امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مرجع تقلید

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مرجع تقلید،

اس جامع الشرائط مجتہد کو کہا جاتا ہے جس کے فتوے پر فقہی مسائل میں شیعہ عمل کرتے ہیں اور وجوہات شرعیہ یعنی خمس وغیرہ ان کے حوالے کرتے ہیں۔ شیعوں کے یہاں مرجعیت سب سے اعلی مذہبی مقام ہے۔ یہ مقام انتصابی نہیں بلکہ عموما شیعہ حضرات اس امر کی شناخت رکھنے والے علماء سے پوچھنے یا ذاتی تحقیق کی بنیاد پر ان کی شناسائی کرتے ہیں۔ اس مقام کی سب سے اہم شرط دوسرے مجتہدوں سے اعلم ہونا ہے۔ جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں انہیں مقلد کہا جاتا ہے۔ مراجع تقلید کے فقہی نظریات اکثر اوقات توضیح المسائل نامی کتاب میں منتشر ہوتے ہیں۔
شیعہ آبادی کی کثرت اور جغرافیایی وسعت کے پیش نظر ہر دور میں کئی مجتہد اس منصب پر فائز ہوتے رہے ہیں۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شیعوں میں سے صرف ایک شخص تمام یا اکثر شیعوں کے مرجع تقلید قرار پائے۔ مراجع تقلید کو آیت اللہ العظمی اور آیت اللہ جیسے القاب سے پکارے جاتے ہیں۔ اکثر مراجع تقلید عراق (نجف، کربلا یا سامرا) اور ایران (قم،‌ مشہد،‌ اصفہان اور تہران) میں ہوتے ہیں۔
متاخر نامور مراجع تقلید میں محمد حسن نجفی (صاحب جواہر)، شیخ مرتضی انصاری، سید محمد حسن شیرازی (تحریم تمباکو کا فتوای دینے والی شخصیت)، آخوند خراسانی، سید حسین طباطبائی بروجردی،‌ سید محسن حکیم اور امام خمینی (انقلاب اسلامی ایران کے بانی) قابل ذکر ہیں۔
شیعہ عوام میں مراجع تقلید کا بڑا اثر رسوخ ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنے مقلدیں میں سیاسی، سماجی اور مذہبی شعور اور بیداری پیدا کرنے میں ان کے نظریات بنیادی کردر کے حامل ہوتے ہیں۔ روس کے خلاف جنگ، تمباکو کی تحریم، تحریک مشروطہ ایران، عراق میں انقلاب عشرین اور ایران کا اسلامی انقلاب شیعہ مراجع تقلید کی اہم تاثیرات میں سے ہیں۔
مرجعیت
مرجعیت، شیعہ معاشرے میں سب سے اہم اجتماعی اور مذہبی مقام ہے۔ مرجع تقلید وہ مجتہد ہے جس کی شیعوں میں سے ایک تعداد تقلید کرتی ہے یعنی اپنے دینی اعمال ان کے فقہی نظریات اور فتوے کے مطابق انجام دیتے ہیں اور مالی شرعی واجبات کو ان کو یا انکے نمایندوں کے حوالے کرتے ہیں۔ اس طرح سے کسی عالم کی پیروی کرنے کو تقلید کہا جاتا ہے۔[1]
کسی بھی مرجع تقلید کی اجتماعی تاثیر اور نفوذ ان کے مقلدوں اور تقلید کرنے والوں کی تعداد سے ہے اور مالی وجوہات شرعی کا ان کے اختیار میں رکھنا بھی ان کی مالی امکانات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مراجع تقلید ان مبالغ کو دین کی ترویج اور دینی مدارس (حوزہ علمیہ) کی پیشرفت، نادار لوگوں کی مدد اور عام المنفعت امور میں خرچ کرتے ہیں۔
شرایط
وہ مجتہد مرجع تقلید بن سکتا ہے جس میں تقلید کی شرائط پائی جاتی ہوں؛ یعنی دوسروں کو ان کے فقہی نظریات پر عمل کرنا جائز ہو۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں کہ جن میں سے اہم ترین شرط باقی جامع الشرائط مجتہدوں سے ان کا اعلم ہونا، عادل ہونا، مرد ہونا اور بالغ اور عاقل ہونا ہیں۔[2]
انتخاب کا طریقہ
مرجعیت انتصابی مقام نہیں ہے۔ وہ شخص مرجع تقلید بنتا ہے لوگ جس کی تقلید کریں اور اسے مرجع تقلید سمجھیں۔توضیح المسائل کی کتابوں میں مرجع تقلید کی پہچان کے بعض راستے معرفی ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: خود مقلد کو اعلم ہونے کا علم ہو یا دو عادل ان کی اعلمیت پر گواہی دیں، یا اعلم ہونے میں مشہور ہو۔[3] یا عالموں کا ایک گروہ کسی کو مرجع تقلید کے عنوان سے معرفی کریں اور ان کی باتوں سے انسان کو اس شخص کا اعلم ہونے کے بارے میں علم حاصل ہوجائے۔[4]
ذمہ داریاں
مرجع تقلید کی سب سے اہم ذمہ داری دینی اور مذہبی امور میں مقلدوں کے لیے فتوا دینا ہے۔ لیکن مرجع تقلید کی منزلت صرف فتوای تک منحصر نہیں اور محدود نہیں ہے بلکہ مراجع تقلید حوزہ علمیہ کے مشہور اور معروف اساتذہ میں سے شمار ہوتے ہیں اور حوزہ علمیہ بھی انہی کے نظریات کے تحت چلتے ہیں۔
مالی ذرائع
مرجعیت مالی اعتبار سے شرعی مالی واجبات اور لوگوں کے تعاون اور نذورات پر مبتنی ہے۔
قدرت اور تاثیر
شیعہ مراجع تقلید اپنے مقلدوں اور شیعوں کے درمیاں بہت موثر ہیں اور اسی طریقے سے اپنے اجتماعی اور سیاسی نظریات کو عملیاتی کرتے ہیں۔[5]مثلا: سید محمد مجاہد کے فتوے کے مطابق شیعوں کا ایک بڑا گروہ روس کے خلاف جنگ کرنے چلا۔[6]میرزای شیرازی کا تحریم تمباکو والے فتوے سے ایران میں تمباکو حرام ہوا۔[7]اور قیام ۱۵ خرداد۱۳۴۲شمسی ہجری بمطابق (5 جون 1963) کو ایران میں آیت اللہ خمینی کی گرفتاری پر واقع ہوا۔[8]
اہل سنت کے عالم دین محمد رشید رضا کے کہنے کے مطابق اہل سنت کے علما اکیلے میں یا گروہ کی شکل میں، شیعہ مجتہدوں خاص کر نجفی علما کے برابر نفوذ نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسی حوالے سے میرزا شیرازی کے ذریعے سے ملک فیصل کے دور میں عراق میں انتخابات سے بایکاٹ، تحریم تنباکو، کی مثال دیتے ہیں۔[9] ساموئل بنیامین جو امریکہ کی طرف سے ایران ایلچی کے طور پر بھیجا گیا وہ ایک جگہ کہتا ہے کہ تہران کے مجتہدین اگر چہ رفت و آمد کے لیے خچر سواری کرتے ہیں اور ایک خادم سے زیادہ کوئی نہیں ہوتا ہے لیکن ایک کلمے کے ذریعے بادشاہ کو سلطنت سے عزل کر سکتے ہیں۔[10]
مرجعیت کے ادوار
شیعہ مرجعیت کے فراز و نشیب، مختلف شہرو میں جابجا ہونے کے بہت سارے علل و عوامل ہیں جن میں سے حکومتوں کی مداخلت، قومی رابطے اور سلیقے، سیاسی حادثات، روابط کے امکانات اور حوزہ علمیہ کی قوت و ضعف اہم عوامل تھے۔ کلی طور پر شیعہ مرجعیت کو نو دوروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
تیرہویں صدی ہجری سے پہلے
رسول جعفریان مرجعیت کے آخری عصر کو وحید بہبہانی سے شروع کرتے ہیں البتہ علمی مرجعیت مراد ہے نہ شیعوں کی مدیریت مراد ہو۔ کیونکہ ایسا نہیں تھا کہ اکثر شیعہ ان کی تقلید کرتے ہوں۔[11] ان دوروں سے پہلے شیعہ اپنے علاقے میں موجود مجتہدوں کے فتووں کے مطابق عمل کرتے تھے اور ایسا مرجع جو شیعیان جہان کا مرجع ہو اور ان کی تقلید کی جائے ایسا کوئی نہیں تھا۔
صاحب جواہر اور مرجعیت کا آغاز
بعض محققین کے کہنے کے مطابق مرجعیت کا پہلا با اثر اور بانفوذ دورہ جو شیعوں میں رائج ہوا وہ حوزہ علمیہ نجف سے مربوط ہے اور محمد حسن نجفی المعروف صاحب جواہر (۱۲۶۶ھ) سے آغاز ہوا۔[12]آپ مقلد کے قضاوت کو جائز سمجھتے تھے اور ایران میں بہت سارے شاگرد بھی تھے[13] جو آپ کے فتوے اور نظریات کی ترویج دینے والوں میں سے شمار ہوتے تھے۔
صاحب جواہر کے بعد بھی شیعہ مرجعیت حوزہ علمیہ نجف میں رہی اور شیخ مرتضی انصاری (م۱۲۸۱ھ) اور محمد حسن شیرازی (م۱۳۱۲ھ) تحریم تمباکو کا فتوا صادر کرنے والے فقیہ جو صاحب جواہر کے شاگرد تھے جیسے مشہور اور با اثر مجتہد تھے۔[14]
ایران کی تحریک مشروطہ میں واضح طور پر مراجع تقلید نے سیاسی مسائل میں مداخلت کی؛ آخوند خراسانی اور عروۃ الوثقی کے مصنف سید محمد کاظم طباطبائی یزدی اس دور کے اہم ایرانی مراجع تھے جو نجف میں سکونت پذیر تھے۔ لیکن مشروطیت میں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں تھے۔ خراسانی نے مشروطیت کا فتوای دیا اور یزدی نے اس کی مخالفت کی۔
سنہ۱۳۳۷ھ کو عبدالکریم حائری یزدی کا قم میں سکونت اختیار کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم کا نیا دور شروع ہوا اور اسی سال سید سید یزدی بھی وفات پائے۔ حوزہ علمیہ قم کی احیاء نیز سید یزدی اور اور شیخ الشریعہ اصفہانی (۱۳۳۹ھ) کی وفات کی وجہ سے شیعہ مرجعیت کا ایک حصہ ایران میں خود حائری کے پاس منتقل ہوگیا۔سنہ۱۳۶۳ھ کو سید حسین بروجردی قم میں بسنے اور ان کی کارکردگی کے باعث حوزہ علمیہ کو مزید رونق ملی اور سنہ 1364ھ کو نجف میں سید ابوالحسن اصفہانی کی وفات کے بعد بروجردی سنہ سال ۱۳80ھ تک شیعوں کا مرجع سمجھے جاتے تھے۔[15]
آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد کوئی متمرکز مرجعیت نہیں رہی اور متعدد مراجع تقلید ایران اور عراق میں شیعوں کے مرجع بنے۔[16]اگرچہ اس دَور کے ابتدائی سالوں میں سید محسن حکیم(م ۱۳۹۰ھ) جو نجف میں سکونت کرتے تھے؛ دوسروں سے زیادہ مقبول تھے۔[17]اور اس 33 سالہ دَور کے آخر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی سید روح اللہ خمینی (م ۱۴۰۹ھ) ایران میں سکونت پذیر تھے اور سب سے زیادہ مقبول واقع ہوئے جبکہ سید ابوالقاسم خوئی نجف میں مقیم مراجع میں سب سے زیادہ باثر تھے۔
سید ابوالقاسم خوئی کی سنہ ۱۴۱۳ھ کو وفات کے بعد شیعوں کی مرجعیت حوزہ علمیہ قم میں تھی۔ اس کی وجہ نجف میں مقیم مجتہدوں کی وفات اور بہت سارے ایران کے نجف میں مقیم علما کو عراق سے نکالنا اور بعثی حکومت کی طرف سے بعض محدودیتیں تھی۔ نجف میں مقیم ایرانیوں کو زبردستی نجف سے نکالنے پر ان میں سے اکثر قم میں بسنے لگے اور اس سے نجف کا حوزہ کمزور ہوگیا۔ سید محمد رضا گلپایگانی اور محمد علی اراکی اس مختصر دَورے کے مشہور مراجع تقلید میں سے ہیں۔
مرجعیت کا آخری دَورہ سنہ 1415ھ کو محمد علی اراکی کی وفات سے شروع ہوگیا اور اس دَور ایران، عراق، لبنان، افغانستان اور پاکستان سے بہت سارے مجتہدین اس عہدے پر فائز ہوئے۔
مرجعیت اور عراق
13ویں صدی ہجری کو حوزہ علیمہ نجف میں صاحب جواہر اور شیخ انصاری کی مرجعیت سے عراق میں متمرکز اور ثابت طور پر مرجعیت کا آغاز ہوا۔اور اس تاریخ کے بعد سے ہمیشہ عراق، خاص کر نجف میں مراجع تقلید ہوا کرتے تھے۔ نجف کے علاوہ کربلا میں بھی بعض افراد مرجع تقلید کے طور پر جانے جاتے تھے۔ میرزا شیرازی کے دور میں مرجعیت سامرا منتقل ہوئی۔ سنہ ۱۳۶۵-۱۳۸۰ھ تک آخوند خراسانی، سید کاظم یزدی اور سید ابوالحسن اصفہانی تھے لیکن ان سالوں میں زیادہ عرصہ مرجعیت قم میں آیت اللہ بروجردی کے پاس رہی لیکن اسی دوران نجف سے سید محسن حکیم(م 1390ھ) و سید محمود حسینی شاہرودی(م ۱۳94ھ) بھی بعض شیعوں کے مرجع تقلید جانے جاتے تھے۔ سنہ 1380ھ کو آيت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد، حکیم، شاہرودی اور سید ابوالقاسم خوئی(م 1413ھ) حوزہ علیمہ نجف میں مرجعیت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شاہرودی اور خوئی کی وفات درمیان فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے سید ابوالقاسم خوئی با اثر ترین فقیہ میں تبدیل ہوگیا۔ سنہ۱۳۴۴ تا ۱۳۵۷ش تک آیت اللہ سید روح اللہ خمینی بھی ایران سے عراق کی طرف جلا وطن ہوئے اور نجف میں بسنے لگے۔ ۱۳۵۰ش کی دہائی میں عراق کی حکومت نے عراق میں بسنے والے بہت سارے ایرانیوں کو عراق سے خارج کیا اور اسی وجہ سے حوزہ علمیہ نجف کے بعض اساتذہ اور طلاب بھی عراق سے نکل کر ایران، اور خاص کر قم میں بسنے لگے۔ اور یہ مہاجرت ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ساتھ تھی اور بعثی حکومت کی طرف سے نجف میں مقیم مجتہدوں پر بڑا دباؤ تھا جس کی وجہ سے آیندہ کی مرجعیت متاثر ہوئی اور مرجعیت میں ایرانی کردار زیادہ ہونے لگا۔ انتفاضہ شعبانیہ کے بعد عراق کی حکومت نے حوزہ نجف پر مزید دباؤ بڑھا دیا اور ابتدائی سالوں میں خوئی اور محمد علی اراکی کی وفات کے بعد خوئی کے دو شاگرد(علی غروی تبریزی اور مرتضی بروجردی) کہ جو مرجع طور پر مشہور تھے ٹارگٹ کلینگ میں مارے گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد سید محمد باقر صدر کے شاگردوں میں سے سید محمد صدر جس کی مرجعیت بعض لوگوں کے لیے قابل قبول تھی وہ بھی مارا گیا۔ ان حادثات اور دباؤ نے عملی طور پر حوزہ علمیہ نجف کو منزوی کردیا۔ اس کے باوجود اب بھی شیعہ مرجعیت کا ایک حصہ حوزہ علیمہ نجف میں باقی ہے۔
بعثی حکومت کے سقوط کے بعد
سنہ 2000ء کو خلیج فارس کی دوسری جنگ کے بعد، عراق کی حکمرانی میں تبدیلی آگئی اور حوزہ علمیہ نجف حکومتی دباؤ سے نکل گیا اور مختلف جگہوں سے طلاب تعلیم حاصل کرنے نجف چلے گئے۔ بعض استاد بھی جو سالوں سال سے عراق سے باہر رہنے پر مجبور تھے، عراق واپس چلے گئے۔ نجف میں با اثر ترین مرجع تقلید سید علی حسینی سیستانی ہیں جو خوئی کے شاگرد بھی ہیں۔
مرجعیت اور ایران
حوزہ علمیہ قم کی تاسیس
حوزہ علمیہ قم آخری دَور میں سنہ 1340 ش کو شیخ عبد الکریم حائری یزدی کی قم آمد اور سکونت سے تاسیس ہوا۔ ان کے قم آنے سے شیعہ مرجعیت کا ایک اہم حصہ بھی ایران منتقل ہوگیا۔ وہ 1315 ش تک زندہ رہے۔ ان کے بعد حوزہ علمیہ کے تین استاد سید صدر الدین صدر، سید محمد تقی خوانساری اور سید محمد حجت نے حوزے کی مدیریت سنبھالی۔ ان تینوں میں سے کسی کو بھی ہمہ گیر مرجعیت نہیں ملی۔ اس دور میں مرجعیت حوزہ علمیہ نجف میں سید ابوالحسن اصفہانی(م ۱۳۶۵ھ) کے دوش پر تھی۔[18]
حوزہ علمیہ قم کے بعض علما کی کوشش اور دعوت پر سنہ ۱۳۶۴ ھ کو آخوند خراسانی کے شاگرد سید حسین طباطبائی بروجردی قم آئے اور اصفہانی کے بعد ۱۳۴۰ ش تک وسیع مرجعیت کے عہدہ دار رہے اور عمر کے آخری ایام میں ان کی طرح کا بانفوذ اور با اثر مرجع ایران یا عراق میں کوئی اور نہیں تھا۔[19]
بروجردی کی وجہ سے حوزہ علمیہ قم کو رونق ملی۔ ان کی وفات کے بعد ایران اور عراق میں چند نفر مرجع تقلید کے عنوان سے سامنے آئے۔ ایران میں مشہد میں مقیم آیت اللہ میلانی کے علاوہ باقی تمام مراجع حوزہ علمیہ قم کے مجتہدین میں سے شمار ہوتے تھے۔ ان میں سے مشہور مندرجہ ذیل ہیں: سید احمد خوانساری (م ۱۳۶۴ش)، سید کاظم شریعتمداری (م ۱۳۶۵ش)، سید روح اللہ خمینی‌ (م ۱۳۶۸ ش)، سید شہاب الدین مرعشی نجفی (م ۱۳۶۹ش) اور سید محمد رضا گلپایگانی (م ۱۳۷۲ش). [20] کیہان اخبار نے آیت اللہ بروجردی کی وفات کے دو دن بعد ایک رپورٹ میں ان لوگوں کے نام پیش کئے جن کی مرجعیت کا احتمال دیا جاتا تھا۔[21]
سنہ ۱۳۷۳ ش کو عبد الکریم حائری کے شاگردوں میں سے آخری نفر محمد علی اراکی بھی وفات پائے اور ان کی وفات کے بعد بہت سارے افراد جو بروجردی اور خوئی کے شاگرد تھے، مطرح ہوئے اگرچہ ان میں سے بعض کے بہت سارے مقلد ہیں لیکن کوئی ایک بھی پوری دنیا کے شیعوں کی مرکزی مرجعیت کے حامل نہیں ہیں۔ (فروری 2018 ) کو زندہ مجتہدین مندرجہ ذیل ہیں: حسین وحید خراسانی، لطف اللہ صافی گلپایگانی، سید موسی شبیری زنجانی،سید علی خامنہ ای اور ناصر مکارم شیرازی ایران میں اور سید علی حسینی سیستانی، عراق میں۔
حوالہ جات
↑ مراجعہ کریں: طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴؛ رحمان ستایش، «تقلید»، ص۷۸۹.
↑ طباطبایی یزدی، عروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۶-۲۷، مسئلہ ۲۲.
↑ طباطبایی یزدی، عروة الوثقی، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۴-۲۵
↑ خمینی، توضیح المسائل، ص۱۲، مسئلہ۳
↑ مراجعہ کریں: نقیب‌زادہ و امانی، نقش روحانیت شیعہ در پیروزی انقلاب اسلامی، ۱۳۸۲ش، ص۸۱-۸۲
↑ نقیب‌ زادہ و امانی، نقش روحانیت شیعہ در پیروزی انقلاب اسلامی، ۱۳۸۲ش، ص۹۹-۱۰۰
↑ نقیب‌ زادہ و امانی، نقش روحانیت شیعہ در پیروزی انقلاب اسلامی، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۲
↑ نقیب‌ زادہ و امانی، نقش روحانیت شیعہ در پیروزی انقلاب اسلامی، ۱۳۸۲ش، ص۱۰۳
↑ رشید رضا،الخلافہ او الامامہ العظمی، ۱۹۹۶م، ص۹۰
↑ آبراہامیان، تاریخ ایران مدرن، ۱۳۹۲ش، ص۴۱
↑ جعفریان، تشیع در عراق مرجعیت و ایران، ۱۳۸۶ش، ص۵۸
↑ حائری، تشیع و مشروطیت در ایران، ۱۳۸۷ش، ص۸۲
↑ جعفریان، تشیع در عراق مرجعیت و ایران، ۱۳۸۶ش، ص۵۹
↑ حائری، تشیع و مشروطیت در ایران، ۱۳۸۷ش، ص۸۲-۸۳
↑ جعفریان، تشیع در عراق مرجعیت و ایران، ۱۳۸۶ش، ص۷۹
↑ قربانی، تاریخ تقلید در شیعہ، ۱۳۹۴ش، ص۳۷۳
↑ جعفریان، تشیع در عراق مرجعیت و ایران، ۱۳۸۶ش، ص۸۱
↑ حائری، تشیع و مشروطیت در ایران، ۱۳۸۷ش، ص۸۴
↑ قربانی، تاریخ تقلید در شیعہ، ۱۳۹۴ش، ص۳۷۳
↑ مراجعہ کریں: جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہا، ص۲۸۱
↑ روحانی، نہضت امام خمینی، ۱۳۸۶ش، ص۷۷ و ص۱۲۳۸ سند شمارہ ۱۱
مآخذ
آبراہامیان، یرواند، تاریخ ایران مدرن، ترجمہ: محمد ابراہیم فتاحی، تہران، نشر نی، ۱۳۹۲ش.
جعفریان، رسول، تشیع در عراق مرجعیت و ایران، تہران، موسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران، ۱۳۸۶ش.
جعفریان، رسول، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی در ایران، تہران، نشر علم، چاپ سیزدہم، زمستان ۱۳۸۹ش.
خمینی (امام)، سید روح اللہ، توضیح المسائل، تہران، ۱۴۲۶ق.
رحمان‌ ستایش، محمد کاظم، «تقلید»، مندرج در دانشنامہ جہان اسلام، ج۷، تہران، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ۱۳۸۲ش.
روحانی، سید حمید، نہضت امام خمینی (دفتر اول)، تہران، موسسہ چاپ و نشر عروج، ۱۳۸۶ش.
حائری، عبدالہادی، تشیع و مشروطیت در ایران، تہران، امیر کبیر، ۱۳۸۷ش.
رشید رضا، محمد، الخلافة او الامامة العظمی، در الدولة و الخلافة فی الخطاب العربی، دراسة و تقدیم: وجیہ کوثرانی، بیروت، دار الطلیعة، ۱۹۹۶ء
طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
قربانی، محمدعلی، تاریخ تقلید در شیعہ و سیر تحول آن، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، ۱۳۹۴ش.
نقیب‌ زادہ، سید احمد و امانی زوارم، وحید، نقش روحانیت شیعہ در پیروزی انقلاب اسلامی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۸۲ش.

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک