امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نجف اشرف

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

نجف یا نجف اشرف،

عراق میں شیعوں کے زیارتی شہروں میں سے ہے جس میں روضہ امام علی علیہ السلام واقع ہے۔

اسلام سے پہلے بھی یہ شہر محل سکونت تھا لیکن دوسری صدی ہجری میں امام علی (ع) کی قبر مطہر پر قبہ و بارگاہ کی تعمیر ہونے کے بعد سے یہ ایک پر رونق شہر میں تبدیل ہو گیا اور بہت سے شیعوں نے اس شہر کی طرف مہاجرت کر لی۔ بعض بادشاہ جیسے عضد الدولہ دیلمی، شاه اسماعیل صفوی و شاه طہماسب صفوی و بعض قاجاری بادشاہوں نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس شہر کا حوزہ علمیہ قدیمی ترین حوزات علمیہ میں سے ہے۔ تاریخی مصادر کے مطابق شیخ طوسی نے پانچویں صدی ہجری میں اس کی بنیاد رکھی۔ بہت سے علما و فقہا نے اس حوزہ میں تعلیم حاصل کی ہے جن میں شیخ مرتضی انصاری، آخوند خراسانی، سید محمد کاظم طباطبایی یزدی، سید محسن حکیم، سید ابو القاسم خوئی و سید علی سیستانی شامل ہیں۔
مسجد شیخ انصاری، مسجد حنانہ و مسجد خضراء نجف کی معروف مساجد میں سے ہیں۔ شہر نجف میں مختلف کتب خانے و چاپ خانے جیسے کتب خانہ و چاپ خانہ حیدریہ، کتب خانہ بحر العلوم و چاپ خانہ مرتضویہ بھی موجود ہیں۔
2017 ع کی مردم شماری کے مطابق شہر نجف کی آبادی تقریبا ۸ لاکھ ذکر ہوئی ہے جن میں تقریبا سب مسلمان و شیعہ ہیں۔
محل وقوع
یہ شہر بغداد کے جنوب مغرب میں 165 کیلو میٹر، کربلا کے جنوب مشرق میں 77 کیلو میٹر اور کوفہ کے جنوب میں 10 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حیرہ جیسے قدیمی شہر جس کی روشن تہذیب کا عراق کی تاریخ میں بہت اعلی مقام ہے، کا نجف کی مجاورت میں ہونا اس شہر کی تاریخی قدمت کا آئینہ دار ہے۔ نجف کے شمال میں وادی السلام (انبیاء اور اولیاء کا مشہور قبرستان) ہے جبکہ اس کے جنوب میں دریائے نجف (جو اس وقت خشک ہے) اور سعودی عرب، اردن اور شام تک پھیلا ہوا صحرا "بادیۃ الشام" واقع ہے۔
وجہ تسمیہ
تاریخی منابع میں اس شہر کے نجف نام رکھنے کی دو وجہ ذکر ہوئی ہیں:
نجف عربی زبان کا لفظ ہے جو منجوف کے معنی میں آتا ہے۔ اور منجوف ایسے مستطیل اور مرتفع مکان کو کہا جاتا ہے جس کے اطراف میں پانی جمع ہوتا ہے لیکن اس کی سطح تک نہیں پہنچتا۔ نجف کا جغرافیائی حوالے سے مستطیل نما اور بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کا نام نجف رکھا گیا ہے۔[1]
طوفان نوح کے زمانے میں، یہ شہر مرتفع شکل کا تھا، اس کے بعد ایک بڑے تالاب (دریاچہ) کی شکل اختیار کر گیا اور (نی) کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ تالاب زمانے کے گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ خشک ہو گیا یوں اسے (نی جفّ) کہا گیا، یعنی دریائے "نی" خشک ہو گیا۔[2] بعد میں کثرت استعمال کی وجہ سے نجف کہا جانے لگا۔
دیگر اسامی
الغری یا غریان، حدالعذراء، حوار، جودی، وادی السلام، ظہر، ربوہ[3] بانقیا[4] اور مشہد اس سر زمین کے دوسرے اسامی ہیں۔
آب و ہوا
نجف جغرافیائی لحاظ سے، ایک شہر اور صحرا کے درمیان واقع ہے۔ شہر سے مراد کوفہ ہے جبکہ صحرا سے مراد اس کے اطراف میں موجود ریگستان ہے جو اس علاقے میں شدید گرمی اور طوفان کا باعث بنتا ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ بعض اوقات یہاں کا درجہ حرارت 50 درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ اگرچہ نجف ہمیشہ پانی کے لحاظ سے قحط سالی کا شکار رہا، لیکن بعض اوقات جیسے ساتویں صدی میں اس کے پانی سے ہزاروں درختوں اور باغات کو سیراب کیا جاتا تھا۔[5]
نجف تاریخ کے آئینے میں
اسلام سے پہلے
نجف قدیمی شہر حیرہ کے ہمجوار ہونے کی وجہ سے قبل از مسیح "لخمیوں" اور "آل منذر" کے تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا۔ اس دور میں اس شہر کے باسی مسیحی تھے اسی لئے "مارت مریم" سمیت بہت سارے کلیسا یہاں تعمیر ہوئے جو عصر اسلام تک اسی حالت میں باقی تھے۔ [6]
اسلام کے بعد
اسلامی تاریخ میں، نجف کا نام صرف مسلمانوں کے ہاتھوں ایران اور عراق کی فتح کے سبب دیکھنے میں آتا ہے۔[7]
عباسیوں کے زمانے تک اس شہر کا نام کہیں نمایاں نظر نہیں آتا لیکن کا ہارون الرشید کے دور میں امام علی(ع) کے مرقد مبارک کے آشکار ہونے کے بعد اس شہر نے بہت ساروں کو اس میں سکونت اختیار کرنے کی طرف راغب کیا۔
نجف کی تعمیر و ترقی
طبرستان کے علویوں نے امام علی کی قبر مبارک پر گنبد بنایا اور اس شہر میں امن برقرار کرنے کے لئے اس کے ارد گرد دیوار کھڑی کی۔[8]
دیلم کے شیعہ بادشاہوں نے روضہ امام علی (ع) کی تعمیر اور اس شہر میں عمرانی کاموں کیلئے بہت کوششیں کی ہیں۔
موصل کے شیعہ حاکم ابو الہیجاء عبد اللہ بن حمدان نے سنہ 283 ھ ق میں اس شہر کی دیوار کو دوبارہ سے بنایا اور مختلف جگہوں پر دروازے بھی نصب کئے۔
مغلوں کے سلسلہ جلایریوں اور ایلخانوں نے ساتویں اور آٹھویں صدی میں اس شہر اور حرم مطہر کی تعمیر کے لئے بہت رقم خرچ کی۔[9]
صفوی دور میں، شاہ اسماعیل اور شاہ طہماسب نے نجف میں پانی کے بحران کو حل کرنے کے لئے، نہریں کھودیں اور آب فرات کو یہاں منتقل کیا۔ "نہر شاہ" جس کو شاہ اسماعیل نے کھودا، اس زمانے کی ایک یادگار ہے۔
سلطان سلیمان قانونی جو ایک سنی عثمانی بادشاہ تھا، نے نجف کو آباد کرنے میں بہت سعی کی اور صفویہ دور کے شیعہ بادشاہوں نے مل کر نجف کو زیادہ رونق بخشی۔
وہابیوں کے حملے سے بچاؤ کے لئے سلسلہ قاجاریہ کے دور میں فتح علی شاہ کے وزیر نظام الدولہ اصفہانی نے سنہ 1217 سے 1257 ھ ق میں شہر کے گرد ایک مضبوط دیوار کھڑی کی۔
سنہ 1350 ق میں نجف کی حکومت نے اس دیوار کو ہٹا کر اسکی جگہ مدرسہ اور ہسپتال بنوا دیا اور لوگوں نے بھی اس کے اطراف میں اپنے گھر بنائے۔[10]
پرانے زمانے میں نجف چار اصلی محلے، مشراق، حویش، عمارہ، اور براق پر مشتمل تھا اور ان میں سے ہر محلے کے اندر کئی اور چھوٹے محلے تھے۔ جدید دور میں اس شہر کی تعمیر و توسیع کے بعد یہ شہر دو اہم حصوں قدیمی شہر اور جدید شہر میں تقسیم ہو گیا۔ قدیمی شہر وہی پرانے چار محلے اور جدید شہر جو نئے محلے اضافہ ہوئے ان کو کہا جاتا ہے۔[11]
حوزہ علمیہ نجف
شیخ طوسی نے پانچویں صدی کے اوائل میں نجف کی طرف ہجرت کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر کے اس شہر کو شیعوں کے ایک علمی اور ثقافتی مرکز میں تبدیل کردیا۔
شاہ عباس نے نجف کی کھوئی ہوئی علمی مرکزیت کو دبارہ زندہ کرنے اور اس کے حوزہ علمیہ کو دوبارہ رونق بخشنے کی خاطر کافی کوشش اور جد و جہد کی یہاں تک کہ عثمانیوں کے ساتھ ہونے والی مذاکرات میں انہوں نے نجف کو ایران کے ساتھ ملحق کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن عثمانی وزیر نے کہا: "نجف کے پتھر میری نظر میں ہزار انسانوں کے برابر ہیں" [12]
ملا احمد اردبیلی جو مقدس اردبیلی کے نام سے مشہور ہیں، کے یہاں آنے اور ان کے درس و تدریس کے شروع ہونے سے اس علمی مرکز میں مزید رونق آگئی۔
سنہ 12 ہجری میں مرحوم وحید بہبہانی کے مجلس درس کی کربلا منتقلی کے بعد حوزہ علمیہ نجف کی شہرت میں کمی آ گئی، لیکن سنہ 13 ہجری، میں مرحوم کاشف الغطاء، بحر العلوم اور شیخ مرتضی انصاری جیسے فقہاء اور بزرگوں کی وجہ سے حوزہ علمیہ نجف نے اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کیا اور یہاں کے علمی محافل کی رونق میں دوچنداں اضافہ ہوا۔
ایران میں انقلاب مشروطہ کے دوران، نجف میں مقیم مجتہدین جیسے آخوند خراسانی اور آیت اللہ نائینی اس انقلاب کے دینی اور فکری ہدایت کی ذمہ داری سنبھال اس کی صحیح سمت میں رہنمائی فرمائی۔
عراق میں بعثیوں کی حکومت کے دوران حوزہ علمیہ نجف پر شدید سختیاں عائد کی گئیں لیکن اس کے با وجود یہ حوزہ باقی رہا اور اب بھی اہل تشیع کے ایک علمی مرکز کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے اور اس کے مفید اثرات پوری دنیا پر نمایاں ہیں۔
تاریخی آثار
قصر خُوَرنق
یہ قصر "نعمان بن امرؤالقیس" نے "لخم" کے پادشاہ "یزدگرد" یا "بہرام" کیلئے بنوایا تھا اور نجف سے دو کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اس قلعہ کے بعض ستون باقی تھے لیکن اب اس کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔
قلعہ نجف
نجف میں سلسلہ عثمانیہ کے ہاتھوں تعمیر ہونے والے بہت سارے مستحکم قلعے موجود تھے۔ اصفہان کے صدر اعظم حاجی محمد حسین خان نے ان قلعوں کے دیواروں کی مرمت کی اور اس میں دو دروازے بھی نصب کروائے۔ دروازہ نجف قلعہ کے دیوار کے ساتھ موجود تھا جس کے اطراف میں بازار تھا اور امام علی (ع) کے روضے اقدس کے صحن میں جانے کا ایک راستہ بھی اسی قلعے سے گذرتا تھا۔ اس وقت صحن روضہ علوی کی تعمیر و توسعہ کی وجہ سے یہ قلعہ تخریب ہوا ہے۔
صفہ صافی صفا
شہر نجف کے جنوبی سمت کے آخر میں ایک مرقد اور عظیم شان مقام واقع ہے جو "صفہ صفا" کے نام سے معروف ہے۔ صافی صفا مقام امام سجاد (ع) کے ساتھ واقع ہے اور اس وقت بھی اسی جگہ موجود ہے۔
تکیہ بکتاشیہ
سلسلہ عثمانیہ کے دور میں صحن مطہر کے آس پاس مختلف تکیہ جات تعمیر ہوئے تھے جو "بکتاشیہ" نامی فرقے کے تھے اور اس مذہب کے بزرگان یہاں ٹہرا کرتے تھے۔ اسے بھی حرم مطہر کی تعمیر و توسعہ کی خاطر تخریب کیا گیا ہے۔
مقبرہ ذی الکفل
نجف سے حلہ کے راستے میں 40 کیلو میٹر کے فاصلے پر دریائے فرات کے کنارے ایک بستی میں بنی اسرائیل کا ایک پیغمبر "ذی الکفل" مدفون ہیں۔ یہ پیغمیر چونکہ یہودیوں کے کفیل تھا اسی بنا پر انہیں ذی الکفل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس بستی میں اینٹوں کا ایک چوٹا قلعہ ہے "ذی الکفل" پیغمبر کا مقبرہ اسی قلعہ کے اندر موجود ہے۔ یہودیوں نے قدیم صدیوں میں اس علاقے میں عمارتیں تعمیر کروائی تھیں جن میں رہایش پذیر افراد یہودی اور عربی نژاد تھے جو بعد میں سب کے سب فلسطین چلے گئے۔ ہر سال دنیا کے مختلف علاقوں سے یہودی یہاں آکر ایک ماہ تک یہاں قیام کرتے تھے۔ اس مقبرہ کے پچھلے سمت میں ایک مسجد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حواریوں میں سے چار افراد اس میں مدفون ہیں اور "ذی الکفل" نبی کی بیٹی کی قبر بھی اسی میں ہے۔
برج نمرود
فرات کے کنارے وادی "ذی الکفل" کے قریب ایک پہاڑی ہے جس کے اوپر اینٹوں کا ایک قلعہ تعمیر کیا گیا ہے جو تہ خانے پر بھی مشتمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کو اسی جگہ آگ میں پھینکا گیا تھا یہ برج اور پہاڑ شہر بابل کے آثار قدیمہ میں شمار کیا جاتا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے باوجود اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔
اہمیت اور فضیلت
شہر مقدس نجف کے بارے میں بہت ساری فضیلتیں نقل ہوئی ہیں:
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: "روی زمین پر پہلی جگہ جہاں خدا کی عبادت کی گئی وہ نجف ہے۔ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں فرشتوں نے خدا کے حکم سے حضرت آدم کو سجدہ کیا۔" [13]
حضرت ابراہیم نے اسی شہر میں قیام فرمایا اور ان کی برکت سے اس سرزمین پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوئیں۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: "یہاں سے ستر ہزار شہید بغیر حساب و کتاب کے محشور ہونگے۔"
امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: "ہم اہل بیت تمہیں کوفہ کے پیچھے واقع شہر (نجف) کی سفارش کرتے ہیں، وہاں ایک قبر ہے جس بیماری کے ساتھ بھی وہاں جاؤ، خدا اس بیماری سے شفا عطا فرمائے گا۔
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: "کوفہ کا مشرقی حصہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔"
امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: "اگر تمہاری آنکھوں سے پردہ ہٹ جائے تو مؤمنین کی روحوں کو دیکھو گے جو اس صحرا (نجف کے صحرا کی طرف اشارہ ہے) میں گروہ گروہ ایک دوسرے کی زیارت اور ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں۔ ہر مومن کی روح یہاں پر اور ہر کافر کی روح برہوت میں ہوگی۔" [14]
نجف کے زیارتی مقامات
امام علی(ع) کے مرقد مطہر کے علاوہ اس شہر میں مزید متعدد زیارتی مقامات ہیں:
قبور انبیاء
قبر حضرت آدم، نوح، ہود اور صالح اسی شہر میں واقع ہے۔
قبرستان وادی السلام
قبرستان وادی‌ السلام ایک پرانا قبرستان ہے جو شہر نجف کے آثار قدیمہ میں سے ہے۔ یہ قبرستان شہر کے شمال مشرق میں واقع ہے جو 20 مربع کیلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ حضرت ہود، حضرت صالح سمیت بہت سارے علماء اور سادات کرام کے قبور یہاں واقع ہیں۔ اس کے علاوہ مقام امام مہدی(عج)، مقام امام صادق (ع) اور مقام امام سجاد (ع) بھی اس قبرستان میں ہے۔
اس قبرستان کے لئے احادیث میں بہت فضیلتیں نقل ہوئی ہیں:
امام علی (ع) فرماتے ہیں: "اس سرزمین میں مؤمنین کی ارواح گروہ گروہ ایک دوسرے سے محو گفتگو رہتی ہیں اور دنیا کے جس کونے میں بهی رحلت ہو اس سے کہا جاتا ہے کہ وادی السلام چلے جاؤ یہ جگہ بہشت کا ایک مقام ہے۔"
صحابہ اور تابعین کے قبور
نجف اشرف میں بعض صحابہ، تابعین اور امام علی(ع) کے یار و مددگار اور بعض امام زادگان بھی سپرد خاک ہیں۔ ان میں سے اکثر ثویہ نامی مقام پر مسجد حنانہ اور مسجد کوفہ کے درمیان 3 کیلو میٹر کے فاصلے پر مدفون ہیں ان افراد کے اسامی درج ذیل ہیں:
احنف بن قیس
سہل بن حنیف
عثمان بن حنیف
عبیداللہ بن ابی رافع
خبّاب بن ارت
رشید ہجری
عبداللَّہ بن ابی اوفی
کمیل بن زیاد نخعی
عبداللہ بن یقطر
قنبر
میثم تمار
ابوبکر بن علی
زید بن صوحان
صعصعۃ بن صوحان
عمرو بن حمق خزاعی
سلیم بن قیس ہلالی
نصر بن مزاحم منقری
مذکورہ افراد کے علاوہ ابوموسی اشعری، زیاد بن ابیہ، مغیرہ بن شعبہ، داود بن حسن مثنی اور حسن مکفوف نیز اسی علاقے میں مدفون ہیں۔
علماء اور بزرگان کے قبور
نجف میں مدفون بعض شخصیات:
شیخ طوسی: ان کی قبر امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کے روضہ اقدس کے باب الطوسی "شارع الطوسی" میں واقع ہے۔
علامہ حلّی: آپ روضہ امام علی (ع) کے صحن طلا میں واقع کمروں میں سے ایک کمرے میں مدفون ہیں۔
سید بن طاووس و مقدس اردبیلی: حرم امام علی (ع) کے صحن کے جنوبی منارہ کے ساتھ مدفون ہیں۔
شیخ محمد حسن نجفی صاحب جواہر: آپ محلہ عمارہ میں سپرد خاک ہیں۔
سید محمد مہدی بحر العلوم: آرامگاہ سید محمد مہدی طباطبایی جو بحر العلوم کے نام سے معروف ہیں اور ان کے بیٹے شیخ طوسی کے مقبرے کے ساتھ مدفون ہیں۔
شیخ مرتضی انصاری: شیخ مرتضی انصاری باب القبلہ کے جنوبی سمت مدفون ہیں۔
ملا مہدی نراقی اور ان کے فرزند ملا احمد نراقی: ان دو بزرگوں کی قبر حرم مطہر کے شمالی حصے میں واقع ہیں۔
میرزائے شیرازی: سید محمد حسن ابن میرزا محمود جنہوں نے تحریم تنباکو کا مشہور فتوی دیا، حرم مطہر سے باہر باب طوسی کی طرف ایک مدرسے میں مدفون ہیں۔
محدث نوری: ان کی قبر حرم مطہر کے باب قبلہ کے شمالی حصے میں واقع ہے۔
سید اسداللَّہ شفتی: آپ حرم مطہر کے باب قبلہ کے مشرقی حصے میں مدفون ہیں۔
شیخ عباس قمی: شیخ عباس قمی، صاحب مفاتیح الجنان اور منتہی‌الآمال، اپنے استاد "محدث نوری" کے ساتھ مدفون ہیں۔
میرزای نایینی
سید ابوالحسن اصفہانی
شیخ محمد حسین کمپانی
شیخ جعفر تستری
آخوند خراسانی
سید محمد کاظم یزدی
شیخ جعفر کاشف الغطا
سید ابوالقاسم خویی
فخرالدین طریحی، صاحب کتاب مجمع البحرین
مقداد بن عبداللہ حلی، صاحب العرفان فی فقہ القرآن
عبدالعال کرکی، معروف بہ محقق ثانی و شہید ثالث
سید مصطفی خمینی فرزند حضرت امام خمینی
سید محمد باقر صدر
سید محمد صدر
سید محمد باقر حکیم
مشہور مساجد
نجف میں متعدد مساجد موجود ہیں جن میں سے بعد خاص اہمیت کے حامل ہیں:
مسجد شیخ طوسی
یہ مسجد شروع میں شیخ طوسی کا گھر تھا۔ انہوں نے وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ انہیں اسی گھر میں دفن کیا جائے اور اسے مسجد میں تبدیل کیا جائے۔ یہ مسجد نجف کی مشہور مساجد میں سے ہے جو صحن مطہر کے شمال میں واقع محلہ "المشراق" میں واقع ہے۔
مسجد ہندی
یہ مسجد نجف کی بڑی مساجد میں سے ہے جس میں نمازگزاروں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ سنہ ۱۳۲۳ق میں اس مسجد کی مرمت اور توسیع ہوئی۔ ہر سال محرم میں اس مسجد میں عزاداری برپا ہوتی ہے۔ علامہ سید محسن حکیم نے عصر حاضر میں اس مسجد کو توسیع دی ہے۔
مسجد شیخ مرتضی انصاری
یہ مسجد "حویش" نامی محلے میں واقع ہے جو شیخ مرتضی انصاری کی مساعدت اور آپ کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی ہے۔ حوزہ علمیہ نجف کے بزرگان اپنے بعض کلاسیں اسی مسجد میں برگزار کرتے ہیں۔ سید محمد کاظم طباطبایی (عصر قاجار کے مشہور علماء میں سے تھے) اور امام خمینی منجملہ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے اس مسجد میں درس و تدریس کی ہیں۔
مسجد شیخ طریحی: یہ مسجد صفویہ کے مشہور عالم دین محقق کرکی سے منسوب ہے جو سنہ ۱۳۷۶ق میں تعمیر ہوئی۔
مسجد عمران بن شاہین: نجف کے سب سے قدیمی مساجد میں سے ہے جو آل بویہ کے بادشاہ عمران بن شاہین سے منسوب ہے۔ یہ مسجد صحن مطہر کے باب طوسی کی جانب واقع ہے۔
مسجد خضراء
صحن مطہر کے مشرق میں واقع یہ مسجد آیت اللَّہ خویی کا محل درس و بحث تھا۔ یہ مسجد بہت پرانی ہے اور علی بن مظفر سے منسوب ہے۔ یہ مسجد سنہ۱۳۸۰ق میں حاج شیخ احمد انصاری قمی کے توسط سے دبارہ تعمیر ہوئی۔
مسجد حنانہ
نجف[15] سے کوفہ جاتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کے حرم سے 2.5 کلو میٹر کی مسافت پر حنانہ کے نام سے ایک مسجد ہے ۔یہ مقام حضرت علی کے اصحاب سے منسوب[16]،اس جگہ موجود ستون کے حضرت علی کے جنازے پر گریہ کرنے[17]،حضرت امام حسین ؑ کے سر مبارک کو یہاں رکھنے[18] اور حضرت امام صادق کے اس جگہ نماز پڑھنے[19] کی وجہ سے شیعوں کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے۔
نجف کی دیگر مشہور مساجد میں: مسجد آل کاشف الغطاء، مسجد جواہری، مسجد الرأس اور مسجد حیدری شامل ہیں۔
دینی مدارس
مدرسہ مقداد سیوری (تأسیس: نویں صدی ہجری): نجف کے بہت قدیمی اور مشہور مدارس میں سے ہے۔
مدرسہ ملا عبداللَّہ (تأسیس: دسویں صدی ہجری): نجف بلند پایہ عالم دین ملا عبداللہ یزدی ‌جو دسویں صدی ہجری میں اس شہر کے مذہبی رہنما رہ چکے ہیں، نے اس مدرسے کی بنیاد رکھی۔
مدرسہ صحن شریف (مدرسہ غرویہ): شاہ عباس صفوی نے اس مدرسہ کو صحن مطہر کے شمالی حصے میں تعمیر کیا یہ مدرسہ چودہویں صدی کے اوائل تک موجود تھا اس کے بعد اس کے کمرے طلاب سے خالی ہوئے اس وقت یہ جگہ صحن مطہر کے وسائل اور حرم مطہر کے خادمین کی ضروری اشیاء رکھنے کی جگہ ہے اسی وجہ سے اس سے مدرسہ کا نام ختم کر کے "دار الضیافۃ" رکھا گیا ہے۔
مدرسہ صدر: نجف کے وسیع اور بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے جو نجف کے بڑے بازار (السوق الکبیر) جو صحن مطہر تک منتہی ہوتا ہے میں واقع ہے۔
مدرسہ معتمد (مدرسہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء): یہ مدرسہ محلہ عمارہ میں واقع ہے جسے سلسلہ قاجاریہ کے ایک وزیر "معتمدالدولہ" نے شیخ موسی کاشف الغطاء کی مساعدت سے تعمیر کروایا۔
مدرسہ مہدیہ (شیخ مہدی): یہ مدرسہ محلہ مشراق میں علامہ سید مہدی بحر العلوم اور شیخ طوسی کے مقبرہ کے بالمقابل اور مدرسہ قوام کے ساتھ واقع ہے۔
مدرسہ قوام (تأسیس:۱۳۰۰ ھ): ایک مشہور اور بڑا مدرسہ ہے جسے مدرسہ فتحیہ بھی کہا جاتا ہے۔
مدرسہ ایروانی (تأسیس:۱۳۰۷ ھ): یہ مدرسہ "صدام" کے دور میں تخریب ہوا ہے۔
مدرسہ میرزا حسن شیرازی: باب طوسی کے ساتھ ایک چھوٹا مدرسہ ہے۔
مدرسہ بزرگ میرزا حسین خلیلی: یہ مدرسہ محلہ عمارہ میں تھا جسے سنہ ۱۳۶۷ ھ ش میں صدام اور بعث پارٹی کی حکومت کے ذریعے تخریب ہوئی اور اس کے موقفات کو بھی ضبط کیا گیا۔
مدرسہ بخاری: محلہ حویش میں واقع اور آخوند خراسانی کے مدرسے کے ساتھ متصل یہ مدرسہ شیخ کاظم بخاری کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔
مدرسہ شربیانی: نجف کے مشہور مدارس میں سے ہے جو محلہ حویش میں واقع ہے۔
آخوند خراسانی کا بڑا مدرسہ: ایک وسیع و عریض مدرسہ ہے جو محلہ حویش میں واقع ہے۔
آخوند خراسانی کا چھوٹا مدرسہ (تأسیس: ۱۳۲۸ ھ): یہ مدرسہ محلہ براق میں واقع ہے۔
مدرسہ قزوینی: یہ مدرسہ محلہ عمارہ میں مسجد ہندی کے قریب واقع ہے جسے سنہ ۱۳۲۴ ھ میں تأسیس اور سنہ ۱۳۸۴ ھ میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
سنہ ۱۴۱۲ ھ میں بعثی حکومت کے کارندوں نے اس مدرسے کو بارود سے اڑا دیا اور اس کی لائبریری کو آگ لگا دی گئی۔
مدرسہ بادکوبہ‌: یہ مدرسہ محلہ مشراق میں واقع ہے۔
مدرسہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی: مدرسہ مذکور نجف کے مشہور ترین، بزرگ ترین اور بہترین مدارس میں سے ہے یہ مدرسہ بھی محلہ حویش میں واقع ہے۔
مدرسہ ہندی (تأسیس: ۱۳۲۸ ھ): یہ مدرسہ محلہ مشراق میں واقع ہے۔
مدرسہ سید عبداللَّہ شیرازی (تأسیس:۱۳۷۲ ھ):
مدرسہ آیت اللہ بروجردی نجف (تأسیس:۱۳۷۳ ھ): یہ مدرسہ آیت اللہ بروجردی قدس سرہ کی سفارش سے شیخ نصراللَّہ خلخالی نے تعمیر کروائی یہ مدرسہ محلہ براق میں واقع ہے۔
مدرسہ دار الحکمہ: یہ مدرسہ آیت اللہ حکیم کے حکم سے تعمیر ہوا جسے بعث پارٹی نے تخریب کیا۔ یہ مدرسہ صدام کے سقوط کے بعد دوبارہ تعمیر ہوئی اور سنہ ۱۳۹۲ ہجری شمسی کو اس کا افتتاح ہوا۔[20]
مدرسہ دار العلم: یہ مدرسہ آیت اللہ خوئی کے حکم سے تعمیر ہوا جسے بھی بعثی حکومت نے مسمار کر دیا۔
مدرسہ علامہ بلاغی: یہ مدرسہ آیت اللہ سیستانی کے حکم سے تاسیس ہوا۔
مدرسہ "نجف اسلامک یونیورسٹی": یہ مدرسہ کوفہ سے نجف کے راستے میں محلہ "حی السعد" میں واقع ہے۔ نجف کے ایک بزرگ عالم دین سید محمد کلانتر نے اس مدرسے کی بنیاد رکھی۔
منظم درسی نظام، امتحانات کا سلسلہ اور ممتاز طلاب کی تشویق کرنا اس مدرسے کی خصوصیات میں سے ہے۔ اس وقت بھی یہ مدرسہ نجف کے اہم اور بڑے مدارس میں سے ہے۔
نجف کے بعض دیگر مدارس درج ذیل ہیں: مدرسہ طاہریہ، رحباوی، جوہرچی، عاملی‌ ہا، عبدالعزیز بغدادی، افغانی ہا، کلباسی، علویہ، مرتضویہ اور منتدی النشر۔
نجف کی مشہور لائبریریاں
کتابخانہ علوی
 مکتبۃ الروضۃ الحیدریۃ (نجف)
اس لائبریری کو "الحیدریہ"، "الخزانۃ الغرویہ" اور "مکتبۃ الصحن" بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی تاسیس چوتھے صدی ہجری یا اس سے پہلے ہوئی تھی۔ عضدالدولہ دیلمی کا اس کی تاسیس اور توسعہ میں کردار رہا ہے۔
آٹھویں صدی ہجری میں اس لائبریری میں آتش سوزی کی وجہ سے اس میں موجود تمام کتابیں منجملہ امام علی(ع) کے دست مبارک سے لکھے ہوئے قرآن مجید کے تین نسخے اس آتش سوزی کے نتیجے میں جل گئے۔ لیکن علماء کی کوششوں سے یہ لائبریری دوبارہ احیاء ہوئی۔
بعد میں بے توجہی کی وجہ سے اس لائبریری نے اپنی اہمیت کھو دی اور اس میں موجود بہت ساری کتابیں یہاں سے غائب ہو گئیں اور آج اس عظیم علمی خزانے سے صرف چند کتابوں کے سوا کچھ باقی نہیں ہے۔
کتابخانہ امام علی(ع)
امام علی(ع) پبلک لائبریری (نجف)
یہ لائبریری سنہ ۱۳۷۳ ھ عید غدیر کے دن علامہ امینی کے دست مبارک سے تأسیس ہوئی۔یہ لائبریری نجف کے سب سے غنی اور معتبر لائبریریوں میں شامل ہے۔
کتابخانہ آیت اللَّہ حکیم
آیت اللہ حکیم پبلک لائبریری (نجف)
یہ لائبریری نجف کے علمی اورثقافتی مراکز میں سے ہے جو حرم امیرالمؤمنین کے نزدیک واقع ہے۔ یہ کتابخانہ آیت اللہ سید محسن حکیم کے دست مبارک سے تعمیر ہوئی ہے۔
کتابخانہ حسینیہ شوشتری‌ہا
یہ لائبریری نجف کے سب سے قدیمی لائبریریوں میں سے ہے جسے حاج میرزا علی محمد نجف آبادی نے تیرہویں صدی کے اواخر میں تأسیس کی ہے۔
کتابخانہ شیخ آقا بزرگ تہرانی
آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کئی سالہ تحقیق اور تتبّع کے دوران بہت ساری مفید اور باارزش کتابوں کو دنیا کے مختلف ممالک مخصوصا مصر اور ایران سے تہیہ کرکے اپنی شخصی لائبریری میں رکھا جسے سنہ ۱۳۷۵ق، میں عام لوگوں کی استفادہ کیلئے وقف کر دیا۔ اس لائبریری میں موجود کتابوے کی تعداد 5000 تک پہنچتی ہیں جن میں کم از کم 100 خطی کتابوں کے بے نظیر نسخے بھی شامل ہیں۔
کتابخانہ مدرسہ صدر
یہ لائبریری تیرہویں صدی کی اوائل میں حاج محمد حسین خان صدراعظم کے توسط سے تأسیس ہوئی جو اپنے زمانے میں نجف کے سب سے زیادہ مشہور لائبریریوں میں سے ایک تھی۔ لیکن بے توجی کی وجہ سے اس میں موجود بہت ساری کتابیں مفقود ہوگئی اور اس وقت یہ لائبریری چنداں قابل توجہ نہیں ہے۔
کتابخانہ امام حسن مجتبی (ع)
یہ لائبریری شارع الرسول کے آخر میں ایک خوبصورت بلڈنگ میں واقع ہے اس کے بنیاد گزار شیخ باقر شریف قریشی ہیں۔
مذکورہ لائبریریوں کے علاوہ کتابخانہ علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء، کتابخانہ مدرسہ قوام، کتابخانہ مدرسہ خلیلی، کتابخانہ مدرسہ آخوند خراسانی، کتابخانہ مدرسہ سید محمد کاظم یزدی اور کتابخانہ آیت اللَّہ بروجردی نیز نجف کے اہم لائبریریوں میں شمار ہوتی ہیں۔
متعلقہ مضامین
عتبات عالیات
امام علی (ع)
وادی السلام
حوالہ جات
1- معجم البلدان، ج۵، ص ۲۷۱؛ لسان العرب، ج۹، ص ۳۳۴۔
2-علل الشرائع، ص ۲۲، باب ۲۶
3- کنز العمال، ج۲، ص۴۷۳
4-لوامع صاحبقرانی، ج۵، ص۴۹۱
5- معجم البلدان، ج۵، ص ۲۷۱
6- ماضی النجف و حاضرہا، ج۱، ص۱۶
7- تاریخ الطبری، ج۳، ص ۳۶۰؛ تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص ۱۴۴۔
8-تاریخ طبرستان و رویان مازندران، ج۱، ص ۹۵۔
9- سیمای نجف اشرف، ص ۳۲
10- مزارات اہل البیت علیہم السلام، ص ۴۸
11- المحلات السکنیۃ القدیمۃ فی مدینۃ النجف
12-ماضی النجف و حاضرہا، ج۱، ص ۲۸-۲۹
13-بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۲۳۲.
14- بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۲۳۵.
15-شاکری،الکشکول المبوب،52۔اسے اب نجف کا حصہ شمار کیا جاتا ہے ورنہ پہلے اسے کوفے کا جزو یا کوفہ اور نجف کے درمیان ایک جگہ کہا گیا ہے
16- سید براقی،تاریخ الکوفہ ص104
17- سید براقی،تاریخ الکوفہ ص88
18-شيخ علي نمازی شاہرودی،مستدرک سفینہ البحار،2/452۔
19-شيخ علي نمازی شاہرودی،مستدرک سفینہ البحار،2/452۔
20- بعد ہدمہا.. السید الحکیم (مدّ ظلہ) یفتتح‌دار الحکمۃ من جدید
مآخذ
بحار الانوار
تاریخ طبرستان و رویان مازندران
تاریخ طبری
تاریخ یعقوبی
سیمای نجف اشرف
علل الشرائع
کنز العمال
لوامع صاحبقرانی
ماضی النجف و حاضرہا
حموی، یاقوت، معجم البلدان. بیروت:‌ دار صادر، ۱۹۹۵ ء

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک