اصحاب کے بارے میں قرآنی تصور
اصحاب کے بارے میں قرآنی تصور :
اصحاب کے بارے میں صحیح اور کامل نظریہ کی حصول کے لئے چند اہم نکات کی طرف توجہ ضروری ہے ۔
1 :
اصحاب کی شناخت کے لئے سب پہلی چیز قرآن مجید ہے،دوسرے نمبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحیح سند احادیث، تیسرے نمبر پر اصحاب کی سیرت اور ان کی تعلیمات اور ان کا اپنے اور دوسرے اصحاب کے بارے میں نظریہ ہے۔
2 :
اصحاب کے بارے میں کسی نظریہ کو قرآنی نظریہ کہنا اس وقت صحیح ہے کہ جب ان کے بارے میں موجود ساری آیات کو سامنے رکھ کر کوئی نظریہ پیش کرئے۔ صرف فضائل والی آیات کو دیکھنا اور اصحاب سے متعلق دوسری آیات سے چشم پوشی کرنے سے اصحاب کے بارے میں ناقص نظریہ سامنے آئے گا۔
جو لوگ اصحاب کے فضائل اور منزلت کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ لوگ فضائل سے متعلق قرآنی آیات کو ہی سامنے رکھتے ہیں اور ان آیات سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سارے اصحاب سے خدا راضی اور خوشنود ہیں، انکے گذشتہ گناہوں کو خدا نے معاف کیا ہے ۔ خدا نے انہیں بہشت کا وعدہ دیا ہے ۔لہذا ہمیں ان کے بارے میں نقد و تحقیق کرنے کا حق نہیں ہیں۔ ہم اصحاب کی عدالت اور وثاقت سےبحث نہیں کرسکتے ،جرح و تعدیل کے قانوں سے اصحاب مستثنی ہیں۔ ہم اصحاب کے کاموں کے بارے میں چانچ پڑھتال نہیں کرسکتے ۔
3 :
اصحاب کے فضائل کو بیان کرنے والی آیات سارے اصحاب کے بارے میں نہیں ہے ۔
جیساکہ ۔
وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنصَارِ وَ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضىِ اللَّهُ عَنهْمْ وَ رَضُواْ عَنْهُ وَ أَعَدَّ لهَمْ جَنَّاتٍ تَجْرِى تحَتَهَا الْأَنْهَرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَالِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(التوبه 100) ۔
یا مثلا آیت ’’ لَّقَدْ رَضىِ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تحَتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فىِ قُلُوبهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيهْمْ وَ أَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا(سورہ فتح 18)
یہ آیات صرف دو فیصد اصحاب کے بارےنازل ہوئی ہیں کیونکہ بیعت رضوان میں حاظر اصحاب کی حد اکثر تعداد ۱۴۰۰ نقل ہوئی ہے[ روح المعانی۔ج ۲۶ ص ۱۰۷] جبکہ اصحاب کی تعداد ایک لاکھ بتائی گئی ہے[ اسد الغابہ ۔ج ۱ ص۲]
5۔۔
کسی ایک گروہ کی مدح و ستائش اور فضیلت بیان کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مطلب اس گروہ میں موجود تمام افراد کے لئے فردا فردا بھی ثابت ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک گروہ کی مجموعی طور پر مدح کی جاے لیکن اس میں بعض افراد اس کا مصداق نہ ہو ؛مثلا ہم کسی کتاب کی مدح اور ستائش کرتے ہیں لیکن اسکا مطلب اس کتاب کے سارے مطالب کا درست اور واقع کے مطابق ہونا نہیں ہے ۔جیساکہ صحیح بخاری اور مسلم کی کتنی مدح کی گئی ہیں لیکن مدح کرنے والوں کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے مصنفین معصوم ہوں اور کوئی غلط روایت ان کتابوں میں نہ ہو۔ یہی حال اصحاب کی مدح کا بھی ہے ۔
مثلا :
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سيماهُمْ في وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْراةِ وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوي عَلي سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيماً. الفتح / 29.
آیت میں موجود صفات کو دیکھ کر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جن جن کو بھی صحابی کہا ہے وہ سب اس آیت کا مصداق ہیں ۔ مثلا یہ کہے کہ : صحابی آپس میں رحم دل تھے ،ان کے درمیان کوئی عداوت اور دشمنی نہیں تھی ،ان کے درمیان جنگیں نہیں ہوئی ہیں۔۔۔سارے اصحاب شب زندہ دار ،زاہد اور پرہیزگار تھے ۔۔۔
6۔۔ اللہ نے کسی آیت میں اصحاب کو معصوم عن الخطا اور معصوم عن المعصیت قرار نہیں دیا ہے ،کہیں پر بھی یہ ضمانت نہیں دی ہے کہ اصحاب کبھی گناہ نہیں کریں گے ۔ انہیں گناہوں سے محفوظ ہونے کی کوئی ضمانت قرآن میں موجود نہیں ہے۔
جیساکہ قرآن کی بہت سی آیات میں انہیں گناہ ،فتنہ فساد اور کفر کی طرف پلٹنے سے منع کیا ہے اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا ہے ۔لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی کو نہ عصمت کی ڈگری ملی ہے نہ معصیت اور نافرمانی کی صورت میں کھلی چھوٹ اور جنت کی ٹکٹ دی ہے ۔۔۔
7: کسی فضیلت کے ثابت ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ یہ فضیلت کسی قید اور شرط کے بغیر ہمیشہ کے لیے ثابت ہو مثلا اللہ نے اصحاب کے ایک کام کی وجہ سے ان پر رضایت کا اعلان کیا ہو تو ہمیشہ کے لئے اللہ کی رضایت ان کے لئے ثابت ہو ۔چاہئے وہ بعد میں جو بھی کام انجام دئے اللہ پھر بھی اس پر راضی یو۔۔
بعنوان مثال اصحاب میں سے کوئی کافر یا مرتدد ہو گیا ہو تو پھر بھی یہ فضیلتیں اس کے لئے ثابت ہوں ۔۔۔۔۔
جیساکہ
۱۔۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلىَ نَفْسِهِ وَ مَنْ أَوْفىَ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا(سورہ فتح۔10)
۲: وَ الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَ يَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَ يُفْسِدُونَ فىِ الْأَرْضِ أُوْلَئكَ لهَمُ اللَّعْنَةُ وَ لهَُمْ سُوءُ الدَّارِ( الرعد ۔25)
۳۔۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (آلعمران۔110)۔
پہلی والی آیت میں فضیلت کو بیعت نہ توڑنے کے ساتھ مشروط کیا ہے دوسری آیت میں عہد و پیمان کے توڑنے کی صورت میں ان پر لعن اور انہیں درد ناک عذاب کی دھمکی دی گئی ہے ۔ تیسری آیت میں بہترین امت ہونے کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے کے ساتھ مشروط کیا ہے ۔ یہی حال باقی فضائل کا بھی ہے کہ جب تک ان فضائل کے حاصل ہونے کی علتیں حاصل ہوں یہ فضیلتیں بھی انکے لئے ثابت رہے گی ۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک دفعہ یہ فضائل حاصل ہوں تو پھر ان فضائل سے کبھی محروم نہ ہوں ۔ جیساکہ قرآن کی دوسری آیات اس کی نفی کرتی ہیں ۔
۳۔۔ وَ مَا محُمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَ فَإِيْن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلىَ أَعْقَابِكُمْ وَ مَن يَنقَلِبْ عَلىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضرُّ اللَّهَ شَيْا وَ سَيَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرِينَ [آل عمران: 144]
۴۔۔ يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتىِ اللَّهُ بِقَوْمٍ ۔۔۔۔۔(54 المائدہ)
۵۔۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (آل عمران 149)
۶۔۔ وَ لَا تَكُونُواْ كاَلَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَ اخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَ أُوْلَئكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ( 105- ال عمران )
۷۔ وَ اتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصيبَنَّ الَّذينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَديدُ الْعِقابِ(الأنفال 25 )
ان آیتوں میں اس بات کی طرف (ص) اشارہ ہے کہ بعض اصحاب ممکن ہے دین اسلام کو چھوڑ کر کافر و مرتدد ہو جائے اگر یہ امکان نہ ہوتا تو اس طریقہ سے خطاب نہ ہوتا اور یہ خطاب اور امکان ان لوگوں کے لئے ہیں کہ جنہوں نے جنگ احد وغیرہ میں حصہ لیا ۔ ان آیات کے مخاطب معمولی افراد نہیں تھے انکا شمار سابقین اور اولین میں ہوتے ہیں ۔
۶۔۔ يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ مَا لَكمُ إِذَا قِيلَ لَكمُ انفِرُواْ فىِ سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلىَ الْأَرْضِ۔۔۔۔ قَلِيلٌ(38)
۷۔۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَ كَرِهُواْ أَن يجُاهِدُواْ بِأَمْوَالهِمْ وَ أَنفُسِهِمْ فىِ سَبِيلِ اللَّه۔۔َ( توبه81)
۸۔۔ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الاَخِرَةَ ۔۔۔(۔152 آل عمران)
۹۔۔ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الجْمْعَانِ إِنَّمَا اسْتزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ ۔۔۔( آل عمران 155)
۱۰۔۔ إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا (الأحزاب10)
۱۱۔۔ وَ إِذَا رَأَوْاْ تجِرَةً أَوْ لهَوًا انفَضُّواْ إِلَيهْا وَ تَرَكُوكَ قَائمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيرْ مِّنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ وَ اللَّهُ خَيرْ الرَّازِقِينَ(11جمعه)
12-- يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرْفَعُواْ أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبىِ وَ لَا تجَهَرُواْ لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تحَبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ( حجرات-2)
13--" إِن تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا" (التحريم 4)
۱۴۔۔ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ ناراً خالِداً فيها وَ لَهُ عَذابٌ مُهينٌ (14 النساء)
إِذْ تُصْعِدُونَ وَ لا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ وَ الرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ في أُخْراكُمْ فَأَثابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ وَ لا ما أَصابَكُمْ وَ اللَّهُ خَبيرٌ بِما تَعْمَلُونَ (153)
جیساکہ اس قسم کی آیات میں سے پہلی اور دوسری آیہ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اصحاب میں سے بعض عملا جہاد سے دوری اختیار کرتے تھے اور اسی بنا پر عذاب کی دھمکی دی گئی ، دوسری آیت میں اصحاب کو دو گروہ میں تقسیم کیا ہے ایک گروہ کو دنیا کا دلدادہ کہا گیا ۔ تیسری آیہ میں جنگ احد کے دوران بھاگنے والوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ کہا اعمال کی وجہ سے شیطان نے انہیں گمراہ کیا ہے ۔
چنانچہ یہ بھاگنے والے معمولی اصحاب نہ تھے بعض نے ان بھاگنے والوں میں سے خلفاء الثلاثہ کا نام بھی نقل کیا ہے ۔
چوتھی آیت میں عملا اصحاب کے دنیوی اور لہو کاموں کو نماز جمعہ پر ترجیح دے کر رسول خدا کو خطبہ کی حالت میں تنہا چھوڑنے کو بیان کیا ہے ۔
پانچوی آیت میں شان نزول کے مطابق خلیفہ اول اور دوم کو پیغمبر کی آواز سے بلند آواز نکالنے کی صورت میں گذشتہ اعمال کے ضائع ہوجانے کی دھمکی دی گئی ہے۔
{ شرح مشكل الآثار [1 /310] صحيح البخاري [6 /2662] مسند أحمد بن حنبل [4 /6]جامع الأصول في أحاديث الرسول [2 /360}
چھٹی آیت میں جناب عایشہ اور حفصہ کے دلوں کے منحرف ہونے کی تصریح ہوئی ہے ۔
{مسند أحمد بن حنبل [1 /48]صحيح البخاري [4 /1868] مسند الفاروق لابن كثير [2 /617}
آخری آیت میں صریحا یہ بات موجود ہے کہ جو بھی خدا اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے اسکا ٹھکانہ جہنم اور وہ درد ناک عذاب کا مستحق ہوگا [ اب اس میں فرق نہیں کہ نافرمانی کرنے والے کا تعلق اصحاب سے ہوں یا غیر اصحاب میں سے۔۔۔
لہذا قرآن کی کسی آیت میں کسی صحابی کو معصوم نہیں کہا ہے ۔ کسی آیت میں تمام اصحاب کے عادل ہونے پر تصریح نہیں ہے ، قرآن کی کسی آیت میں تمام اصحاب کے جنتی ہونے کو بغیر قید و شرط کے بیان نہیں کیا ہے ۔ قرآن کی کسی آیت میں اصحاب کے سارے کاموں کے صحیح ہونے پر تصریح نہیں ہے ۔ قرآن کی کسی آیت میں سارے اصحاب کو خطا سے محفوظ نہیں کہا ہے ۔
اصحاب سے متعلق آیات کو دیکھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اصحاب کی جو فضیلتیں آیات میں بیان ہوئی ہیں یہ آیات بغیر کسی قید اور شرط کے تمام اصحاب کے ہمیشہ عادل ہونے ، خطا سے پاک ہونے ، ہر حالت میں خدا کی مغفرت کا مستحق ہونے اور ہر صورت میں ان کے بہشتی ہونے کو بیان کرتی ہیں ۔
اصحاب کے بارے میں موجود ساری آٰیات کو سامنے رکھے تو کم از کم بعض اصحاب کے بارے میں یہ احتمال دینا درست ہے کہ اصحاب میں سے بعض رسول اللہ (ص) کی نافرمانی کرتے تھے آپ کے فرمان کے آگے سو فیصد سر تسلیم خم نہیں تھے ۔
جیساکہ آپ کی نافرمانی کی صورت میں عذاب کے مستحق ہونے کو بیان کرنے والی آیات غیر اصحاب کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ۔
ہر صورت میں تمام اصحاب کو عادل اور جنتی سمجھنا اصحاب کے بارے میں قرآن کا پیش کردہ تصور نہیں ہے ۔بلکہ اپنے مکتب اور مذھب سے دفاع کے لئے مجبوری میں بنایا گیا ایک نظریہ ہے کہ جو نہ قرآن و سنت کے مطابق ہے نہ اصحاب کی سیرت اور ان کی تاریخ کے مطابق ہے۔ نہ عقل و منطق کے مطابق ہے ۔۔۔۔۔
لہذا جو نظریہ اصحاب اپنے بارے میں نہیں رکھتے تھے بعد میں ان کے نام سے غلط فائدہ اٹھانے والوں نے خود کو اصحاب کے جیالے اور اصحاب کے حامی کے طور پر پیش کرنے کے لئے ایسا نظریہ اپنایا ۔۔۔ تاکہ اپنے مخالفین کے خلاف زبان درازی کی راہ ہموار کرسکے ۔۔۔۔۔۔
عجیب بات ہے ۔۔۔۔۔۔
بعض اپنے کو اصحاب سے زیادہ دین شناس اور قرآن شناس سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ کیونکہ شیعہ مخالفین کا اصحاب کے بارے میں مخصوص نظریہ اگر قرآنی نظریہ ہوتا تو اصحاب خود اپنے اور خود ایک دوسرے کے بارے میں ایسا نظریہ اپناتے کیا شیعہ مخالفین اصحاب سے زیادہ قرآن شناسی کا ادعا کرتے ہیں ۔۔۔۔؟؟