شفاعت
شفاعت
مقالہ نگار, وسیم رضا سبحانی
شبہ:
عام طور پر عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اس دنیا میں صرف ایمان رکھو باقی جو کرنا ہے وہ کرو کیونکہ قیامت کے دن اہلبیت اطہارؑ شفاعت کریں گےحالانکہ یہ عقیدہ عقلی اور نقلی دونوں دلیلوں کے اعتبار سے مخدوش ہے۔
عقلی اعتبار سے :
اولا ً:شفاعت کا عقیدہ انسان کو گناہ پر جرأت دیتا ہے ۔
ثانیا ً:شفاعت کا مطلب تو پارٹی بازی ہے اور پارٹی بازی عدالت الٰہی کے خلاف ہے۔
نقلی اعتبار سے:
قرآن میں واضح طریقے سے آیات موجود ہیں کہ قیامت کے دن کوئی شفاعت نہیں ہوگی۔سورہ بقرہ آیت ۴۸:۔۔۔لا یقبل منھا شفاعۃ۔۔
ثانیاً: شفاعت کا عقیدہ تو مشرکین رکھتے تھے یہ مشرکین کی سوچ ہے کہ بتوں کی پرستش کرو وہ تمہاری شفاعت کریں گے۔
سورہ یونس آیت ۱۸:
جواب:
شفاعت کا اگر درست تصور سمجھ میں آجائے تو عقلی اور نقلی دونوں اشکالات کا جواب روشن ہوجائے گالہذا مندرجہ ذیل چند باتوں پر غور کیا جائے تو مسئلہ حل ہوجائے گا:
الف:شفاعت کا لغوی معنی ہے:ایک چیز کو دوسری چیز سے ضمیمہ کرنا ،دوسرے الفاظ میں شفاعت “شفع”سے نکلا ہے اور شفع یعنی جفت
اور شفاعت کا اصطلاحی معنی یہ ہے کہ :
“جن بندوں کےا ندر لیاقت اور صلاحیت ہے وہ اولیاء الٰہی اور خدا کے برگزیدہ افراد کے توسط سے رحمت اور فیض الٰہی تک پہنچیں۔”
ب:شفاعت کی دو صورتیں ہیں ایک صورت غلط ہے اور دوسری درست ہے ۔
شفاعت کی غلط صورت یہ ہے کہ:
“ایک نالائق انسان کی صرف تعلقات کی بناء پر سفارش کی جائے جیساکہ ہمارے ہاں معمولا ایسے ہوتا ہے ایک شخص کا کسی برے آدمی سے تعلق ہوتا ہے پھر ہر جگہ وہ بڑا آدمی اسکی سفارش کرتا ہے جسے عام طور پر پارٹی بازی کہا جاتا ہے لیکن یہ شفاعت اور پارٹی بازی قطعا قیامت کے دن نہیں ہوگی۔”
شفاعت کی درست صورت یہ ہے کہ:
“ایک مومن انسان جو لیاقت اور صلاحیت بھی رکھتا ہے یعنی اپنا معنوی رابطہ اس نے اپنے پروردگار عالم سے نہیں توڑا ہے لیکن ہوا پرستی اور نفس پرستی میں آکر گناہ کربیٹھا ہے ایسے بندوں کو مایوسی سے نکالنے کیلئے شفاعت کا ذریعہ رکھا گیا ہے۔”
پس یہ شفاعت نہ فقط عدل الہی کے خلاف نہیں ہے بلکہ فضل الہی کا بہترین مظہر ہے۔
اور شفاعت انسان کو گناہ کرنے کی جرأت اس صورت میں دے گی جب یہ تسلیم کیا جائے کہ جس کی شفاعت ہوگی اور جن گناہوں سے شفاعت ہوگی، دونوں معین ہیں جبکہ شفاعت میں نہ کوئی شخص معین ہے اور نہ ہی گناہ معین ہوتا ہے۔
یعنی دوسرے الفاظ میں کہا جائے بے شک شفاعت گناہگاروں کی ہوگی لیکن کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا معیناً و مشخصاً میری ہی شفاعت ہوگی۔
اور نہ ہی کہا جاسکتا ہے فلاں معین گناہ پر تو شفاعت ہے ۔۔بالکل بھی نہیں۔۔جب دونوں چیزیں معین نہیں ہیں تو پھر شفاعت بھی گناہ پر جرأت کا باعث نہیں ہوگی۔شفاعت تو فقط اس لیے ہے کہ انسان گناہکار ہونے کے باوجود یأس و ناامیدی کا شکار نہ ہو۔
باقی جو آیات پیش کی گئی ہیں انکا بھی مطلب درست نہیں سمجھا گیا۔
کیونکہ سورہ بقر ہ والی آیت اس غلط شفاعت کی نفی کرتی ہے یا اس شفاعت کی نفی کرتی ہے جو اذن الہی کے بغیر ہو کیونکہ قرآن صریح طریقے سے بیان کرتا ہے قیامت کے دن شفاعت اذن الہی سے ہوگی۔
سورہ بقرہ آیت ۲۵۵:
سورہ طہ آیت ۱۰۹:
اور سورہ یونس والی آیت میں بھی
اولا ً: مشرکین بتوں سے شفاعت مانگتے تھے جبکہ خدا نے بتوں کو شفاعت کا وسیلہ نہیں بنایا دوسرے الفاظ میں بتوں کو اذن شفاعت ہی نہیں دی حالانکہ ہم ان شفعاء کی بات کررہے ہیں جن کو خدا نے خود شفیع بنایا ہے۔
ثانیاً: مشرکین انکی عبادت کرتے تھے جبکہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کی جاسکتی اور ہم کبھی بھی انکی عبادت نہیں کرتے جنہیں مقام شفاعت عطا کیا گیا ہے۔
خلاصۂ کلام:
الف: شفاعت اسکی ہوگی جس میں شفاعت کی صلاحیت ہوگی یعنی مومن ہو۔
ب:شفاعت بھی کسی معین شخص یا معین گناہ کیلئے نہیں ہے ۔
ج:قیامت کے دن شفاعت اذن الہی سے ہوگی جسے اذن الہی ہوگا وہی شفاعت کرے گا۔
د:قرآن میں شفاعت کی نفی کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت سے مراد پارٹی بازی لیا جائے یعنی اگرچہ وہ شخص لائق نہ ہو پھر بھی تعلق کی بناء پر اسے چھوڑ دیا جائے۔
ھ: شفاعت اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ انسان یأس و ناامیدی کا شکار نہ ہو۔