کتاب:چھل حدیث اربعین دوسرا حصہ
کتاب:چھل حدیث اربعین دوسرا حصہ
(زيارت اربعين کاطریقہ ، زائر کی خصوصیات اور زیارت کی فضلیت )
تحریر:جواد محدثى
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
۲۱- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: مَنْ زارَ الحُسَيْن عليه السلام فى يَوْمِ عاشُورا وَجَـبَتْ لَهُ الْجَـنَّـةُ.
( وسائل الشيعه، ج 10، ص 372)
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص بھی عاشورہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے اس کے لئےبہشت اور جنت واجب ہو جاتی ہے۔
۲۲- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: اِذا بَعُدَتْ بِاَحَدِكُمُ الشُّـقَّةُ وَ نَأَتْ بِهِ الدّارُ فَلْيَصْعَدْ اَعْلى مَنْزِلِهِ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَؤُمَّ بِالسَّلامِ اِلى قُبُورِنا، فَاِنَّ ذلِكَ يَصِلُ اِلَيْنا. (من لا يحضره الفقيه، ج2، ص 599 )
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کے لئے (حج) مشکل و سخت اور باعث مشقت ہو اور ساتھ میں گھر بھی دور ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے گھر کی چھت پر جائے اور دو رکعت نماز پڑھےپھر ہماری قبرکی طرف رخ کر کے سلام بھیجئے، یقیناً اس شخص ِمؤمن کا سلام ہم تک پہنچے گا۔
۲۳- داود الصّرفى قال: قُلت لَهُ ـ يعنى ابَاالحَسَن ـ : اِنّى زُرْتُ اَباك وَ جَعَلْتُ ذلِكَ لَـكَ. فَقالَ: لَكَ مِنَ اللّهِ اَجْرٌ و ثَوابٌ عَظيمٌ وَ مِنّا الْمـَحْمِدَةُ. ( بحارالأنوار، ج 99، ص 256)
داود الصّرفى کہتے ہیں: میں نےان سے( اباالحسن یعنی امام كاظم عليه السلام)سےعرض کیا: میں نے آپ علیہ السلام کے والد گرامی کی قبر کی زیارت کی ہے اور اسےمیں نے آپ علیہ السلام کے لئے (یعنی آپ علیہ السلام کی طرف سےیا نیابت میں) قرار دی ہے۔توآنحضرت علیہ السلام نے فرمایا: تمہیں پروردگار عالم جزائے خیر اور عظیم ثواب عطاء فرمائے اور ہم بھی تمہاری(اس نیک عمل کے انجام دہی پر) ستائش اور شکریہ اداءکرتے ہیں۔
۲۴- قالَ الصّـادِقُ عليه السلام: اِذا زُرْتَ فَزُرِ الأَخْيـارَ وَلاتَزُرِ الْفُجّـارَ، فَاِنَّـهُمْ صَـخْرَةٌ لا يَنْـفَجِرُ ماؤُها وَ شَـجَرَةٌ لا يَخْضَرُّ وَرَقُـها وَ اَرْضٌ لا يَظْهَرُ عُشْبُها. (مستدرك سفينة البحار، ج 4، ص 353)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جب بھی تم زیارت کرو تو اخیار یعنی نیک و صالح کی زیارت کےلئے جاؤ اورفُجّاریعنی بدکاروں اور بدکاروں کی زیارت مت کرنا، کیونکہ وہ پتھر کی چٹان ہیں جس سے پانی ابلتا نہیں ہے اور ایسا درخت ہے جس کے پتے ہرے نہیں ہوتے اور وہ ایسی زمین ہےجس کی سبزہ اورگھاس بوس نظر نہیں آتی۔
۲۵- قالَ رَسُـولُ اللّه صلي الله عليه و آله: مَنْ زارَ الْحَسَنَ فى بَقـيعِهِ ثَبَتَ قَدَمُهُ عَلَى الصِّراطِ يَوْمَ تَزِلُّ فيهِ الأَقْدامُ. ( بحارالأنوار، ج 97، ص 141)
رسول اكرم صلي الله عليه و آله وسلم نے فرمایا: جو شخص امام حسن عليه السلام کی بقيع میں زیارت کرے گا، جس (قیامت کے)دن ان کے قدم پل صراط سے پھسل جائیں گے، اس کے قدم ثابت ہوں گے۔
۲۶- قُلتُ لِلرِّضا عليه السلام : ما لِمَنْ زارَ اَباكَ؟ قـالَ عليه السلام : لَـهُ الْجَنـَّةُ فَـزُرْهُ.
(سفينة البحار، ج 1، ص 565)
(ابن سنان سے نقل ہے کہ میں نے حضرت رضا عليه السلام سے عرض کیا: جو شخص آپ کے والد گرامی(امام كاظم عليه السلام) کی زیارت کرے اس کےلئےکیا ثواب ہے؟)
توحضرت رضا عليه السلام نے فرمایا: اس کے لئے جنت ہے، پس اس کی زیارت کرو۔
۲۷-قالَ الرِّضا عليه السلام: لا تَنْقَضى الأيّامُ وَ اللَّيالى حتّى تَصيرَ طُوسُ مُخْتَلَفَ شيـعَتى وَ زُوّارى، اَلا فَمَنْ زارَنى فى غُرْبَتى بِطُوسَ كانَ مَعى فى دَرَجَتى يَوْمَ الْقـيامَةِ مَغْـفُورا لَهُ. (بحارالأنوار، ج 99، ص 39)
امام رضا عليه السلام نے(دِعْبِل بْن عَلی خُزاعی سے) فرمایا: دن اور راتیں نہیں گزریں گی مگر شہرطوس (مشہدمقدس)میرے زائرین،شيعوں اور چاہنے والوں کی محلِّ رفت و آمد نہ بن جائے۔
آگاہ ہوجاؤ! پس جو بھی شہر طوس(مشہدمقدس) میں میری غربت(جلاوطنی ،عالم غربت، وطن سے دور) کے دوران میری زیارت کرے گا، قیامت کے دن وہ شخص میرے ساتھ (یعنی اس کامرتبہ امامت کے برابر)ہو گا اور اسے بخش دیا جائے گا۔
۲۸-قالَ الامامُ الْعَسْكَرى عليه السلام: قَبْـرى بِسُـرَّ مَنْ رَأى اَمانٌ لاِهْـلِ الْجـانِبَيْنِ.
(بحارالأنوار، ج 99، ص 59)
امام حسن عسكرى عليه السلام نے فرمایا: سامرّا میں میری قبر دونوں جانبین کے لوگوں (عامہ و خاصہ یعنی :شیعہ اور سنی) کے لئےامن وامان اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔
۲۹-قالَ الصّـادقُ عليه السلام:اِنَّ لِلّهِ حَرَما وَ هُوَ مَكَّةُ وَ لِرَسُولِهِ حَرَما وَ هُوَ الْمَدينَةُ و لِأميرِالمُؤْمِنينَ حَرَما وَ هُوَالْكُوفَةُ وَلَناحَرَماوَهُوَ قُم، وَسَتُدْفَنُ فيهِ اِمْرَأةٌ مِنْ وُلْدى تُسَمّى فاطِمَةُ مَنْ زارَهاوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ (بحارالأنوار، ج 99، ص 267)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا:پروردگار عالم کےلئے ایک حرم ہے وہ «مكّه» ہے، رسول خدا (ص)کےلئے ایک حرم ہے وہ«مدينه منورہ» ہے اور امیر المؤمنین علیہ السلام کےلئے ایک حرم ہے وہ «شہرمقدس كوفه» ہے۔
اور ہم اہل بیت(ع) کےلئے ایک حرم ہے وہ «شہر مقدس قم» ہے۔
عنقریب میری اولاد میں سے ایک خاتون «بنام فاطمه» کو اس شہر مقدس میں دفن کیا جائے گا اور جو کوئی اس خاتون «بنام فاطمه» کی زیارت کرے گا اس کے لئے بہشت اورجنت واجب ہو جائے گی۔
۳۰-قالَ الامامُ الهادى عليه السلام: لَوْ اَنَّكَ زُرْتَ قَبْرَ عَبْدِ الْعَظيمِ عِنْدَكُمْ لَكُنْتَ كَمَنْ زارَ الحسينَ بْنَ عَلىٍّ عليهماالسلام. ( بحارالأنوار، ج 99، ص 268)
( شہر«رى» (تہران)کے لوگوں میں سےایک شخص امام محمد تقی الهادى عليه السلام کی زیارت کو پہنچے)
تو امام هادى عليه السلام نے اس شخص سے پوچھا: تم کہاں تھے؟اس شخص نے عرض کیا(مولا): امام حسین علیہ السلام کی زیارت کےلئے گیا ہوا تھا۔
تو اس وقت حضرت امام ہادی علیہ السلام نے اس سے فرمایا: آگاہ اور ہوشیار رہیں! شاہ عَبْد الْعَظيمِ حسنی کی قبر جو تمہارے شہر(رى یعنی تہران) میں موجود ہے اس کی بھی زیارت کیا کریں تو ایسا ہے جیسے حسين بن على عليهماالسلام کی (کربلاء معلی میں)زیارت کی ہو (یعنی شاہ عبد العظیم حسنی جن کی قبر مطہر شہر تہران میں ہےان کی زیارت کا ثواب ایسا ہے جیسے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ہے)۔
۳۱- قالَ الصّـادقُ عليه السلام: مَنْ تَرَكَ زيارَتَهُ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلى ذلِكَ قَدْ عَقَّ رَسُولَ اللّهِ صلي الله عليه و آله وَ عَقَّنا۔ (سفينة البحار، ج 1، ص 564 )
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جس نے اس(امام حسين عليه السلام )کی زیارت کو ترک کیا، جبکہ وہ شخص زیارت کی طاقت اورقدرت رکھتا ہے، (اس کے باوجود زیارت کو ترک کرے)پس اس نے رسول خدا (ص)اور ہم اہل بیت(ع) کے ساتھ عاق(نافرمانی) کی۔
۳۲-قالَ الصّادِقُ عليه السلام: اِذَا انْصَرَفَ الرَّجُلُ مِنْ اِخْوانِكُمْ مِنْ زِيارَتِنا اَوْ زِيارَةِ قُبُورِنا فَاسْتَـقْبِلُوهُ وَ سَلِّمُوا عَلَيْهِ وَ هَنِّئُوهُ بِما وَهَبَ اللّهُ لَهُ فَاِنَّ لَكُمْ مِثْلَ ثَوابِهِ. (بحارالأنوار، ج 99، ص 302)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جب بھی تمہارا کوئی دینی بھائی ہم (اہل بیت علیہم السلام)کی زیارت سے یا ہمارے قبور کی زیارت سے واپس آئے تو اس شخص کی استقبال اوراسے خوش آمدید کہنے جاؤ اور اسے سلام و تبريك و تهنيت اور مبارکباد دو،
اس تحفے کی عوض جو پروردگار عالم نے اس زائر(ہماری زیارت کرنےوالے) کو دیا ہے۔
درحقیقت، اس شخص کےلئےوہی اجرو ثواب ملے گا جو اس زیارت کرنے والے کو اللہ تعالی عطا کرےگا
(گویازائر کی استقبال کرنا، سلام و مبارک باد دینے کا اتنا ثواب ملے گا جیسے اس زیات کر نے والے کو ملتا ہے).
۳۳-قالَ الصّـادِقُ عليه السلام: مَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ اَنْ يَزُورَ قُبُورَنا فَلْيَزُرْ قُبُـورَ صُـلَحاءِ اِخْوانِنـا. (بحارالأنوار، ج 74، ص 311)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: جو شخص ہماری(ہم اہل بیت علیہم السلام کی) قبروں کی زیارت نہیں کر سکیں تو اسے چاہیے کہ ہمارے صُلَحاء(صالح )اور نیک بھائیوں کی قبروں کی زیارت کرے۔
۳۴-قالَ الصّـادِقُ عليه السلام: زُورُوا مَوْتاكُمْ فَاِنَّهُمْ يَفْرَحُونَ بِزيارَتِكُمْ، وَلْيَطْلُبِ الرَّجُلُ حاجَتَهُ عِنْدَ قَبْرِ اَبيهِ وَ اُمِّهِ بَعْدَ ما يَدْعُو لَهُـما۔ (بحارالأنوار، ج 10، ص 97)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: اپنے مردوں کی قبور کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہاری زیارت سے خوش ہوتے ہیں۔ اور ہر شخص کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے والدین (والدین کی حقّ)کے لئے دعاء کرے اس کے بعد اپنی حاجتیں اپنے (خداوند سے مگر واسطہ والدین کو قرار دیکر) والد اور والدہ کی قبروں پر دعاءکریں۔
۳۵-قالَ الصّـادِقُ عليه السلام: تَزاوَرُوا، فَاِنَّ فى زِيارَتِكُمْ احياءً لِقُلُوبِكُمْ وَذِكْرا لِأَحاديثِنا وَ اَحاديثُنا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ. (بحارالأنوار، ج 71، ص 258)
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: (اے ہمارے شیعو!تم)ایک دوسرے کی زیارت کو جایا کرو، بے شک تمہاری ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات کرنےسےہماری (اہل بیت علیہم السلام)کی احاديث اورنورانی کلمات کی یاد آوری اورتمہارے دل زندہ ہو جائیں گے اوریاد رکھنا !ہماری احادیث کی وجہ سے تمہارے درمیان عطوفت و محبت اور پیار و آشتی بڑھے گی۔
۳۶- عَنْ محمد بن مسلم، قلتُ لأبى عبدالله عليه السلام: نَزُورُ الْمَوْتى فقالَ: نَعَم قُلْتُ: فَيَعْلَمُونَ بِنا اِذا اَتَيْناهُمْ؟
قالَ: اى وَاللّهِ لَيَعْلَمُونَ بِكُمْ وَ يَفْرَحُونَ بِكُمْ وَ يَسْتَأْنِسُونَ اِلَيْكُمْ. (مستدرك سفينة البحار، ج10، ص 457)
محمد بن مسلم کہتے ہیں: میں نے ابو عبدالله ، امام صادق عليه السلام سےعرض کی: (مولا) کیا ہم مردوں کی زیارت کے لئے جائیں؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں۔
میں نےآپ عليه السلام سےدوبارہ عرض کی: مولا، جب ہم ان کے قبور کےپاس جاتے ہیں تو کیا وہ ہماری طرف متوجّه ہوتے ہے یا ہمیں دیکھتے ہیں ؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں بلکل، خدا کی قسم، وہ تمہارے آنے کو سمجھتے اور دیکھتے ہیں اور متوجّه بھی ہوتے ہےنیز خوش ہوتے ہیں اور تم سے انس و محبت بھی کرتے ہیں۔
۳۷-قالَ رَسُـولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله: مَنْ زارَ اَخاهُ فِى اللّهِ قالَ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ: اَنْتَ ضَيْفى وَ زائِرى، عَلَىَّ قِراكَ وَ قَدْ اَوْجَبْتُ لَكَ الْجَنَّةَ بِحُبِّكَ اِيّاهُ. (وسائل الشيعه، ج 10، ص 457)
حضور اكرم صلي الله عليه و آله وسلم نے فرمایا: جوبھی شخص اپنے برادر دينى سے خلوص ِنیت (قربتا الی اللہ)کے ساتھ ملاقات یا زیارت کرے گا، تو خداوندومتعال اس سے فرمائے گا: (اے میرے بندے)تم میرے مہمان اور زائر ہے، پس اب تمہاری پذیرائی کرنامیرے اوپر فرض ہے اور تمہارے اپنے دینی بھائی سے محبت کرنے کی وجہ سے، میں نے تم پر بہشت کو واجب کر دی
۳۸-قالَ عَـلىٌّ عليه السلام: لِقاءُ اَهْلِ الْخَيْرِ عِمارَةُ الْقَلْبِ. ( بحارالأنوار، ج 74، ص 208)
حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:نیک و صالح لوگوں سے ملنا اور ملاقات کرنا دل کی آبادی ،خوشحالی اورمسرت کاباعث ہے
۳۹-قالَ رَسُـولُ اللّهِ صلي الله عليه و آله: اَلزِّيـارَةُ تُنْـبِتُ الْمَـوَدَّةَ. (بحارالأنوار، ج 71، ص 355)
رسول خدا صلي الله عليه و آله وسلم نے فرمایا: زيارت کرنا، مودّت ،محبت اور دوستی کا باعث بنتاہے۔
۴۰- عَـنِ الْعَسْكَرى عليه السلام: عَلاماتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ: صَلاةُ الْخَمْسينَ وَزِيارَةُ الأَرْبَعينَ وَالتَّخَتُّمُ فِى الْيَمينِ وَ تَعْفيرُ الْجَبينِ وَ الْجَهْرُ بِبِسمِ اللّهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ. ( وسائل الشيعه، ج10، ص 373)
امام حسن عسكرى عليه السلام نے فرمایا: مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں: ۱-پچاس رکعت نماز پڑھنا (واجب و مستحب نمازیں)
۲- اربعین(چہلم کے روز) کی زیارت کرنا
۳-داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا
۴- پیشانی کو(تربت ،مٹی، خاک کربلاء ۔۔۔)سجدے میں زمین رکھنا
۵- بِسمِ اللّهِ الرَّحمنِ الرَّحيمِ کو(نماز میں)بلند آواز سے پڑھنا۔