امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

من روائع القران الكريم - ۩۩۞ سبحانك اللهم و بحمدك ۞۩۩  ------------------------------------- الآية كاملة : ( وَقَالَ رَبُّكُمُ  ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ  عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ) سورة

دعاء کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟

اکثر اوقات عوام الناس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خداوندعالم کے لئے کوئی (خاص) محل و مکان نہیں ہے تو پھر دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں اٹھاتے ہیں؟ کیوں آسمان کی طرف آنکھیں متوجہ کی جاتی ہیں؟ نعوذ بالله کیا خداوندعالم آسمان میں ہے؟

(قارئین کرام!) یہ سوال حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا، جیسا کہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ ”ہشام بن حکم“ کہتے ہیں: ایک زندیق حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے درج ذیل آیت کے بارے میں سوال کیا:

( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ )

”وہ رحمن عرش پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے“۔

امام علیہ السلام نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: خداوندعالم کو کسی جگہ اور کسی مخلوق کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہے۔

سوال کرنے والے نے عرض کی: تو پھر کوئی فرق نہیں ہے کہ (دعا کے وقت) چاہے ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوں یا زمین کی طرف؟!

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ موضوع خداوندعالم کے علم و احاطہ میں برابر ہے (اور کوئی فرق نہیں ہے) لیکن خداوندعالم نے اپنے انبیاء اور صالح بندوں کو خود حکم دیا کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان اور عرش کی طرف اٹھائیں، کیونکہ معدنِ رزق وہیں ہے، جو کچھ قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے ہم اس کو ثابت مانتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: اپنے ہاتھوں کو خداوندعالم کی بارگاہ میں بلند کرو، اس بات پر تمام امت کا اتفاق اور اجماع ہے۔

اسی طرح کتاب خصال (شیخ صدوق علیہ الرحمہ) میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے: ”إذَا فَرغَ اٴحدکُم مِنَ الصَّلوٰةِ فَلیرفعُ یدیهِ إلیٰ السَّمَاءِ، ولینصَّب فِي الدعاءِ “ ”جب تم نماز سے فارغ ہوجاو تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرو اور دعا میں مشغول ہوجاؤ“۔

اس وقت ایک شخص نے عرض کیا: یا امیر المومنین! کیا خداوندعالم سب جگہ موجود نہیں ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں! سب جگہ موجود ہے۔

اس شخص نے عرض کیا: تو پھر بندے آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کوکیوں اٹھائیں؟

اس موقع پر امام علیہ السلام نے درج ذیل آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ )

” اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (سبب کچھ موجودہے)“۔

ان روایات کے مطابق چونکہ انسان کا اکثر رزق آسمان سے ہے، ( بارش؛ جس سے بنجر زمین زراعت کے لائق ہوجاتی ہے، آسمان سے نازل ہوتی ہے، سورج کی روشنی جو کہ زندگی اور حیات کا مرکز ہے، آسمان سے آتی ہے ، ہوا بھی آسمان میں ہے جو کہ زندگی کے لئے تیسرا اہم سبب ہے) اور آسمان رزق اور برکات الٰہی کا معدن و مرکز ہے، لہٰذا دعا کے وقت آسمان کی طرف توجہ کی جاتی ہے اور رزق و روزی کے مالک و خالق سے اپنی مشکلات کے حل کی دعا کی جاتی ہے۔

بعض روایات میں اس کام کے لئے ایک دوسرا فلسفہ بھی بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے خداوندعالم کی بارگاہ میں خضوع و تذلل کرنا، کیونکہ ہم کسی شخص یا کسی شئے کے سامنے تواضع کے اظہار کے وقت اور تسلیم ہوتے وقت اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک