امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسلام میں شیعہ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اسلام میں شیعہ
اسلام میں شیعہ، اہل تشیع کے بارے میں علامہ طباطبائی کی ایک مشہور تصنیف ہے۔ یہ کتاب ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے شیعیت پر لکھی گئی عمدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب امریکہ اور یورپی ممالک کے یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں شیعہ شناسی کے اہم تدریسی منابع میں شمار ہوتی ہے۔ اس وقت بھی یہ کتاب ایران کے دینی مدارس کے تدریسی نصاب میں شامل ہے۔
محققین کے مطابق مغربی دانشوروں کی خود غرضی، تحریف اور اسلام کے متعلق تحقیق کے دوران اہل سنت منابع کے استعمال کی وجہ سے مغربی دنیا میں حقیقی تشیع کی پہچان کبھی نہیں ہو سکی۔ اس بنا پر علامہ طباطبائی نے تقریبا سنہ 1966ء میں اس کتاب کو زیور طبع سے آراستہ کیا۔ شروع میں سید حسین نصر کے توسط سے اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کر کے امریکہ کی تمام یونیورسٹیوں میں تقسیم کی گئی۔ سنہ 1968ء میں اس کتاب کا فارسی نسخہ ایران میں شائع ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں ہر قسم کی روایتی تعصبات سے ہٹ کر تاریخی اور علمی تجزیہ و تحلیل کے ذریعے شیعہ مذہب کا حقیقی چہرہ اسلام کے دو بڑے مذاہب میں سے ایک کے عنوان سے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں ذکر ہونے والے مصنف کے بعض نظریات یہ ہیں: قرآن میں حقیقت تک پہنچنے کے تین راستوں کی نشاندہی کی گئی ہے: احادیث، فلسفیانہ عقل اور صوفیانہ کشف‌ و شہود۔ عرفان اسلامی کا اصل سرچشمہ قرآن، سنت اور امام علیؑ کے کلمات ہیں۔ قرآن میں معرفت نفس کو خدا شناسی کا اصلی راستہ قرار دیا گیا ہے۔ شیعہ ائمہ قرآن کی تفسیر میں صرف "قرآن سے قرآن کی تفسیر" کا طریقہ استعمال کرتے تھے۔
کتاب "اسلام میں شیعہ" کی پہلی اشاعت کے بعد مختلف ناشروں کے توسط سے مختلف نسخوں اور ترجموں کے ساتھ شائع ہوتی رہی ہے۔ عالمی اہل بیت اسمبلی نے اس کتاب کو دنیا کے 10 زندہ زبانوں منجملہ، اردو، ہندی، اطالوی، روسی، فرانسیسی اور چائنہ زبان۔۔۔ میں ترجمہ اور شایع کیا ہے۔
علمی مقام
اسلام میں شیعہ علامہ طباطبائی کی ایک مشہور تصنیف ہے[1] جو اہل تشیع اور شیعہ اثناعشریہ کے بارے میں لکھی گئی ہے۔[2]اس کتاب کو شیعہ شناسی کے باب میں ایران کے اسلامی انقلاب سے پہلے انجام دئے جانے والے عمدہ کاموں میں سے ایک قرار دی جاتا ہے[3] اور اب بھی یہ ایک منطقی، مستدل اور جامع کتاب کے طور پر جانی جاتی ہے۔[4] رسول جعفریان کے مطابق کتاب "اسلام میں شیعہ" علامہ طباطبائی کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہے جسے انہوں نے سنہ 1950 اور 1960ء کی دہائی میں اسلام کو سیاسی اور اجتماعی دین کے طور پر پیش کرنے میں استعمال کیا اور بہت موثر رہی ہے۔[5]
مذکورہ کتاب علمی محافل میں ایک خاص مقام کا حامل ہے[6] اور علامہ طباطبائی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے شیعہ‌ شناسی کا آغاز قم سے کیا۔[7] یہ تصنیف یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں شیعہ شناسی کے باب میں اصلی منبع کے طور پر قابل استفادہ ہے اور مذہب شناسی کے اکیڈمیوں میں اس کتاب کی باقاعدہ تدریس ہوئی ہے۔[8] یہ کتاب جارج واشنگٹن اور امریکہ کی دوسری یونیورسٹیوں کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں انڈرگریجویٹ اور ماسٹر ڈگری میں شیعہ شناسی کے تدریسی منابع میں شامل ہے۔[9] نیز جاپان کے یونیورسٹیوں میں بھی یہ کتاب شیعہ شناسی کے شعبے میں تدریسی منابع میں سے ہے۔[10] کتاب "اسلام میں شیعہ" اس وقت ایران کے دینی تعلیمی مراکز کے نصاب میں بھی شامل ہے۔[11]
آقا تہرانی کے مطابق جب اسلامک انسٹی ٹیوٹ آف نیویارک کے توسط سے امریکی قید خانوں میں اسلام کی تبلیغ کے لئے اس کتاب کو بھیجا گیا تو امریکی قیدیوں کی طرف سے مورد استقبال قرار پانے والی کتابوں میں قرآن اور نہج‌ البلاغہ کے بعد تیسرے نمبر پر اس کتاب کا نام آتا ہے۔[12] اسی طرح «اسلامی علوم کے ظہور اور توسیع میں شیعوں کا کردار» نامی بین الاقوامی کانفرنس میں اس کتاب کو اہم ترین اور برجستہ‌ ترین منابع کا عنوان دیا گیا۔[13]
مصنف
سید محمد حسین طباطبایی (سنہ 1902-1981ء)، علامہ طباطبائی کے نام سے مشہور شیعہ فلسفی اور مفسر قرآن ہیں۔ آپ سنہ 1925ء کو نجف ورانہ ہوئے۔[14] یہاں آپ نے سید علی قاضی، محمد حسین غروی نائینی، محمد حسین غروی اصفہانی اور حجت کوہ‌کمری جیسے اساتید سے کسب فیض کیا۔[15] آپ سنہ1946ء میں قم واپس آکر[16] حوزہ علمیہ قم میں فلسفہ اور تفسیر کی تدریس میں مشغول ہوئے۔[17] علامہ طباطبائی نے شہید مطہری، آیت اللہ جوادی آملی، حسن حسن‌زادہ آملی[18] اور سید حسین نَصْر[19] جیسے شاگردوں کی تربیت کی، اس کے علاوہ تقریبا 50 سے زیادہ قلمی آثار آپ کے علمی ورثے میں شامل ہیں جن میں تفسیر المیزان، اصول فلسفہ و روش رئالیسم، نہایۃ الحکمۃ اور "اسلام میں شیعہ" کا نام خصوصی طور پر لیا جا سکتا ہے۔[20] شعر و شاعری[21] اور علمی نشستوں میں شرکت کرنا آپ کی دیگر فعالیتوں میں سے ہے۔[22]
تصنیف کا مقصد
سید حسین نَصْر کے مطابق گذشتہ صدیوں میں مغربی دانشوروں کے تعصب، خودغرضی، تحریف اور اسلام کے بارے میں کی گئی تحقیقات میں اہل‌ سنت منابع کا استعمال، اسی طرح شیعہ مذہب کے تعارف میں شیعہ اثناعشریہ کو فرعی حیثیت اور اسماعیلیہ کو اصلی فرقہ قرار دینے کی وجہ سے مغربی دنیا میں حقیقی شیعہ مذہب کی درست پہچان کبھی بھی نہ ہو سکی؛ یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی شیعہ مذہب کو ایک بدعتی اور دشمنان اسلام کی طرف سے بنایا گیا جعلی مذہب کے طور پر پیش کیا گیا۔[23]
کتاب "اسلام میں شیعہ" کو اس دور میں[24]حقیقی شیعیت کی پہچان[25] اور مغرب کے علمی حلقوں میں معتبر مآخذ کے خلا کو پر کرنے کے لئے تحریر کیے جانے والے مآخذ میں[26] شمار کی جاتی ہے۔
تدوین کا زمانہ
سنہ 1964ء کے موسم گرما میں سید حسین نصر اور کولائٹس کالج آف امریکہ کے استاد پروفیسر کِنِث مورگان(Kenneth Morgan) کی علامہ طباطبائی کے ساتھ ملاقات میں دنیائے غرب میں شیعیت کی پہچان کے لئے کسی کتاب کی تحریر کا منصوبہ طے پایا۔[27] اس کتاب کی تدوین میں کئی سال لگے اور علامہ طباطبائی نے سنہ 1966ء میں اس کتاب کو ضبط تحریر میں لایا۔ شروع میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ سید حسین نصر کے توسط سے انجام پایا جس کے بعد اس ترجمے کو امریکہ کے مختلف یونیورسٹیوں میں منتشر کیا گیا۔[28]
بعض لوگ اس کتاب کو علامہ طباطبائی اور ان کے شاگردوں من جملہ ہانری کربن کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔[29]
کتاب کی خصوصیات
کتاب "اسلام میں شیعہ" کو ایک فلسفی‌ اور تاریخی کتاب قرار دی جاتی ہے[30] جسے روایتی تعصبات سے ہٹ کر منصفانہ تاریخی اور علمی پیرائے میں تحریر کی گئی ہے۔[31]رسول جعفریان کے مطابق یہ کتاب مذہب شیعہ کی اعلی سطح پر معرفی اور پہنچان کے لئے لکھی گئی سب سے عام فہم، آسان اور رائج کتاب سمجھی جاتی ہے۔[32] مؤلف نے شیعہ مذہب کے دفاع میں اہل‌ سنت کی توہین اور کسی قسم کے اختلاف اور تفرقہ ایجاد کئے بغیر اسلام کا ایک اصلی پہلوں پیش کیا ہے اور اسلام کے دو بڑے مذاہب کے درمیان گفتگو کو آسان‌ بنایا ہے۔[33]
سید حسین نصر کے مطابق یہ کتاب ایک نئے ہدف کے لئے کی گئی نئی تحقیق ہے[34] اور وہ شیعہ مذہب کو اسلام کے دوسرے سب سے بڑے مذہب کے عنوان سے معرفی کرنا ہے۔[35]
مضامین
کتاب "اسلام میں شیعہ" ایک مقدمہ، تین حصوں اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔[36] مقدمے میں دین، اسلام اور شیعیت کی تعریف کی گئی ہے۔[37] کتاب کے پہلے حصے میں شیعیت کا آغاز، پیغمبر اسلامؐ کی جانشینی کا مسئلہ، امام علیؑ کی امامت، خلافت کا امام حسنؑ سے معاویہ کی طرف منتقلی، دوسری صدی سے چودہویں صدی تک کی شیعہ تاریخ، شیعہ اثناعشریہ اور دوسرے شیعہ فرقے جیسے زیدیہ اور اسماعیلیہ وغیرہ جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔[38]
دوسرے حصے میں لفظ شیعہ کے معنی اور شیعہ تفکر تک رسائی کے تین راستوں: ظواہر دینی، عقل اور کشف‌ و‌ شہود کے باہمی اختلاف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[39] اس کتاب کا تیسرا حصہ جو کہ کتاب کے اکثر مطالب پر مشتمل ہے، میں اسلامی اعتقادات اور تعلیمات میں سے خدا شناسی، پیغمبر شناسی، معاد شناسی، امام‌ شناسی، خدا کی وحدانیت، مسئلہ جبر و اختیار اور قضا و قدر جیسے موضوعات پر شیعہ نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی ہے۔[40] اس کتاب کے خاتمے میں شیعیت کے معنوی پیغام کی طرف اشارہ ہوا ہے جو کہ خدا شناسی ہے اور علامہ طباطبائی کی نظر میں یہی چیز سعادت اور نجات کا واحد راستہ ہے۔[41]
مصنف کے بعض نظریات
اس کتاب میں مطرح ہونے والے علامہ طباطبائی کے بعض نظریات درج ذیل ہیں:
خدا نے حقیقت کو کشف کرنے کے لئے قرآن میں تین راستوں کی طرف نشاندہی کی ہے: ظواہر دینی (نقل)،[42] حجت عقلی (عقل فلسفی) اور کشف و شہود (راہ عرفا)۔[43]
قرآن شروع میں انسانوں کو عقل کی طرف رجوع کرنے کی ‌دعوت دیتا هے تاکہ اس کے نتیجے میں وہ حقیقت تک پہنچ سکیں، نہ یہ کہ شروع میں اسلامی تعلیمات کی حقانیت کو قبول کریں اس کے بعد عقلی دلائل کی طرف رجوع کریں۔[44]
انسان کی عقل ایک جامع قانون مرتب کرنے میں ناکام رہی هے جو انسانی معاشرے کی سعادت اور کامیابی کی ضمانت دے سکے اور یہ فقط خدا کے احکام ہیں جسے خدا نے انبیاء کے ذریعے نازل کیا جو ایسا جامع قانون مرتب کر سکتے ہیں جو پوری کائنات میں حکم فرما ہو اور انسان کی سعادت اور خوشبختی کا ضامن ہو۔[45]
وحی ایک لحاظ سے مرموز اور ناشناختہ شعور اور آگاہی ہے جو حس اور عقل کے مقابلے میں ہے اور فقط کچھ مخصوص ہستیاں جیسے انبیاء اس تک دسترسی پیدا کر سکتے ہیں۔[46]
اسلامی عرفان و تصوف کا اصلی سرچشمہ اور منبع قرآن و سنت اور امام علیؑ کے کلمات ہیں؛ لیکن اکثر عرفا کا ظاہرا سنی مذہب ہونے کی وجہ سے رائج عرفان و تصوف کو اہل سنت کی طرف نسبت دی گئی ہے۔[47]
اسلامی فلسفہ کی تاریخ پر نگاہ دڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکتب فکر دن بدن اہل‌ بیتؑ کے احادیث کے قریب ہوا یہاں تک کہ گیارہویں صدی ہجری میں ملا صدرا نے دین اور فلسفہ میں مکمل ہماہنگی برقرار کر دیا اور فقط تعبیر میں اختلاف باقی رہ گیا۔[48]
صدر اسلام کے مفسرین کے توسط سے نقل ہونے والی اہل‌ بیتؑ کی احادیث میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ ائمہؑ قرآن کی تفسیر میں صرف اور صرف قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر کے طریقہ کار کا استعمال کرتے تھے اور ہر آیت کی دوسری آیت کے ذریعے وضاحت اور تفسیر کرتے تھے نہ یہ کہ اپنی طرف سے تفسیر کرتے ہوں۔[49]
قرآن اور احادیث میں معارف الہی کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ ان تک پہنچنے کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، انسان کی ہدیت کا کامل اور حقیقی شاہراہ معرفت نفس اور خودی کی پہنچان ہے۔[50]
ہدایت کی دو قسمیں ہیں: ہدایت عام (راستہ دکھانا) اور ہدایت خاص (مقصد تک پہنچانا)۔ ہدایت خاص یا ولایت باطنی کا امامؑ کی غیبت اور حاضر ہونے کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور اس نکتے کی طرف احادیث میں بھی امام غائب کے وجود کی حکمت اور فلسفے کے عنوان سے اشارہ کیا گیا ہے۔[51]
پیغمبر اسلامؐ دس سال مدینہ میں قیام کے بعد ایک یہودی عورت کی طرف سے کھانے میں زہر دینے کے ذریعے شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔[52]
چاپ و نشر

کتاب "اسلام میں شیعہ" شروع میں سنہ 1345 ہجری شمسی کو انگریزی زبان میں ترجمہ اور نشر ہوئی؛[53] لیکن اس کے کچھ عرصے بعد یعنی سنہ 1347 ہجری شمسی کو اصل کتاب 160 صفحوں[54] میں فارسی زبان میں شایع ہوئی۔ اس ایڈیشن کا مقدمہ سید حسین نصر نے جبکہ اس کی تصحیح اسکندر محجوب‌ کار نے کی اور پاکٹ سائز میں موٹے جلد کے ساتھ کتابخانہ بزرگ اسلامی نے تہران میں شایع کیا۔ جامعہ مدرسین قم سے وابستہ پبلیکشر دفتر انتشارات اسلامی نے اس کتاب کو پہلی بار قم میں سنہ 1362 ہجری شمسی میں شایع کیا۔[55] اس کتاب کا فارسی نسخہ متعدد بار مختلف انتشارات کے توسط سے شایع ہوا ہے جن میں ادباء، دادور، دانشگاہ علامہ طباطبایی، مؤسسہ بوستان کتاب، واریان، دارالتفسیر، انصاریان، ثقلین، مرکز نشر فرہنگی رجاء، مرکز بررسی‌ہای اسلامی شامل ہیں۔[56] اس کتاب کا قلمی نسخہ تقریبا 50 سال تک سید حسین نصر کے پاس موجود تھا جسے انہوں نے سنہ 1398 ہجری شمسی کو دانشگاہ شہید بہشتی کے فلسفہ کے استاد غلام رضا اعوانی کے توسط سے تہران یونیورسٹی کے مرکزی کتابخانہ کے قلمی نسخے کے ڈپارٹمنٹ میں جمع کیا۔[57]
ترجمہ
کتاب "اسلام میں شیعہ" کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔[58]اس کتاب کا پہلا ترجمہ انگریزی زبان میں سید حسین نصر کے توسط سے انجام پایا[59] جسے سنہ ہجری کے ابتدائی صدیوں کی شیعہ تاریخ سے مربوط اہم ترین تحقیقی آثار میں سے قرار دیا گیا ہے۔[60]
اسی طرح اس کتاب کا سنہ 1999ء میں انتشارات بیت الکاتب للطباعۃ و النشرِ بیروت کے توسط سے عربی زبان میں ترجمہ ہوا[61]، سنہ 2007ء کو ژاپنی زبان میں[62] اور سنہ 2020ء کو مرکز اسلامی ہامبورگ کے توسط سے یونانی زبان میں ترجمہ اور شایع ہوئی ہے۔[63] اہل بیت عالمی اسمبلی نے بھی اس کتاب کو مختتلف زبانوں من جملہ ہندی، اطالوی، روسی، فرانسیسی، بنگالی، تاجیکی، ٹایلنڈی، ترکی، چینی اور لہستانی زبان میں ترجمہ اور منتشر کیا ہے۔[64]
حوالہ جات
↑ جعفریان، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، ص234۔
↑ عالمی، آسیب شناسی تمدن اسلامی مبتنی بر اندیشہ‌ہای سید حسین نصر، 1389ہجری شمسی، ص27۔
↑ جعفریان، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، ص235۔
↑ کوشا، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ، ص11۔
↑ جعفریان، مقالات تاریخی، 1387ہجری شمسی، ج18، ص170-171۔
↑ خسروشاہی، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص11۔
↑ جعفریان، مقالات تاریخی، 1387ہجری شمسی، ج18، ص171۔
↑ خسروشاہی، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص11۔
↑ محمودی، مراکز شیعہ‌پژوہی مستشرقان، 1397ہجری شمسی، ص62-63۔، کوشا، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ، ص11۔
↑ رجب‌زادہ، «از چشمہ خورشید (یادداشت‌ہایی از ژاپن)»، ص246۔
↑ کوشا، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ، ص11۔
↑ آقاتہرانی، «بازشناسی فرہنگ خودی و فرہنگ غیر خودی و راہ ہای تقویت خود باوری فرہنگی»، ص8۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص31-32 و 43 و 90۔
↑ ‌تہرانی، زِ مہر افروختہ، 1389ہجری شمسی، ص166۔
↑ حسینی طہرانی، مہر تابان، 1426ھ، ص21-22۔
↑ غیاثی کرمانی، «اقیانوس حکمت: زندگی‌نامہ حضرت آیت‌اللہ علامہ سید محمدحسین طباطبایی»، ص82۔
↑ مصباح یزدی، «مربی بزرگ علم و عرفان»، ص66-65؛ حسینی طہرانی، مہر تابان، 1426ھ، ص61-63۔
↑ غیاثی کرمانی، «اقیانوس حکمت: زندگی‌نامہ حضرت آیت‌اللہ علامہ سید محمدحسین طباطبایی»، ص83-87؛ تہرانی، زِ مہر افروختہ، 1389ہجری شمسی، ص169-170۔
↑ نصر، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص16۔
↑ ملاحظہ کریں: تہرانی، زِ مہر افروختہ، 1389ہجری شمسی، ص169-170۔
↑ حسینی طہرانی، مہر تابان، 1426ھ، ص90۔
↑ ملاحظہ کریں: حسینی طہرانی، مہر تابان، 1426ھ، ص74۔
↑ نصر، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص13-14۔
↑ کاشی‌زادہ، منابع منطقی و فلسفی شیعہ، 1397ہجری شمسی، ص213۔
↑ خسروشاہی، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص11؛ نصر، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص16-17۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص31-32 و 43 و 90۔
↑ نصر، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص15-16۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص90۔
↑ جعفریان، مقالات تاریخی، 1387ہجری شمسی، ج18، ص170؛ شفیعی مازندرانی، سرچشمہ‌ہای آرامش در روان‌شناسی اسلامی، فرہنگ آفتاب، ص98۔
↑ جعفریان، مقالات تاریخی، 1387ہجری شمسی، ج18، ص171۔
↑ خسروشاہی، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص12۔
↑ جعفریان، مقالات تاریخی، 1387ہجری شمسی، ج18، ص170۔
↑ نصر، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص17۔
↑ نصر، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، ص16-17۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص25۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص90۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص25-29۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص29-70۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص71-100۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص101-198۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص91۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص25۔
↑ اسلامی، «علامہ و عقلگرایی در ساحت دین»، ص7۔
↑ اسلامی، «علامہ و عقلگرایی در ساحت دین»، ص7۔
↑ امین، «حقوق بشر، جہان شمولی یا نسبیت دینی- فرہنگی»، ص189۔
↑ امین، «حقوق بشر، جہان شمولی یا نسبیت دینی- فرہنگی»، ص189۔
↑ روحانی‌نژاد، «گرایش عرفانی در تفسیر از نگاہ استاد معرفت»، ص494؛ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص97-98۔
↑ مظفری، «فلسفہ اسلامی و تاویل متون دینی از نگاہ مکتب تفکیک»،‌ شمارہ 224؛ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص93۔
↑ عزیزی، «حاشیہ ای بر مقالہ بررسی دیدگاہ علامہ طباطبایی در بارہ رابطہ دادہ‌ہای فلسفی با تعالیم وحیانی»، ص96؛ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص77-78۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص98-100۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص163-166۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، 1388ہجری شمسی، ص131۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص90۔
↑ جعفریان، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، ص234۔
↑ محمودی، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، 1397ہجری شمسی، ص91۔
↑ «کلیدواژہ: اسلام میں شیعہ»، سایت گیسوء۔
↑ جعفریان، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، ص234-235۔
↑ عالمی، آسیب شناسی تمدن اسلامی مبتنی بر اندیشہ‌ہای سید حسین نصر، 1389ہجری شمسی، ص27؛ جعفریان، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، ص234۔
↑ جعفریان، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، ص234۔
↑ تقی‌زادہ داوری، تصویر امامان شیعہ در دایرۃ المعارف اسلام «ترجمہ و نقد»، 1385ہجری شمسی، ص281۔
↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی، الشیعۃ في الإسلام، 1999م، شناسنامہ کتاب۔
↑ محمودی، شیعہ‌پژوہان مستشرقان، 1397ہجری شمسی، ص215۔
↑ «انتشار کتاب اسلام میں شیعہ بہ زبان آلمانی»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن (ایکنا)۔
↑ کرمانی، «کارنامہ ترجمہ مجمع جہانی اہل‌بیت(ع)، 1369-1399ش»، 1401ہجری شمسی، ص22؛ جعفری، «فروغ قم در چہار سوی جہان: در نخجوان چہ می گذرد؟»، ص60؛ «کتاب شيعہ در اسلام بہ زبان ايتاليایی منتشر شد»، سایت خبرگزاری مہر؛ وانزان و رستگار، «شیعہ در ایتالیا، راہ دیگر خدا»، ص22۔

مآخذ
آقاتہرانی، مرتضی، «بازشناسی فرہنگ خودی و فرہنگ غیر خودی و راہ ہای تقویت خود باوری فرہنگی»، در نشریہ معرفت، شمارہ 38، بہمن 1379ہجری شمسی۔
اسلامی، سید حسن، «علامہ و عقلگرایی در ساحت دین»، در نشریہ پگاہ حوزہ، شمارہ 195، آبان 1385ہجری شمسی۔
امین، سید حسن، «حقوق بشر، جہان شمولی یا نسبیت دینی- فرہنگی»، در نشریہ علوم سیاسی، شمارہ 19، پاییز 1381ہجری شمسی۔
«انتشار کتاب اسلام میں شیعہ بہ زبان آلمانی»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن (ایکنا)، تاریخ درج مطلب: 9 اردیبہشت 1399ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 2 آذر 1402ہجری شمسی۔
تقی‌زادہ داوری، محمود، تصویر امامان شیعہ در دایرۃ المعارف اسلام «ترجمہ و نقد»، قم، شیعہ‌شناسی، 1385ہجری شمسی۔
تہرانی، علی، زِ مہر افروختہ، تہران، سروہجری شمسی، چاپ چہارم، 1389ہجری شمسی۔
جعفریان، رسول، «مطالعات شیعہ شناسی در ایران دورہ پہلوی: مورد کتاب اسلام میں شیعہ از موسی سبط الشیخ»، در آینہ پژوہہجری شمسی، شمارہ 4 (پیاپی 196)، مہر و آبان 1401ہجری شمسی۔
جعفریان، رسول، مقالات تاریخی، قم، دلیل ما، 1387ہجری شمسی۔
جعفری، حسن، «فروغ قم در چہار سوی جہان: در نخجوان چہ می گذرد؟»، در فرہنگ کوثر، شمارہ 23، بہمن 1377ہجری شمسی۔
حسینی طہرانی، محمدحسین، مہر تابان، مشہد، نور ملکوت قرآن، 1426ھ۔
حکیمی، محمدرضا، عقلانیت جعفری، قم، دلیل ما، 1390ہجری شمسی۔
خسروشاہی، سید ہادی، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، تألیف محمدحسین طباطبایی، قم، بوستان کتاب قم، 1388ہجری شمسی۔
رجب‌زادہ، ہاشم، «از چشمہ خورشید (یادداشت ہایی از ژاپن)»، در بخارا، شمارہ 62، خرداد و شہریور 1386ہجری شمسی۔
روحانی‌نژاد، حسین، «گرایش عرفانی در تفسیر از نگاہ استاد معرفت»، در معرفت قرآنی، ج4، گردآورندہ علی نصیری، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
شفیعی مازندرانی، محمد، سرچشمہ‌ہای آرامش در روان‌شناسی اسلامی، قم، فرہنگ آفتاب، چاپ اول، بی‌تا۔
طباطبایی، سید محمدحسین، اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، بہ کوشش ہادی خسروشاہی، قم، بوستان کتاب قم، 1388ہجری شمسی۔
طباطبایی، محمد حسین، الشیعۃ في الإسلام، مترجم جعفر بہاء‌الدین، بیروت، بیت الکاتب، 1999ء۔
عالمی، علیرضا، آسیب شناسی تمدن اسلامی مبتنی بر اندیشہ‌ہای سید حسین نصر، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی(ص)، 1389ہجری شمسی۔
عزیزی، غلامعلی، «حاشیہ ای بر مقالہ بررسی دیدگاہ علامہ طباطبایی در بارہ رابطہ دادہ‌ہای فلسفی با تعالیم وحیانی»، در نشریہ معرفت، شمارہ 29، تابستان 1378ہجری شمسی۔
غیاثی کرمانی، سید محمدرضا، «اقیانوس حکمت: زندگی‌نامہ حضرت آیت‌اللہ علامہ سید محمدحسین طباطبایی»، در مرزبان‌نامہ وحی و خرد: یادنامہ مرحوم علامہ سید محمدحسین طباطبایی، قم، بوستان کتاب قم، 1381ہجری شمسی۔
کاشی‌زادہ، محمد، منابع منطقی و فلسفی شیعہ، قم، امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
«کتاب شيعہ در اسلام بہ زبان ايتاليایی منتشر شد»، سایت خبرگزاری مہر، تاریخ درج مطلب: 9 آذر 1393ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 9 آبان 1402ہجری شمسی۔
کرمانی، عبدالکریم، «کارنامہ ترجمہ مجمع جہانی اہل‌بیت(ع)، 1369-1399ش»، بی‌جا، ادارہ کل خدمات فرہنگی و انتشارات مجمع جہانی اہل‌بیت(ع)، چاپ اول، 1401ہجری شمسی۔
«کلیدواژہ: اسلام میں شیعہ»، سایت گیسوم، تاریخ درج مطلب: 30 آیان 1402ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 30 آبان 1402ہجری شمسی۔
کوشا، محمدعلی، «پیش‌گفتار»، در اسلام میں شیعہ، تألیف محمدحسین طباطبایی، قم، واریان، 1386ہجری شمسی۔
محمودی، اکبر، شیعہ‌پژوہان مستشرقان، قم، امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
محمودی، اکبر، مراکز شیعہ‌پژوہی مستشرقان، قم، امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
محمودی، اکبر، منبع شناخت نقش شیعہ در علوم اسلامی، قم، امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1397ہجری شمسی۔
مصباح یزدی، محمدتقی، «مربی بزرگ علم و عرفان»، در مرزبان‌نامہ وحی و خرد: یادنامہ مرحوم علامہ سید محمدحسین طباطبایی، قم، بوستان کتاب قم، 1381ہجری شمسی۔
مظفری، حسین، «فلسفہ اسلامی و تاویل متون دینی از نگاہ مکتب تفکیک»،‌ در نشریہ پگاہ حوزہ، شمارہ 224، 1386ہجری شمسی۔
نصر، سید حسین، «مقدمہ»، در اسلام میں شیعہ (طبع جدید)، تألیف محمدحسین طباطبایی، قم، بوستان کتاب قم، 1388ہجری شمسی۔
‌وانزان، آنا، و سوسن رستگار، «شیعہ در ایتالیا، راہ دیگر خدا»، ترجمۂ سجاد جعفریان، در نشریہ پگاہ حوزہ، شمارہ 234، تابستان 1387ہجری شمسی۔

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک