آیت اطعام سورہ انسان کی آٹھویں آیت ہے
آیت اطعام
آیت اطعام سورہ انسان کی آٹھویں آیت ہے جو امیرالمومنینؑ اور آپؑ کے خاندان کی بخشش اور جود و سخا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ احادیث، شیعہ مفسرین، اور بعض اہل سنت کے مطابق حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ ؑ، حسنینؑ اور ان کی کنیز فضہ نے تین دن روزے رکھے اور تینوں دفعہ افطار کے وقت خود بھوکے رہ کر اپنا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دیا۔
آیت کا نام اور متن
سورہ انسان کی آیت 8 (اور اس کے ساتھ والی آیات) آیت اطعام کے نام سے مشہور ہے۔ [1] اس آیت اور اس سے پہلے اور بعد والی آیات کا متن اور ترجمہ:
إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾ عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿٧﴾ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾[؟–؟]
بلاشبہ نیکوکار (جنت میں شرابِ طہور کے) ایسے جام پئیں گے جن میں (آبِ کافور) کی آمیزش ہوگی۔ (5) یعنی وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے (خاص) بندے پئیں گے اور جدھر جائیں گے ادھر بہا کرلے جائیں گے۔ (6) یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نذریں (منتیں) پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی۔ (7) اور وہ اس (اللہ) کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (8) (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کیلئے کھلاتے ہیں نہ تم سے کوئی جزا چاہتے ہیں اورنہ شکریہ۔ (9)
اپنے فرزندوں کی تندرستی کے لئے نذر کرو۔ حضرت علیؑ، حضرت فاطمہ(س)اور فضہ نے نذر کی کہ اگر ان دونوں کو شفا مل گئی تو تین دن روزے رکھیں گے۔ دونوں کو شفا مل گئی۔ حضرت علیؑ نے تین من جو کسی سے قرض لیا۔ فاطمہ(س) نے اس کے تیسرے حصے کو پیس لیا اور روٹی بنائی۔ افطار کے وقت سائل دروازے پر آیا اور کہا: اے اہل بیت محمدؐ! میں مسلمان مسکین ہوں، مجھے کچھ کھانے کو دیں تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنتی مائدہ عطا کرے۔ اہل بیتؑ نے کھانا اسے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اس کے دوسرے دن بھی روزہ رکھا اور جب افطار کا وقت ہوا اور کھانا حاضر کیا تو دروازے پر ایک یتیم آیا۔ اس بار بھی انہوں نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ تیسرے دن پھر روزہ رکھا اور افطار کے وقت، ایک قیدی آیا، پھر آپ نے اپنا کھانا اسے دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو علیؑ حسنینؑ کے ساتھ حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؐ نے جب ان کو دیکھا کہ وہ بھوک سے نڈھال ہیں، فرمایا: آپ کی یہ حالت دیکھ کر میری حالت بھی ناگوار ہو گئی ہے۔ یہ فرما کر اٹھے اور حضرت علیؑ کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف چل دئیے وہاں پر فاطمہ(س) کو دیکھا کہ مصلیٰ عبادت پر کھڑی ہیں اور بھوک کی وجہ سے ان کا پیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضورؐ پریشان ہوگئے۔ اس وقت جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے اہل بیتؑ کی مبارکباد دیتے ہیں اور اس کے ساتھ اس سورہ کو قرائت کیا"[5]
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ واقعہ تین دن نہیں بلکہ ایک دن پیش آیا ہے، اور کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت علیؑ نے ایک یہودی کے لئے کام کیا اور اس کے بدلے اس سے کچھ جو دریافت کئے۔ جو گھر لائے اور جو کے ایک حصے کو پیس کر روٹی تیار کی، جب روٹی تیار ہوگئی، تو ایک مسکین دروازے پر آیا، آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی۔ پھر جو کے دوسرے حصے کو پیس لیا اور جب روٹی تیار ہوگئی، تو ایک یتیم نے سوال کیا تو آپؑ نے یہ روٹی اسے دے دی اور تیسری بار جب روٹی تیار ہوئی تو مشرکین کا ایک قیدی آیا آپؑ نے روٹی اسے دے دی۔[6]
حوالہ جات
1. ↑ رجوع کریں: روحانی نیا، فروغ غدیر، 1386ہجری شمسی، ص146؛ انصاری، اہل البیت علیہم السلام، 1424ھ، ص173؛ دیلمی، ارشاد القلوب، 1338ہجری شمسی، ج2، ص136.
2. ↑ مکارم شیرازی، برگزیدہ تفسیر نمونہ، 1387ہجری شمسی، ج5، ص350.
3. ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویہ، 1406، ج7، ص174-186.
4. ↑ ابراہیمیان، «بررسی و نقد دیدگاه ابن تیمیہ درباره شأن نزول سوره هل اتی»، ص160-162.
5. ↑ زمخشری، الکشاف، 1415ھ، ج4، ص670.
6. ↑ بغوی، معالم التنزیل، 1420ھ، ج5، ص191-192.
مآخذ
• قرآن کریم۔
• ابراہیمیان، فرامرز، « بررسی و نقد دیدگاه ابن تیمیہ درباره شأن نزول سوره هل اتی»، در مجلہ سراج منیر، شماره 18، تابستان 1394ہجری شمسی۔
• ابن تیمیہ حرانی، قاسم بن محمد، منہاج السنۃ النبویہ فی نقض کلام الشیعۃ القدریۃ، تحقیق محمد رشاد سالم، ریاض، جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ، چاپ اول، 1406ھ۔
• انصاری، محمدعلی (خلیفہ شوشتری)، اہل البیت علیہم السلام: امامتهم حیاتهم، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1424ھ۔
• بغوی، حسین بن مسعود، معالم التنزیل فی تفسیر القرآن، تحقیق: عبدالرزاق المہدی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
• دیلمی، حسین بن محمد، ارشاد القلوب، مقدمہ از شہاد الدین مرعشی، ترجمہ هدایت الله مسترحمی، تہران، کتابفروشی بوذر جمہری(مصطفوی)، 1338ہجری شمسی۔
• روحانی نیا، عبدالرحیم، فروغ غدیر، قم، مشہور، 1386ہجری شمسی۔
• زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوه التأویل، قم، نشر البلاغہ، 1415ھ۔
• مکارم شیرازیِ، ناصر، برگزیده تفسیر نمونہ، تنظیم و تحقیق احمدعلی بابایی، قم، انتشارات دار الکتب الاسلامیہ، چاپ پنجم، 1387ہجری شمسی۔