امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) کے چالیس گوہربار نورانی احادیث (قسط-1)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

چهل حدیث نورانی از سخنان گهربار حضرت فاطمه زهرا س | 40 حدیث منتخب از حضرت  فاطمه س دخت پیامبراکرم ص

حضرت فاطمہ زہراء(سلام اللہ علیہا) کے چالیس گوہربار نورانی احادیث (قسط-1)
ترجمہ : یوسف حسین عاقلی پاروی
۱- قالَتْ فاطِمَةُ الزَّهْراء سلام اللّه علیها: نَحْنُ قَبرِ وَسیلَتُهُ فى خَلْقِهِ، وَ نَحْنُ خاصَّتُهُ وَ مَحَلُّ قُدْسِهِ، وَ نَحْنُ حُجَّتُهُ فى غَیْبِهِ، وَ نَحْنُ وَرَثَةُ انْبیائِهِ.
(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید: ج. ۱۶، ص. ۲۱۱)
ہم پیغمبر(ص) کے اہل بیت ہیں، جو پروردگار اور مخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ۔ہم اللہ کے پاک و مقدّس ،خالص اور مقدس چنے ہوئے ہستیاں ہیں، ہم  ہی حجت الہی اور رہنما ہوں گے۔اور ہم ہی  پروردگار عالم کے نبیوں کے وارث ہیں۔
۲-قالَتْ علیها السلام: وَ هُوَ الامامُ الرَبّانى، وَ الْهَیْکَلُ النُّورانى، قُطْبُ الاقْطابِ، وَسُلالَةُ الاْطْیابِ، النّاطِقُ بِالصَّوابِ، نُقْطَةُ دائِرَةِ الامامَةِ.
(ریاحین الشّریعة: ج, ۱، ص. ۹۳)
آپ علیہا السلام ،امام علی علیہ السلام کی تعریف میں فرماتی ہے:وہ  الہی رہنما اور ربّانى رہبرہے، اور یہ روشنی  اورنور کا مجسمہ ہے۔،تمام مخلوقات عالم (قطب عالم) کی توجہ کا مرکزاورنسب نیک، حق گو وسچ بولنے والا، کلام کرنے میں حکیم  اور ہادی ہیں،جس کا تعلق پاکیزہ وپاکیزہ خاندان سے ہے ۔وہ حلقہ امامت کا نقطہ و مرکز اور رهبریّت و قیادت کا محور ہے۔
۳- قالَتْ علیهاالسلام: ابَوا هِذِهِ الاْ مَّةِ مُحَمَّدٌ وَ عَلىُّ، یُقْیمانِ اءَودَّهُمْ، وَ یُنْقِذانِ مِنَ الْعَذابِ الدّائِمِ إنْ اطاعُوهُما، وَ یُبیحانِهِمُ النَّعیمَ الدّائم إنْ واقَفُوهُما.
(بحارالا نوار: ج، ۲۳، ص، ۲۵۹، ح، ۸)
اس قوم کے باپ  حضرت محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور علىّ (علیه السلام) ہیں۔اگر لوگ ان  دونوں کی اطاعت و پیروی کریں گے تو وہ دنیا کے انحرافات اور آخرت کے دائمی عذاب سے بچ جائیں گے۔اور وہ بہشت کی انواع و اقسام، متنوع اور فراں نعمتوں سے مستفید ہونگے۔
۴- قالَتْ علیها السلام: مَنْ اصْعَدَ إلىَ اللّهِ خالِصَ عِبادَتِهِ، اهْبَطَ اللّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ افْضَلَ مَصْلَحَتِهِ.
(بحار: ج. ۶۷، ص. ۲۴۹، ح. ۲۵)
جو فرد اپنی  عبادت  کو خدا کے لیے خلوص نیت کے ساتھ انجام دیں۔اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بہترین مصلحتوں ، فوائد اور برکتوں سے نوازے گا
۵-قالَتْ علیها السلام: إنَّ السَّعیدَ کُلَّ السَّعیدِ، حَقَّ السَّعیدِ مَنْ احَبَّ عَلیّا فى حَیاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ.
(شرح نهج البلاغه ابن ابى الحدید: ج. ۲، ص. ۴۴۹)
بے شک تمام سعادت اور نجات کی حقیقت اور واقعیّت اور حق سعادت،وہ ہے جو  حقیقت میں  علىّ علیه السلام سے محبت اور دوستی رکھیں،  آپ (ع) کی زندگی میں اور آپ (ع) کی شہادت کے بعد۔
۶- قالَتْ علیها السلام: إلهى وَ سَیِّدى، اءسْئَلُکَ بِالَّذینَ اصْطَفَیْتَهُمْ، وَ بِبُکاءِ وَلَدَیَّ فى مُفارِقَتى اَنْ تَغْفِرَ لِعُصاةِ شیعَتى، وَشیعَةِ ذُرّیتَى.
(کوکب الدّرىّ: ج. ۱، ص. ۲۵۴.)
خداوندا! بحقّ اولیاء ،مقرّب بندگان الہی اور اپنے منتخب بندوں کا واسطہ اور میری موت کے بعد میرے بچوں کےمجھ پر رونے کا واسطہ، ہمارے چاہنے  والوں  ،  ہمارے پیروکاروں اور میری ذرّیت کے شیعوں کے گناہوں کو معاف فرما
۷-قالَتْ علیها السلام: شیعَتُنا مِنْ خِیارِ اءهْلِ الْجَنَّةِ وَکُلُّ مُحِبّینا وَ مَوالى اَوْلیائِنا وَ مُعادى اعْدائِنا وَ الْمُسْلِمُ بِقَلْبِهِ وَ لِسانِهِ لَنا.
(بحارالا نوار: ج. ۶۸، ص. ۱۵۵، س. ۲۰، ضمن ح. ۱۱.)
ہمارے شیعہ اور پیروکار نیز ہمارے اولیاء سے دوستی ومحبت کرنے والے اور وہ لوگ جو ہمارے دشمنوں کے دشمن ہیں۔نیز وہ لوگ جو اپنے دل اور زبان سے تسلیم اورہماری اطاعت کرتے ہیں  وہ جنت وبہشت میں بہترین لوگوں میں سے ہوں گے۔
۸- قالَتْ علیها السلام: وَاللّهِ یَابْنَ الْخَطّابِ لَوْلا إنّى اکْرَهُ انْ یُصیبَ الْبَلاءُ مَنْ لاذَنْبَ لَهُ، لَعَلِمْتَ انّى سَاءُقْسِمُ عَلَى اللّهِ ثُمَّ اجِدُهُ سَریعَ الاْجابَةِ.
(اصول کافى: ج. ۱، ص. ۴۶۰، بیت الا حزان: ص. ۱۰۴، بحارالا نوار: ج. ۲۸، ص. ۲۵۰، ح. ۳۰)
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے عمر بن خطاب  سے فرمایا:
اے خطاب کے بیٹےخدا کی قسم ۔اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ بے گناہوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا تو تم جانتا اور دیکھتا کہ میں خدا کی قسم کھا رہی ہوں اورنفرین و لعنت بھیج رہی ہوں اورتم دیکھتے کہ میری دعا ءکس طرح جلد قبول اور مستجاب ہوتی ہے۔
۹-قالَتْ علیها السلام: وَاللّهِ، لاکَلَّمْتُکَ ابَدا، وَاللّهِ لاَدْعُوَنَّ اللّهَ عَلَیْکَ فى کُلِّ صَلوةٍ(أُصَلِّيهَا)(و فی کتاب بحار جاء: وَ أَبُو بَكْرٍ يَبْكِي وَ يَقُولُ: وَ اَللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ اَللَّهَ لَكِ فِي كُلِّ صَلاَةٍ أُصَلِّيهَا ثُمَّ خَرَجَ بَاكِياً)
(البلاذري، أحمد بن يحيي بن جابر (متوفاى279هـ)، أنساب الأشراف، ج1، ص 79، تحقيق: سهيل زكار ورياض الزركلي. الناشر: دار الفكر – بيروت. الطبعة: الأولى، 1417 هـ - 1996 م. - الجوهري، أبي بكر أحمد بن عبد العزيز (متوفاي323هـ)، السقيفة وفدك، ص 104، تحقيق: تقديم وجمع وتحقيق: الدكتور الشيخ محمد هادي الأميني، ناشر : شركة الكتبي للطباعة والنشر - بيروت – لبنان، الطبعة الأولى 1401 ه‍ - 1980م / الطبعة الثانية 1413 ه‍ . 1993م- كتاب عدالة الصحابة للشيخ محمد السند : 186 ـ 199  -)صحیح مسلم: ج. ۲، ص. ۷۲، صحیح بخارى: ج. ۶، ص. ۱۷۶)
آپ علیہا السلام نے اپنے بیت الشرف  پر ہجوم اور حملے کے بعد آپ (علیہا السلام) نے ابوبکر کو مخاطب کر کے فرمایا:
میں خدا کی قسم کھاتی ہوں، میں تم سے دوبارہ  ہرگزبات نہیں کروں گی  اور خدا کی قسم، میں ہر نماز میں تم پر لعنت بھیجوں گی۔
۱۰- قالَتْ علیها السلام: إنّى اُشْهِدُاللّهَ وَ مَلائِکَتَهُ، انَّکُما اَسْخَطْتُمانى، وَ ما رَضیتُمانى، وَ لَئِنْ لَقیتُ النَبِیَّ لا شْکُوَنَّکُما إلَیْهِ.
(بحارالا نوار: ج. ۲۸، ص. ۳۰۳، صحیح مسلم: ج. ۲، ص. ۷۲، بخارى: ج. ۵، ص. ۵)
جب ابوبکر اور عمر  آپ (علیہا السلام)سے ملنے آئے
 تو آپ (علیہا السلام)نے فرمایا:میں خدا اور فرشتوں کو گواہ  بناتی ہوں کہ تم دونوں نے مجھے ناراض کیا ۔اور تم نے مجھے راضی اور مطمئن نہیں کیا اور اگر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے ملوں تو تم دونوں کی شکایت کروں گی۔
11- قالَتْ علیها السلام: لاتُصَلّى عَلَیَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَاللّهِ وَ عَهْدَ ابى رَسُولِ اللّهِ فى امیرالْمُؤ منینَ عَلیّ، وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ، وَاءخَذُوا إرْثى، وَخَرقُوا صَحیفَتى اللّتى کَتَبها لى ابى بِمُلْکِ فَدَک.
(بیت الا حزان: ص. ۱۱۳، کشف الغمّة: ج. ۲، ص. ۴۹۴)
وہ لوگ  میری لاش پر نماز نہ پڑھیں جنہوں نےعہد ِ پروردگار عالم اورمیرے والد محترم  پیغمبر خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کوتوڑا ہے جو  امیرالمؤمنین علىّ علیه السلام کے بارے میں لیا تھا انہوں نے(بیعت شکنی کی) عہد وپیمان کو توڑا۔اور انہوں نے مجھ پر ظلم کیا،اور میرےحق وراثت  کوچھین لیا اور فدک کے ملکیت کے متعلق میرے والد کا خط پھاڑ دیا۔
۱۲ . قالَتْ علیها السلام: إلَیْکُمْ عَنّى، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَدیرِکُمْ، وَالاْمْرُ بعد تقْصیرکُمْ، هَلْ تَرَکَ ابى یَوْمَ غَدیرِ خُمّ لاِحَدٍ عُذْوٌ.
(خصال: ج. ۱، ص. ۱۷۳، احتجاج: ج. ۱، ص. ۱۴۶)
آپ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کر کے فرمایا:مجھ سے دور ہو جاؤ! اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔کیاتم لوگوں کے لئے غدیر خم کے اعلان کے بعد بھی کوئی عذر باقی رہتا ہے؟! کہ تم لوگ لاتعلقی اور غفلت کےشکار ہو یاد رکھنا تم مقصر ہو۔ کیا میرے والد نے غدیر خم کے دن کسی کے لیے کوئی عذر باقی چھوڑا تھا؟
۱۳ . قالَتْ علیها السلام: جَعَلَ اللّهُ الاْیمانَ تَطْهیرا لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزی‌ها لَکُمْ مِنَ الْکِبْرِ، وَالزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ، وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَالصِّیامَ تَثْبیتا لِلاْخْلاصِ، وَالْحَّجَ تَشْییدا لِلدّینِ
(ریاحین الشّریعة: ج. ۱، ص. ۳۱۲، فاطمة الزّهراء علی‌ها السلام: ص. ۳۶۰، قطعه اى از خطبه طولانى و معروف آن مظلومه در جمع مهاجرین و انصار)
خداوند سبحان، نے ایمان واعتقادِیقین کو شرک سے طہارت وپاکیزگی اور گمراہی، شقاوت اور فتنہ سے نجات کا ذریعہ بنایا۔ اورہر قسم کے تکّبر،کےلئے، تواضع و خضوع ، فروتنى وعاجزی ، اور پاکیزگی کے ساتھ اداء کی ہوئی نماز کو قرار دی ہے ۔اور  زکوٰۃ (اور خمس)  کو تزکیه نفس کا وسیلہ  اور رزق و روزی میں برکت  کا ذریعہ بنایا ہے۔ اور روزے کو استقامت ، ارادے میں اخلاص کا ذریعہ بنایا۔ اور حج کو اس لئے فرض کیاتاکہ شریعت کی اساس و  بنیاد  مستحکم اور دین اسلام کی مضبوط کا باعث بنے ۔
۱۴ . قالَتْ علیها السلام: یا ابَاالْحَسَنِ، إنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ اهْلِهِ لُحُوقا بِهِ وَلابُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِ مْرِاللّهِ تَعالى وَارْضَ بِقَض ائِهِ.
(بحارالا نوار: ج. ۴۳، ص. ۲۰۰، ح. ۳۰)
اے ابا الحسن!، رسول اللہ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وسلم نے مجھ سے وعدہ و عہد کیا ہے اور مجھ سےفرمایا:اہل بیت  میں سے میں پہلا شخص  ہوں جو آپ (رسول اللہ صَلَّى اللّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وسلم)سے ملحق و ملاقات کرےگی ، اور اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے، پس آپ  خدا کی تقدیر ،قضا و مقدّرات الهى  پرصبر کرو اور تقدیرالہی کو  خوشنودی کے ساتھ قبول کیجئے۔
۱۵ .قالَتْ علیها السلام: مَنْ سَلَّمَ عَلَیْهِ اَوْ عَلَیَّ ثَلاثَةَ ایّامٍ، اوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَیاتِهِ وَ حَیاتِکِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا.
(الا مامة والسّیاسة: ص. ۳۰، بحارالا نوار: ج. ۲۸، ص. ۳۵۵، ح. ۶۹)
جو بھی تین دن تک  میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا مجھ (زہراء) پردرود وسلام  بھیجے،  پروردگاراس کے لیے جنت کو واجب کرتا ہے، روای کہتا ہے کہ میں نے کہا:چاہے وہ ان کی زندگی کے دوران ہو یا موت کے بعدبھی ؟ تو آپ علیہاالسلام نے فرما یا : جی موت کے بعدبھی

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک