جناب سیدہ زہرا علیہاالسلام پر دروازہ گرایا گیا اور آگ لگائی گئی
ناصبی اعتراض – مولاعلی علیہ السلام کی موجودگی میں جناب سیدہ زہرا علیہاالسلام پر دروازہ گرایا گیا
کتابوں کی سکین پیج نیچے ملاحظہ کریں
اعتراض : ہم کیسے اس بات کو قبول کرسکتے ہیں کہ حضرت علي (علیه السلام) گھر پر ہوتے ہوئے ان کی زوجہ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا دروازہ کھولنے گئیں ہوں ؟ حضرت علی علیہ السلام خود ہی دروازہ کھولنے کیوں نہیں گئے ؟
پہلی بات: جو چیز روایات سے ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا دروازے کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں جب آپ نے حضرت عمر اور ان کے ساتھیوں کو آتے دیکھا تو دروازہ بند کردیا۔
مرحوم عياشي نے اپنی تفسیر میں ، شيخ مفيد نے الإختصاص میں اور دوسروں… نے لکھا ہے
قال: قال حضرت عمر قوموا بنا إليه فقام أبو بكر وحضرت عمر وعثمان وخالد بن الوليد و المغيرة بن شعبة وأبو عبيدة بن الجراح وسالم مولي أبي حذيفة وقنفذ وقمت معهم فلما انتهينا إلي الباب فرأتهم فاطمة صلوات الله عليها أغلقت الباب في وجوههم وهي لا تشك أن لا يدخل عليها إلا باذنها، فضرب حضرت عمر الباب برجله فكسره، وكان من سعف، ثم دخلوا فأخرجوا عليا ( عليه السلام ) ملببا….
حضرت عمر نے کہا : اٹھیں اور {حضرت علی ع }کے پاس چلیں ، ابوبكر، حضرت عمر ، عثمان، خالد بن وليد، مغيرة بن شعبة، ابوعبيد جراح، ابوحذيفة کا غلام سالم، قنفذ اور میں خود {راوی } حضرت عمر کے ساتھ چلیں؟؟؟۔ این قطعہ کمی نیازبہ بازسای دارد۔
ہم حضرت فاطمہ (س)، کے گھر کے دروازے پر پہنچے ،جب حضرت فاطمہ(س)، نے ہمیں آتے دیکھا تو دروازہ بند کر دیا اور انہیں اس میں شک نہیں تھا کہ یہ لوگ اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہیں ہوں گے حضرت عمر نے گھر کے دروزے کو جو خرما کی شاخوں سے بنا ہوا تھا ،ٹھوکر مارا اور لوگ گھر میں داخل ہوگئےاور حضرت علی ع کو باندھ کر باہر لائے۔
السمرقندي المعروف بالعياشي، أبي النضر محمد بن مسعود بن عياش السلمي (متوفاي320هـ)، تفسير العياشي، ج2، ص67، تحقيق: تحقيق وتصحيح وتعليق: السيد هاشم الرسولي المحلاتي، ناشر: المكتبة العلمية الإسلامية – طهران
سکین پیج نیچے ملاحظہ کریں
الشيخ المفيد، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبي عبد الله العكبري، البغدادي (متوفاي413هـ) الاختصاص ص 186، تحقيق: علي أكبر الغفاري، السيد محمود الزرندي، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع – بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ – 1993 م.
المجلسي، محمد باقر (متوفاي 1111هـ)، بحار الأنوار، ج 28، ص 227، تحقيق: محمد الباقر البهبودي، ناشر: مؤسسة الوفاء -بيروت- لبنان، الطبعة: الثانية المصححة، 1403- 1983 م
سکین پیج نیچے ملاحظہ کریں
مزید پڑھیں
ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّي انْتَهَي إِلَي بَابِ عَلِيٍّ وَفَاطِمَةُ عليهما السلام قَاعِدَةٌ خَلْفَ الْبَابِ قَدْ عَصَبَتْ رَأْسَهَا وَنَحَلَ جِسْمُهَا فِي وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وآله فَأَقْبَلَ حضرت عمر حَتَّي ضَرَبَ الْبَابَ ثُمَّ نَادَي يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ [افْتَحِ الْبَابَ ] فَقَالَتْ فَاطِمَةُ يَا حضرت عمر مَا لَنَا وَلَكَ لَا تَدَعُنَا وَمَا نَحْنُ فِيهِ قَالَ افْتَحِي الْبَابَ وَإِلَّا أَحْرَقْنَاهُ عَلَيْكُمْ فَقَالَتْ يَا حضرت عمر أَمَا تَتَّقِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ تَدْخُلُ عَلَي بَيْتِي وَتَهْجُمُ عَلَي دَارِي فَأَبَي أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ دَعَا حضرت عمر بِالنَّارِ فَأَضْرَمَهَا فِي الْبَابِ فَأَحْرَقَ الْبَابَ.
حضرت عمر جب آیا اور گھر کے پاس پہنچا ، اس وقت جناب فاطمہ (س) دروازے کے پیچھے بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنے سر کو باندھ رکھا تھا آپ اپنے بابا کی جدائی کے غم کی وجہ سے بدن کمزور اورنحیف ہوچکی تھی۔
حضرت عمر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا : اے ابوطالب کے بیٹے! دروازہ کھولو۔حضرت فاطمه(س) نے جواب دیا : اے عمر ! تمہیں ہم سے کیا کام ہے ؟ ہم جس مصیبت میں ہیں اسی میں ہی رہنے دو ۔ حضرت عمر نے کہا دروازہ کھولو ورنہ میں اسے آگ لگادوں گا ۔جناب فاطمہ (س) نے جواب دیا ؛ اے حضرت عمر کیا تم اس چیز پر اللہ سے نہیں ڈرتے ہو کہ تم میرے گھر میں بغیر اجازت کے داخل ہوجاوگے اور ہم پر حملہ کروگے ۔ حضرت عمر نے واپس جانے سے انکار کیا اور آگ منگوائی اور گھر کے دوازے کو آگ لگادی ۔
الهلالي، سليم بن قيس (متوفاي80هـ) كتاب سليم بن قيس، ص 864، تحقيق محمد باقر الأنصاري، ناشر: انتشارات هادي ـ قم ، الطبعة الأولي، 1405هـ.
لہذا جناب فاطمہ(س) نے ہجوم لانے والوں کو دیکھ کر دروازے کو بند کر دیا اور آپ دروازے کے قریب کھڑی تھیں اور یہ سمجھ رہی تھی کہ ان کی موجود گی میں کوئی ان کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوں گے۔
لہذا یہ ہجوم لانے والوں کی جسارت کا نتیجہ تھا، ان لوگوں نے جناب فاطمہ (س) کے گھر کی حرمت کا خیال نہیں رکھا۔
مزید حوالاجات ملاحظہ کیجئے