حضرت فاطمہ کا خطبہ مدینہ کے خواتین کے سامنے (متن اور ترجمہ)
حضرت فاطمہ کا خطبہ مدینہ کے خواتین کے سامنے (متن اور ترجمہ)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْحُسَيْنِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ حُمَيْدٍ اللَّخْمِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا، قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُهَلَّبِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ (عليه السَّلام)، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّتْ عِلَّةُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ (صلى الله عليه و آله) اجْتَمَعَ عِنْدَهَا نِسَاءُ الْمُهَاجِرِينَ وَ الْأَنْصَارِ، فَقُلْنَ لَهَا يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ كَيْفَ أَصْبَحْتِ مِنْ عِلَّتِكِ؟
فَقَالَتْ: "أَصْبَحْتُ وَ اللَّهِ عَائِفَةً لِدُنْيَاكُمْ 1، قَالِيَةً 2 لِرِجَالِكُمْ 3، لَفَظْتُهُمْ قَبْلَ أَنْ عَجَمْتُهُمْ 4، وَ شَنَأْتُهُمْ بَعْدَ أَنْ سَبَرْتُهُمْ 5، فَقُبْحاً لِفُلُولِ الْحَدِّ 6 وَ خَوَرِ الْقَنَاةِ 7 وَ خَطَلِ الرَّأْيِ 8، وَ ﴿ ... لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ ﴾ 9، لَا جَرَمَ لَقَدْ قَلَّدْتُهُمْ رِبْقَتَهَا 10، وَ شَنَنْتُ عَلَيْهِمْ عَارَهَا 11 فَجَدْعاً وَ عَقْراً وَ سُحْقاً 12 لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ.
وَيْحَهُمْ أَنَّى زَحْزَحُوهَا عَنْ رَوَاسِي الرِّسَالَةِ 13وَ قَوَاعِدِ النُّبُوَّةِ 14 وَ مَهْبِطِ الْوَحْيِ الْأَمِينِ15 وَ الطَّبِينِ بِأَمْرِ الدُّنْيَا وَ الدِّينِ 16 - ﴿ ... أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾ 17، وَ مَا نَقَمُوا مِنْ أَبِي حَسَنٍ 18 نَقَمُوا وَ اللَّهِ مِنْهُ نَكِيرَ سَيْفِهِ 19 وَ شِدَّةَ وَطْأَتِهِ وَ نَكَالَ وَقْعَتِهِ 20 وَ تَنَمُّرَهُ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ 21، وَ اللَّهِ لَوْ تَكَافُّوا عَنْ زِمَامٍ نَبَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ (صلى الله عليه و آله) لَاعْتَلَقَهُ 22 وَ لَسَارَ بِهِمْ سَيْراً سُجُحاً 23 لَا يَكْلُمُ خِشَاشُهُ 24 وَ لَا يُتَعْتَعُ رَاكِبُهُ 25، وَ لَأَوْرَدَهُمْ مَنْهَلًا نَمِيراً فَضْفَاضاً تَطْفَحُ ضِفَّتَاهُ 26، وَ لَأَصْدَرَهُمْ بِطَاناً 27 قَدْ تَخَيَّرَ لَهُمُ الرَّيَ غَيْرَ مُتَحَلٍّ مِنْهُ بِطَائِلٍ 28 إِلَّا بِغَمْرِ الْمَاءِ وَ رَدْعِهِ سَوْرَةَ السَّاغِبِ، وَ لَفُتِحَتْ عَلَيْهِمْ بَرَكَاتُ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ، وَ سَيَأْخُذُهُمُ اللَّهُ بِما كانُوا يَكْسِبُونَ، أَلَا هَلُمَّ فَاسْمَعْ وَ مَا عِشْتَ أَرَاكَ الدَّهْرُ الْعَجَبَ، وَ إِنْ تَعْجَبْ وَ قَدْ أَعْجَبَكَ الْحَادِثُ، إِلَى أَيِّ سِنَادٍ اسْتَنَدُوا وَ بِأَيَّةِ عُرْوَةٍ تَمَسَّكُوا 29، اسْتَبْدَلُوا الذُّنَابَى وَ اللَّهِ بِالْقَوَادِمِ 30، وَ الْعَجُزَ بِالْكَاهِلِ 31، فَرَغْماً لِمَعَاطِسِ 32 قَوْمٍ ﴿ ... يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴾ 33 - ﴿ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ 34 - ﴿ ... أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَىٰ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴾ 35 - أَمَا لَعَمْرُ إِلَهِكَ لَقَدْ لَقِحَتْ 36 فَنَظِرَةٌ رَيْثَمَا تُنْتَجُ 37 ثُمَّ احْتَلَبُوا طِلَاعَ الْقَعْبِ دَماً عَبِيطاً 38 وَ زُعَافاً مُمْقِراً، هُنَالِكَ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ وَ يَعْرِفُ التَّالُونَ غِبَّ مَا أَسَّسَ الْأَوَّلُونَ 39، ثُمَّ طِيبُوا عَنْ أَنْفُسِكُمْ أَنْفُساً 40 وَ اطْمَئِنُّوا لِلْفِتْنَةِ جَأْشاً 41 وَ أَبْشِرُوا بِسَيْفٍ صَارِمٍ وَ هَرْجٍ شَامِلٍ 42 وَ اسْتِبْدَادٍ مِنَ الظَّالِمِينَ 43 يَدَعُ فَيْئَكُمْ زَهِيداً 44 وَ زَرْعَكُمْ حَصِيداً 45، فَيَا حَسْرَتَى لَكُمْ 46 وَ أَنَّى بِكُمْ وَ قَدْ عُمِّيَتْ 47 عَلَيْكُمْ ﴿ ... أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ ﴾ 48" 49.
قال سويد بن غفلة ... ".
و في التهذيب " أدرك الجاهلية و قد قيل إنه صلى مع النبي (صلى الله عليه و آله) و لا يصح، و قدم المدينة حين نفضت الأيدي من دفن رسول الله (صلى الله عليه و آله) و هذا أصح.. إلى أن قال: قال ابن معين و العجلي: ثقة.. و قال أبو نعيم مات سنة ثمانين، و قال أبو عبيد القاسم بن سلام و غير واحد مات سنة إحدى و ثمانين، و قال عمرو بن علي و غيره مات سنة 88.
51. نبرم العهد: نبايع لأبي بكر.
52. التعذير: هو التقصير ثم الاعتذار. والتقصير: التواني عن الشيء.
[ طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص108-109۔]
ترجمہ
کتاب احتجاج میں سوید بن غفلہ سے منقول ہے: جب حضرت فاطمہ علیہا السّلام بیمار ہوئیں، وہ بیماری جس میں آپ کی شہادت واقع ہوئی، آپ کی بیماری جب شدت اختیار کر گئی تو مہاجر و انصار کی بعض خواتین آپ کی عیادت کے لئے آئیں، سلام کے بعد انہوں نے کہا: اے رسول خدا کی بیٹی! آپ کی بیماری کی حالت کیسی ہے اور اس بیماری کی علاج معالجے کے لئے کیا کر رہی ہو؟ آپ نے خدا کی حمد و ستائش اور اپنے والد ماجد رسول خدا پر درود و صلوات بھیجی۔
اس کے بعد آپ نے کہا: میری حالت ایسی ہے کہ میں تمہاری دنیا سے بیزار ہو چکی ہوں اور تمہارے مردوں کو میں اپنا دشمن سمجھتی ہوں! جن کے گفتار اور کردار کو آزما چکی ہوں اور جو کچھ انھوں نے انجام دئے ہیں میں اس بر بہت ناراض ہوں اور انہیں اپنے سے دور کر دیا ہوں کیونکہ زنگ لگی ہوئی تلوار کی طرح کاٹنے کے قابل نہیں رہے اور ٹوٹے ہوئے نیزے کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کوتاہ فکر انساوں کی طرح بن گئے ہیں۔ قیامت کے لئے انہوں نے کتنا برا زاد راہ بھیجا ہے۔ اپنے آپ کو خدا کے عذاب اور جہنم کی آگ کے مستحق قرار دئیے ہیں۔
مجبوری کی بنا پر زندگی کے امور کی بھاگ دوڑ ان کے گردن پر ڈال دئے ہیں، ذمہ داری کی سنگینی ان کے سپرد کر دیا ہوں عدالت واگذاردم و ننگ عدالتکشی را بر آنہا بار کردء۔ تا قیامت نفرین ہو ان مکّاروں پر، یہ ستم کار لوگ خدا کی رحمت سے دور ہوں، ہلاکت ہو ان پر! کس بنا پر انہوں نے حق و حقیقت کو اپنے محور پر تلاش کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی؟ اس طرح خلافت کو نبوّت کے بنیادوں سے دور کر دیا اور ملائکہ کے نازل ہونے کی جگہ سے دوسری جگہ لے گیا اور دین و دنیا کے کاردانوں کی ید قدرت سے اسے خارج کر دیا ہے! خبردار یہ بہت خسارت والا معاملہ ہے!
کیا چیز سبب بنی علی علیہ السلام کی عیبجویی کرنے کی؟ ان کی عیب بیان کی؛ کیونکہ ان کی تلوار کے سامنے اپنوں اور بیگانوں، شجاع اور ڈرپوک کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کو پتہ چلا تھا کہ علی کو موت کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ ان پر کیسے ٹوٹ پڑتا ہے اور ان کو کیسے فنا کی وادی میں پھینک دیتا ہے اور ان میں سے بعض کو دوسروں کی عبرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ خدا کی کتاب پر اسے عبور حاصل ہے، ان کا غصہ خدا کی خشنودی کے لئے تھا۔ خدا کی قسم اگر آشکار اور نمایان طور پر حق منحرف نہ ہوا ہوتا اور حق و حقیقت کی واضح اور آشکار حجتوں دلائل کو قبول کرنے سے انکار نہ کئے ہوتے تو سیدھی راہ پر ہدایت یافتہ ہوتے اور ان کو گمرہی اور ضلالت سے نجات دے دیتا۔ خدا کی قسم اگر تمہارے مرد خلافت کی بھاگ دوڑ علیؑ ہاتھوں سے منحرف نہ ہونے کے لئے کوشش کرتے اور مسلمانوں کے امور کو جس طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کے سپرد کیا تھا، ان کے حوالے کر چکے ہوتے تو علی اسے آسانی سے آگے لے چلتے اور اس اونٹ کو حفاظت کے ساتھ اس کے منزل مقصود تک پہنچا دیتا کہ اس اونٹ کی حرکت تکلیف دہ نہ ہوتی۔ علی ان کو ایک صاف و شفاف پانی کی گھات تک رہنمائی کرتا جس کے اطرف سے پانی بہہ رہا ہوتا اور کبھی بھی کدورت اور دشمنی کا رنگ اس پر غالب نہ آتا اور وہ ان کو اس پانی کے گھات سے سیراب کرتا۔
علی ان کے لئے خلوت اور جلوت میں خیر اور نیکی کا تحفہ دے دیتا۔ اگر علی مسند خلافت پر بیٹھتا تو کبھی بھی بیت المال سے اپنے لئے اس میں سے کچھ اکھٹا نہ کرتا اور دنیا کے مال و دولت سے اپنے لئے سوائے ضرورت کے کچھ جمع نہ کرتا، اتنی مقدار پانی کہ جس سے تشنگی کو رفع کیا جاتا اور اتنی خوارک جس سے بھوک کو ختم کیا جا سکتا۔ ایسے میں ایک پارسا مرد پارسا دنیا کے حطام کی پاس سے دوبارہ پہچانا جاتا اور سچے اور جھوٹے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے، ایسے میں زمین اور آسمان کی برکتیں ان پر نازل ہوتی اور خدا بہت جلد ان کو ان کے اعمال کے انجام تک پہنچا دے گا۔ کیونکہ اگر کسی ایمان لانے والی بستی کے مکین اگر خدا سے خوف کرے تو خدا زمین اور آسمان کی برکتیں ان پر نازل کر دیتا ہے۔ لیکن انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا اور ہم نے ان کو جو چیز انہوں نے کسب کیا ہے اس میں گرفتار چھوڑ دیا اور ان میں سے جس نے بھی ظلم و ستم کا مرتکب ہوا اپنے برے کردار کے انجام تک عنقریب پہنچ جائے گا اور وہ ہم پر کبھی غالب نہیں آئیں گے۔
آؤ! اور سنو! زمانہ کس قسم کے دوائیاں چھپاتا ہے اور کون سے کھیل یکے بعد دیگرے ظاہر کرتا ہے؟۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ وہ کس پناہ گاہ پر بھروسہ کرتے ہیں؟ اور انہوں نے کس ستون کی پناہی لی ہیں؟ اور کس رسی سے چمٹے ہوئے ہیں؟ اور وہ کونسے خاندان پر انہوں نے سبقت لئے ہیں؟ حیرت ہے! کہ برے سرپرست اور برے دوستوں کا انتخاب کیا ہے اور بدکار [جو خدا کی بجائے شیطان کی اطاعت کرتے ہیں] نے کیا برا تبادلہ کیا ہے۔ انہوں نے بڑے پروں کے بجائے دم کو پر قرار دئے ہیں اور انہوں نے سر کو چھوڑ کر دم کا انتخاب کیا ہے۔ اس قوم کا ناک زلت کی خاک پر مل دیا جائے گا جس نے یہ سوچا ہو کہ ان کرتوتوں کے ذریعے انہوں نے کوئی اچھا کام کیا ہے۔ جان لو کہ یہ لوگ فاسد لوگ ہیں لیکن خود ان کو معلوم نہیں۔ ان پر ہلاکت ہو ایا وہ جو لوگوں کو راہ راست کی طرف دعوت دیتا ہے وه پیروی کے لئے سزاوار ہے یا وہ جسے راستے کا علم ہی نہیں ہے؟ تم پر ہلاکت ہو کتنا برا فیصلہ کرتے ہو۔
لیکن میری جان کی قسم کہ اس کام کا نطفہ منعقد ہو چکا تھا۔ [اور اس فتنے کی اونٹنی حاملہ ہو چکی ہے اور عنقریب بچہ جننے والی ہے] انتظار کیا گیا تاکہ یہ فتنہ پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس اونٹنی کے پستان سے اس کے بعد خون اور زہر دھو لو جو بہت جلد ہلاک کرنے والا ہے۔ "یہاں باطل کی تلاش کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے" اور بعد میں آنے والے مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا کہ صدر اسلام میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ تہمارے دلوں کو فتنوں سے سکون ملے گا۔ تمہیں ننگی اور تیز تلواروں کی بشارت ہو، اور ظالم و جابر و ستمکار کے حملے کی بشارت ہو، و درہم شدن امور ہمگان و خودرأیی ستمگران! تمہارے لئے غنایم اور حقوق میں سے تھوڑے دئے جائیں گے۔ اور تمہاری جمعیت کو اپنی تلواروں کے ذریعے دور کریں گے۔ اور تمہیں سوائے حسرت کے پھل کوئی اور چیز نصیب نہیں ہوگی۔ تمہارے امور کہاں تک جا پہنچنیں گے؟ حالانکہ "امور کی حقیقت تم سے پوشیدہ ہیں۔ آیا میں تمہیں کسی ایسے امر کا حکم دوں جسے تم انجام دینا نہیں چاہتے؟»۔
سوید بن غفلہ کہتے ہیں: مجلس میں موجود خواتین نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی باتوں کو اپنے مردوں تک پہنچا دی۔ اس کے بعد بزرگان اور مہاجرین و انصار کے سرکردگان پشیمانی کی حالت میں عذرخواہی کے لئے حضرت زہرا علیہا السلام کے پاس آئے اور آپ سے کہا: اے جنت کی خواتین کی سردار! اگر ابو الحسن (علی علیہ السّلام) ہمارے لئے حقایق بیان کرتے اس سے پہلے کہ ہم کسی اور (ابو بکر) کے ساتھ عہد و پیمان اور بیعت کرتے، تو ہم ہرگز علیؑ سے منہ نہ پھیر لیتے اور دوسروں کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ حضرت فاطمہ علیہا السّلام نے فرمایا: میری ذمہ درای حقائق بیان کرنا تھا (میری طرف سے تم لوگوں کو ایک نصیحت تھی) تم پر حجّت ہو گئی ہے۔ تمہاری عذر خواہی مقبول اور پسندیدہ نہیں ہے اور تمہاری کوتاہی اور قصور بہت ہی آشکار اور مسلم ہے جس کے بعد کسی توجیہ کا تصور بھی نہیں ممکن نہیں ہے۔
[ روحانی، زندگانى حضرت زہرا عليہا السلام( ترجمہ جلد 43 بحار الأنوار)، 1377ہجری شمسی، ص580-583۔]