیہ السلام) نے فرمایا: «ان عمتی زینب کانت تؤدی صلواتها، من قیام الفرائض والنوافل عند مسیرنا من الکوفة الی الشام وفی بعض منازل کانت تصلی من جلوس لشدة الجوع والضعف.
میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا تمام واجب اور مستحب نمازوں کو کوفہ سے شام تک کے راستے میں ادا کیا کرتی تھیں اور راستے میں بعض لوگوں کے گھروں میں بھوک اور کمزوری کی شدت کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا کرتی تھیں۔) ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 )
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی زندگی کی حساس ترین رات جو کہ اپنے بھائی سے وداع کی رات تھی اس میں بھی نماز تہجد اور شب بیداری کو ترک نہیں کیا۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:” واما عمتی زینب فانها لم تزل قائمة فی تلک اللیلة ای عاشرة من المحرم فی محرابها تستغیث الی ربها وماهدات لناعین ولا سکنت لنا زمرة. "میری پھوپھی زینب شب عاشورا پوری رات بیدار اور خدا کی عبادت اور راز و نیاز میں میں مشغول رہی جبکہ اس رات، ہم میں سے کوئی نہیں سویا اور ہماری آہیں بند نہیں ہوئیں۔”( ریاحین الشریعه ,ج 3، ص 62 ) امام حسین (ع) معصوم ہیں اور واسطۂ فیض الہی ہیں۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بہن جو کہ عابدہ زاہدہ ہیں الوداع کرتے ہوئے فرمایا: یا اختاه لا تنسینی فی نافلة اللیل. بہن جان! ” نماز شب میں مجھے مت بھولنا!”( ریاحین الشریعه (پیشین)، ج 3، ص 62 ) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا بندگی اور عبادت کے اس اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔
معاشرے کی اصلاح کیلئے امام حسین (ع) نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :
حدیث عشق دو باب است کربلا تا شام
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب
پہلا مرحلہ: خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا۔
دوسرا مرحلہ: پیغام رسانی، بیدار گری، یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ،
پہلے مرحلے کے لیے جان نثار اور با وفا اصحاب کو انتخاب کیا۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا، تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔
اب رہا دوسرا مرحلہ، کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کیا گیا، جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی و قیادت میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر نہیں رکھی۔
زینب کبری (س) کو اس عظیم و دشوار ذمہ داری کے لیے تیار کرنا:
اگرچہ زینب کبری (س) روحی اعتبار سے تحمل اور برداشت کی قدرت رکھتی تھیں، لیکن پھر بھی یہ حادثہ اتنا درد ناک اور ذمہ داری اتنی سنگین تھی کہ آپ جیسی شیر دل خاتون کو بھی پہلے سے تیار ہونا پڑا۔ اسی لیے بچپن ہی سے ایسے عظیم سانحے کے لیے معصوم کی آغوش میں رہ کر اپنے آپ کو تیار کر رہی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے ایام نزدیک تھے، آپ اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں گئیں اور عرض کیا:
اے رسول خدا (ص) کل رات میں نے خواب دیکھا کہ تند ہوا چلی جس کی وجہ سے پوری دنیا تاریک ہو جاتی ہے۔ یہ تند و تیز ہوا مجھے ایک طرف سے دوسری طرف پہنچا دیتی ہے، اچانک میری نظریں ایک تناور درخت پر پڑتی ہے، تو میں اس درخت کے تلے پناہ لیتی ہوں، لیکن ہوا اس قدر تیز چلتی ہے کہ وہ درخت بھی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے، اور زمین پر گرتا ہے تو میں ایک مضبوط شاخ سے لپٹ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں، لیکن ہوا اس شاخ کو بھی توڑ دیتی ہے، میں دوسری شاخ پکڑ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں، ہوا اسے بھی توڑ دیتی ہے۔ سر انجام دو شاخیں ملی ہوئی ملتی ہے تو میں ان کا سہارا لیتی ہوں، لیکن ہوا ان دو شاخوں کو بھی توڑ دیتی ہے۔ اسوقت میں نیند سے بیدار ہو جاتی ہوں۔!
زینب کبری (س) کی باتوں کو سن کر پیامبر گرامی اسلام (ص) کے آنسو جاری ہو گئے، پھر فرمایا: اے نور نظر! وہ درخت آپ کے جد گرامی ہیں، بہت جلد تند اور تیز ہوا اسے اجل کی طرف لے جائیگی، اور پہلی شاخ آپ کے بابا اور دوسری شاخ آپ کی ماں زہرا (س) اور دو شاخیں جو ساتھ ملی ہوئی تھیں وہ آپ کے بھائی حسن اور حسین (ع) تھے، جن کے غم و سوگ میں دنیا تاریک ہو جائے گی اور آپ کالا لباس زیب تن کریں گی۔
(ریاحین الشریعہ ،ج 3، ص 15)
چھ سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ جد گرامی (ص) کی رحلت کے سوگ برداشت کرنا پڑا، پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد مادر گرامی (س) کی مصیبت ، پھر اپنے والد گرامی کی شہادت کا غم اور اس کے بعد امام حسن مجتبی اور امام حسین مظلوم کربلا (ع) کی مصیبت برداشت کرنی پڑی۔
جب مدینے سے مکہ، مکہ سے عراق، عراق سے شام کی مسافرت کی تفصیلات بیان کی گئیں تو بغیر کسی چون و چرا کے اپنے بھائی کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں، اور اپنے بھائی کے ساتھ اس سفر پر نکلتی ہیں۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ کئی سال پہلے اس سفر کے لیے پیشن گوئی کی گئی ہو۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے عقد نکاح میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ سفر پر جانے کو مشروط قرار دیا تھا۔
اور جب قافلہ حسینی (ع) مدینے سے نکل رہا تھا، عبد اللہ بن جعفر الوداع کرنے آیا ، تو زینب کبری (س) نے کہا : اے عمو زادے عبد اللہ! آپ میرے آقا ہو۔ اگر آپ اجازت نہ دیں، تو میں نہیں جاؤں گی، لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں بھائی سے بچھڑ کر زندہ نہیں رہ سکونگی۔ تو جناب عبد اللہ نے بھی اجازت دے دی اور آپ بھائی کے ساتھ سفر پر روانہ ہو گئیں۔
حضرت زینب (س) کے القاب:
تاریخی کتب میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد تقریباً 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب درج ذیل ہیں:
عالمہ غیر معلمہ،نائبۃ الزھراء،- عقیلہ بنی ہاشم، نائبۃ الحسین،صدیقہ صغری،محدثہ،زاہدہ، فاضلہ،شریکۃ الحسین،راضیہ بالقدر والقضاء،صدیقہ صغری،ثانی زہرا،
آپ ایک عابدہ، زاہدہ، عارفہ، خطیبہ اور عفیفہ خاتون تھیں۔ نبوی نسب اور علوی و فاطمی تربیت نے آپ کی شخصیت کو کمال کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا کہ آپ عقیلہ بنی ہاشم کے نام سے معروف ہو گئیں تھیں۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کے حیا اور عفت کے چند نمونے:
وراثت اور خاندان کی تاثیر انسان کے قول و فعل میں ناقابل تردید ہے۔ آج یہ چیز واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ بعض اچھی اور بری صفات نسل در نسل انسان کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ خاندان جن میں پیغمبروں اور آئمہ معصومین (ع) کا وجود رہا ہے، عام طور پر وہ پاک اور برائیوں سے دور ہیں۔ اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں ان خوبصورت عورتوں کے ساتھ شادی کرنے سے منع کیا ہے، جو ناپاک خاندان کی ہوتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں وراثت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بیان ہوئی ہے، یعنی بہت سی صفات تربیت کے ذریعے انسان اپنے وجود میں پیدا کر سکتا ہے۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی میں یہ دونوں عامل (وارثت اور تربیت) اعلی ترین منزل پر موجود تھے، جیسا کہ آپ کے زیارت نامے میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ:
اَلسَّلامُ عَلی مَنْ رَضَعَتْ بِلُبانِ الاْيمانِ،
سلام ہو اس پر کہ جس نے ایمان کے پستانوں سے دودھ پیا ہے۔
جی ہاں، جناب زینب سلام اللہ علیہا خانہ وحی میں معصوم ماں، باپ سے دنیا میں آئیں اور نبوت کی آغوش میں اور امامت و ولایت کے گہوارے میں نشوونما پائی، اور ایسی ماں کا دودھ پیا جو کائنات میں بے مثل و نظیر ہے۔ تو ایسی بیٹی جس نے ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی ہو جس نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہو اس کی شرافت و کرامت اور عفت و حیا کا کیا مقام ہو گا ؟
یحیی مازنی: ایک بزرگ عالم دین اور راوی حدیث نقل کرتے ہیں کہ: کئی سال میں نے مدینہ میں حضرت علی علیہ السلام کے ہمسائیگی میں ایک ہی محلے میں زندگی گزاری۔ میرا گھر اس گھر کے قریب تھا، جہاں حضرت زینب بن علی علیہما السلام رہتے تھے حتی ایک بار بھی کسی نے حضرت زینب کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی نے ان کی آواز سنی۔ وہ جب اپنے نانا کی زیارت کو جاتی تھیں تو رات کا انتخاب کرتی تھیں، رات کے عالم میں نانا کی قبر پر بھی جایا کرتی تھیں اور اپنے بابا علی اور بھائی حسن و حسین علیہم السلام کے حصار میں گھر سے نکلتی تھیں۔ جب آپ رسول خدا (ص) کی قبر مبارک کے پاس پہنچتی تھیں تو امیر المؤمنین علی علیہ السلام قبر کے اطرف میں جلنے والے چراغوں کو گل کر دیا کرتے تھے۔
ایک دن امام حسن علیہ السلام نے اس کام کی وجہ پوچھ لی تو حضرت نے فرمایا:
اَخْشي اَنْ يَنْظُرَ اَحَدٌ اِلي شَخْصِ اُخْتِكَ زَيْنَبَ،
میں ڈرتا ہوں کہ تیری بہن زینب پر کسی کی نگاہ نہ پڑ جائے۔
(شيخ جعفر نقدی، كتاب زينب كبری، ص22،/رياحين الشريعه، ج3، ص60.)
شیخ جعفر نقدی کے بقول: جناب زینب سلام اللہ علیہا نے پنجتن آل عبا کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے:
فَالخمسة اَصْحابُ الْعَباءِ هُمُ الَّذينَ قامُوا بِتربيتِها وَ تثْقيفِها و تهذيبِها وَ كَفاكَ بِهِمْ مُؤَدِّبينَ وَ مُعَلِّمينَ،
پنجتن آل عبا نے زینب کو تربیت و تہذیب اور تثقیف عطا کی اور یہی کافی ہے کہ وہ (آل عبا) ان کی تربیت کرنے والے اورانہیں تعلیم دینے والے ہیں۔
(زينب كبري، ص20.)
جوانی کی ابتدا میں حیا:
ڈاکٹر عائشہ بنت الشاطی اہلسنت کی ایک محققہ یوں لکھتی ہیں کہ: زینب (س) ابتدائے جوانی میں کیسی رہی ہیں ؟ تمام تاریخی منابع ان لمحات کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے کہ اس دور میں انہوں نے چار دیواری کے اندر زندگی گزاری ہے، لہذا ہم آپ کے اس دور کو صرف پشت پردہ سے دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس تاریخ کے دسیوں سال گزرنے کے بعد زینب (س) گھر سے باہر آتی ہیں اور کربلا کی جگر سوز مصیبت انہیں پہچنواتی ہے۔
(عائشه بنت الشاطي، بانوي كربلا، مترجم: سيد رضا صدر، ص58 ـ 59.)
تاریخ نے آپ کو نہیں دیکھا اس لیے کہ حیا اس میں مانع تھا اور ماں فاطمہ (س) یہ نصیحت کر چکی تھیں کہ:
(خَيْرٌ للنِّساءِ اَنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَلا يَراهُنَّ الرِّجالُ،)
عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد بھی انہیں نہ دیکھیں۔
وسائل الشيعه، ج14، ص43، حديث 7.
اور اگر حکم الہی نہ ہوتا، اگر رضائے خداوندی نہ ہوتی کہ:
‘انَّ اللّه‏ شاءَ اَنْ يَراهُنَّ سَبايا،
بتحقیق خدا یہ چاہتا ہے کہ انہیں اسیر دیکھے،
تو امام حسین (ع) ہرگز یہ اجازت نہ دیتے کہ آپ کی بہن کربلا کا سفر کرے۔
زیورات، حیا و عفت پر قربان:
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یزیدی لشکر نے خیام حسینی (ع) پر حملہ کیا۔ جناب زینب (س) کے لیے سب سے زیادہ سخت منزل یہی تھی اس لیے کہ ایک طرف سے بچوں بھائیوں کا دل میں غم اور دوسری طرف سے خیموں کا تاراج، چونکہ آپ ایک جانب سے خیموں کی پاسبان تھیں اور دوسری جانب سے امام حسین علیہ السلام کی محافظ۔ علی علیہ السلام کی بیٹی کوفیوں کے مزاج سے آشنا تھیں، خواتین کی حیا اور عفت کو باقی رکھنے کی غرض سے آپ نے بیبیوں کے تمام زیورات پہلے سے جمع کر کے عمر سعد سے کہا: اے عمر سعد! اپنے سپاہیوں کو خیموں پر حملہ کرنے سے روک دے، بیبیوں کے تمام زیورات میں خود تیرے حوالے کر دیتی ہوں۔ اس لیے کہ میں نہیں چاہتی کہ نامحرموں کے ہاتھ خاندان رسول خدا (ص) کی خواتین کی طرف دراز ہوں۔
تمام بیبیوں نے زیورات ایک جگہ جمع کر دیئے، اس کے بعد کہا انہیں اٹھا لے جاؤ لیکن خیموں کے نزدیک نہ آنا۔ یزیدیوں نے تمام زیورات اٹھا لیے، لیکن اس کے بعد بھی ان کی حوس کی پیاس نہیں بجھی اور ننھی بچی جناب سکینہ کے کانوں میں باقی ماندہ گوشواروں کو کھینچنے کے لیے بھی ہاتھ بڑھا دئیے اور خاندان عصمت و طہارت کی لاج نہ رکھی۔
(احمد بن يحيي البلاذري، انساب الاشراف، بيروت، مؤسسة الاعلمي، ج3، ص204.)
بے حیائی پر بی بی کی فریاد:
خاندان رسالت کو اسیر بنا کر جب عبید اللہ بن زیاد ملعون کے دربار میں لے جایا گیا اور اسیروں کا تماشا کرنے کے لیے چاروں طرف مجمع لگ گیا تو ایک مرتبہ حیا و عفت کی پیکر بنت حیدر نے آواز بلند کہا:
يا اَهْلَ الْكُوفَةِ، اَما تَسْتَحْيُونَ مِنَ اللّه‏ و َرَسُولِهِ اَنْ تَنْظُرُوا اِلي حَرمِ النَّبيِّ صلي‏ الله ‏عليه ‏و ‏آله،
اے کوفیو! تمہیں خدا اور اس کے رسول سے شرم نہیں آتی کہ خاندان رسالت کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو ؟
(سيد عبد الرزاق الموسوي المقرم، مقتل الحسين (ع) ، ص310.)
کوفہ کے دار الخلافہ میں حیا کی تجلّی:
جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کو جب اسیر کر کے دار الخلافہ لے جایا گیا تو غصہ سے آپ کا گلہ بند ہو گیا تھا، اس لیے کہ یہ وہی دار الخلافہ تھا جس میں جناب زینب اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی (ع) کے دور خلافت میں ملکہ بن کر آیا کرتی تھیں۔ آپ کی آنکھوں میں آنسوں نے حلقہ ڈال دیا لیکن آپ نے خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لیا کہ کہیں آنکھوں سے آنسو کا کوئی قطرہ نکلنے نہ پائے۔ اس کے بعد اس بڑے دربار میں داخل ہوئیں جہاں عبید اللہ ملعون بیٹھا ہوا تھا۔ جب دیکھا کہ عبید اللہ اسی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے جہاں کل بابا امیر المومنین علی علیہ السلام بیٹھا کرتے تھے اور مہمانوں کی پذیرائی کیا کرتے تھے تو آپ کی غیرت آگ بگولہ ہو گئی۔
جناب زینب کو جن کے سر پر چادر بھی نہ تھی اور کنیزوں نے اطراف سے گھیر رکھا تھا ایک مرتبہ دربار میں داخل کیا ، آپ امیر کی طرف بغیر کوئی توجہ کیے ایک نامعلوم شخص کی طرح بیٹھ گئیں، جبکہ آپ کا سارا وجود سراپا حیا و شرم تھا۔(بانوي كربلا حضرت زينب، صص 138 ـ 139.)
ابن زیاد نے پوچھا : یہ عورت کون ہے ؟ کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ تین بار اس نے سوال تکرار کیا۔ جناب زینب کی حیا اور عفت نے ابن زیاد کو تحقیر کرنے کے ارادے سے اجازت نہیں دی کہ جناب زینب (س) اس کا جواب دیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد ملعون نے جناب زینب کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا :
کيْفَ رَاَيْتِ صُنْعَ اللّه‏ بِاَخيكِ وَاَهْلِ بَيْتِكِ،
تم نے کیسا دیکھا ہے کہ جو اللہ نے تمہارے بھائی اور اہلبیت کے ساتھ انجام دیا ہے ؟
(بحار الانوار، ج45، ص179.)
جناب زینب (س) نے مکمل آرام و سکون اور کمال تامل کے ساتھ ایک مختصر اور نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے کہا :
ما رَأيْتُ اِلاّ جَميلاً،
میں نے جو بھی دیکھا وہ خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
(بحار الانوار، ج45، ص 116)
جناب زینب (س) نے ابن زیاد ملعون کا منہ توڑ جواب دے کر کفر و استبداد کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا جسے قیامت تک تاریخ چاہتے ہوئے بھی فراموش نہیں کر سکے گی۔
عفت اور پاکدامنی جناب زینب (س) کا ذاتی کمال:
عفت اور پاکدامنی خواتین کے لیے سب سے زیادہ قیمتی گوہر ہے۔ جناب زینب (س) نے درس عفت کو مکتب علوی (ع) اور فاطمی (س) سے حاصل کیا کہ فرمایا :
مَا الْمُجاهِدُ الشَّهيدُ في سَبيلِ اللّه‏، بِاَعْظَمَ اَجْرا مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ يَكادُ الْعَفيفُ اَنْ يَكُونَ مَلَكا مِنَ الْمَلائِكَةِ ،
راہ خدا میں شہید مجاہد کا ثواب اس شخص سے زیادہ نہیں ہے جو قادر ہونے کے بعد عفت اور حیا سے کام لیتا ہے، قریب ہے کہ عفت دار شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔
نهج البلاغه، فيض الاسلام، حكمت 466.
اور اسکے علاوہ خود جناب زینب (س) کی ذاتی شرم و حیا اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ عفت اور پاکدامنی کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں۔جناب زینب (س) کی خاندانی تربیت اور ذاتی حیا اس بات کا باعث بنی کہ آپ نے سخت ترین حالات میں بھی عفت اور پاکدامنی کا دامن نہیں چھوڑا۔ کربلا سے شام تک کا سفر کہ جو آپ کے لیے سب سے زیادہ سخت مرحلہ تھا، آپ نے عفت و پاکدامنی کی ایسی جلوہ نمائی کی کہ تاریخ دھنگ رہ گئی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ :
وَهِيَ تَسْتُرُ وَجْهَها بِكَفِّها لاِنَّ قِناعَها اُخِذَ مِنْها،
آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپایا کرتی تھیں چونکہ آپ کے مقنے (حجاب) کو چھین لیا گیا تھا۔
(جزائري، الخصائص الزينبيه، ص345.)
یہ آپ کی شرم و حیاء کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کے قاتل شمر جیسے ملعون کو بلا کر یہ کہنا گوارا کر لیا کہ اگر ممکن ہو تو ہمیں اس دروازے سے شام میں داخل کرنا کہ جہاں پر لوگوں کا ہجوم کم ہو اور شہداء کے سروں کو خواتین سے دور آگے لے جاؤ تا کہ لوگ انہیں دیکھنے میں مشغول رہیں اور ہمارے اوپر ان کی نگاہیں نہ پڑیں، لیکن اس ملعون نے ایک بھی نہ سنی اور سب سے زیادہ ہجوم والے دروازے سے لے کر گیا۔
عالمہ غیر معلمہ:
قال علي ابن الحسين عليهما السلام: انت بحمد الله عالمة غير معلمة فهمة غير مفهمة،)
امام زین العابدین علیہ السلام نے جناب زینب س کو مخاطب کر کے فرمایا: کہ الحمد للہ آپ عالمہ غیر معلمہ اور ایسی دانا ہیں کہ آپ کو دانائی کسی نے نہیں سکھائی)
(خصائص زينبيہ ص 79/سفينة البحار ج 1 ص 558)
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس ہو گی، اس کا علم و تقوی کتنا بلند و بالا ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ روایت میں ہے کہ آپ عالمہ غیرمعلمہ ہیں آپ جب تک مدینہ میں رہیں آپ کے علم کا چرچہ ہوتا رہا اور جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علیؑ سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کافی ہیں لیکن ہماری عورتوں نےیہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب (س) کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکیں۔ ایک دن کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع ہوگئیں اور ان سے درخواست کی کہ انہیں معارف الٰہیہ سے مستفید فرمائیں ۔ زینب (س)نے مستورات کوفہ کے لیے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں خواتین کی کثیر تعداد علوم الٰہی سے فیضیاب ہونے لگی ۔ آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں اور روز بروز شرکت کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا ۔ درس تفسیرقرآن عروج پر پہنچ رہا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مرد و زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں ہو رہی تھیں اور لوگ علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریف کیا کرتے تھے۔
حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد:
کربلا کا واقعہ انسانی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ ہے۔ لہذا اس کو تشکیل دینے والی شخصیات بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔ امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں نے ایک مقدس اور اعلی ہدف کی خاطر یہ عظیم قربانی دی، لیکن اگر حضرت زینب (س) اس عظیم واقعے کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتیں تو بلاشک وہ تمام زحمتیں ضائع ہو جاتیں۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم آج شہدائے کربلا کے پیغام سے آگاہ ہیں اور ان کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو درک کرتے ہیں تو یہ سب حضرت زینب (س) کی مجاہدت اور شجاعانہ انداز میں اس پیغام کو دنیا والوں تک پہنچانے کا نتیجہ ہے۔ شاید اسی وجہ سے انہیں ” شریکۃ الحسین ” کا لقب دیا گیا ہے۔
اگر امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے ذریعے خدا کے راستے میں جہاد کیا تو حضرت زینب (س) نے اپنے کلام کے ذریعے اس جہاد کو اپنی آخری منزل تک پہنچایا۔
کربلا میں سید الشہداء امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں کو شہید کرنے کے بعد دشمن یہ سوچ رہا تھا کہ اس کو ایک بے نظیر فتح نصیب ہوئی ہے اور اسکے مخالفین کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو گیا ہے۔ لیکن حضرت زینب (س) کے پہلے ہی خطبے کے بعد اس کا یہ وہم دور ہو گیا اور وہ یہ جان گیا کہ یہ تو اسکی اور اسکی نسل بنی امیہ کی ہمیشہ کیلئے نابودی کا آغاز ہوا ہے۔
حضرت زینب (س) کے خطبات:
حضرت زینب (س) کے خطبات میں ان کے والد گرامی امام علی (ع) کی فصاحت اور بلاغت کی جھلک نظر آتی ہے۔ لہذا جس طرح امیر المؤمنین علی (ع) کے کلام کو بزرگ علماء نے قیمتی موتیوں کی طرح جمع کیا ہے، اسی طرح حضرت زینب (س) کے خطبات کو بھی بڑے بڑے محققین اور تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے۔ ان میں مرحوم محمد باقر مجلسی کی کتاب ” بحار الانوار "، مرحوم ابو منصور احمد ابن علی طبرسی کی کتاب ” احتجاج "، شیخ مفید کی کتاب ” امالی ” اور احمد ابن ابی طاہر کی کتاب ” بلاغات النساء ” شامل ہیں۔
1۔ بازار کوفہ میں حضرت زینب (س) کا خطبہ:
کوفہ کے زن و مرد جو ہزاروں کی تعداد میں یہ نظارہ دیکھنے کے لیے وہاں جمع تھے۔ آلِ رسول (ص) کو اس تباہ حالت میں دیکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ امام زین العابدین نے نحیف آواز کے ساتھ فرمایا:
تنوحون وتبکون من ذا الذی قتلنا،
اے کوفہ والو ! تم گریہ و زاری کرتے ہو ،یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے ؟
اسی اثناء میں ایک کوفی عورت نے چھت سے جھانک کر دیکھا اور پوچھا کہ تم کس قوم اور قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو ؟ آپ نے فرمایا :
نحن اساری آلِ محمد ص”
ہم خاندانِ نبوت کے اسیر ہیں۔
یہ سن کر وہ نیک بخت عورت نیچے اتری اور کچھ برقعے اور چادریں اکٹھی کر کے ان کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب (س) نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں کی آہ و زاری اور شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی، لیکن راوی بتاتے ہیں کہ جونہی شیر خدا کی بیٹی نے لوگوں کو ارشاد کیا کہ ” انصتوا ” [خاموش ہو جاؤ]، تو کیفیت یہ تھی کہ:
ارتدت الانفاس و سکنت الاجراس،
آتے ہوئے سانس رک گئے اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔
اس کے بعد دختر علی (ع) نے خطبہ شروع کیا تو لوگوں کو حضرت علی (ع) کا لب و لہجہ یاد آ گیا۔
اس خطبہ کے چند تاریخ ساز جملے:
يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَالْغَدْرِ وَالْخَذْلِ أَلَا فَلَا رَقَأَتِ الْعَبْرَةُ وَلَا هَدَأَتِ الزَّفْرَةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلَفُ وَالْعُجْبُ وَالشَّنَفُ وَالْكَذِبُ وَمَلَقُ الْإِمَاءِ وَغَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ
اے اہلِ کوفہ!اے اہل فریب و مکر !کیا اب تم روتے ہو؟ (خدا کرے) تمھارے آنسو کبھی خشک نہ ہوں اور تمھاری آہ و فغان کبھی بند نہ ہو ! تمھاری مثال اس عورت جیسی ہے جس نے بڑی محنت و جانفشانی سے محکم ڈوری بانٹی اور پھر خود ہی اسے کھول دیااور اپنی محنت پر پانی پھیر دیا تم (منافقانہ طورپر) ایسی جھوٹی قسمیں کھاتے ہو۔جن میں کوئی صداقت نہیں۔ تم جتنے بھی ہو، سب کے سب بیہودہ گو، ڈینگ مارنے والے ، پیکرِ فسق و فجور اور فسادی ،کینہ پرور اور لونڈیوں کی طرح جھوٹے چاپلوس اور دشمنی کی غماز ہو۔ تمھاری یہ کیفیت ہے کہ جیسے کثافت کی جگہ سبزی یا اس چاندی جیسی ہے جو دفن شدہ عورت (کی قبر) پر رکھی جائے۔
أَ تَدْرُونَ وَيْلَكُمْ أَيَّ كَبِدٍ لِمُحَمَّدٍ ص فَرَثْتُمْ وَأَيَّ عَهْدٍ نَكَثْتُمْ وَأَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَأَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ هَتَكْتُمْ وَأَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ تُمْطِرَ السَّمَاءُ دَماً وَلَعَذابُ الْآخِرَةِ أَخْزى‏ وَهُمْ لا يُنْصَرُونَ- فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَحْفِزُهُ الْبِدَارُ وَلَا يُخْشَى عَلَيْهِ فَوْتُ النَّارِ كَلَّا إِنَّ رَبَّكَ لَنَا وَلَهُمْ لَبِالْمِرْصادِ۔۔
افسوس ہے اے اہل کوفہ تم پر، کچھ جانتے بھی ہو کہ تم نے رسول ؐ کے کس جگر کو پارہ پارہ کر دیا ؟ اور ان کا کون سا خون بہایا ؟ اور ان کی کون سی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا ؟ ۔اگر اس ظلم پر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو ؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا۔اور اس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جائے گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے اس سے خوش نہ ہو۔کیونکہ خدا وندِ عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کیونکہ اسے انتقام کے فوت ہو جانے کا خدشہ نہیں ہے۔ ”یقیناً تمہارا خدا اپنے نا فرمان بندوں کی گھات میں ہے”۔
دربار یزید لعین میں جناب زینب کبری سلام اللہ علیھا کا تاریخی کلمات:
بعض ائمہ و محدثین نے یزید پلید کو کافر قرار دیا ہے اس کے کفریہ اشعار سنتے ہی شیر خدا کی لخت جگر حضرت زینب بنت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اٹھیں اور ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اس کے چند کلمات کچھ یوں ہیں:
أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ! حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا هَوَاناً عَلَيْهِ وَ بِكَ عَلَيْهِ كَرَامَةً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَةً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَةً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَهْلًا مَهْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ”
اے یزید کیا تیرا یہ گمان ہےکہ زمین و آسمان کے راستے ہم پر بند کر کے اور ہم کو اسیروں کی طرح دربدر پھرا کر اللہ کی بارگاہ میں ہماری منزلت میں کمی آ گئی اور تو عزت دار بن گیااور اللہ کے نزدیک تیری اہمیت بڑھ گئی؟اس گمان سے تیری ناک چڑھ گئی اور تو اپنے تکبر میں مگن ہےخوشی سے پھول رہا ہے۔ یہ دیکھ کر کہ دنیا (کی سلطنت) پر تیری گرفت مضبوط اور امور مملکت منظم ہیں، یہ دیکھ کر کہ ہم پر حکومت اور سلطنت کرنے کا تجھے موقع مل گیا ہے۔
ٹھہر یزید ٹھہر۔
کیا تو نے اللہ عز و جل کا یہ فرمان فراموش کر دیا:
اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے ہم تو انہیں صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں کہ یہ لوگ اپنے گناہ میں اور اضافہ کریں اور آخر کار ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔( آل عمران: ۱۷۸)
فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُهْدَكَ فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَهَا وَ هَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ۔
اے یزید! تو اپنی چال چل اپنی پوری کوشش کر اپنی جدو جہد کو تیز تر کر قسم بخدا تو ہمارا ذکر مٹا نہ سکے گانہ ہماری وحی کو ختم کر سکے گا
نہ تو ہماری منزل کو پا سکے گانہ تو اس عاروننگ کا دھبہ دھو سکے گاتیری رائے غلط ہےتیری زندگی تھوڑی رہ گئی ہےتیری جمعیت کا شیرازہ بکھرنے والا ہےجب منادی ندا دے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (ھود : ۱۸)
سبحان اللہ کیا کلمات ہیں علی کی بیٹی ثانی زہرا سلام اللہ علیھا کی!
خطبے کے فوری اثرات:
حضرت زینب(س) کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیت(ع) کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔
(مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛/سید ابن طاؤوس، اللہوف، ص221)
دربار میں حضرت زینب(س) کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسین(ع) کی قتل کو ابن زیاد کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔(شیخ مفید، الارشاد، ص358)
یزید نے اطرافیوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن نعمان بن بشیر نے اہل بیت(ع) کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔ اسی تناظر میں یزید نے اسراء اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ ہند یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیت(ع) سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری شریک ہوئیں۔ تین دن تک شام کے خرابے میں حضرت زینب(س) نے اپنے بھائی کی عزاداری برگزار کی۔
(مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135/سید ابن طاؤوس، اللہوف، ص221./شیخ عبّاس قمی، نفس المہموم، ص265۔)
آخرکار اسرائے اہل بیت(ع) کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ پہنچایا گیا۔
(ابن عساکر، اعلام النسا، ص191)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک