امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کیا اولیاء اللہ کو وسیلہ قراردینا توحید خدا کے مخالف ہے؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

تفسیر آیه: 35 سوره مائده ( وابتغوا الیه الوسیله ) از منابع و تفاسیر اهل سنت  به زبان فارسی

کیا اولیاء اللہ کو وسیلہ قراردینا توحید خداکے مخالف ہے؟

(قارئین کرام!) پہلے ہی یہ نکتہ عرض کردینا ضروری ہے کہ توسل سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان پیامبر اکرم (ص) یا ائمہ علیہم السلام سے مستقل طور پر کوئی چیز طلب کرے بلکہ توسل سے مراد یہ ہے کہ اعمال صالحہ یا پیغمبر اور امام کی اطاعت و پیروی کے ذریعہ یا ان حضرات کی شفاعت یا خداوندعالم کو ان حضرات کے عظیم مرتبہ کی قسم دے کر( جو خود ایک طرح سے ان کی عظمت اور بلندی کا احترام کرنا ہے اور ایک طرح سے خداکی عبادت ہے) خداوندعالم سے کوئی چیز مانگی جائے تو اس میں نہ کسی طرح کا کوئی شرک ہے اور نہ ہی یہ قرآنی آیات کے مخالف ہے۔

اس کے علاوہ قرآنی آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خداوندعالم کو کسی صالح اور نیک انسان کی عظمت کا واسطہ دے کر اس سے کوئی چیز طلب کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور توحید خدا سے بھی منافی نہیں ہے، جیسا کہ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:( وَلَوْ اٴَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا اٴَنفُسَهُمْ جَاوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَحِیمًا ) (۱)

”اور کا ش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے“۔

توسل اور اسلامی روایات

توسل کے سلسلہ میں اہل سنت اور شیعہ کتابوں میں بہت سی روایات بیان ہوئی ہیں جن سے مکمل طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ توسل اور وسیلہ قرار دینے میں کوئی اشکال نہیں پایا جاتا، بلکہ ایک نیک کام ہے، اس سلسلہ میں بہت زیادہ روایات ہیں اور بہت سی کتابوں میں نقل بھی ہوئی ہیں، ہم نمونہ کے طور پراہل سنت کی مشہور و معروف کتابوں سے چند روایات کو نقل کرتے ہیں:

۱ ۔ مشہور ومعروف سنی عالم دین ”سمہودی“ اپنی کتاب ”وفاء الوفاء“ میں رقمطراز ہیں: پیغمبر اکرم (ص) یا آپ کی عظمت و بزرگی کے واسطہ سے خدا کی بارگاہ میں مدد طلب کرنا، شفاعت چاہنا ، آنحضرت کی خلقت سے پہلے بھی جائز تھا ،آپکی پیدائش کے بعد اور آپکی وفات کے بعد ، عالم برزخ اور روز قیامت میں بھی جائز ہے، اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے توسل کیا: جناب آدم علیہ السلام پیغمبر اکرم کی خلقت کے بارے میں علم حاصل کرنے کے بعد خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح عرض کرتے ہیں:

”یَا ربِّ اٴسئلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفرتَ لِی “(۲)

”پالنے والے! تجھے محمد( (ص) )کا واسطہ، تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے معاف کردے“۔

اس کے بعد اہل سنت کے مشہور و معروف دانشوروں جیسے ”نسائی“ اور ”ترمذی“ سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں او ر اس کو توسل کے جواز پر شاہد کے عنوان سے نقل کرتے ہیں، جس حدیث کا خلاصہ یہ ہے:ایک نابینا شخص نے پیغمبر اکرم (ص) سے اپنی بیماری کی شفاء کے لئے درخواست کی تو پیغمبر اکرم (ص) نے حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو:

”اَللَّهُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّهُ إلَیْکَ بِنَیِّکَ مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی تَوجهتُ بِکَ إلیٰ ربّي فِی حَاجَتِی لِتقضی لِي اٴللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيّ “(۱)

”پالنے والے! تیرے پیغمبر رحمت کے واسطہ سے تجھ سے درخواست کرتا ہوں اور اے محمد! آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور آپ ہی کے واسطہ سے اپنی حاجت روائی کے لئے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں، پالنے والے! آنحضرت ( (ص)) کو میرا شفیع قرار دے“۔

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد توسل کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے یوں بیان کرتے ہیں: حضرت عثمان کے زمانہ میں ایک حاجت مند پیغمبر اکرم (ص) کی قبر کے نزدیک آیا اور اس نے نماز پڑھی اور اس طرح دعا کرنے لگا:

”اَللَّهُمَّ إنِّی اٴسئلُکَ وَاٴتَوجَّهُ إلَیْکَبِنَبِیِّنَا مُحَمَّد نَبِیِّ الرَّحمةِ یَا مُحمَّد إنِّی اٴتوجه إلیٰ رَبکَ اَنْ تَقْضي حَاجَتِي “(۳)

”پالنے والے! تیری بارگاہ میں پیغمبر اکرم( (ص) )، پیغمبر رحمت کے وسیلہ سے درخواست کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد! آپ کے وسیلہ سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری مشکل آسان ہوجائے“۔

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس کی مشکل آسان ہوگئی۔(۴)

۲ ۔ ”التوصل الی حقیقة التوسل“ کے مولف مختلف منابع و مآخذ سے ۲۶/ احادیث نقل کرتے ہیں جن سے توسل کا جائز ہونا سمجھ میں آتا ہے، اگرچہ موصوف نے ان احادیث کی سند میں اشکال کرنا چاہا ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ جب روایات زیادہ ہوجاتی ہیں اور تواتر(۵) کی حد تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر سند میں اشکال و اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی، اور مخفی نہ رہے کہ توسل کے سلسلہ میں احادیث تواتر کی حد سے بھی زیادہ ہیں، ان کی نقل کی ہوئی روایات میں سے ایک یہ ہے:

”ابن حجر مکی“ اپنی کتاب ”الصواعق المحرقہ“ میں اہل سنت کے مشہور و معروف”امام شافعی“ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اہل بیت پیغمبر سے توسل کیا اور اس طرح کہا:

آل النَبِيّ ذَریعَتِي وَهُمْ إلَیه وَسیلتي

اٴرْجُوْبِهمْ اٴعطي غَداً ِبیَدِ الیَمِینِ صَحِیفَتِي(۶)

”آل پیغمبر میرا وسیلہ ہیں ، اور وہی خدا کی بارگاہ میں میرے لئے باعث تقرب ہیں “

” میں امیدوار ہوں کہ ان کے وسیلہ سے میرا نامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دیا جائے“

اسی طرح ”بیہقی“ بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ دوم کی خلافت کے زمانہ میں قحط پڑا، جناب بلال چند اصحاب کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مبارک پر آئے اور اس طرح عرض کی:

”یَا رَسُولَ الله استسق لاٴمّتک فَإنَّهُم قَد هَلَکُوا “ (۷)

”یا رسول اللہ! اپنی امت کے لئے باران رحمت طلب فرمائیے کیونکہ آپ کی امت ہلاک ہوا چاہتی ہے“۔

یہاں تک کہ ابن حجر اپنی کتاب ”الخیرات الحسان“ میں نقل کرتے ہیں کہ ”امام شافعی“ بغداد میں قیام کے دوران ”ابو حنیفہ“کی زیارت کے لئے جاتے تھے، اور اپنی حاجتوں میں ان کو وسیلہ بناتے تھے اور ان سے متوسل ہوتے تھے۔(۸)

نیز ”صحیح دارمی“ میں ”ابی الجوزاء“ سے نقل ہوا ہے کہ ایک سال مدینہ میں بہت سخت قحط پڑگیا، بعض افراد جناب عائشہ کی خدمت میں جاکر شکایت کرنے لگے، اور ان سے درخواست کی کہ قبر پیغمبر کی چھت میں سوراخ کردیا جائے تاکہ قبر پیغمبر کی برکت سے خداوندعالم باران رحمت نازل فرمادے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس وقت بہت زیادہ بارش ہوئی!

تفسیر ”آلوسی“ میں اس سلسلہ میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں اور پھر ان احادیث کا مفصل طریقہ سے تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد اور مذکورہ احادیث میں بہت سخت رویہ اختیار کرنے کے بعد ان کا اعتراف کرتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں:

”اس گفتگو کے تمام ہونے کے بعد میرے نزدیک کوئی مانع نہیں ہے کہ خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص) کو وسیلہ قرار دیا جائے، چاہے پیغمبر اکرم کی زندگی میں ہو یا آنحضرت کے انتقال کے بعد “ موصوف اس سلسلہ میں کافی بحث کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں: ”خداوندعالم کی بارگاہ میں پیغمبر کے علاوہ کسی دوسرے سے توسل کرنے میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پیغمبر کے علاوہ جس کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنایا جائے اس کا مرتبہ خدا کی نظر میں بلند و بالا ہو۔(۹)

لیکن شیعہ منابع و مآخذ میں وسیلہ اور توسل کا موضوع اس قدر واضح ہے کہ اس کو بیان کرنے کی (بھی) ضرورت نہیں ہے۔

چند ضروری نکات:

(قارئین کرام!) یہاں پر چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ توسل اور وسیلہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) یا ائمہ معصومین علیہم السلام سے کوئی شخص اپنی حاجات طلب کرے ، بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا کی بارگاہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی عظمت اور بلندی کے ذریعہ متوسل ہو، اور یہ کام درحقیقت خداو ندعالم کی طرف توجہ کرنا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کا احترام بھی خداکی وجہ سے ہے کہ آپ خدا کے رسول ہیں، اس کی راہ پر چلے، ان باتوں کے باوجود ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو اس طرح کے توسل کو شرک کی ایک قسم کہہ دیتے ہیں جبکہ شرک یہ ہے کہ خدا کی صفات اور اس کے اعمال میں کسی کو شریک مانیں ، جبکہ اس طرح کا توسل شرک سے کوئی شباہت نہیں رکھتا۔

۲ ۔ بعض لوگوں نے اس بات کی بہت کوشش کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ علیہم السلام کی حیات اور وفات میں فرق قراردیں ، حالانکہ مذکورہ روایات جن میں بہت سی روایات وفات کے بارے میں ہیں؛ لہٰذا ان کے پیش نظر مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء اور صالحین وفات کے بعد ”برزخی حیات “ رکھتے ہیں جو کہ دنیاوی زندگی سے وسیع تر ہے جیسا کہ شہداء کے بارے میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ان کو مردہ تصور نہ کرو وہ زندہ ہیں اور خدا کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔(۱۰)

۳ ۔ بعض لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) سے دعا کی درخواست اور خدا کی بارگا ہ میں ان کی عظمت کی قسم دینے میں فرق ہے، لہٰذا دعا کی درخواست کو جائز اور خدا کی بارگاہ میں ان کی عظمت کی قسم دینے کو حرام جانتے ہیں، حالانکہ ان دونوں کے درمیان کسی بھی طرح کا کوئی منطقی فرق دکھائی نہیں دیتا۔

۴ ۔ بعض علمائے اہل سنت خصوصاً ”وہابی علماء“ اپنی خاص ہٹ دھرمی کی بنا پر کوشش کرتے ہیں کہ وسیلہ اور توسل کے بارے میں بیان ہونے والی تمام احادیث کو ضعیف اور کمزور ثابت کرڈالیں، اس سلسلہ میں بے بنیاد اعتراضات کرتے ہیں جو درحقیقت بہت پرانے ہوچکے ہیں، جن کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ایک انصاف پسند انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ ان لوگوں نے پہلے اپنا عقیدہ معین کرلیا ہے اور پھر اپنے عقیدہ کو اسلامی روایات پر ”تھوپنا“ چاہتے ہیں، اور ایسا ہی کرتے ہیں اور جو کچھ ان کے عقیدہ کے خلاف ہوتا ہے اس کو چھوڑدیتے ہیں، جبکہ ایک تحقیق کرنے والا محقق انسان اس طرح کی غیر منطقی اور تعصب آمیز بحث کو قبول نہیں کرسکتا۔

۵ ۔ ہم بیان کرچکے ہیں کہ توسل کے سلسلہ میں بیان شدہ روایات حدّ تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں، یعنی اس قدر ہیں کہ ان کی سند میں بحث کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، اس کے علاوہ ان کے درمیان بہت زیادہ صحیح روایات بھی ہیں، لہٰذا ان کی اسناد میں اعتراض و اشکال کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

۶ ۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیہ شریفہ کے ذیل میں بیان ہونے والی روایات کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اکرم نے اصحاب سے فرمایا: ”خداوندعالم سے میرے لئے ”وسیلہ“ طلب کرو“ یا جیسا کہ اصول کافی میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ بہشت میں وسیلہ سب سے بلند و بالا مقام ہے، اور جیسا کہ ہم نے آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے؛ ان کے درمیان کسی طرح کا کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ ہر طرح کے تقربِ خدا پر ”وسیلہ“ صادق آتا ہے اور پیغمبر اکرم (ص)کے ذریعے تقرب خداحاصل کرنے کانام وسیلہ ہے جو کہ جنت میں سب سے بلند و بالا مقام ہے ۔(۱۱) .

____________________

(۱)سورہ نساء ، آیت ۶۴.

(۲) وفاء الوفاء ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۷۱۔ کتاب (التوصل الی حقیقة التوسل میں ، صفحہ ۲۱۵، مذکورہ حدیث کو -” دلائل النبوة“ میں بیہقی نے بھی نقل کیا ہے.

(۳) وفاء الوفاء ،صفحہ۱۳۷۲.

(۴) وفاء الوفاء ، صفحہ ۱۳۷۳.

(۵) علم حدیث میں ”حدیث تواتر“ اس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کے راویوں کی تعداد اس حد تک ہو کہ ان کی ایک ساتھ جمع ہوکر سازش کا قابل اعتماد احتمال نہ ہو (مترجم).

(۶) التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۲۹.

(۷) التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۵۳.

(۸) التوصل الی حقیقة التوسل، صفحہ ۳۳۱

(۹) روح المعانی ، جلد ۴۔۶، صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۵

(۱۰) سورہ آل عمران ، آیت۱۶۹.

(۱۱) تفسیر نمونہ ، جلد ۴، صفحہ ۳۶۶.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک