امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نبی شناسی

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

مقدمہ

آیا بشر ان افراد کی ھدایت کا محتاج ھے جو خدا کی جانب نبی بنا کر بھیجے گئے ھیں؟
اگر پیامبران خدا، تاریخ حیات بشریت میں موجود نہ ھوتے تو انسانی زندگی میں کیا نقصان یا نقصانات رونما ھوتے؟
اگر فرض کرلیں کہ گذشتہ دور کے انسانوں کو ھدایت انبیاء کی ضرورت تھی تو کیا یہ ضرورت آج کے اس انسان کے لئے بھی جوں کی توں باقی ھے جو مختلف الجھات وسیع اور بے پناہ رشد عقلی کا حامل ھوگیا ھے؟
پیامبران خدا کیوں آئے تھے؟ ان کے وظائف وذمہ داریاں کیا تھیں؟ انبیاء جو کچھ بشریت کے لئے بطور تحفہ (دین) لے کر آئے ھیں، تاریخ بشریت میںاس کے کیا فوائد وآثار ھیں؟
یہ وہ بعض سوالات ھیں جو ”نبی شناسی“ کے ذیل میں پیش کئے جاتے ھیں اور ان کا جواب دیا جاتا ھے۔ اگرچہ یھاں وحی و نبوت سے متعلق تمام سوالات کا بالتفصیل جواب نھیں دیا جاسکتا کیونکہ بحث طویل ھوجائے گی پھر بھی کوشش کی جائے گی کہ ان میں سے اھم ترین سوالات وجوابات پر سادہ اور سلیس زبان میں تبصرہ کیا جائے۔

 

نبی کون ھوتا ھے اور وحی کیا ھے

نبی کون ھوتا ھے

لغت میں لفظ ”نبی“ کے دو معنی پائے جاتے ھیں:

(۱) اھم خبر لانے والا، یہ اس صورت میں ھے جب لفظ ”نبی“ کو مادہٴ ”نباٴ“سے فرض کیا جائے کیونکہ نباٴ کے معنی اھم خبر دینے کے ھیں۔

(۲) بلند مقام ومنزلت والا، یہ اس صورت میں ھے جب اس کے مادہ کو ”نبوة“ فرض کیا جائے کیونکہ نبوةکے معنی بلندی اور ارتفاع کے ھیں۔
اصطلاح علم کلام (THEOLOGICAL TERM) میں نبی وہ ھوتا ھے جس پر خدا کی جانب سے وحی نازل ھوتی ھے اور جس کو ھدایت بشر کے لئے بحیثیت نبی مبعوث کیا جاتاھے۔
استاد جعفر سبحانی اپنی کتاب ” الالھیات “ میں لکھتے ھیں :
” النبوة سفار ة بین الله و بین ذوی العقول من عباده لا زالة علتهم فی امر معادهم و معاشعهم “
نبوت یعنی خدا وند ذوی العقول بندوں کے درمیان سفارت تاکہ ان کے دنیاوی و اخروی امور کے مسائل کو حل کیا جا سکے ۔
دوسرے بھت سے متکلمین نبی کی تعریف میں کھتے ھیں :
” هو الانسان المخبر عن الله بغیر واسطه احد من البشر “
نبی وہ انسان ھوتا ھے بغیر کسی بشری واسطے کے خدا کی طرف سے خبر دے ۔
مذکورہ تعریف سے واضح ھوجاتا ھے کہ شناخت وحی کے بغیر شناخت نبی ممکن نھیں ھے۔لھٰذا ضروری ھے کہ پھلے وحی کے بارے میں مختصر وضاحت کردی جائے۔

 

وحی کیا ھے؟

لغت میں وحی کے مختلف معانی بیان کئے گئے ھیں مثلاً اشارہ ،کتابت، نوشتہ، رسالہ، پیغام، مخفی کلام یا گفتگو اور مخفی اعلان۔
لیکن قرآن مجید نے وحی کے چار معانی بیان فرمائے ھیں۔

 

(1) خفیہ اشارہ،

جیسے)فخرج علیٰ قومه من المحراب فاوحی الیهم ان سبحوا بکرةً وعشیاً(
اور اس کے بعد (زکریا) محراب عبادت سے قوم کی طرف نکلے اور اسے اشارہ کیا کہ صبح وشام اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رھو۔(۱)

 

(۲) غریزی (طبیعی) ھدایت

یہ وہ ھدایت ھے جس سے ھر طرح اور ھر نوع کے موجودات مثلاً نباتات، حیوانات، انسان حتی بے جان اجسام یعنی جمادات بھی فطری اور طبیعی طور پر بھرور ھوتے ھیں اور اس کے ذریعہ اپنی زندگی کی بقاء وارتقاء کی راھوں کو طے کرتے ھیں:
)واوحیٰ ربک الیٰ النحل ان اتخذی من الجبال بیوتاً ومن الشجر ومما یعرشون ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللاً………(
اور تمھارے پرودرگار نے شھد کی مکھی کو اشارہ دیا کہ پھاڑوں اور درختوں اور گھروں کی بلندیوں میںاپنے گھر بنائے اس کے بعد مختلف پھلوں سے غذا حاصل کرے اور نرمی کے ساتھ خدائی راستے پر چلے……. (۲)

 

(۳) الھام:

عظیم انسان اپنی زندگی میں ایسے پیغامات کو محسوس کرتے رھتے ھیں جو ماورائے طبیعت اور عالم غیب سے ان پر نازل ھوتے ھیں۔ یہ پیغامات یا الھامات ان لوگوں کے دل میں ایک نور کا کام کرتے ھیں مخصوصاً اس وقت جب یہ لوگ مجبوری یا اضطرار میں گرفتار ھوں یا پھر کسی ایسے دوراھے پر کھڑے ھوںجھاں راستے کا تعین دشوار ھو۔
ان پیغامات کو جو عنایات الٰھی کی بنیاد پر غیب سے ان عظیم اور خداترس لوگوں کی مدد کرنے کے لئے نازل ھوتے ھیں، قرآن نے وحی سے تعبیر کیا ھے:
)واوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیه فاذا خفت علیہ فالقیه فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی انا رادوه الیک وجاعلوه من المرسلین(
او رھم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤاور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ھو تواسے دریا میں ڈال دواور بالکل ڈرو نھیں اور پریشان نہ ھو کہ ھم اسے تمھاری طرف پلٹا دینے والے اور اس کو مرسلین میں سے قرار دینے والے ھیں۔(۳)
استاد ھادی معرفت اس سلسلے میں رقمطراز ھیں:
”جب حضرت موسیٰ پیدا ھوئے تو آپ کی والدہ پریشان ھوگئیں۔ ناگھاں آپ کے دل میں خیال پیدا ھوا کہ خدا پر توکل وبھروسہ کریں، بچے کودودھ پلائیں اور جب بھی اس بچے کے سلسلے میں خوف کااحساس پیدا ھواس کو ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر دریا میں بھادیں نیز انھیں اس بات کا بھی احساس ھواکہ ان کا بچہ ان کی طرف پلٹا دیا جائے گا لھٰذا اس سلسلے میں قطعاً پریشان نہ ھوں کیونکہ خدا پر اعتماد وبھروسہ کیا ھے اور بچے کو اسی کے حوالے کیا ھے ۔ یہ وہ خیالات تھے جو مادر جناب موسیٰ کے دل میں پیدا ھوئے تھے۔ یہ وہ امید کی کرن تھی جو ان کے دل میں روشنی کی مانند چمکی تھی کیونکہ انھوں نے اس وقت ذات خدا کے علاوہ کسی اور کے بارے میں اصلاً سوچا بھی نھیں تھا۔ اس طرح کے خیالات راستے کومشخص اور معین کرنے والے اور ناامیدی و خوف سے نجات دینے والے ھوتے ھیں جو وقت ضرورت الھام رحمانی وعنایت الٰھی کی بنیاد پر بندگان صالح کی مدد کے لئے نازل ھوتے ھیں۔“ (۴)
البتہ قرآن مجید نے وحی کو بطور وسوسہٴ شیطان بھی استعمال کیا ھے:

اور شیاطین اپنے والوں کی طرف خفیہ اشارہ کرتے ھی رھتے ھیں تاکہ وہ لوگ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کی تو تمھارا شمار بھی مشرکین میں ھو جائے گا۔(۵)

 

(۴) وحی رسالتی

یہ وھی وحی ھے جو پیغمبروں اور نبوت سے مخصوص ھے۔ قرآن کریم میں اس معنی میں وحی کا ذکر ستر مرتبہ سے زیادہ ھوا ھے:

اور ھم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی زبان میں قرآن کی وحی بھیجی تاکہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والوں کو ڈرائیں۔ (۶)وحی رسالتی ایک طرح کی ھدایت الٰھی ھے جس کوخداوند عالم برگزیدہ اور چنے ھوئے افراد کو عطا کرتا ھے تاکہ وہ بھی راہ سعادت تک رسائی حاصل کریں اور بشریت کے لئے بھی رھبری و راھنمائی کے فرائض انجام دیں۔
پیغمبران خدا بشری پیکر میں ایک وسیلہ و ذریعہ ھیں جن کی ذمہ داری اور فریضہ یہ ھوتا ھے کہ خدا کی جانب سے الٰھی پیغامات کو حاصل کریں اور پھر انھیں بشریت کے حوالے کردیں۔ یہ وہ عظیم واعلیٰ اور کمال یافتہ انسان ھوتے ھیں جو اپنے اندر صلاحیت کو پیدا کرتے ھیں کہ اس طرح کے پیغامات یعنی وحی کو حاصل کریںیہ وہ صلاحیت ھے کہ جس کا اختیار صرف اور صرف خدا کے پاس ھے کہ جس کو چاھتا ھے عنایت کرتا ھے :

اللہ بھتر جانتا ھے کہ اپنی رسالت کو کھاں رکھے گا۔(۷)
رسول اکرم فرماتے ھیں:
”ولا بعث الله نبیاً ولا رسولاً حتی یستکمل العقل ویکون عقله افضل من جمیع عقول امته“
خدا نے کسی نبی یا رسول کو مبعوث نھیں کیا مگر یہ کہ اس نے اپنی عقل کو کامل کرلیا ھو اوراس کی عقل اپنی امت کی عقل سے کامل وافضل ھوگئی ھو۔ (۸)
امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ھیں:
” ان الله وجدقلب محمدٍ افضل القلوب واوعا ها فاختاره لنبوته“
خداوندعالم نے رسول کے قلب و روح کوتمام قلوب میں بھترین اور افضل پایا اور پھر آپ کو بحیثیت نبی مبعوث کردیا۔(۹)
وحی رسالتی، الھام (معنائے سوم وحی) کے مانند غیبی خبر اور ھدایت الٰھی سے بھرور ھونا ھے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ الھام میں، الھام ھونے والے شخص کو اس کے سرچشمہ اور منبع کا علم نھیں ھوپاتا ھے جب کہ وحی میں، جس شخص (نبی) پر وحی ھوتی ھے اس کوو حی کا سرچشمہ اور منبع معلوم ھوتا ھے اور اسی وجہ سے انبیاء ورسول آسمانی الھامات ، پیغامات اور خبرو وحی کے نازل ھوتے وقت ھر گز حیرت و اشتباہ یا غلطی کا شکار نھیں ھوتے ھیں۔
زرارہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا: آخر رسول کس طرح مطمئن ھوگئے تھے کہ جو کچھ ان تک پھونچ رھا ھے وہ وحی خدا ھے نہ کہ وسوسہٴ شیطانی؟ امام نے فرمایا: ”ان الله اذا اتخذ عبداً انزل علیه السکینة والوقار فکان الذی یاتیه من قبل الله مثل الذی یراه بعینه“
جب خدا کسی بندے کا انتخاب کرتا ھے تو اس پر ایک طرح کا وقار و سکینہ نازل کرتا ھے جس کے ذریعے وہ خدا کی طرف سے آنے والے پیغامات کو اس طرح محسوس کرتا ھے جیسے وپ اپنی آنکھوں سے نازل ھوتے ھوئے دیکھ رھا ھو (۱۰)

 

انبیاء پر وحی کی تاثیر

اگرچہ وحی کوئی ایسی شے نھیں ھے جس کو محسوس یا حواس خمسہ کے ذریعہ اس کا ادراک کیا جاسکے لیکن اتنا ضرورھے کہ اس کے اثر و آثار کے ذریعے اس کو سمجھا جاسکتا ھے، بالکل اسی طرح جیسے شجاعت، تقویٰ اور دوسرے تمام ملکات نفسانی جن کو نہ دیکھا جاسکتا ھے ، نہ سنا اور نہ ان کا احساس کیا جاسکتا ھے لیکن بعض افراد میں ان صفات کے آثار کے ذریعہ ان کا ادراک کیا جاسکتا ھے۔
وحی خدا، انبیاء کی شخصیت پر ایک بھت گھرا اور عظیم اثر ڈالتی ھے۔ وحی درحقیقت ان کو” مبعوث “کرتی اور ان کے اندر ایک عظیم الشان وعمیق تبدیلی وتغیر پیدا کرتی ھے نیز ان کی تمام صلاحیتوں اورطاقتوں کو ھدایت بشر کے لئے آمادہ اور تیار کرتی ھے۔
کلامی کتابوں (THEOLOGICAL BOOKS)میں وحی کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ھیں :
۱۔”وحی سے مراد کلام کا سننا ھے خواہ بیداری کی حالت میں ھو یا غنودگی کے عالم میں ، فرشتہ کے دیدار کے ساتھ ھو یا اس کے بغیر۔“(۱۱)
۲۔”اگر کلام خدا بغیر واسطے کے ھو تو وحی ھوتی ھے خواہ وہ کلام نبی کے ساتھ ھو یا کسی اور کے ساتھ ۔“(۱۲)
۳۔الوحی ان تکون فیه ( الرجل )قوة الهیهموهوبة من الباری الخالق-جل و تعالیٰ-و تلک القوة هی الوحی الذی یوجب لصاحبه اسم النبوة“(۱۳)
وحی کو خدا کی طرف سے ھو یہ ایک ایسی قوت سے تعبیر کیا گیا ھے جو کسی شخص کے نبوت کا باعث بنے۔
۴۔”الوحی الذی یختص الانبیاء ادراک خاص متمیز عن سائر الادراکات فانه لیس نتاج الحسن و لا العقل و لا الغریزة و انما ھو شعور خاص یوجده الله سبحانہ فی الانبیاء و هو شعور یغایر الشعور الفکری المشترک بین افراد الانسان عامة ، ولا یغلط معه النبی فی ادرکه ۔۔۔من غیر ان یحتاج الی اعمال نظر او التماس دلیل او اقامة حجة ۔۔۔و علیٰ هذا فالوحی حصیلة الاتصال بعالم الغیب ولا یصح تحلیله بادوات المعرفة ولا بالاصول التی تجهز بها العلم الحدیث ۔“( ۱۴)
وحی ایک ادراک خاص ھے جو انبیاء سے مخصوص ھے ۔

 

ضرورت نبوت

حقیقت یہ ھے کہ انسان سعادت و کمال حاصل کرنے کے لئے ایک مخصوص ھدایت خدا کا محتاج و نیاز مند ھے وھی ھدایت جو وحی کے ذریعے انبیاء کو عطا کی جاتی ھے اور پھر ان کے توسط سے دوسرے انسانوں کی ھدایت کا انتظام کیا جاتا ھے۔ لھٰذا خدائے حکیم کہ جس کے تمام افعال وامور حکیمانہ اور مستحکم ھوتے ھیں نیز جو نہ فقط یہ کہ لغو اور بیھودہ فعل انجام نھیں دیتابلکہ ھر شایستہ اور پسندیدہ فعل قطعی طور پر اس سے صادر ھوتا ھے،مسلماً اور ضرورتاً بشر کو اس کی اس زندگی کی بنیادی ضرورت سے محروم نھیں رکھ سکتا۔ یہ ضرورت نبوت پر دلیل کا خلاصہ ھے جس کی بنیاد پر انسان کے لئے وحی و نبوت کی ضرورت ھے۔

 

بالتفصیل بیان

مذکورہ دلیل کو چند مقدمات کے ذیل میں بالتفصیل یوں بیان کیا جاتا ھے:
۱۔ خلقت انسان سے خدا کا ھدف یہ ھے کہ انسان اپنے کمال کے اعلیٰ ترین درجات طے کرنے کے ساتھ ساتھ ان نعمتوں اوررحمتوں سے لطف اندوز اور بھرہ ور ھونے کی صلاحیت پیدا کرے جو انسان کامل سے مخصوص ھیں۔
۲۔ انسان فقط اسی صورت میں اپنے اعلیٰ کمال تک پھونچ سکتا ھے کہ جب اپنے اختیار اور آزادانہ انتخاب کے ساتھ اپنے امور کوانجام دے یا ترک کرے۔ بہ الفاظ دیگر، انسان صرف اسی صورت میں اپنے حقیقی کمال تک رسائی حاصل کرسکتا ھے کہ جب اپنی زندگی کے طول و عرض میںایک خاص راستے پر گامزن ھو اور راہ مستقیم پر رواں دواں ھو۔
۳۔ انسان کو سعادت و کمال حقیقی تک پھونچانے والی راہ مستقیم کو طے کرنا اسی وقت ممکن ھے جب اس راستے سے آگاھی ھو۔
۴۔ حس (SENSE) اور عقل کے ذریعہ حاصل شدہ معلومات ، اس راہ سے شناسائی اور آگاھی کے لئے کافی نھیں ھیں۔
ابھی تو انسان نے خود ھی کونھیں پھچانا ھے اور نہ اپنے وجود کے مختلف ابعاد کی مکمل طور پر گرھیں کھول سکا ھے۔ تبھی تو یہ اپنے آپ کو ”موجود ناشناختہ“ اور ”بڑے بڑے مجھولات میں سے ایک “ کھتا نظر آتا ھے۔ یھی وجہ ھے کہ وہ ابھی اس موضوع پر یکساں نظریات و خیالات پیدا نھیں کرسکا ھے کہ انسان کی سعادت واقعی وحقیقی کیا ھے؟ حقیقی کمال کیا ھے؟ استاد شھید مطھری کے مطابق:
دنیا میں ایسے دو فلسفی بھی نھیں مل سکیں گے جو اس راہ کی شناخت سے متعلق متفق الخیال اور یکساں نظریات کے حامل ھوں۔ خود سعادت جو کہ اصلی اور حقیقی ھدف ھے، شروع شروع میں بھت واضح اور بدیھی مفھوم نظرآنے کے باوجود نھایت مبھم اورمغالطہ میں ڈال دینے والے مفاھیم میںسے ایک مفھوم ھے۔ سعادت کیا ھے؟، کمال کیا ھے؟ اور کیسے حاصل کیا جاسکتا ھے؟ شقاوت کیا ھے اور اس کے اسباب کیا ھیں؟ اس جیسے سوالات ابھی تک مجھولات میںشمار کئے جاتے ھیں۔ ابھی تک انسان ناشناختہ ھے، کیوں؟ اس لئے کہ ابھی تک بشر، اس کی صلاحتیں، اس کی صفات واستعداد وغیرہ سبھی کچھ ناشناختہ ھیں۔ (۱۵)
شناخت راہ سعادت وکمال اس وقت مزیددشوار ھوجاتی ھے جب اس بات کا علم ھوجائے کہ انسان ، حیات ابدی سے مالامال موجود کا نام ھے یعنی اس کی اس دنیا کی زندگی اس کی اس ضخیم کتاب وجود کا صرف ایک صفحہ ھے جس کتاب کے صفحات کی شمارش کسی بھی قیمت پر ممکن نھیں ھے نیز انسان کی اس مختصر سی زندگی میں اس کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت اس کی ھمیشہ باقی رھنے والی اخروی زندگی پر اثر انداز ھوگی۔
۵۔ خدا، حکیم ھے اور اس کے تمام افعال حکیمانہ اور مستحکم ھوتے ھیں۔ اس کی ذات سے کوئی بھی قبیح فعل سرزد نھیںھوتا نیزوہ شایستہ وپسندیدہ فعل کو انجام دیتا ھے۔
مذکورہ تمام مقدمات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ خدائے حکیم نے راہ ھدایت کو وحی کی صورت میں بشریت کے حوالے کردیا ھے اور انبیاء اس ھدایت کو بشرتک پھونچانے میں ایک وسیلے اور ذریعے کا کام کرتے ھیں۔

 

مثال

ایک عاقل شخص اپنے کچھ دوستوں کو اپنے گھر پر مدعو کرتا ھے ۔جس کے لئے وہ مختلف انواع و اقسام کی خوردنی ونوشیدنی غذاؤں سے دسترخوان سجاتا ھے ، مھمان کی پذیرائی کے لئے نوکروں اور خدمت گزاروں کا انتظام کرتا ھے اور سارے گھرکو دوستوں کے آنے کی خوشی میں زرق برق کردیتا ھے لیکن اس کے دوست اس کے گھرکا ایڈرس نھیں جانتے ھیں اور نہ ھی ایسا کوئی ذریعہ ھے کہ جس کے توسط سے اس کے گھر کا ایڈرس حاصل کرسکیں۔ وہ شخص بھی اس بات کو جانتا ھے۔ ظاھر ھے کہ مذکورہ فرضیہ میں اس شخص کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنے دوستوں کواپنے گھر کا ایڈرس بتائے تاکہ وہ اس کے گھر پھونچ سکیں اور اگر وہ شخص ایسا نھیں کرتا ھے تو کوئی عام سا شخص بھی اس شخص کی عقل مندی پر سوالیہ نشان لگا دے گا۔ قصہٴ انسان وخدا بھی اس حکیم و عاقل شخص اور اس کے مھمان دوستوں کا سا ھی ھے۔ خد انے اپنے محبوب بندوں کے لئے جنت کا انتظام کر رکھا ھے لیکن اس کے بندے جنت تک پھونچنے والی راہ سے آگاہ نھیںھیںاور ان کے پاس ایسا کوئی راستہ بھی نھیں ھے کہ جس کے ذریعہ وہ جنت تک رسائی حاصل کرسکیں۔ لھٰذا خدا ئے حکیم پر لازم ھے کہ وہ رسولوں اور انبیاء کے ذریعہ راہ نجات وکمال کو روشن وبیان کرے۔

 

نبوت کے فوائد اوراثرات

انبیاء کی تاریخی حیثیت واھمیت اور کردار، ان کے مثبت اثرات اور تعمیری اقدامات جو وہ کرگئے ھیں یا تھذیب وتمدن کے لئے ان کے خدمات کسی سے پوشیدہ نھیں ھیں۔ انبیاء تاریخ بشریت کے بزرگ ترین مصلح اوردل سوز ودردمند ترین رھبر رھے ھیں کہ جنھوںنے بشر کو اس کے کمال و سعادت اور نجات کی آخری منزلوں تک پھونچانے میں کوئی کسر نھیں چھوڑی ھے۔ انبیاء نے ھزارھا مسائل و مشکلات کا سامنا کیا، مصائب وآلام کو برداشت کیا نیز اپنی اپنی امتوں کی اذیتوں و آزار رسانیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اوراس طرح تاریخ و معاشروں میں عظیم ترین تبدّل و تغیّر لانے میںکامیاب ھوئے۔ اس سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ اور پیغمبر اسلام کے زمانے کے عرب معاشرے نیز اس وقت کی دنیا کے حالات وکیفیات پرسرسری نگاہ ڈالنا ھی کافی ھے۔ جاھل ووحشی عرب اقوام اوراسلامی تھذیب وتمد ن کا اجمالی تقابل ھی محققین اور دانشمندوں کی آنکھیں کھولنے کی کافی ھے۔ یھاں اس زمانے کی تاریخ پر مفصل تحقیق وتبصرہ ممکن نھیںھے لھٰذا ان مباحث کو تاریخ اسلام سے مربوط مباحث پر موقوف کیا جاتا ھے۔
یھاں ھمارا مطمح نظر صرف اتنا ھے کہ قرآن مجید کی آیات کے ذیل میں مبلغان دین یعنی انبیاء اور نبوت کے ذریعہ حاصل ھونے والے فوائد و اثرات کوبیان کردیا جائے۔

 

(۱) تعلیم

انبیاء کی پھلی اور اھم ذمہ داری اپنی امت کیلئے تعلیم کی فراھمی ھے یعنی ان کو ان حقائق سے آشنا کرائیں جن کو وہ نھیںجانتے یا نھیں جان سکتے۔ اس بات کا تفصیل سے ذکر ھو چکا ھے کہ بعثت انبیاء اور بشر کے درمیان ان کی موجودگی کو جو چیز ضروری اور لازم قرار دیتی ھے وہ بشر کی اپنی راہ نجات و کمال سے متعلق جھالت اور لاعلمی ھے۔ انبیاء اس لئے آئے تھے کہ اس جھالت کو علم میں تبدیل کریںاور اس مجھول کو معلوم میں تبدیل کریں۔

پروردگارا ! ان کے درمیان ایک رسول کو مبعوث فرماجو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے۔ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے۔ بیشک تو صاحب عزت و صاحب حکمت ھے۔ (۱۶)

جس طرح ھم نے تمھارے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا ھے جو تم پر ھماری آیات کی تلاوت کرتا ھے تمھیں پاک و پاکیزہ بناتا ھے اور تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ھے اور وہ سب کچھ بتاتا ھے جو تم نھیں جانتے ۔ (۱۷)
بعض مفسرین قرآن کھتے ھیں :جملہٴ ”یعلمکم ما لم تکونوا تعلمون “ سے مراد یہ ھے کہ تمھیں ان چیزوں کی تعلیم دیتے ھیں جنکو تم نھیں جانتے یا نھیں جان سکتے برخلاف جملہٴ ”یعلمکم ما لم تعلمون“
تعلیمات انبیاء کے دو حصے کئے جاسکتے ھیں:
(۱) ایسے حقائق کہ جن کا علم بشر کی دسترس سے مکمل طور پر باھر ھے انسان جس قدر کوشش کرلے اپنی حس وعقل کے ذریعہ ان تک نھیں پھونچ سکتا۔
(۲) ایسے حقائق کہ عقل انسانی جن کا ادراک کرسکتی ھے لیکن ان تک دسترس کے لئے برسھا برس بلکہ صدیوں کی کوشش علمی اور تجربہٴ علمی درکار ھوتا ھے۔
انبیاء کرام ان موارد میں انسان کی مشکلات ومسائل کو آسان کرتے ھیں اور ان علوم ومعارف کو تیار شدہ ان کے حوالے کردیتے ھیں۔

 

(۲) تزکیہٴ نفس

انبیائے الٰھی وہ پاک و پاکیزہ اور نیک افراد گزرے ھیں جن میں تمام نیک صفات پائی جاتی تھیں نیز تمام صفات بدو قبیح سے کنارہ کش ھوتے تھے۔ انبیاء کیونکہ بذات خود عدالت، صداقت، طھارت، شجاعت، فیاضی، امانت وغیرہ جیسی صفات کا مجسم نمونہ ھوتے تھے لھٰذا اپنی امت کوبھی ان نیک صفات کی طرف دعوت دیتے تھے ساتھ ھی تمام بری صفات سے اجتناب کی طرف راغب بھی کراتے تھے یایوں کھا جائے کہ قرآن کریم کے مطابق لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرتے اور قلوب کو پاکیزہ بناتے تھے۔ تزکیہٴ نفوس اور تربیت بشر اس قدر اھم ھے کہ قرآن ھمیشہ تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کرتا نظر آتاھے۔ سورہٴ بقرہ کی صرف ایک آیت ، آیت نمبر ۱۲۹/ایسی ھے جھاں تعلیم پھلے ھے اور تزکیہ بعد میں البتہ یہ آیت حضرت ابراھیم و اسماعیل کی زبانی ھے اور مقام تحقق و وقوع میں ھے یعنی مرحلہٴ عمل میں کیونکہ تعلیم تربیت پر مقدم ھوتی ھے لھٰذا آیت میں پھلے تعلیم کا ذکر کیا گیا ھے بعدمیں تزکیہ کا۔

 

(۳) تذکر و نصیحت

انسان فطرت الٰھی پر پیدا ھوتا ھے اور اعتقاد خدا، اس کی عبادت کی طرف راغب ھونا، اچھی اور نیک صفات وفضائل کی طرف جھکاؤ جیسے بھت سے تمایلات وصفات اس کے وجود میں ابتدا ھی سے راسخ ھوتے ھیں جو اس کو نجات وکمال کی طرف لے جا سکتے ھیں لیکن انسان ھوا و ھوس ، حب دنیا اور مادی لذتوں کی طرف رغبت نیز اپنی ذات کی طرف سے غفلت کی بنا پر اپنی اس فطرت کو غبار آلود کردیتا ھے اور ان مذکورہ تمام تمایلات وصفات کو پس پشت ڈال دیتا ھے۔ لھٰذا طول تاریخ میں انبیاء مبعوث ھوئے ھیں کہ وہ بشر کو اس کی اس فطرت کی طرف پلٹا سکیں اور اس کے ان مقدس تمایلات فطری کو بیدار کرسکیں جوسوئے ھوئے ھیں۔ اس سلسلے میںقرآن کریم نے انبیاء کرام کو ”مذّک---ِر“یعنی یاد دلانے والا کھا ھے:

(لھٰذا) تم نصیحت کرتے رھو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ھو۔(۱۸)
)کلا انه تذکرة( ھاں ھاں بیشک یہ سرا سر نصیحت ھے (۱۹)

 

(۴)غلامی اور قیدو بند سے آزادی

انبیائے خدا نے انسان کی مختلف نوع کی آزادی میں اھم کردار ادا کیا ھے۔ انھوں نے جھاں ایک طرف بشر کو بادشاھوں اور سلطنتوں کی شکل میں مادی قدرتوں کی قید سے آزادی دلائی وھیںدوسری طرف اس کو ھویٰ و ھوس ، شھوت پرستی، مادیت اور حب دنیا جیسی زنجیروں سے آزاد کرایا۔

ان کے اوپر سے بوجھ اور قید و بند کواٹھالیتا ھے۔ (۲۰)
حقیقت یہ ھے کہ انبیاء لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت دیتے تھے کیونکہ انسان جب تک خدا کا بندہ نھیں ھوجاتا، آزا د نھیں ھوسکتا۔ اگر کوئی شخص بندگی خدا کو اختیار نہ کرے تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اسیر ھوا و ھوس اور صفات رزیلہ کا غلام ھوجاتا ھے کہ یہ صفات اسے ھر لمحہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر کھینچتی رھتی ھیں اور اگر خوش قسمتی سے بندگی خدا اختیار کرلے اور بارگاہ خداوندی میں سر بسجود ھوجائے تو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے تمام قید و بندسے آزادھو جاتا ھے۔

 

(۵) عدالت اجتماعی

انبیاء کے اھداف میں سے ایک اھم ھدف، معاشرے میں عدل وانصاف کی برقراری ھے۔ قرآن واضح طور پر عدالت اجتماعی بر قرار کرنے کو انبیاء کااھم ھدف او ران کی ایک بڑی ذمہ داری کے طور پر پیش کرتا ھے۔

بیشک ھم نے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ھے اور ان کے ساتھ کتاب و میزان کو نازل کیا ھے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔(۲۱)

 

(۶) نمونہٴ عمل

آج تمام ، ماھرین نفسیات اس بات پر متفق ھیں کہ کس نمونہٴ عمل کا وجود، افراد معاشرہ کی تربیت میں ایک اھم کردار ادا کرتا ھے اور کمال و تربیت انسان کے اھم ترین اسباب وعوامل میں سے ایک ھے۔ انبیائے الٰھی کے وجود کا ایک فائدہ اور خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ معاشرے کے عام لوگوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے اور لامحالہ اپنی صفات کی بنیاد پر عوام الناس کے لئے نمونہٴ عمل ھونے کا کردار نبھاتے تھے۔

تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بھترین نمونہٴ عمل ھے جو اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ھوئے ھے اور اللہ کو بھت زیادہ یاد کرتا ھے۔ (۲۲)

 

بعثت انبیا کا حقیقی ھدف اور غرض وغایت

گذشتہ مباحث سے یہ بات واضح ھوگئی ھے کہ انبیاء ، راہ راست کی طرف بشر کی راھنمائی کے لئے بھیجے گئے ھیں۔ یھاں یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ انبیاء، نجات انسان کو کس شےٴ میں دیکھتے ھیں یعنی ایک انسان کس طرح نجات و کمال حاصل کرسکتا ھے؟ کیا انبیاء کے مدنظر فقط جھان آخرت ھی تھا، دنیاوی زندگی کی طرف کوئی توجہ نھیں تھی؟ آیا ان کا حقیقی ھدف معاشرے میں عدل و انصاف کو برپا کرنا اور کلی طور پر دنیاوی زندگی کو آباد کرناتھا اس معنی میں کہ اخروی زندگی کی حیثیت ان کی نگاہ میں فرعی اورثانوی تھی؟ یا پھردنیاوی اور اخروی دونوں زندگیاں ایک دوسرے کے ساتھ ان کی نگاہ میں اھم اور ان کا حقیقی وواقعی ھدف تھیں؟
مذکورہ سوالات کا صحیح جواب درج ذیل مقدمات کے ذریعہ باآسانی واضح ھوجائے گا:

۱) انسان کی دنیاوی زندگی اس کی اخروی زندگی کے مقابل بے انتھا مختصر اور کوتا ہ ھے اسی طرح جس طرح ایک کروڑ کے سامنے ایک ھزار کی کوئی حیثیت نھیں ھوتی جب کہ ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ انسانی زندگی ایک ھزار سال توبھت دور بلکہ بسا اوقات سو سال کی بھی نھیں ھوتی اور اس کے مقابلے میں اخروی زندگی کی نہ کوئی حدھے اور نہ کوئی شمارش۔

۲) مذکورہ بالا گفتگو کے مد نظر یہ بات بھی واضح ھوجاتی ھے کہ اگر دنیاوی کمال وفلاح اور نجات کا اخروی زندگی کے کمال وفلاح و نجات سے تقابل کیا جائے تو آخرت کے مقابلے میںدنیاوی کمال لایعنی اور بے معنی ھے اور اصلاً ان دونوں کو ایک ساتھ قرار نھیں دیا جاسکتا نیز نہ ھی دنیا وی زندگی کو اصل وحقیقی اور اخروی زندگی کو فرعی اور ثانوی فرض کیا جاسکتاھے۔

۳) لھٰذا، انبیاء کا حقیقی ھدف یہ ھے کہ انسان کو ایسی راہ کی طرف رھنمائی کریں جو اس کو سعادت وکمال اخروی کی صرف لے جائے۔

۴) قرآن کریم کی آیتوں کے پیش نظر فقط قرب خدا اور اس کی باگاہ میں سربسجود ھوجانا ھی انسان کی سعادت و کمال کا باعث وضامن بن سکتا ھے۔کمال انسان صرف عشق خدا اور قرب خدا ھی میں پوشیدہ ھے۔

۵) لیکن یہ بات بھی پیش نظر رھے کہ انسان کا یہ انتھائی اور اخروی کمال نہ یہ کہ دنیاوی زندگی میں سد باب بنتا ھے بلکہ درحقیقت دنیاوی زندگی کا حقیقی کمال بھی اسی کمال پر موقوف ھے یعنی اگر انسان راہ قرب خدا میں قدم اٹھا لے تو اس کی آخرت تو کامیاب ھو گی ھی دنیا بھی جنت نظیر ھوجائے گی کیونکہ اس صورت میں دنیا سے ظلم ، ناانصافی اورفتنہ و فساد وغیرہ کا سرے سے خاتمہ ھوجائے گا۔

۶) اگر آیات قرآن مجید میں مزید غور کیاجائے تو یہ بھی واضح ھو جاتا ھے کہ انبیاء، انسان کواس کے کمال اور اس کے حقیقی مقام و منصب تک پھونچانے کے لئے ظالموں اور ستمگروں سے مقابلہ نیز عدل و انصاف بر قرار کرنے کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے کیونکہ اگر معاشرے پر کسی عادلانہ نظام کی حکومت نہ ھو تو قرب خدا کا یہ سفر بھت مشکل ھوجائے گا اور اسے بھت سے موانع کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یھیں سے سورہٴ حدید کی گذشتہ سطور میں مذکورپچیسویں آیت کا مفھوم بھی نمایا ںھوجاتا ھے۔
غرض یہ کہ انبیاء کی آمد کا حقیقی وواقعی ھدف اور غرض وغایت یہ ھے کہ لوگوں کوخدا پر اعتقاد وایمان ، اس کی عبادت و پرستش ، قرب خدا نیز اس کے حضور میں تسلیم محض ھوجانے کی طرف دعوت دیں اور اس طرف راغب کریں۔ یھی وہ مسلمہ حقیقت ھے جو تمام آسمانی ادیان کا لب لباب ھے۔

خدا کے نزدیک بھترین دین ، اسلام ھے۔( ۲۳)
لیکن یہ بات مد نظر رھے کہ مذکورہ ھدف صرف اور صرف عدالت اجتماعی کی برقراری، اخلاقی اقدار کی محافظت اور انسانی صفات کی حفاظت کے ساتھ ھی حاصل کیا جاسکتا ھے اور اس کی رسائی کے ذریعہ انسان نہ فقط آخرت میں بلکہ اس دنیا میں بھی کمال ونجات حاصل کرسکتا ھے نیز ھمہ جھت ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں کامیاب بھی ھوسکتا ھے۔

 

عصمت انبیاء

انبیائے خدا کے خصوصیات میں سے ایک خصوصیت، عصمت ھے۔ لغت میں عصمت کے معنی منع کرنے اور حفاظت کرنے کے ھیں۔
ابن فارس ، مقاییس اللغة میں کھتے ھیں : العصم : اصل واحد صحیح یدل ّ ُ علی امساک و منع و ملازمة ”مفردات“ میں راغب کھتے ھیں : العصم : الامساک اور ”صحاح “میں ھے کہ عصمت منع کرنے کے معنی میں ھے ۔ سورہ احزاب کی سترھویں آیت ”من ذاالذی یعصمکم من اللہ “ اور سورہ ھود کی تیتالیسویں آیت” و ساوی الیٰ جبل یعصمنی من الماء “ میں عصمت کے دونوں مذکورہ معنی ، یعنی حفاظت اور منع کرنا ھی پائے جاتے ھیں ۔
عصمت انبیاء سے مراد یہ ھے کہ پیغمبران خدا:

اولاً: وحی کے حصول، نگھداری اور ابلاغ و ترسیل میں ھر قسم کی غلطی یا اشتباہ سے محفوظ ھوتے ھیں۔

ثانیاً: ھر قسم کے گناہ سے پاک اور مبرّا ھوتے ھیں۔
مذکورہ دونوں نکات کی مزید وضاحت کے لئے ضروری ھے کہ انھیں جداگانہ طور پر بیان کیا جائے۔

 

وحی کے حصول، نگھداری اور ابلاغ سے متعلق

عصمت انبیائے خدا، وحی( جو کہ انسانوں کی ھدایت و سعادت کا ذریعہ ھے تاکہ وہ اپنے اعلیٰ کمال تک پھونچ سکیں) کو دریافت اور ارسال کرنے میں کسی قسم کی غلطی نھیں کرتے تھے یعنی وحی کو صحیح طرح سے حاصل اور ادارک کرتے تھے نیز بغیر کسی کمی یا زیادتی کے بشر کے حوالے کردیتے تھے۔ لھٰذا، پیغام خدا جس طرح سے نازل ھوا ھے اسی طرح انبیاء کے توسط سے بغیر کسی تبدیلی وتغیر، نہ عمداً اور نہ سھواً، کے ھم تک پھونچ گیا ھے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ھے جس پر تمام شیعہ و سنی متکلمین متفق ھیں نیز عقل و نقل بھی اس کی تائید کرتی ھیں۔

 

دلیل عقلی

حقیقت یہ ھے کہ وہ دلیل جو ضرورت بعثت پر دلالت کرتی ھے وھی مذکورہ حقیقت پر بھی دلالت کرتی ھے کیونکہ انسان، وحی اور نبوت کے ذریعے مخصوص ھدایت الٰھی سے مکمل اور صحیح طور پر فقط اسی صورت میں مستفید ھوسکتا ھے جب وحی کے حصول، ادراک اور ابلاغ میں کسی طرح کی غلطی یا اشتباہ کا گذر نہ ھوا ھو۔
خداوند عالم چونکہ حکیم ھے، لھٰذا اس نے ارادہ کیا ھے کہ اس کا پیغام یعنی وحی کسی کمی وزیادتی کے بغیر اس کے بندوں تک پھونچے ۔
وہ چونکہ علیم ھے لھٰذا جانتا ھے کہ اپنے پیغام کو کیسے اور کس کے ذریعے نازل کرے کہ اس کے بندوں تک صحیح وسالم حالت میں پھونچ جائے۔
الله یعلم حیث یجعل رسالته(۲۴)
چونکہ قدیر ھے لھٰذا مستحکم اور قابل اعتماد ذرائع اور وسائل کا انتخاب کرسکتا ھے نیز انھیں اپنی ذمہ داری اور وظائف کی ادائیگی میں ھرطرح کی خطا اور غلطی سے محفوظ بھی رکھ سکتا ھے۔

 

دلیل نقلی

قرآن مجید، سورہٴ جن کی آخری آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتاھے کہ خدا کے پاس ایسے مامورین اور محافظین ھیں جو وحی کو ھر طرح کے نقصان ، کمی وزیادتی یا تبدیلی وتغیر سے محفوظ رکھتے ھیں تاکہ وحی صحیح و سالم طور پر لوگوں تک پھونچ جائے۔

وہ عالم الغیب ھے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نھیں کرتا ھے مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے نگھبان فرشتے مقرر کردیتا ھے تاکہ وہ دیکھ لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات کوپھونچادیا ھے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ھے اس پر حاوی ھے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ھے۔ (۲۵)
علامہ طباطبائی ان آیات کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ھیں :
”والمعنی : فان الله یسلک ما بین الرسول و من ارسل الیه و ما بین الرسول و مصدر الوحی مراقبین حارسین من الملائکة و من المعلوم ان سلوک الرسد من بین یدیه و من خلفه لحفظ الوحی من کل تخلیط و تغییر بالزیادة والنقصان یقع فیه من ناحیة الشیاطین بلا واسطة او معها“۔
یعنی خدا فرشتوں کو مراقب وحی قرار دیتا ھے تاکہ وحی الٰھی میں شیاطین کی طرف سےکوئی غلط یا کمی و زیادتی واقع نہ ھو ۔(۲۶)

 

گناہ سے متعلق عصمت

شیعی عقیدے کے اعتبار سے تمام انبیائے کرام اپنی پیدائش سے اواخر عمر تک ھر طرح کے گناہ، خواہ گناہ کبیرہ یا صغیرہ، سے منزہ اور پاک ھوتے ھیں حتی سھوونسیان بھی ان کے گناہ کوانجام دینے کا باعث نھیں بنتے ھیں۔
علمائے اھل سنت اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ھیں۔ ان میں سے بعض انبیاء کرام کو فقط گناھان کبیرہ سے پاک و معصوم مانتے ھیں جب کہ ایک گروہ کے مطابق انبیاء زمانہٴ بلوغ کے بعد معصوم ھوتے ھیں۔
ساتھ ھی ایک گروہ کا نظریہ یہ بھی ھے کہ انبیاء رسالت پر مبعوث ھونے کے بعد معصوم ھوتے ھیں۔ حشویہ اور بعض اھل حدیث اصلاً منکر عصمت انبیاء ھیں یعنی ان کے مطابق انبیاء سے ھر گناہ صادر ھوسکتا ھے حتی زمانہٴ نبوت میں اور عمدی طور پر بھی۔
یھاں یہ وضاحت بھی ضروری ھے کہ یھاں عصمت انبیاء سے مراد فقط گناھوں کا ارتکاب ھی نھیں ھے بلکہ مراد یہ ھے کہ انبیاء ایک مخصوص قوت ارادی اور ملکہ نفسانی کے حامل ھوتے ھیں جو تمام حالات و شرائط میں ان کو گناھوںکی انجام دھی سے باز رکھتا ھے۔ ایسے بھت سے افراد ھیں جنھوں نے اپنی ساری عمر میں قطعاً کوئی گناہ انجام نھیں دیا ھے لیکن ایسا دعویٰ شاید ھی کوئی کرے کہ وہ کسی بھی حالت یاکیفیت و شرط میں مرتکب گناہ نھیں ھوگا۔گناہ نہ کرنے اور ایسا ملکہ یا قدرت رکھنے میں جو تمام شرائط میں ارتکاب گناہ سے باز رکھے، زمین و آسمان کا فرق ھے۔
عقلی ونقلی بھت سے دلائل واستدلالات موجود ھیں جوانبیاء کے گناھوں سے معصوم ھونے پر دلالت کرتے ھیں ۔

 

دلیل عقلی:

خدا نے انبیاء کو اس لئے بھیجا ھے تاکہ وہ لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف راھنمائی کرسکیں۔ اس صورت میں اگر انبیاء خود مرتکب گناہ ھو جائیں تو لوگوں کے نزدیک ان کے قول وفعل میں تضاد ھو جائے گا۔ جس کا لازمہ یہ ھوگا کہ ان کی ذات سے لوگوں کااعتماد و اعتبار اٹھ جائے گا۔ نتیجةً ھدف نبوت ور سالت مکمل طور پر نیست و نابود ھوجائے گا۔

 

دلیل نقلی:

قرآن مجید میں بھت سے انبیاء کو بطور مخلَص(مُخلَص ، لام پر زبر کے ساتھ ، اس شخص کو کھا جاتا ھے جس کو خدا خود مخلس و خالص بناتا ھے لیکن مُخلِص، لام پر زیر کے ساتھ ، وہ شخص ھوتا ھے جو اپنے اعمال ، اخلاص کے ساتھ اور فقط خدا کے لئے انجام دیتا ھے مُخلَصین کا مرتبہ مُخلِصین سے بھت بلند وبالا ھے۔ ) پھنچنوایا گیا ھے:

اور پیغمبر! ھمارے بندے ابراھیم، اسحاق اور یعقوب کا ذکرکیجئے جو صاحبان قوت اور صاحبان بصیرت تھے۔ ھم نے ان کو آخرت کی یاد کی صفت سے ممتاز قرار دیا تھا۔(۲7)
دوسری طرف ، شیطان نے جھاں یہ قسم کھائی ھے کہ تمام اولاد آدم کو گمراہ کر ے گا وھیں مخلص بندوں کو خارج بھی کردیاھے۔

اس نے کھا تو پھر تیری عزت کی قسم! میں سب کو گمراہ کروں گا علاوہ تیرے ان بندوںکے جن کو تونے خالص بنا دیا ھے۔ (۲۸)
اور واضح ھے کہ اگر شیطان مخلص بندوں کو بھی گمراہ کرسکتا ھوتا تو یقینا گمراہ کردیتا۔ مخلص بندوں کا مستثنیٰ ھونا فقط شیطان کے عجز اور ناتوانی کی بنا پر ھے۔ لھٰذا مذکورہ آیات کے ذریعہ روشن ھوجاتاھے کہ شیطان انبیاء کو دھوکہ یا فریب نھیں دے سکتا۔

 

انبیاء گناہ سے پاک اور معصوم کیوں ھوتے ھیں؟

مذکورہ سوال کے جواب کے حصول کے لئے ایک مقدمہ کاتذکرہ ضروری ھے۔
انسان ایک ایسا آزاد اور خودمختار موجود ھے جو اپنے امور کواپنے اختیار اور انتخاب سے انجام دیتا ھے۔ جو فعل اس کو مفید نظر آتا ھے اسے انجام دیتا ھے اور جو فعل نقصان دہ یا قبیح نظر آتا ھے اس سے اجتناب کرتا ھے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ ارادے کی کمی اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ ھونے کی وجہ سے ان امور کوبھی انجام دے دیتا ھے جو حکم عقل کے خلاف ھوتے ھیں۔
یھی وجہ ھے کہ ایک عقلمند شخص کسی بھی قیمت پرخود کو آگ کے حوالہ نھیں کرتا ھے یا زھر نھیں کھاتا ھے وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ عقلمند آدمی ان امور کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے اور ان کو انجام بھی دے سکتا ھے مگر چوں کہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ھیں لھٰذا ان کے قریب بھی نھیں پھٹکتا۔
مذکورہ مقدمہ کی روشنی میں ھم کھہ سکتے ھیں کہ انبیاء دو خصوصیات کے حامل ھوتے ھیں جو انھیں ھر طرح کے گناہ سے محفوظ رکھتی ھیں۔ پھلی خصوصیت یہ ھے کہ انھیں گناھوں کے بارے میںمکمل علم ویقین ھوتا ھے اس طرح کہ ھرگناہ ان کی نگاہ میں دھکتی ھوئی آگ اور قاتل زھر کی مانند ھوتا ھے۔
دوسری خصوصیت یہ ھے کہ ان کے پاس ایک قوی، مستحکم اور عمیق اراد ہ ھوتا ھے جو ان کے جذبات، شھوات نفسانی اور غیظ و غضب کو کنٹرول کرتا ھے۔ ابنیاے ٴ خدا ایسے بزرگ وبالا بندگان خدا ھیں جن کے ارادے میں ذرہ برابر ضعف یا کمی نھیں پائی جاتی ھے۔
ان دو خصوصیات کی بنا پر کوئی بھی نبی کسی بھی حالت یا کیفیت میں گناہ کا مرتکب نھیں ھوسکتا اگرچہ اس گناہ کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ھے۔
اس سلسلے میں استاد شھید مطھری فرماتے ھیں:
”گناہ سے مربوط عصمت، ایمان اور تقویٰ کی شدت اور زیادتی سے پیدا ھوتی ھے۔ اس سلسلہ میں قطعاً ضروری نھیں ھے کہ کسی انسان کے ”معصوم“ ھونے کے لئے ایک خارجی قوت جبراً اور زبردستی اس کو گناہ سے باز رکھے یا معصوم شخص اپنی جسمانی اور ذھنی ساخت و طینت کی بنا پر گناہ کی انجام دھی کی قدرت نہ رکھتا ھو۔ اگر کوئی شخص گناہ کو انجام دینے کی قدرت ھی نہ رکھتا ھو یا کوئی دوسری قوت ھمیشہ اس کو گناہ کی انجام دھی سے باز رکھتی ھوتو اساساً ایسے شخص کے لئے گناہ کامرتکب نھ ھونا نہ کوئی فضیلت ھے اور نہ اس کا کمال کیونکہ ایسا شخص اس شخص کی طرح ھے جس کو کسی جگہ قرار دے دیا گیا ھو اور وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہ کرسکتا ھو“۔ (۲۹)

 

اثبات نبوت

نبوت ایک ایسا عظیم و مقدس مقام و منصب ھے جس پر فائز ھونے والا شخص لوگوں کے درمیان مومن ھوجاتا ھے، ان کے لئے محبوب و مقدس بن جاتا ھے اور اس کی اطاعت و پیروی لوگوں کے لئے شرعی اور دینی وظیفہ اور ذمہ داری ھوجاتی ھے۔ یھی وجہ ھے کہ تاریخ میں اکثر ایسا ھوا ھے کہ بعض قدرت پرست اور دوسروں سے سوئے استفادہ کرنے والے افراد نبوت کا کاذب اور بے بنیاد دعویٰ کربیٹھے ھیں تاکہ نبوت کے ظاھری فوائد سے مستفید ھوتے ھوئے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں اور ان پر غلبہ حاصل کرلیں۔ یھی امر اس بات کا موجب ھوجاتا ھے کہ ھم ان راھوں اور دلائل کو پھچانیں جو نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے دعویٰ کی صداقت وحقیقت کو اضح اور بیان کرسکیں۔ نوبت کا دعوی ٰکرنے والے شخص کی صداقت تین راھوں سے ثابت ھوسکتی ھے:

 

(۱) قرائن و شواھد

نبوت کا ادعا کرنے والے شخص کی صداقت کو سمجھنے کا ایک راستہ یہ ھے کہ اس کی گذشتہ زندگی، اخلاقی صفات وخصوصیات، اس کے پیغام، وہ معاشرہ جس میں دعوت دی جائے اور اس سے مربوط دوسرے تمام امور کا عمیق تجزیہ اور پھر ان تمام نکات کو یکجا کرکے اس کی صداقت پر غوروفکر کیا جائے۔

 

(۲) گذشتہ نبی کی تائید

ایسا شخص جس کی نبوت، دلائل کے ذریعہ ھمارے نزدیک ثابت اور مسلم ھے، اگر یہ خبر دے گیا ھو کہ میرے بعد فلاں فلاں خصوصیات وصفات کے ساتھ خدا کے طرف سے ایک نبی مبعوث ھوگا اور یہ تمام خصوصیات وصفات اس شخص پر منطبق ھوتی ھوں جو نبوت کا دعویٰ کررھا ھے تو ان تمام افراد کے لئے جو گذشتہ نبی پر ایمان رکھتے ھیں اور اس کی طرف سے دی گئی بشارت سے آگاہ بھی ھیں ، شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ یہ شخص نبی خدا ھے۔

 

(۳) معجزہ

انبیاء کرام عام طور پر معجزے کے ذریعہ اپنی نبوت کوثابت کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی آیتوں سے واضح ھوتا ھے کہ امتیں اپنے نبی سے معجزے کی درخواست کیا کرتی تھیں اور جب بھی اس طرح کی کوئی درخواست حق وحقیقت کی جستجو کی خاطر ھوتی تھی، انبیاء معجزہ پیش بھی کرتے تھے البتہ اکثر ایسا بھی ھوتا تھا کہ نبی خدا کی طرف سے اتمام حجت اور حق کے روشن ھوجانے کے باوجود بھی مشرکین تمسخر، استھزاء اوردوسرے غلط افکار کی بنا پر دوبارہ معجزے کی خواھش کرتے تھے۔ فطری بات ھے کہ ایسے موقعوں پر ان افراد کی خواھش کو کوئی اھمیت نھیں دی جاتی تھی اور کوئی دوسرا نیا معجزہ وقوع پذیر نھیںھوتا تھا۔

 

تعریف معجزہ

معجزہ فاعل اعجاز ھے جس کے معنی لغت میں”عاجز کرنے“ یا ”عاجز پانے“ کے ھیں۔ اور اصطلاحاً معجزہ ایک ایسا غیر عادی اور خارق العادہ امر ھے جو خدا کے ارادے اور مرضی سے اس شخص سے صادر ھوتاھے جونبوت کا دعویدار ھو۔
خواجہ نصیر الدین طوسیۺ، کشف المراد میں فرماتے ھیں : معجزہ یعنی ثبوت امر غیر عادی یا نفی امر عادی ،خارق العادةاور مطابقت دعویٰ کے ساتھ ۔ ( البتہ اس تعریف میں ”خارق العادت کے ساتھ “ والی عبارت زائد ھے کیونکہ ” غیر عادی ھونا اسی معنیٰ میں ھے ۔

اس کائنات میں رونماھونے والے تمام امور کی دو قسمیں کی جاسکتی ھیں:

 

(الف) اموری عادی

یعنی ایسے امور جو اسباب وعلل کی بنا پر وقوع پذیر اور مختلف تجربات وآزمایشات کے ذریعے قابل شناخت ھوتے ھیں۔

 

(ب) امور غیر عادی

یعنی ایسے امور کہ آزمایشات وتجربات حسی کے باوجود جن کے تمام علل و اسباب کی شناخت نھیں کی جاسکتی ۔ یہ ایسے امور ھوتے ھیں جن کی پیدائش میں تجربات حسی سے ماوراء ایک دوسری نوع کے اسباب وعلل کارفرما ھوتے ھیں۔ معجزہ اسی قسم سے ھے۔
امور غیر عادی یا خارق العادہ بھی دو طرح کے ھوتے ھیں:


(الف) ایسے امور کہ جن کے اسباب و علل اگرچہ عادی نھیں ھوتے لیکن ان امور کو اسباب غیر عادی کے ذریعہ بھی کم و بیش حاصل کیا جا سکتا ھے یعنی مخصوص تعلیم و ریاضت کے ذریعہ ان تک دسترسی پیدا کی جاسکتی ھے مثلاً جادوگری یا ساحری وغیرہ۔


(ب) ایسے امور کہ جن کا وقوع پذیر ھونا صرف خدا کے مخصوص ارادے اور اذن سے مربوط ھوتا ھے ان کا اختیار کسی بھی ایسے شخص کے پاس نھیں ھوتا ھے جو ھدایت الٰھی کے تحت زندگی نھیں گزارتا۔ یھی وجہ ھے کہ یہ امور دو بنیادی خصوصیات کے حامل ھوتے ھیں:

اول: قابل تعلیم و تعلّم نھیں ھوتے۔

دوم: کوئی طاقت ان کو مغلوب نھیں کرسکتی۔
جب کبھی بھی ایسا فعل کسی ایسے شخص سے صادر ھوتا ھے جونبوت کا دعویٰ کرتا ھے تو اسی کو معجزہ کھا جاتاھے اور یھی اس کے دعوے کی صداقت پردلیل ھوتا ھے۔
صدق ادعائے نبوت پر معجزے کے ذریعے استدلال واثبات دوسری ھر چیز سے زیادہ اثبات وجود خدا اور اس کی بعض صفات پر موقوف ھے۔ اس استدلال کو مندرجہ ذیل طریقے سے بیان کیا جاسکتا ھے:
۱) خدا حکیم ھے۔
۲) حکیم نقص غرض وغایت نھیں کرتا یعنی ایسا کام نھیں کرتا جو اس کے ھدف کی نفی کرتا یا اس کے ھدف کے خلاف نتیجہ پیش کرتا ھویا پھر اس کو اس کے ھدف سے دور کردیتا ھو۔
۳) خدا ئے حکیم کا ارادہ یہ ھے کہ لوگ ھدایت حاصل کر لیں ،یعنی خدا چاھتا ھے کہ بنی آدم ھدایت یافتہ ھوں نہ کہ گمراہ۔
۴) معجزے کو ایسے شخص کے اختیار میں دینا جو نبوت کا کاذب دعویٰ کرتا ھواور لوگوں کی گمراھی کا باعث بنتا ھو ارادہ ٴ خدا اور غرض ھدایت کے خلاف ھے۔
مذکورہ نکات سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ ھرگز ایسے شخص کے ذریعہ معجزہ صادر نھیں ھوتا جو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ھو۔

 

پیغمبر اسلام تاریخی پس منظر

۵۷۰ ءء میں سرزمین مکہ پر ایک بچہ عالم وجود میں آیا جس کا نام محمد رکھا گیا۔ جناب عبد اللہ کا یہ بیٹا پاکیزگی وطھارت، صداقت وامانت اور حق و حقیقت پر مبنی ۴۰/ سالہ زندگی گزارنے کے بعد نبوت جیسے الٰھی منصب پر فائز ھوا اور ایک ایسا قانون لے کر آیا جس کوآگے چل کر شریعت محمدی یا اسلام کے نام سے پھچانا گیا۔یھی وہ نقطہٴ آغاز تھا جھاں سے تاریخ بشریت نے ایک نیا موڑ لیا اور ایک عظیم الشان انقلاب رونما ھوگیا۔
حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت پر مبعوث ھونے کے بعد ۱۳/ سال تک مکہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس کے درمیان آپ نے ھر طرح کی مشکلات و آزار رسانیوں کو بخوشی قبول کیا۔ اس مدت میں آپ نے قابل قدر افراد کی تربیت کی اور پھر اس کے بعد مدینہ کی طرف ھجرت اختیار فرمائی نیز مدینہ کو ھی اپنا مرکز بھی قرار دیا۔ دس برس تک مدینہ میں آزادانہ طور پر تبلیغ و ترویج اسلام کے ساتھ ساتھ بشریت کی بھلائی کے لئے عرب کے مشرکین سے جھاد اور انکی طرف سے ھونے والے حملوں کا دفاع بھی کرتے رھے۔ یھاں تک کہ سبھی کو اپنی حکومت کے دائرے میں لے آئے۔ دس برس کے بعد سارا جزیرة العرب مسلمان ھوگیا تھا۔ دس سالہ مدنی اور اس سے قبل مکی زندگی میں قرآنی آیات تدریجاً رسول اکرم پرنازل ھوتی رھتی تھیں اور آپ انھیں لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے اور واضح کرتے رھتے تھے۔
ان دس برسوں میں نیز اس سے قبل، جوواقعات وحادثات رسول اعظم کو پیش آئے ، وہ سب نھایت تعجب آور، روح کو بالیدگی عطا کرنے والے اور درس دینے والے ھیں۔ اس سلسلے میں مفصل ومبسوط کتابیں لکھی جاچکی ھیں مزید مطالعے کے لئے ان کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔

 

رسول اکرم کی نبوت کا اثبات:

یہ بات گزرچکی ھے کہ دعوائے نبوت کی صداقت کو تین راھوں کے ذریعہ آزمایا جاسکتا ھے۔ رسول اکرم کی نبوت کو تینوں ھی راھوں کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ھے کہ آپ رسول خدا اور اپنے دعوے میں سچے ھیں۔

 

(۱) قرائن و شواھد

کسی شخص کی زندگی کا گزرا ھوا حصہ اس کے د عوے کے صحیح یا غلط ثابت ھونے کا اطمینان بخش ذریعہ ھے۔ رسول اکرم کی بعثت سے قبل لوگوں کے مابین آپکی۴۰/سالہ حیات طبیہ خود، آپ کی زندگی کے ھر شعبے میں آپ کی صداقت ، طھارت، پاکیزگی، امانت، نیک نفسی پر واضح دلیل ھے۔ آپ کے اوپر لوگ اسقدر اعتماد کرتے تھے کہ آپ کا لقب ھی ”امین“ پڑگیا تھا۔ بعثت کے بعد آپ کے دشمن کسی بھی موقع پر آپ کی ذات والا صفات پرلگائے گئے کسی بھی الزام کو ثابت نھیں کرپاتے تھے۔
تاریخ اسلام ،دشمنوں تک سے آپ کے حسن اخلاق، صبر، مروت اور شجاعت نیز دوسری تمام نیک صفات پرگواہ ھے۔ آپ کی ذات ان تمام اعلیٰ صفات کا مجموعہ تھی جو ایک نبی میں پائی جانی چاھئیں۔
دوسری طرف آپ نے کسی مدرسے، مکتب یا لوگوں کے درمیان بھی تعلیم حاصل نھیں کی تھی ۔ اسی جاھل معاشرہ کے درمیان اپنی جوانی کے مراحل طے فرمائے تھے (کتب تاریخی میں جو کچھ درج ھے اس کے مطابق مکہ میں فقط ۱۷/مرد اور ایک عورت لکھنا اور پڑھنا جانتی تھی جبکہ مکہ اس وقت حجاز کا ترقی یافتہ ترین شھر تصور کیا جاتا تھا )۔
اس کے باوجود آپ بشریت کے لئے ایسے اعلیٰ حقائق بیان فرماتے تھے کہ مسائل خداشناسی، انسان شناسی اور زندگی کی صحیح راہ و روش سے متعلق ، شریت کے بلند ترین افکار میں شمار کئے جاتے ھیں۔ ساتھ ھی ایک ایسی کتاب بھی لے کر آئے کہ ساری تاریخ انسانیت میں جس کی نہ کوئی مثال ھے نہ نظیر۔ جب اس حقیقت کو رسول اکرم کی اپنے معاشرے میںتاثیر، آپ کا اپنے ھدف پر یقین، اپنے ھدف تک پھونچنے کے لئے غلط وسائل کا استعمال نہ کرنا، آپ کے اقوال و تعلیمات میں سرعت اثر اور دوام اثر، ان افراد کی صداقت وپاکیزگی وطھارت نفس جو آپ کے گرویدہ ھوجاتے اور آپ کے پیغامات کو بغور سنتے نیز قبول کرتے تھے، جیسے امور کو یکجا کرتے ھیں تو ذرہ برابر شک وشبہ کی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعاً لوگوں کی ھدایت کے لئے خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔

 

(۲) گذشتہ انبیاء کی تائید:

تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت تک دسترسی حاصل کی جاسکتی ھے کہ گذشتہ انبیاء ،رسول اکرم کی بعثت ونبوت کے بارے میں بشارت دے چکے تھے۔ کتب تاریخ کے علاوہ قرآن کریم میں بھی اس سلسلے میں بھت سی آیتیں موجود ھیں:

جب عیسیٰ بن مریم نے کھا کہ اے بنی اسرائیل! میںتمھاری طرف اللہ کا رسول ھوں میں اپنے پھلے کی کتاب، توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ھوں جس کا نام احمد ھے لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کھہ دیا کہ یہ توکھلا ھوا جادوھے۔(۳۰)
اھل کتاب کا ایک گروہ آپ کے انتظار میںروز و شب کو شمار کرتا تھا۔ اس گروہ کے پاس آپ کے بارے میں واضح وروشن دلائل و نشانیاں موجود تھیں۔

حتی یہ افراد مشرکین سے کھا کرتے تھے کہ حضرت اسماعیل کے فرزندوں میں کہ عرب کے بعض قبائل جن پر مشتمل تھے، میں سے ایک فرزند، رسول ھوگا جوگذشتہ انبیاء اورتوحیدی ادیان کی تصدیق وتائید کرے گا۔(۳۱)

اور جب ان کے پاس خدا کی کتاب آئی ھے جو ان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ھے اور اس کے پھلے وہ دشمنوں کی مقابلے میں اسی کے ذریعے طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ھی منکر ھوگئے حالانکہ اسے پھچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خدا کی لعنت ھے۔(۳۲)
اگرچہ بعض یھودی ونصاریٰ علماء ودانشمنداپنے شیطانی اور نفسانی مفادات کی خاطر دین اسلام کو قبول کرنے سے کتراتے تھے پھر بھی بعض دوسرے یھودی ونصاریٰ علماء دانشمند انھیں پیشن گوئیوں کی بنا پر آنحضرت پر ایمان لے آئے تھے ۔

اور جب وہ اس کلام کو سنتے ھیں جو رسول پر نازل ھوا ھے تو تم دیکھتے ھو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ھو جاتے ھیں کہ انھوں نے حق کو پھچان لیا ھے اور کھتے ھیں کہ پروردگار ھم ایمان لے آئے ھیں۔ لھٰذا ھمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل کرلے۔(۳۳)
قرآن کریم اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ھوا شناخت رسول اکرم کے سلسلے میں فرماتا ھے:

کیا یہ نشانی ان کے لئے کافی نھیں ھے کہ بنی اسرائیل کے علماء بھی اسے جانتے تھے۔(۳۴)
غور طلب نکتہ یہ ھے کہ اس طرح کی بشارتوں کو موجودہ توریت وانجیل سے غائب کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کتابوں میںابھی بھی ایسے اشارے پائے جاتے ھیں جو طالبان حق پر اتمام حجت کے لئے کافی ھیں۔ یھی اشارے اور بشارتیں اس بات کا بھی سبب بن گئی ھیں کہ واقعی طور پر حق کی جستجو کرنے والے یھودی وعیسائی علماء ھدایت پائیں اور دین مقدس اسلام کے گرویدہ ھو جائیں۔ ابھی ماضی قریب میں ھی تھران کے ایک بھت بڑے یھودی دانشمند اور کتاب” اقامة الشھود فی رد الیھود “کے مصنف میرزا محمد رضا اور شھریزد کے یھودی دانشمند اور کتاب” محضر الشھود فی رد الیھود “کے مصنف باباقزوینی یزدی نیز سابق عیسائی پادری اور کتاب محمد در توریت وانجیل کے مصنف پروفیسر عبد الاحد داؤد ایک طویل جستجو اور حصول راہ مستقیم کے بعد دین اسلام کوقبول کرچکے ھیں۔

 

(۳) معجزہ

پھلے بھی بیان کیا جا چکا ھے کہ اثبات نبوت کے لئے ایک اھم ترین ذریعہ یہ ھے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا شخص کوئی معجزہ لے کر آئے اور اس طرح خدا سے اپنے مخصوص رابطے کو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
کتب تاریخ و حدیث میں رسول اکرم کے بھت سے معجزے محفوظ ھیں مثلاً دست رسول پر سنگریزوں کا گفتگو کرنا، جانور کا آپ کی رسالت کی گواھی دنیا ، شق القمر، درخت کا رسول کی طرف حرکت کرنا اور پھر اپنی جگہ پلٹ جانا ، اور مستقبل میں ھونے والے بھت سے واقعات کے بارے میں پیشن گوئیاں وغیرہ ۔ان معجزات میں سے بھت سے توایسے ھیں جو حدتواتر تک پھونچ چکے ھیں اور جن کا شمار تاریخی مسلمات میں ھوتا ھے۔
ان تمام معجزات میں سب سے اھم، مفید، واضح اور زندہٴ جاوید معجزہ ، قرآن کریم ھے۔
تاریخ میں ایسے بھت سے انبیاء گزرے ھیں جو صاحب کتاب تھے لیکن فقط رسول خدا ایسے نبی ھیں جنھوں نے اپنی کتاب کو بطور معجزہ پیش کیا۔ قرآن مجید جھاں رسول کے ھاتھ میں کتاب ھدایت ھے وھیں آپ کی رسالت کے لئے برھان قاطع اور مستحکم ترین دلیل بھی ھے جس کی متعدد وجوھات ھیں نیزاس میں بے شمار اسرار و رموز پوشیدہ ھیں۔ بطور مثال:

(۱) اسلام ھمیشہ باقی رھنے والا دین ھے، جو ھر زمانہ اور ھر معاشرہ کے لئے آیا ھے لھذا اس کا معجزہ بھی ایسا ھونا چاھئے جو ھمیشہ باقی رھنے والا ھو۔

(۲) رسول اکرم کے اس معجزے کانوع کتاب سے ھونا اس بات کا باعث ھے کہ بشری علم و فنون کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے اعجاز کے ایسے نئے نئے پھلو سامنے آئیں جو گذشتہ لوگوں کے لئے کشف وواضح نھیں ھوسکے تھے۔

قرآن مجید کا معجزہ ھونا قرآن مجیدرسول اکرم کا معجزہ ھے۔ مزید وضاحت کے لئے چند نکات کا ذکر ضروری ھے:

(۱) قرآن مجید بطور عام اور با صراحت اعلان کرتا ھے کہ کسی میں اتنی طاقت وصلاحیت نھیں ھے کہ اس کے جیسی کوئی کتاب لاسکے حتی اگر تمام جن و انس دست بدست ھو کر کوشش کریں تب بھی عھدہ برآنھیں ھوسکتے۔ مکمل قرآن تو بھت بعید ھے دس سورے بلکھ قرآن کے سوروں کی مانند ایک چھوٹا سا سورھ بھی پیش نھیں کرسکتے۔

آپ کھہ دیجئے کہ اگر انسان و جنات سب اس بات پر متفق ھو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نھیں لاسکتے (۳۵)۔

کھہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاھو اپنی مدد کے لئے بلا لواگر تم اپنی بات میں سچے ھو۔ (۳۶)

کھہ دیجئے تم اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤ اورخدا کے علاوہ جس کو چاھو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگرتم اپنے الزام میں سچے ھو(۳۷)۔

(۲) قرآن مجید روز اول ھی سے اپنے مخالفین کو مقابلہ کی دعوت دیتے ھوئے دعویٰ کررھا ھے کہ ان کا اپنی ناتوانی اور عجز کی بنا پر اس کے جیسا کلام نہ لاپانا ھی اس کتاب کے آسمانی اور الٰھی ھونے کی دلیل ھے۔

اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤاور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ھیں سب کو بلالو اگرتم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ھو اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کرسکو گے تواس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ھیں(۳۸)۔

(۳) تاریخ اسلام گواہ ھے کہ بعثت اوردعوت رسول خدا کے اوائل ھی سے دشمنان خارجی وداخلی ھمیشہ اس کوشش میں مشغول رھتے تھے کہ شریعت اسلام اور نور الٰھی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ختم کردیں ۔ اپنی اس کوشش میں وہ کسی قسم کے اقدام سے باز نھیںآتے تھے۔ آج بھی اسلام کو اپنا سب سے بڑادشمن اور اپنی ظالمانہ راہ میں سدباب سمجھنے والی دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کے ذریعہ لائے گئے عالمی انقلاب کے خاتمے کے لئے اپنا سب کچھ داؤں پر لگائے ھوئے ھیں۔

(4) ابھی تک ایسا کوئی شخص عالم وجود میں نھیں آسکا ھے کہ ادباء اور فصحاء اس کے کلام کو فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے قرآن کے مساوی گردانتے ھوں بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ اب تک جس کسی نے بھی اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ھے، سوائے رسوائی وذلت کے اس کے ھاتھ کچھ نھیں لگا ھے۔
غرض مذکورہ گفتگو کا لب لباب یہ ھے کہ قرآن ایک معجزہ ھے جو رسول خدا کے ذریعے خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ھے۔ لھٰذا حضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اس معجزے کو پیش کرنے والے ھیں، اپنے اس دعوے میں سچے اور صادق ھیں کہ آپ رسول خدا ھیں اور آپ وحی کے عنوان سے اپنی زبان مبارک پرجن کلمات کو جاری فرماتے ھیں وہ کلام خدا ھے نیز آپ کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی تحریف، کمی ،زیادتی یا تغیر و تبدیلی واقع نھیں ھوئی ھے۔

ختم نبوت دین یا ادیان عموماً مباحث دین شناسی میں لفظ ”دین“ جمع (ادیان) کی صورت میں استعمال کیا جاتا نیز ھر نبی کے لئے ایک مخصوص دین حساب کیا جاتاھے جیسے دین یھودیت، دین عیسائیت یا دین اسلام لیکن قرآن مجید کے اصول و قوانین کے مطابق از آدم تا محمد، دین خدا فقط ایک ھے اور تمام انبیاء صرف ایک مکتب کی طرف دعوت دیتے رھے ھیں۔

بیشک خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ھے۔(۳۹)
تمام انبیاء کے اصول وبنیادیں ایک ھی ھیں لیکن ان میں دو جھتیں پائی جاتی ھیں:
(الف) شرائط زمان ومکان، معاشرہ اور خصوصیات انسانی کی بنیاد پر بعض فرعی مسائل میں فرق۔
(ب) مرتبہٴ تعلیمات میں فرق، ھربعد میں آنے والا نبی، فکر بشری کے ارتقاء وکمال کے مطابق اپنی تعلیمات کا درجہ ومرتبہ بڑھاتا رھتا تھا۔ مثلاً خدا، قیامت اور انسان وغیرہ سے متعلق موجود ہ اسلامی معارف وتعلیمات گذشتہ انبیاء کی تعلیمات کے بالمقابل بے حد عمیق ووسیع ھیں۔
انسان مکتب ومدرسہٴ انبیاء میں اس طالبعلم کی مانند ھے جو درجہٴ اول سے آخری درجے تک کے علمی مراحل بتدریج طے کرتا ھے۔ اس سلسلے میں دین واحد کا ارتقاء کھنا صحیح ھے نہ کہ جدا گانہ ادیان کے طور پر پیش کرنا۔
قرآن مجید نے ھرگز لفظ ”دین“ کو جمع (ادیان) کی صورت میں استعمال نھیں کیا ھے بلکہ انبیائے الٰھی کو ایک دوسرے کی تائید وتصدیق کرنے والے کے طور پر پر پیش کیا ھے اور اس سلسلے میں انبیائے کرام سے سخت عھد و پیمان لیا گیا ھے۔

اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب خدا نے تمام انبیاء سے عھد لیا کہ ھم تم کو جو کتاب وحکمت دے رھے ھیں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمھاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ھے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا اور پھر پوچھا کہ کیا تم نے ان باتوں کا اقرار کرلیا ار ھمارے عھد کو قبول کرلیا تو سب نے کھا کہ بیشک ھم نے اقرار کرلیا۔ ارشاد ھوا کہ اب تم سب بھی گواہ رھنا اور میں بھی تمھارے ساتھ گواھوں میں ھوں۔(۴۰)

خاتم الانبیا یہ بھی ضرریات اسلام میں سے ھے کہ رسول اکرم ، سلسلہٴ انبیاء کی آخری کڑی ھیں۔ آنحضرت کے بعد اب کوئی نبی نھیں آئے گا۔ قرآن کریم سورہٴ احزاب کی ۴۰/ویں آیت میں اس حقیقت کو قاطعانہ طور پرصاف صاف بیان کررھا ھے:

محمد، تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے بھی باپ نھیں ھیں لیکن وہ خدا کے رسول اور سلسلہٴ انبیاء کے خاتم ھیں اور خدا ھر شےٴ کا خوب جاننے والا ھے۔(۴۱)

علت ختم نبوت: کیوں گذشتہ زمانوں میں انبیاء یکے بعد دیگرے بھیجے جاتے تھے اور سلسلہٴ نبوت ختم نھیں ھوتا تھا لیکن حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ منقطع ھوگیا؟ ا س سوال کے جواب کے لئے تین نکتوں کی طرف اشارہ ضروری ھے۔

(۱) زمانہٴ قدیم کا بشر اپنے عدم رشد اور عدم ارتقائے فکر کی وجہ سے آسمانی کتاب کی حفاظت نھیں کرسکتا تھا۔ یھی وجہ تھی کہ گذشتہ آسمانی کتابیں یا تو بالکل ھی غائب ھو جاتی تھیں یا اس میں تحریف وتبدیلی ہوجاتی تھی۔ اس صورت میں ایک بارپھر ایک نئے پیغام و پیغامبر کی ضرورت ھوتی تھی لیکن رسول اکرم کی بعثت کے بعد بشریت اپنے طفلگی کے حدود سے باھر نکل کر رشد و ارتقائے فکری کے اس مقام تک دسترسی حاصل کرچکی تھی کھ اپنی علمی ودینی میراث کی محافظت کرسکے۔ اسی بنا پر، فقط قرآن مجید ایسی آسمانی کتاب ھے جس میں کسی بھی قسم کی تحریف یا تبدّل وتغیّر نھیں ھوسکا ھے۔

(۲) زمانہٴ قدیم کے بشر میں اس قدر صلاحیت و قدرت نھیں تھی کہ وہ اپنے سفر زندگی کا ایک کلی خاکہ بنا سکے اور اس خاکے کی مدد سے اپنے سفر کو جاری رکھ سکے۔ اس لئے ضروری تھا کہ بتدریج اور مرحلہ بہ مرحلہ بشر کی راھنمائی کی جائے۔لیکن بعثت رسو ل خدا کے ساتھ وہ وقت بھی آگیا جب بشر اپنے اس نقص پر قابو پاچکا تھا۔

(۳) خدا کی طرف سے ھدایت بشر کے لئے بھیجے جانے والے انبیاء میں سے بعض نئی شریعت لے کر آئے تھے اور بعض کوئی نئی شریعت لے کر نھیں آئے تھے بلکہ اپنے سے پھلے والے نبی کی شریعت کی ہھی تبلیغ و ترویج کیا کرتے تھے۔ اس طرح، انبیاء دو طرح کے ھوتے ھیں :

۱۔ صاحب شریعت
۲۔ وہ انبیاء جو شریعت تو لے کرنھیں آتے مگر گذشتہ نبی کی شریعت کی تبلیغ کرتے ھیں۔ اکثر و بیشتر انبیاء صاحب شریعت نھیں ھوتے تھے اور اگر صاحب شریعت انبیاء کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد شاید دس سے بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ غیر صاحب شریعت انبیاء کی ذمہ داری یہ ھوتی تھی کہ وہ اس شریعت کی ترویج ، تبلیغ وتفسیر اور اجراء کریں جوان کے زمانے میں پائی جاتی تھی۔
مذکورہ بالا نکات کے پیش نظر کھا جاسکتا ھے کہ ختم نبوت کی علت، بشرکے رشد وارتقائے فکری میں پوشیدہ ھے کیونکہ بعثت رسول خدا کے وقت بشر اس مقام تک پھونچ گیاتھا کہ:
۱) اپنی آسمانی کتاب کو ھر قسم کے نقصان یا تحریف سے محفوظ رکھ سکے۔
۲) اپنی ھدایت، سعادت وکمال کا دستورالعمل یکجا طور پر حاصل کرسکے۔
۳) ترویج و تبلیغ دین، امر بالمعروف ونھی عن المنکر کوخود ادا کرسکے یعنی اس ذمہ داری کو قوم کے علماء اورصلحاء انجام دیں سکیں۔
۴) اجتھاد کی روشنی میں کلیات وحی کی تفسیر وتشریح کرسکے اور ھر زمانے کے مختلف شرائط کے تحت اصل کی طرف رجوع کرکے ھر مسئلے کا حل پیش کرسکے۔ یہ ذمہ داری بھی علماء کی ھے۔

 

حوالہ:

۱۔سورہ ٴمریم/۱۱
۲۔سورہٴ نحل/۶۸ تا ۶۹
۳۔سورہ ٴقصص/۷
۴۔آیت اللہ محمد ھادی معرفت، تاریخ قرآن، طباعت اول، تھران، انتشارات سمت، ص/۱۰،۹
۵۔سورہٴ انعام/۱۲۱، نیز/۱۱۲
۶۔سورہٴ شوریٰ/۷
۷۔سورہٴ انعام/۱۲۴
۸۔مرحوم کلینیۺ اصول کافی
۹۔بحار الانوار: ج/۱۸،حدیث/۳۶
۱۰۔تفسیر عیاشی، ج/۲،حدیث/۱۰۶، بحارالانوار،ج/۱۸،حدیث/۱۶
۱۱۔عبد الرزاق لاہیجی ، گوپر مراد ،تھران،صفحہ ۔۲۹۸
۱۲۔فخر الدین رازی ،البراھین فی علم الکلام،تھران ۔ ج ۱ ، ص ۲۰۰، تصحیح و پیشکش سید محمد باقر سبزواری
۱۳۔ابو حاتم رازی ، اعلام النبوة، ص ۲۹۲
۱۴۔استاد جعفر سبحانی ، محاضرات فی الالھیات ۔ص۔۳۹۵۔۳۹۴
۱۵۔مجموعہٴ آثار: ج/۲،ص/۵۵
۱۶۔سورہ ٴبقرہ/ ۱۲۹
۱۷۔سورہٴ بقرہ/۱۵۱
۱۸۔سورہٴ غاشیہ/ ۲۱
۱۹۔سورہٴ مدثر/۵۴
۲۰۔سورہٴ اعراف/۱۵۷
۲۱۔سورہٴ حدید/ ۲۵
۲۲۔سورہٴ احزاب/ ۲۱
۲۳۔سورہ ٴآل عمران/ ۱۹
۲۴۔سورہ ٴانعام /۱۲۴
۲۵۔سورہٴ جن/ ۲۸،۲۶
۲۶۔المیزان فی تفسیر القرآن ، ج/ ۲۰ ص/۵۴
۲۷۔سورہ ٴ ص/ ۴۶،۴۵، نیز سورہ ٴمریم/ ۵۱وسورہٴ یوسف/۲۴
۲۸۔سورہ ٴص/۸۳،۸۲
۲۹۔مجموعہٴ آثار: ج/۲،ص/۱۶۱
۳۰۔سورہ ٴصف/۶
۳۱۔سورہ اعراف/ ۱۵۷
۳۲۔سورہ ٴبقرہ/۸۹
۳۳۔سورہ ٴمائدہ/ ۸۳
۳۴۔سورہ ٴشعرا/ ۱۹۷
۳۵۔سورہ ٴاسراء/۸۸
۳۶۔سورہ ٴھود/ ۱۳
۳۷۔سورہ ٴیونس/ ۳۸
۳۸۔سورہ ٴبقرة/ ۲۴، ۲۳
۳۹۔سورہ ٴآل عمران/۱۹
۴۰۔سورہ ٴآل عمران/ ۸۱
۴۱۔ سورہ احزاب /۴۰

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک