امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر ایک دلچپ مناظرہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

حق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر ایک دلچپ مناظرہ ۔۔۔۔۔ممتاز قریشی اور محمد  دلشاد۔۔

حق حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر ایک دلچپ مناظرہ ۔۔۔۔۔ممتاز قریشی اور محمد دلشاد۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

           ایک طویل مناظرے کی جھلکیاں    {پہلا حصہ }

 

.... تین گمان ایک یقین...

 

موضوع  : حق زہرا سلام اللہ علیہا .

مناظر...

شیعہ  :   محمد دلشاد.

سنی  :   ممتاز قریشی

مدعی ... شیعہ مناظر..

مدعی علیہ: سنی مناظر

نوٹ : { مناظرہ تین مرحلوں میں ہونا تھا ،سنی مناظر نے بحث کے پہلے مرحلے کو الف  اور ب میں تقسیم کیا اور بحث کے دوران پہلے مرحلے کے الف کی بحث ختم ہونے کا اعلان کیا اور پورے مناظرے کا ایک خلاصہ لکھا اور شیعہ مناظر کے جوابات پر توجہ دئے بغیر اپنی طرف سے ایک نتیجہ نکالا تو شیعہ مںاظر نے اس تحریر کے جواب میں یہ تحریر پیش کی اور سنی مناظر کے غلط بیانی اور غلط نتیجہ گیری کا جواب دیا  }

شیعہ مناظر کا  ادعا

الف.   : حضرت  فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی طرف سے خلفاء سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا.. مطالبہ منظور نہ ہوا تو ناراض  و غضبناک ہونا اور ان سے مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے جانا .نماز جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دینا .مولا  علی علیہ السلام  کی طرف سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا، کے موقف کی مکمل حمایت .....

.... یہ ساری باتیں صحیحین میں ہیں..

 ب  : یہ باتیں حقیقت پر مبنی ہیں  اور جناب فاطمہ  سلام اللہ علیہا ،خلفاء کو اپنے شرعی حق سے محروم  کرنے والے سمجھتی تھیں اور اسی نظریے کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں۔  یہ سارے واقعات رسول اللہ {ص} کے بعد رونما ہوئے ہیں۔ یہ سب جھوٹی خبر نہیں ہے ،کوئی ان کو کسی راوی کی رائے پر حمل کرکے حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ راوی نے ایسے واقعے کی خبر دی ہے جو رونما ہوچکا تھا۔

 ج   : جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  اور مولا  علی علیہ السلام  کا موقف حق پر مبنی  تھا...

وعدہ ایک ایک مرحلے  پر  ترتیب سے علمی گفتگو ..

مدعی علیہ..{ سنی مناظر}

....ناراضگی نہیں ہوئی تھی خلیفہ کی طرف سے حدیث (نحن  معاشر الانبیاء .....) سے استدلال کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  خاموش ہوگئیں  تھیں.. اور معاملہ اسی وقت ختم ہوا تھا...

شیعہ مناظر..

آپ کا مدعا  آپ کی صحیحین کی واضح روایات کے خلاف ہے  ..

دیکھیں نمونے کے طور پر.. بخاری کی حدیث... ۔

3093 - فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ » . فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - سِتَّةَ أَشْهُرٍ . قَالَتْ وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنْ خَيْبَرَ وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا .............{ صحيح البخارى  57 - فرض الخمس ۔ باب ۱ باب فرض الخمس  3093}

جناب عائشہ نقل کرتی ہے : ۔۔۔۔ فاطمه نے ابوبكر سے اپنے والد کی ميراث کا مطالبه کیا تو ابوبكر نے کہا : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے : ہم انبیاء کوئی چیز ارث چھوڑ کر نہیں جاتے ،جو چھوڑے جاتے ہیں وہ صدقه ہے، فاطمه غضبناك ہوئیں اور ابوبکر کے ہاس سے ناراض ہوکر چلی گئیں اور دنیا سے جانے تک اسی حالت میں رہیں ۔ آپ رسول اللہ ص کے بعد چھے ماہ تک زندہ رہیں۔ اور آپ مطالبہ کرتی رہیں۔۔۔۔۔۔

اب یہ تو صحیح سند روایت کا حصہ ہے اور سب کچھ واضح ہے.

 

سنی مناظر

ایسا نہیں ہے .یہ باتیں تو صحیحین میں ہیں لیکن حقیقت پر مبنی نہیں ہیں ، بلکہ ایک راوی کا گمان ہے، جو ہمارے لیے حجت نہیں ہے .

 دلیل..

الف.. ناراضگی یا الفاظ سے ثابت ہوتی ہے یا چہرے سے.. سیدہ کے الفاظ بھی نہیں اور راوی امام زھری اس واقعے کے عینی شاہد بھی نہیں. لہذا سیدہ کا چہرہ تو اس نے نہیں دیکھا...

امام زہری کے علاوہ کسی اور طریق سے یہ ثابت نہیں ہے..

لہذا یہ اس کا ادراج اور گمان ہے...جیساکہ امام بہیقی نے اس طرف اشارہ کیا ہے....

ب:  اس پر اور بھی شواہد موجود ہیں. صحیح نظریہ دوسرے شواہد کو سامنے رکھ کر رکھ ہی حاصل کیا جاتا  ہے..

ج : راوی کا گمان حجت نہیں ہے ..

 د : کیا جناب سیدہ، رسول اللہ {ص} کے فرمان کی مخالفت کرسکتی ہیں ؟؟

فدک کا فیصلہ تو خود رسول پاک {ص} کر کے گیے تھے،شیعہ فرمان رسول {ص} کا ذکر کیوں نہیں  کرتے ہیں  ؟ ادھا سچ ،ادھا جھوٹ کیوں ؟ یہ عوام کے لئے دھوکہ دھی ہے۔

ھ :  شیعوں کے ہاں بھی اسی قسم کی حدیث ہے .,شیعہ تو عورت کے لیے  زمین کی وراثت کے قائل ہی نہیں ان کے ہاں اس سلسلے میں صحیح سند احادیث موجود ہیں...

لہذا اھل سنت کا نظریہ ثابت ہوا..۔

 شیعہ مناظر.

  .... میں نے مسلک ادراجی گمانی  کا رد , امام زہری کی روایت پر اشکال کے جواب کے عنوان سے پیش کیا اور جواب کے  چار حصوں میں 20 کے قریب دلائل پیش کیے ...اور یہ ثابت کردیا کہ ادراج نام کی کوئی چیز نہیں , اگر ادراج ہو بھی ,پھر بھی  سب حقیقت پر مبنی ہے  اور راوی نے غلط بات نقل نہیں کی ہے......

اس پر اسی روایت کے اندر اور اس سے باہر بہت سے شواہد موجود ہیں..

.... جیساکہ مناظر کے جواب سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے میرے مطالب کا یا مطالعہ نہیں کیا ہے ..یا مطالعہ کیا ہے لیکن جواب نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ہی سوالات دہرانے میں اور ایک دو شبھات اٹھاتے رہنے میں مصلحت دیکھی ہے،  تاکہ اصل موضوع کا  ناظرین کو پتہ ہی نہ چلے اور اپنے کمزور دلائل پر پردہ ڈال سکے...

 

لیکن مناظر کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے ہی بعد میں ایسے مطالب اپنے مدعا کی دلیل کے طور پر شیئر کیا، کہ جو اس کے اپنے موقف کا رد اور موصوف کے اپنے مدعا کے سست ہونے کی دلیل ہیں..

اب کیونکہ موصوف نے خاص چالاکی سے بحث کا غلط نتیجہ نکالا لہذا ہم بھی دوستوں کی خاطر اور موصوف کی خام خیالی اور  غلط فھمی کو دور کرنے کی خاطر ... مکتب ادراجی کے رد پر اپنے دلائل کو  فہرست وار  اور مختصر انداز  میں پیش کرتے ہیں....

سب سے پہلے مسلک ادراج کی نفی کے دلائل اور پھر بعد میں بحث کے اس مرحلے سے متعلق شبھات کے جوابات.....

.... .ادراج کی نفی پر دلائل کا خلاصہ   

الف... عدم ادراج پر زہری کی حدیث کے اندر کے شواہد.

الف....بخاری کی جس روایت کو میں نے سند کے طور پر پیش کیا اس میں کہیں پر ادراج پر شاہد نہیں ہے..لہذا امام بخاری کی دقت نظر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے۔

 عجیب بات یہ ہے کہ صحیحین میں اس واقعے کو اسی زہری کے توسط سے ہی نقل ہے۔ اس واقعے کو نقل کرنے کے لئے صحیحین نے صرف زہری کے توسط سے روایت نقل شدہ روایات کا انتخاب کرنا ان کے نذدیک زہری کے اتقان اور اس کی روایت پر اعتماد کی دلیل ہے ۔  

ب..    جن لوگوں نے حدیث کے بعض نقلوں میں ایک( قال ) دیکھ کر ادراج کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، اس سے بھی ناراضگی ہی ثابت ہوتی  ہے ..

  جیساکہ امام بہیقی نے {و عاشت} کے بعد ادراج کا ادعا کیا ہے... جبکہ اسی مذکورہ روایت اور دوسری روایات میں( فغضبت یا وجدت ) و عاشت سے پہلے ہے...اسی بخاری کی حدیث میں ملاحظہ کریں { فَغَضِبَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَهَجَرَتْ أَبَا بَكْرٍ ، فَلَمْ تَزَلْ مُهَاجِرَتَهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ   ۔۔ و عاشت .

لہذا غضبت ، ادراج کو قبول کرنے کی صورت میں بھی ثابت ہے...لہذا امام بخاری  اور امام مسلم کے انتخاب اور ان کے انتخاب اور نقل احادیث میں دقت پر ایمان رکھنے والے کو صحیحین میں موجود ان احادیث کے مضمنون کو ٹھکرانے کی گنجائش نہیں ۔

....

 ۔۔۔اس سلسلے کا ایک اہم شاہد مسند ابوبکر کی روایت ہے..

  {قَالَتْ: فَهَجَرَتْهُ فَاطِمَةُ , فَلَمْ تُكَلِّمْهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى مَاتَتْ , فَدَفَنَهَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلًا , وَلَمْ يُؤْذَنَ بِهَا أَبُو بَكْرٍ )اب یہاں قال کا چکر بھی نہیں ہے، یہاں صاف ظاہر ہے کہ یہ راوی کا قول نہیں ہے بلکہ {قالت } جناب عائشہ کہہ رہی ہے کہ جناب فاطمہ ناراض ہوئیں اور مکمل بائیکاٹ کی حالت میں دنیا سے چلی گئیں اور جنازے میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔{ مسند أبي بكر الصديق (ص: 88):،المؤلف: أبو بكر أحمد بن علي الأموي المروزي (المتوفى: 292هـ)

.....

 اس سلسلے میں ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے فضغبت اور بعد کے جملوں کو راوی کا ادراج کہا ہے...لیکن اھل سنت کے  دوسرے محدثین نے بعد کے جملوں کو قالت کہہ کر نقل کیا ہے..یعنی خود جناب عائشہ کا قول ...

جیساکہ امام طبرانی اور خود امام بہیقی نے (قالت عائشة أن فاطمة عاشت)  نقل کیا ہے{ )المعجم الكبير 22/ 398 :.. سنن البيهقى 2/ 93(:

 اسی طرح روایت کے آخری حصے کو (و لم یاذن ابابکر ) کو المصنف میں عبد الرزاق نے (عن عائشہ ) کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی جناب عائشہ نے کہا کہ ابوبکر کو جنازے میں شرکت کرنے نہیں دیا....  .....دیکھیں { المصنف۔حدیث۔ ۶۶۶۰۔۔}

 اس سلسلے کی ایک اہم بات بخاری کی اسی حدیث میں جناب عائشہ کا (قالت کانت فاطمہ تسال ابابکر.....) کا جملہ ہے یعنی جناب عائشہ کہہ رہی ہے کہ جناب فاطمہ ع کی طرف سے مطالبہ اور خلیفہ کی طرف سے حدیث (نحن معاشر الانبیاء) سے استدلال کے باوجود معاملہ جاری رہا اور جناب فاطمہ ع نے مطالبہ جاری رکھا  ...

 اگر مسلک ادراجی کے قول کے مطابق معاملہ اسی حدیث کے سنانے سے ہی ختم ہوا تھا تو جناب عائشہ کو کہنا چاہیے تھا کہ فاطمہ ع خاموش ہوگیں اور راضی ہوکرچلی گئیں... جب کہ اس معاملے کے عینی شاہد کا یہ کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بعد بھی جاری رہا...

 اب ارباب انصاف کو خود ہی سوچنا چاہے کہ بخاری کی حدیث میں موجود اس (قالت کانت فاطمہ...اور مسند ابوبکر کی روایت کے مطابق سب ایک{ قالت} ہی کا تسلسل ہے... ) اب ان سب شواہد کے باوجود ایک مخصوص گروہ ایک (قال ) کو لے کر اس کو ایک راوی کا گمان کہنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں...؟؟

کیوں جناب عائشہ کی بات کو جو قالت سے شروع ہوتی ہے اس کو ایک راوی کا گمان کہہ کر رد کرتے ہیں....؟؟

یہ کیوں نہیںِ کہتے ہیں،  کہ یہ قال ممکن ہے کسی اور راوی کی غلطی ہو یا کسی نسخہ لکھنے والے یا نقل کرنے والے کی غلطی سے ذکر ہوا ہو اور اصل وہی جو امام بخاری کی مذکورہ روایت اور مسند ابوبکر کی روایت ہو....؟

کیوں اس قال کو زہری کے بعد کے کسی راوی کا گمان نہیں کہتے ...؟؟

کیا امام زہری کے لیے " قال اور قالت" دونوں فعلوں کا  استعمال کرنا صحیح ہے ؟؟

لہذا بلکل واضح ہے یہ ادراج نہیں ہے بلکہ روایت کا ہی حصہ ہے اور اس کے اصل راوی یعنی جناب عائشہ کے ہی الفاظ ہیں....

 ۔ موصوف کا علمی مقام دیکھیں ۔۔۔۔ ایک قابل توجہ بات :

یہاں اس کو جناب زہری کی گمان کہنا اسی لئے بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ تو اس وقت تھا ہی نہیں لہذا اس کے بارے {گمان ہوا } کہنا اور اس لفظ کا استعمال ہی صحیح نہیں۔مثلا جناب عائشہ کے بارے میں یہ کہنا ایک حد تک صحیح ہے کہ ان کو ایسا گمان ہوا جناب فاطمہ ناراض ہوئیں ۔{ جیساکہ اھل سنت کے بعض نے ایسا کہا بھی ہے } یا خلیفہ دوم کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں حضرت علی ع کے طریقہ کار سے یہ گمان ہوا کہ آپ انہیں جھٹلاتے ہیں لہذا کہا {رایتمانی کاذبا ،غادرا۔۔۔۔} ۔جیساکہ نقل ہوا کہ جب منی میں رسول اللہ {ص} فرمارہے تھے { میرے بعد بارہ جانشین ہوں گے } اتنے میں شور مچا تو راوی کو گمان ہوا کہ آپ نے اس کے بعد {کلہم من قریش }فرمایا ہے ۔۔۔

اب یہاں گمان کا استعمال درست تو  ہے،{لیکن اہل سنت والے { ایسا کہہ نہیں سکتے کیونکہ اس سے تو شیعوں کی عید ہوگی ۔۔}

لیکن امام زہری کے بارے میں یہ استعمال ہی غلط ہے ۔کیونکہ ادراج کہنے کی صورت میں دو فرض ہی متصور اور معقول ہیں ۔: الف :  انہوں نے کسی قابل اعتماد شخص سے یہ خبر سنی ہے ۔۔

 ب : یہ انہوں نے اپنی طرف سے بنا کر پیش کی ہے ۔۔۔۔

اب دوسری شق کو تو اھل سنت والے قبول ہی نہیں کرسکتے کیونکہ اس سے تو ان کی وثاقت خطرے سے دوچار ہوگی ۔۔ جیساکہ جس انداز میں یہ انہوں نے نقل کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ خبر قابل اعتماد واسطے سے سنی تھی۔ لہذا پہلی شق ہی صحیح ہے اس بنا پر زیادہ سے زیادہ اس کو ان کی مرسل روایت کہہ سکتا ہے ۔۔

پس معلوم ہوا یہاں گمان کا استعمال ہی صحیح نہیں ہے {گمان کہنا کوئی معنی ندارد  ۔

   ممتاز صاحب نے تو کمال کردیا ۔۔۔۔ ادراج کا معنی گمان کہا جبکہ ادراج کا معنی گمان نہیں ہے ادراج سے گمان پیدا ہوتا ۔۔ اور راوی کا گمان گمان کی رٹ لگاتا ہے لیکن پتہ چلا کہ موصوف کو نہ ادراج کے معنی کا علم ہے نہ گمان کے استعمال کا ۔۔۔لہذا اس سلسلے میں راوی کا گمان حجت ہے یا نہیں والا سوال بھی غلط در غلط ۔کیونکہ یہاں اولا اس کو راوی کا گمان کہنا ہی صحیح نہیں ہے ۔۔۔لہذا اس کے گمان کی حجیت سے سوال کا یہاں مورد ہی نہیں ۔۔۔

واہ جی واہ ۔۔۔۔۔۔ پھر بھی اھل سنت کی نمائندگی کرنے کا سٹار لگاکر شیعہ مناظر محمد دلشاد کو للکارتا ہے ۔۔ اور کہتے ہے ، شیعہ ۔۔۔۔۔ ہم ۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔

 

ب :   ادراج اور گمان نہ ہونے پر دوسرے شواہد....

صحیحین میں موجود وہ احادیث کہ جو خلیفہ دوم کے دور تک امیرالمومنین )ع( کی طرف سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  کے مطالبے کو دھرانے اور جناب فاطمہ کے موقف کی حمایت اور خلفاء کے استدلال کو رد کرنے کو بیان کرتی ہیں....

.... اس کے اسناد پہلے بیش کرچکا ہوں...ملاحظہ کریں {۔۔۔وَأَتَى هَذَا يَسْأَلُنِى نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا۔ {صحيح البخارى  کتاب النفقات ۔3 - باب حَبْسِ نَفَقَةِ الرَّجُلِ ۔۔ صحیح مسلم ۔۔  - كتاب الجهاد والسير  - باب 15 - بَابُ حُكْمِ الْفَيْءِ۔۔۔}اب یہاں خود خلیفہ اعتراف کر رہا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ کے پاس اپنی زوجہ کی میراث کا مطالبہ کرنے آئے۔

اب یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ معاملہ اسی وقت ختم نہیں ہوا تھا اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا  اور امیر المومنین علیہ السلام  نے خلیفہ کے موقف کو قبول نہیں کیا تھا...اور دونوں سمجھتے تھے کہ خلیفہ نے ان کا حق نہیں دیا ہے اور ان کے بارے میں غلط فیصلہ کیا ہے ۔

اب موصوف کی طرف سے اپنے غیر متعلقہ سوالات کے جواب کا بار بار  مطالبہ اور میری طرف سے اسی {مطالبہ جاری رہنے کے بارے }بنیادی سوال کے جواب دینے سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس چیز کا اقرار کرنا کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور جناب امیر المومینین علیہ السلام  اس اس حدیث سے استدلال کے باوجود اس استدلال کو قبول نہیں کرتے تھے اور  حق سے محروم ہونے کے نظریے پر قائم تھے ، اس حقیقت کا اعتراف موصوف کے اپنے سارے مدعا اور اس کے دلائل سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے ..…یہی وجہ ہے موصوف کی طرف سے بحث اسے اس مرحلے سے متعلق میرے سوال کا جواب نہ دینا اور بحث کے اس مرحلے سے تعلق نہ رکھنے والے سوالات کا بار بار تکرار حقیقت میں اسی حقیقت کو چھانے کی کوشش ہے۔ لیکن کامیاب نہیں ہوا۔  

 لہذا معاملہ اور مطالبے کا جاری رہنا خود ہی موصوف کی رائے کا گمان ہونے اور اس گمان کے بطلان کی دلیل ہے ۔۔۔

جیساکہ بیان ہوا کہ جناب سیدہ نے حتی خلفاء کو نماز میں شرکت کی اجازت تک نہیں دی اور مولی علی نے جناب فاطمہ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے جناب فاطمہ کو راتوں رات دفن کیا اور خلیفہ کو اسکی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔۔ عبد الرزاق صاحب كتاب «المصنف» نے ایک اور معتبر روایت نقل کی ہے جس کے مطابق اميرالمؤمنین عليه السلام نے حضرت زهرا (سلام الله عليها) کو راتوں رات دفن کیا تاکہ ابو بكر آپ پر نماز نہ پڑھنے پائے :

6554 عبد الرزاق عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّ حَسَنَ بْنَ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم دُفِنَتْ بِاللَّيْلِ، قَالَ: فَرَّ بِهَا عَلِيٌّ مِنْ أَبِي بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهَا، كَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ.

حسن بن محمد نے نقل کیا ہے  كه فاطمه بنت رسول خدا صلي الله عليه وآله کو راتوں رات دفن کیا : علي [عليه السلام] نے اس کام کو انجام دیا تاکہ ابوبکر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا جنازہ نہ پڑھنے پائے ، کیونکہ ابو بكر  اور  فاطمه کے درمیان کچھ ہوا تھا۔  الصنعاني، أبو بكر عبد الرزاق بن همام (متوفاي211هـ)، المصنف، ج 3، ص521،

جیساکہ اس سلسلے میں اھل سنت کے بہت سے علماء کا اعتراف پیش کرچکا ہوں  https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1963

لہذا یہ خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ نہ معاملہ ختم ہوا تھا نہ آپ راضی ہوگئی تھیں۔

 

اھل سنت کے بہت سے علماء کے اس سلسلے میں ایسے حوالے پیش کرچکا ہوں کہ جو بخاری کی اسی حدیث کے مطابق عدم رضایت کو قبول کرتے ہیں اور بہت سے شارحین نے مسلک ادراج کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور مورد نزاع جملات کو حدیث کا ہی حصہ سمجھ کر حدیث کی تشریح اور تفسیر کی ہے اور اسی صحیح سند حدیث سے جناب فاطمہ کی ناراضگی کو ثابت کیا ہے  ۔۔

اس سلسلے کے اسناد بھی پیش کرچکا ہوں { عمدة القاري شرح صحيح البخاري (17/ 258}

ابن حجر نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ غضبت والا جملہ راوی کا اندراج ہے بلکہ وہ اس کو باقاعدہ صحیح حدیث کا  حصہ سمجھ کر اسی سے اصل غضبناک ہونے کو  قبول کرتا ہے یہاں تک کہ امام ترمذی کی حدیث کا بھی یہی نارضگی والا معنی کیا ہے ۔۔۔۔۔

وتعقبه الشاشي بأن قرينة قوله: "غضبت" تدل على أنها امتنعت من الكلام جملة وهذا صريح الهجر وأما ما أخرجه أحمد ۔۔۔ فلا يعارض ما في الصحيح من صريح الهجران ولا يدل على الرضا بذلك۔۔۔ {فتح الباري - ابن حجر (6/ ۔202}

ابن بطال نے شرح صحیح بخاری میں یہاں تک لکھا ہے:

أجاز أكثر العلماء الدفن بالليل... ودفن علىُّ بن أبى طالب زوجته فاطمة ليلاً، فَرَّ بِهَا من أبى بكر أن يصلى عليها، كان بينهما شىء.

۔۔۔۔۔ ۔ فاطمہ کا جنازہ رات کو دفن کیا تاکہ ابوبکر ان پر نماز نہ پڑھ سکے { فَرَّ بِهَا }چونکہ ان دونوں ( فاطمہ اور ابوبکر) کے درمیان کوئی اختلاف تھا۔

إبن بطال البكري القرطبي (متوفاي449هـ)، شرح صحيح البخاري، ج 3، ص 325

اور بھی بہت سے ایسے نمونے موجود ہیں کہ سب میں شارحین نے اس حصے کو اصل حدیث کا حصہ قرار دیا ہے ،اندارج کے نظریے کی بنیاد پر اس حدیث کی شرح نہیں کی ہے ۔

جیساکہ شارحین اور محدثین کے علاوہ اہل سنت کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن عربی. ابن کثیر ، ابن عثیمین، ملا جلال اشرفی  جیسے بہت سے علماء بھی اسی صف میں کھڑے ہیں کہ جنہوں نے مکتب ادراجی کے خلاف سب کو حدیث کا ہی حصہ قرار دیا ہے یہاں تک کہ ابن  تیمیہ نے  جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے احتجاج کو دنیا پرستی اور منافقانہ کام سے تشبیہ دی ہے اور ابن عثیمین نے تو آپ پر اس وقت عقل سے کام نہ لینے کی تہمت لگائی ہے اور ان کے لئے اللہ سے استغفار کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1935۔۔

۔۔اگر ہم اس سلسلے میں آپ کے علماء  کی فہرست پیش کریں  تو مکتب ادراجی والے ان کی نسبت سے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں...

لہذا ان سب بزرگوں کے خلاف موقف اپنا کر خود کو ہی اھل سنت کا ترجمان کے طور پر پیش کرنا ایک لطیفہ سے کم نہیں۔

اب جب یہ بات روشن ہوئی کہ  پہلی بات تو یہ ہے یہاں ادراج ہی نہیں ہے. اگر ادراج کو مان بھی لے تو اس کو مرسل روایت کے طور پر ماننا ضروری ہے ۔

اگر ادراج کو قبول کیا جایے تو بھی اس بات پر بہت سے شواہد موجود ہیں کہ جناب زھری کی بات ٹھیک ہے.....

...لہذا ان تمام تر شواہد کے باوجود اس کو راوی کا گمان کہہ کر رد کرنا تعصب اور شیعہ منطق اور دلائل کے آگے بے بسی  کے علاوہ کچھ نہیں....

....اور جیساکہ بیان ہوا کہ اگر یہ اسی کی ہی رائ ہو تو بھی یہ اتنا غیر ذمہ دار تو نہیں کہ اپنی طرف سے ان باتوں کو حدیث کا حصہ قرار دے.... جبکہ اس کے خطرناک نتائج میں سے ایک خلفاء کی شان میں طعن ہے ..

کیسے اس شخص کے بارے میں جس سے  بخاری میں  1000کے قریب احادیث نقل ہوئی  ہیں اور صحاح ستہ میں اس سے ہزاروں کی تعداد میں روایات موجود ہیں، اپنے گمان کو روایت میں داخل کرنے کا الزام لگا سکتے ہیں؟ ۔

کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اتنا غیر زمہ دار ہو اور کسی قابل اعتماد شخص سے سنے بغیر ایسی بات نقل کرے جو خلفاء کی شان میں طعن شمار ہوتی ہو.....؟؟

لہذا ادراج کی صورت میں بھی اگر اس کی خبر کو مرسل نہ مانا جاے تو اھل سنت کے اس مایہ ناز راوی اور امام کی وثاقت خطر میں پڑ سکتی ہے...{ کہ جو اھل سنت کے لئے انتہائی درد ناک ہے }

 جی وہ معصوم نہیں، خطآ بھی کر سکتے ہیں، لیکن اتنی خطرناک خبر کو بغیر کسی سند اور مدرک کے اس طرح نقل کرنا کہ گویا اس نے یہ سب صحیح سند کے ساتھ سنی ہے.... تو اس میں خطا  اور گمان چہ معنی دارد.....

مغالطہ  ہی مغالطہ.....؟؟

سنی مناظر

کیوں امام زھری کے علاوہ کسی اور نے نقل نہیں کیا......؟؟ کسی اور طریق سے بھی ناراضگی کو ثابت کر کے دکھاو....

شیعہ مناظر..

پہلی بات :     ناراضگی کو اب کسی اور طریق سے مجھے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ موصوف  نے خود ہی ادراج کے دوسرے شواہد اور جناب فاطمہ {س} کی رضایت حاصل کرنے کی بحث میں ایسی اسناد پیش کی ہیں اور یہ اقرار کیا ہے کہ آپ ناراض ہوگئی تھیں ۔ آپ نے خلفاء کی طرف سے ان کی زندگی کے  آخری لمحات میں { یعنی اس واقعے کے تقریبا چھے ماہ بعد } ان کو راضی کرنے کی کوشش اور ان کی رضایت کے حصول کا دعوا کیا ہے ۔

اگر آپ کا یہ مدعا اور اس کے دلائل { کہ جو سب کے سب مرسل ہیں} صحیح ہو اور موصوف کے نزدیک حجت ہو تو خود بخود یہ بھی ثابت ہوا کہ {غضبت } راوی کا ادراج بھی مان لیا جائے پھر بھی حقیقت پر مبنی ہے لہذا کسی اور سند کا مطالبہ کرنے کا کیا معنی ہے جبکہ موصوف خود ہی مان چکا ہے  کہ تقریبا چھے ماہ تک آپ ناراض رہی اور پھر رضایت حاصل کر لی گئی۔

مرحبا لناصرنا.....

دوسری بات...  کسی نے ذکر نہیں کیا ہو تو نہ کرنے والا مجرم ہے...یا حقیقت کو بیان کرنے والا؟؟

اگر کسی  نے ایک  روایت کے ایک حصے کو ذکر کیا ہو اور دوسرے نے روایت کے اسی حصے کو نقل  نہ کیا ہو  تو کیا ہوا؟  آپ کی صحیحین میں کتنے اتنے نمونے ہیں کہ ایک راوی نے روایت میں ایک حصہ بیان کیا ہے اور دوسرے راوی نے بیان نہیں کیا ہے ۔ لیکن علماء  ذکر ہونے والے حصہ کو دوسرے ذکر نہ ہونے والی روایت کا حصہ سمجھ کر  اس مذکور کو دوسرے کی تفسیر اور تشریح کے لیے استفادہ کرتے ہیں.؟؟

 نمونے طور پر ذکر کیا ہے ۔۔۔۔ امام بخاری نے خلیفہ دوم کے اعتراف کو { و کذا کذا } کہہ کر ذکر نہیں کیا ہے جبکہ آپ کے صحاح کے بعض محدثین نے اس حصہ کو ذکر کیا ہے۔

لہذا ذکر نہ کرنے والا اور کذا کذا کذا کہنے والا مجرم ہے یا ذکر کرنے والا اور حقیقت کو بیان کرنے والا ؟؟

تیسری بات... دوسروں نے ذکر بھی کیا ہے ، جیساکہ سننن ترمذی میں بھی مطالبہ رد ہونے کی وجہ سے احتجاجا  بات نہ کرنے کے الفاظ موجود ہیں، اپ کے بعض علماء اس کی غلط توجیہ کریں تو  مقصر کون ہے؟ جبکہ حیساکہ بیان ہوا ابن حجر کے نقل کے مطابق امام ترمذی کی طرف سے { لا اکلمکما } کا معنی معاملہ ختم ہونا اور رضایت لینا ، امام ترمذی کا اپنا غلط گمان ہے ۔

چوتھی بات : کیوں صیحین نے اس واقعے کے بیان کے لئے کسی اور راوی کا انتخاب نہیں کیا ؟ کیوں اس حساس اور اہم واقعے کے بیان میں اسی راوی کی روایت کو سب سے مناسب سمجھ کر اس کو نقل کیا اور دوسرے نقلوں کو ذکر نہیں کیا ؟

پانچویں بات :  کسی اور نے ذکر نہ کیا تو کیا ہوا ؟ جبکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جناب فاطمہ {ع} اور مولا علی {ع} نے مطالبہ مذکورہ حدیث سے استدلال کے باوجود جاری رکھا اور خلفاء کو اپنے حق سے محروم کرنے والے سمجھتے ہیں اور دونوں اسی نظریے کے ساتھ  دنیا سے چلے گئے، یہاں تک کہ جناب فاطمہ {ع} کے جنازے میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی ۔۔۔۔

 تو کیا جو کسی کو اپنے والد کے ترکہ سے محروم کرنے والا سمجھ کر مطالبہ کرتے کرتے دنیا سے چلا جائے تو اس پر راضی ہوتا ہے ؟یا ناراض ہی رہتا ہے ؟

جناب عقل بھی تو کوئی شئی ہے ۔۔۔۔ آپ کے بقول  دوسرے شواہد کو بھی دیکھا جاتا ہے....کیوں یہاں آپ اپنا بیان کردہ اصول بھول گئے  ؟

جی ہاں تعصب کے  مرض کا کوئی علاج نہیں ۔۔۔

 

سنی مناظر ....

جناب امام بہیقی نے شعبی سے ایک مرسل روایت نقل کی ہے جس کے مطابق زندگی کے آخری ایام میں خلفاء ان کی عیادت کے لیے گیے اور اپ راضی ہو گئیں..

یہ مرسل اور  حسن روایت ہے اور شعبی کی مرسل روایت، صحیحِ روایت کی طرح حجت ہے...جیساکہ امام عجلی نے ایسا کہا ہے...

اور بھی سند شیعہ کتابوں سے بھی ہم پیش کرتے ہیں...

...شعبی کی مرسل روایت کے جس راوی کے بارے مدلس ہونے کا اعتراض ہے وہ صحیح بخاری کے راوی ہے.....پس بات ختم ۔۔۔

لہذا ثابت ہوا کہ جناب سیدہ راضی ہوگئی تھیں..

شیعہ مناظر..

واہ جی واہ کھودا پہاڑ  نکلا........

اب تک موصوف زور لگا رہا تھا غضبناک ہونا راوی کا گمان ہے اور سیدہ حدیث( نحن معاشر الانبیا ... ) سن کر خاموش ہوگئیں تھیں کوئی ناراضگی نہیں تھی ..اور یہ بار بار سوال اٹھا رہا تھا کہ استغفر اللہ  کیا سیدہ بابا کے فیصلے کو ٹھکراسکتی ہے .. حدیث کا انکار کرسکتی ہے؟؟

ناراضگی یا الفاظ سے یا چہرے سے  ثابت ہوتی ہے روای تو اس کے عینی شاہد نہیں اور کوئی لفظ بھی سیدہ سے ایسا ذکر نہیں ہوا ہے کہ جو ناراضگی کو بیان کرے....؟

....

 سب اشکالات کا جواب دیا ....ِموصوف نے اپنی اس ٹیکنکی غطی کے ذریعے اپنے سارے مدعا پر خط بطلان کھینچا۔

 ناراض نہیں ہوئی تھیں تو رضایت لینے کی کیا ضرورت تھی...؟

ناراض ہوئی تھیں تو کیوں ہوئی تھیں ؟  اگر معاملہ اسی حدیث کے سننے اور ابوبکر کی طرف سے اس حدیث سے استدلال کے بعد ختم ہوا تھا تو ناراضگی کیوں ؟

موصوف کے بقول زندگی کے آخری لمحات میں یعنی تقریبا چھے ماہ بعد.....جبکہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے ۔۔۔۔۔

لہذا موصوف کا  استغفار... ناراضگی کو چہرے یا  الفاظ سے ناراضگی .....کے بارے سوالات سب خراب ۔موصوف کو لینے کے دینے پڑ گیا ۔۔۔

لیکن عجیب بات ہے کہ موصوف ان سب اعترافات کے باجود اپنے اسی سوال کو آخری تک دہراتا رہا ،اور یہ موصوف کی بے دقتی یا لکیر کے فقیر ہونے کی دلیل ہے۔

کیونکہ ان تمام تر حقائق اور اعترافات کے باوجود ایسا سوال دہرانا لیکر کے فقیر ہونے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہونے اور عقل کے بجائے تعصب اور ہٹ دہرمی کے خچر پر سوار ہونے کی دلیل نہیں ؟

جناب آپ کے نزدیک اگر چھے ماہ بعد رضایت دینا اور رضایت حاصل کرنے کی داستان صحیح ہو تو یہ تو ثابت ہوا کہ چھے ماہ تک ناراض رہیں۔۔۔۔ واہ جی واہ ۔۔ پس اس وقت غضبناک ہونا راوی کا گمان اور وہ بھی باطل گمان نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔

جناب قرآن مجید میں ۳۰۰ سے زیادہ مرتبہ عقل سے کام لینے اور عقل کی اہمیت کو بیان کیا ہے ۔ لہذا قصور آپ کا اور مکتب ادراجی کے بانیوں کا ہے ...

۔۔۔۔

آخری کیل ۔۔۔۔

شعبی کی روایات اور شیعہ کتب میں رضایت کو بیان کرنے والی روایات  

جیساکہ بیان ہوا موصوف غضبناک ہونے کا انکار کرتا رہا لیکن بعد میں آخری لمحات میں رضایت حاصل ہونے کا ذکر کیا اور اس کے بعض اسناد پیش کر کے یہ ادعا کیا کہ رضایت کا حصول شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں سے ثابت ہے ۔ شعبی کی مرسل روایت ۔اسی روایت کا شیعہ کتب سے ایک دو حوالے ۔۔محدث دھلوی کی کتاب کا حوالہ ۔۔۔۔۔لہذا اس سلسلے میں سب مرسل روایتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن موصوف کا  یہ ادعا کہ یہ مرسل اور حسن روایت ہے اور حجت ہے ۔۔۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ

کیا آپ راضی ہوگئیں  تھیں  اور شعبی کی مرسل روایت کا مضمون صحیح ہے ؟

کیا امام عجلی کی طرف سے اس کی مرسل روایت کو حجت قرار دینے کی کوئی اہمیت ہے ؟

ہمارا جواب سنیں :

۱ :      اس کو قبول کرنا ، غضبناک ہونے کو ادراج اور راوی کا باطل گمان ثابت کرنے کی ساری کوششوں پر پانی پھیرنا ہے۔۔ {کیا اس نتیجے کو قبول کرتے ہو }

۲ :    اگر سند کے اعتبار سے دیکھا جائے تو سب مرسل ہے ،ممکن ہے شعبی نے کسی غیر موثق آدمی سے سنا ہو اور کیونکہ یہ خلفاء پر طعن کو دور کرنے کے لئے ایک بہانہ ہے لہذا راوی کا نام ذکر کیے بغیر اس کو آگے نقل کیا ہو اور اصلی راوی کا ذکر نہ کر کے حقیقت کو چھپایا ہو شعبی معصوم تو نہیں ہے ۔جب انبیاء آپ کے نزدیک خطاء سے منزہ نہیں تو شعبی کہاں سے بے خطاء ہوگا ؟

اگر شعبی کی مرسل روایت حجت ہے تو امام زہری کی مرسل روایت حجت کیوں نہیں ہے ؟

۳ :      ہم نے گزشتہ  مطالب میں یہ بھی ثابت کیا کہ اس کی سند میں ایک مدلس راوی بھی ہے ۔۔۔ اب اس مدلس راوی سے بخاری میں روایت نقل ہوئی ہو تو اس کا غیر مدلس ہونا تو ثابت نہیں ہوگا ۔۔۔ کیا بخاری کے سارے راویوں کے متعلق  غیر مدلس ہونے کا ادعا کرتے ہو ؟ کیا بخاری کے سارے راوی ثقہ ہیں؟ ۔۔۔ اس میں تو ناصبی اور مولا علی علیہ السلام  کی شان میں توھین کرنے والے رایوں سے بھی روایت نقل ہوئی ہے ۔۔۔ کیا آپ کی نظر میں ایسا راوی قابل اعتماد ہے ؟

۴ :     ہم نے  گزشتہ مطالب میں یہ بھی  دکھا دیا کہ آپ کے ہی بڑے علماء میں سے امام ذہبی ،ابن حجر اور البانی عجلی کی طرف سے شعبی کے مرسلات کو صحیح کا درجہ دینے کے خلاف ہیں  اور اس بات کے قائل ہیں  کہ عجلی ، ابن حبان کی طرح تساہل سے کام لیتے تھے لہذا ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے ۔۔

۵ :   یہی شعبی حدیث {نحن معاشر الانبیاء ۔۔۔۔} کے مضمون کو قبول نہیں کرتا اور قرآن میں انبیاء کے مالی ارث ہونے کے قائل ہے۔۔۔۔جیساکہ اس کی سند بھی میں پیش کرچکا ہوں ۔۔۔۔ کیا خیال ہے بقول آپ کے حضور {ص}کی صحیح اور صریح حدیث کے مضمون کو قبول نہ کرنے والے کی بات قابل اعتماد ہے ۔۔۔۔؟؟  

۶:  جیساکہ بیان ہوا کہ ایسی روایتیں بھی اھل سنت کی کتابوں میں کہ جو واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ خلفاء رضایت لینے گئے لیکن حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے رضایت نہیں دی اور آپ اسی حالت میں دنیا سے چلی گئیں ۔  https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1799

۷ :    جیساکہ سابقہ گفتگو سے واضح ہوا اس کا مضمون صحیح اور مسند روایات کے خلاف ہے لہذا اس کی مرسل روایت کی کوئی اہمیت نہیں ۔۔

علماء اھل سنت نے یہاں ٹینکی غلطی یہ ہے کہ اصل غضبناک ہونے کو ثابت کرنے کے لئے زہری کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں اور بغیر کسی ادراجی ادعا کے  بغیر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جناب سیدہ مطالبہ رد ہونے کی وجہ سے ناراض ہوگئی تھی ۔۔۔ یعنی ایک صحیح سند روایت سے اصل ناراض ہونے کو ثابت کرتے ہیں لیکن بعد میں رضایت کو ثابت کرنے کے لئے ایک ایسی مرسل روایت کا سہارا لیتے ہیں کہ جس کا راوی ایک مدلس انسان  ہے ۔

لہذا یہ عجیب غیر علمی طریقہ ہے ۔۔۔۔ صحیح روایت کے مضمون کو رد کرنے کے لئے ایک مرسل اور مدلس کی روایت سے استدلال ۔۔۔۔۔۔۔۔

موصوف  بھی یقینی شواہد کا ادعا تو بہت کرتا ہے لیکن بعد میں اسی پر تکیہ کرتا ہے ۔۔ ڈھوپتے کو تنکے کا سہارا۔۔۔۔۔

 

جناب ممتاز قریشی صاحب ۔۔۔۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ۔۔۔۔

ان حقائق کی روشنی میں اب آپ کی مرضی ہے ۔امام زہری کے قول کو ان کا گمان ، جناب عائشہ کی خبر کو ان کا گمان اور جناب خلیفہ دوم کے واضح اعترف کو ان کا گمان کہیں اور اپنے مسلک ادراجی گمانی پر قائم رہیں ۔۔ یا حقیقت کو قبول کریں  اور یہ تسلیم کریں کہ جو میرا مدعا ہے وہ ٹھوس دلائل سے ثابت ہے اور اپنے مسلک کو خدا حافظ کہہ کر اپنے اسلاف کی روش پر چلے اور خلفاء کے فیصلے کو صحیح اور جناب فاطمہ اور مولا علی کے موقف کو خطاء کہنے کی جرات کریں اور مجھ سے تیسرے مرحلے میں گفتگو کے لئے تیار ہو جائیں  ۔۔

لیکن آپ نے اپنے اپنی کٹ ہجتی پر ہی برقرار رہنا ہے تو ۔۔۔۔میں آپ کے باقی شبھات کا بھی جواب دیتا ہوں اور پھر گفتگو کو ختم کرتے ہیں۔۔

میرا کام آپ کی پوزیشن اور آپ جیسے لوگوں کے اس موضوع پر بحث کی  غلط روش کو بتانا اور شیعوں کے خلاف غلط تبلیغ کے ذریعے حقائق کو پوشیدہ رکھنے کے طریقہ کار کا مقابلہ کرنا تھا ۔۔۔

اور یہ بتانا تھا کہ اھل سنت کے عوام کو لوگ دھوکہ میں رکھتے ہیں اور حقائق کو چھپانے کے لئے سب چیزوں کو شیعوں کی باتیں اور شیعوں کی طرف سے خلفاء کی شان میں گستاخی کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ شیعہ اس سلسلے میں جو بھی کہتے ہیں وہ آپ کی ہی صحیحین سے ثابت ہے۔۔

رسول اللہ ص کی پیاری بیٹی اور آپ کے سب سے ممتاز شاگرد ،جنت کی عورتوں کی سرداد جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ان کا حق نہ ملنے کا ان کا نظریہ آپ کی کتابوں سے ثابت ہے۔۔

یہ شیعوں کی باتیں نہیں ہیں،  بلکہ آپ کی کتابوں میں موجود جناب فاطمہ اور مولا علی علیہما السلام کا موقف ہے ۔۔۔

میرا  مقصد یہی ثابت کرنا تھا ۔ الحمد للہ ثابت کر دیا ۔۔۔۔۔

  اب آپ  کی مرضی اپنے سلف اور بزرگوں پر حقائق پوشیدہ رہنے کا الزام لگاتے رہیں  اور بزرگان سے بغاوت کا سلسلہ جاری رکھیں..

یا اپنے سلف کی روش پر چلتے ہویے خلفاء سے دفاع کا  جھنڈا لے کر میدان میں آئے اور  رسول اللہ ص کے  سب سے ممتاز شاگرد جناب فاطمہ ع اور مولا علی کے موقف سے علی الاعلان مخالفت کا اظہار کرئے۔... اگر ایسا کرئے تو   محمد دلشاد ، ال رسول  ص کی وکالت کے لیے حاضر ہے..

ختم جلسہ.....

اللہم صل علی محمد و آل محمد....

نعرہ حیدری.. یا علی حق حیدر...

و ما علینا الا البلاغ ۔۔۔ و سلام علی من اتبع الھدی ۔۔۔

و ما توفیقی الا باللہ و ھو نعم المولی و نعم النصیر ۔۔۔۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک