امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ )ایک تحقیقی جائزہ(قسط نمبر-۲

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں عالمی مجلس اہل بیت  (۲۱)
نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ )ایک تحقیقی جائزہ(قسط نمبر-
۲
تالیف: تحقیقی کمیٹی ،    ترجمہ: حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہاتھ باندھنے  کے عدم جواز کے دلائل
پہلی دلیل : نماز میں ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ  ہے جس سے انسان کا روزانہ  بلکہ  ہر روز متعدد بار  واسطہ پڑتا  رہتا ہے ۔ صدر ِ اول  کے مسلمان  تقریبا ۲۳  سالوں تک  رسول اللہ  ﷺکے ساتھ زندگی گزارتے رہے ۔اس دوران  آنحضرت  ان کے ساتھ نماز پڑھتے رہے اور دن میں کم از کم پانچ بار  ان سے ملتے رہے ۔
پس اگر رسول اللہ  ﷺہاتھ باند کر نماز پڑھتے تو صحابہ  کے سامنے  یہ مسئلہ  روز روشن کی طرح  عیاں ہوتا  جبکہ  حقیقت  اس کے برخلاف ہے ۔اسی لئے ہاتھ باندھنے کے بارے میں  جو روایات  موجود ہیں  وہ صرف بعض صحابہ تک محدود ہیں  ۔علاوہ ازیں  یہ روایات  مجمل   اور مبہم ہیں  نیز ان کی اکثراسانید  پر اعتراضات وارد ہوئے ہیں  ۔پھر  ان کے مقابلے میں  وہ روایات ہیں جن سے ان کی نفی ہوتی ہے ۔
اس قسم کی صورتحال  میں ہم کیونکر  تصدیق  کر سکتے ہیں  کہ رسول اللہﷺ  اپنی  ہر نماز میں   یا اکثر نماز وں میں  اپنا  دایاں ہاتھ بائیں   بازو پر رکھتے تھے جیساکہ اس عمل کو مستحب قرار دینے والوں  کے قول کا تقاضا ہے ۔
دوسری دلیل :  جن روایات میں  ہاتھ  باندھنے  کا تذکرہ ہوا ہے  ان کے مقابلے میں وہ احادیث مذکور ہیں  جن میں ہاتھ باندھنے  کی نفی ہوئی ہے  یہاں تک کہ قرطبی  اپنی کتاب  بدایۃ المجتہد میں رقمراز ہیں : بہ تحقیق  ایسی  صحیح  احادیث  مروی  ہیں جن میں آنحضرت علیہ  الصلاۃ والسلام  کی نماز  کی کیفیت  نقل ہوئی ہے  ۔ان احادیث   میں  یہ مذکور  نہیں ہے کہ  آنحضرت اپنا  دایاں  ہاتھ بائیں  پر رکھتے تھے .... بعض کا لوگوں کا  نظریہ  ہے کہ ان احادیث کی طرف رجوع کرنا  زیادہ ضروری ہے  جن میں  اس اضافی  عمل  کا ذکر نہیں ہے  کیونکہ  ان احادیث  کی تعداد بیشتر ہے ۔( دیکھیے بدایۃ المجتہد ،۱/۱۳۷)
فقہ مالکی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے ۔ مالک  کو فقیہ مدینہ کہا جاتا ہے  کیونکہ  وہ اہل مدینہ  کے عمل کو  بہت سخت  اہمیت   دیتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ  ان کی نظر میں  اہل مدینہ  کا عمل صحابہ  سے ماخوذ  تھا  ۔یہ حقیقت سے نزدیک  تر ہے ۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کی مخالفت پر مشتمل  احادیث  میں سے ایک ابو حمید  ساعدی کی حدیث ہے  ۔اسے ایک سے زیادہ  محدثین  نے نقل کیا ہے  ۔ہم اسے بیہقی کے الفاظ  میں نقل کررہے ہیں  ۔
بیہقی  کہتے ہیں:  ابو علی عبد اللہ  حافظ  نے ہم سے بیان کیا  کہ ابو  حمید ساعدی  نے کہا :  میں رسول اللہﷺ کی نماز  کے بارے میں  تم  سب سے زیادہ  آگاہی رکھتا ہوں ۔لوگوں نے کہا : وہ کیسے ؟  نہ تم نے ہم سے زیادہ رسول  کی متابعت کی ہے اور نہ  تمہیں  ہم سب سے  پہلے رسول کی مصاحبت  کا شرف حاصل ہوا ہے  ؟ ابو حمید نے کہا : ہاں ۔
ان لوگوں نے کہا : پس ہمارے سامنے اسے پیش کرو  ۔
ابو حمید نے کہا : جب رسول اللہﷺ نماز  کے لئے کھڑے ہوتے تھے  تو آپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کندھوں  کی سطح  تک اوپر اُٹھاتے تھے اور تکبیر کہتے تھے  یہاں تک کہ آپ کا ہر عضو ِبدن  اپنی جگہ  ساکن ہوجائے ۔اس کے بعد  آپ (حمد و سورت ) پڑھتے تھے ،پھر تکبیر کہتے تھے   اور اپنے  دونوں  ہاتھوں   کو کندھوں کی سطح تک اوپر اُٹھاتے  تھے ،پھر رکوع  کرتے  تھے اور اپنی  دونوں  ہتھیلیاں  اپنے  گھٹنوں  پر رکھتے  تھے ۔پھر آپ کا بدن  اعتدال و سکون   کی حالت  میں   آتا تھا  ۔(رکوع میں )آپ  نہ اپنا سر(معمول سے ) اوپر اُٹھاتے تھے نہ  نیچے جھکاتے تھے ۔پھر آپ رکوع سے اٹھتے اور کہتے تھے: سمع اللہ لمن حمدہ۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کی سطح تک اٹھاتے تھے یہاں  تک کہ آپ کے بدن کی  ہر ہڈی  اپنی  اپنی جگہ  اعتدال  اور سکون  کی حالت  میں آجائے  ۔اس کے بعد آپ  اللہ اکبر  کہتے تھے۔ پھر  سجدے  میں جاتے  تھے  اور اپنے دونوں  ہاتھوں کو  اپنے پہلؤوں  سے فاصلے پر رکھتے  تھے  ۔اس کے بعد آپ  اپنا  سر (سجدے سے ) اُٹھاتے  تھے اور بایاں  پاؤں  تہہ کر کے  اس پر بیٹھتے تھے ۔ سجدے میں آپ  اپنے  دونوں  پیروں  کی انگلیاں  کھلی رکھتے تھے ۔اس کے بعد  پھر (سجدے میں )لوٹتے تھے ۔پھر سجدے  سے سر اُٹھاتے  تھے اور کہتے  تھے : اللہ اکبر  ۔پھر اپنا دایاں  پاؤں تہہ  کر کے  اس پر  سیدھے  ہوکر بیٹھتے  تھے یہاں تک کہ آپ  کے بدن کی  ہر ہڈی  اپنی اپنی جگہ معتدل  اور ساکن  ہوجائے۔
اس کے بعد  آپ دوسری رکعت  میں بھی  یہی  کچھ کرتے تھے ۔پھر جب آپ  دو رکعتوں  کے بعد  کھڑے ہوتے تھے  تو تکبیر  کہتے تھے  اور اپنے  دونوں  ہاتھوں  کو کندھوں کی سطح تک اُٹھاتے  تھے  جس طرح  آپ  نے نماز  کے شروع  میں  کیا تھا  اور تکبیر کہی تھی  ۔اس کے بعد  آپ  باقیماندہ  نماز بھی  اسی طرح  انجام دیتے تھے  یہاں تک کہ آپ آخری رکعت (جس میں  سلام کہا جاتا ہے ) میں اپنا  بایا ں  پیر  پیچھے کی جانب لے  جاتے اور بائیں  ران پر بیٹھ جاتے تھے ۔
یہ سن کر  سب نے کہا : اس نے درست  کہا ہے  رسول اللہﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے ۔( سنن بیہقی ۲/۱۰۵ ،ح  ۲۵۱۷، سنن ابی داؤد ،باب  افتتاح الصلاۃ ،حدیث ۷۳۰، سنن ترمذی ۲/۱۰۵،ح ۳۰۴، باب صفۃ الصلاۃ ،مطبوعہ دارالفکر ،بیروت ۱۴۰۸ھ)
اس  روایت کی روشنی میں  درج ذیل نکات ہمارے مدعا کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں :
پہلا نکتہ : بڑے  بڑے صحابہ
(یہ دس لوگ تھے ۔ان میں ابو ہریرہ  ،سہل ساعدی ،ابو اُسید  ساعدی ،ابو قتادہ ،حارث بن  ربعی اور محمد بن مسلمہ وغیرہ شامل  تھے ۔دیکھئے : عون المعبود  ،شرح سنن ابی داؤد باب ۱۱۶،ح ۷۳۰)
کی اتنی تعداد نے ابو حمید  کے بیان  کی تصدیق کی ہے جو اس حدیث کی درستی اور دیگر دلائل  پر اس کی ترجیح پر دلالت کرتی ہے ۔
دوسرا نکتہ : راوی  نے واجبات ،مستحبات اور سنن کو بیان کیا ہے لیکن  ہاتھ باندھنے کا کوئی  تذکرہ  نہیں کیا  ہے جبکہ سامعین نے بھی  اس پر کوئی اعتراض   نیز اس کے برخلاف  کسی رائے کا اظہار نہیں کیا جبکہ وہ اس کے خواہاں تھے کیونکہ انہوں نے شروع  میں  ابو حمید  کے اس دعوے کو قبول نہیں کیا تھا کہ وہ رسول اللہﷺ کی نماز کے بارے میں  ان سب سے زیادہ آگاہ ہے ۔بعد میں ان سب نے اس کی مخالفت کی بجائے  مل کر  کہا : تونے سچ کہا ہے۔رسول اللہ ﷺاسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے ۔
اگر کوئی یہ کہے  کہ سامعین  اس وقت   ہاتھ باندھنے کا معاملہ  بھول  گئے  ہوں گے تو یہ بہت ہی بعید از قیاس  ہے  کیونکہ  ان کی تعداد دس تھی اور وہ  اسی موضوع پر بحث و مذاکرہ کر رہے تھے ۔
تیسرا نکتہ : ہاتھوں کی حالت کے بارے میں  فطری  اور قدرتی  اصول  یہ ہے کہ  وہ کھلے ہوں  جیساکہ  حدیث  بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے ۔
چوتھا نکتہ :  ممکن ہے  کوئی  یہ دعوی  کرے کہ یہ حدیث عام ہے اور بعض احادیث  جن میں  ہاتھ باندھنے کا ذکر ہوا ہے اس حدیث کی تخصیص کرتی  یعنی  اس کی عمومیت کا دائرہ تنگ کرتی ہیں۔
تبصرہ: ظاہر ہے  یہ دعوی  غلط ہے کیونکہ  راوی نے جملہ فرائض  ،مستحبات ،مندوبات اور نماز کی مکمل ہیئت کا ذکر کیا ہے  ۔ راوی  کا مقصد  ہی  یہ تھا کہ وہ رسول  ﷺکی نماز کا طریقہ  سکھائے اور بیان کرے ۔اس صورت میں کسی چیز کو حذف  کرنا خیانت ہے جو راوی  اور وہاں موجود  افراد کی شان کے برخلاف ہے ۔
پانچواں نکتہ :  جو صحابہ اس موقعے پر موجود تھے ان میں  سے بعض  نے وہ احادیث نقل کی ہیں  جن میں  ہاتھ باندھنے کا ذکر ہوا ہے  لیکن  ان اصحاب  میں  سے کسی نے ابو حمید ساعدی پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ اس نے ہاتھ باندھنے کا تذکرہ  کیوں نہیں کیا۔
ہاتھ باندھنےکا مسئلہ مکتب اہل بیت کی نظر میں
مذکورہ مباحث سے واضح ہوا کہ  نماز میں  ہاتھ باندھنے کے حق میں  کتاب و سنت پر مبنی کوئی دلیل پائی نہیں جاتی  ۔ادھر سارے مسلمان فقہاء کا اجماع  ہے کہ  عبادات  توقیفی ہیں  (یعنی  کوئی چیز  تب عبادت  کہلاسکتی ہے  جب قرآن و سنت اور شریعت  نے اس کا حکم  دیا ہو )۔ پس عبادات  کے توقیفی  ہونے کا لازمہ  یہ ہے کہ نماز میں  ہاتھ باندھنا  حرام ہے کیونکہ یہ دین  کے اندر ایسی چیز  کو شامل کرنے سے  عبارت ہے جس کی شریعت مقدسہ   نے اجازت  نہیں دی ۔اسے ’’تشریع  ‘‘کہتے ہیں جو حرام  ہے ۔
ادھر جب ہم  اس بارے میں   ائمہ اہل بیت علیہم السلام  سے منقول  روایات پر نظر  ڈالتے ہیں  تو دیکھتے ہیں کہ  ان روایات میں  نماز کے اندر  ہاتھ باندھنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مجوسیوں  کا عمل قرار دیا گیا  ہے  جس سے  اس کی حرمت  زیادہ موکد  ہوجاتی ہے ۔ ان روایات  نے ایک طرف  سے اس عمل کو حرام ،بدعت و تشریع  قرار دیا ہے اور دوسری طرف سے اسے کفار کے عمل سے تشبیہ  دی ہے ۔
محمد بن مسلم  روایت کرتے ہیں : کہ  موصوف نے امام باقر یا امام صادق علیہما السلام  سے  پوچھا : ایک شخص نماز میں اپنا  دایاں ہاتھ بائیں  ہاتھ  پر رکھتا ہے  (اس کے بارے میں  کیا فرماتے ہیں ) ؟ فرمایا : اسے تکفیر کہتے ہیں  جو ممنوع ہے ۔
اسی طرح زرارہ  نے ابو جعفر علیہ السلام   سے نقل کیا ہے کہ  آپ نے فرمایا : تمہارے اوپر لازم ہے کہ نماز پر توجہ دو  اور ہاتھ نہ باندھو کیونکہ یہ مجوسیوں  کا وطیرہ ہے ۔
شیخ صدوق نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا : جب ایک مسلمان اللہ عزوجل کے حضور کھڑا ہوتا ہے  تو وہ اپنے ہاتھوں کو باندھ   کر اہل کفر یعنی مجوسیوں  کی مشابہت اختیار نہیں کرتا ۔
( وسائل الشیعہ ۷/۲۶۵۔۲۶۷ باب  ۱۵ از ابواب  قواطع الصلاۃ ،ح۱،۲ اور ۷ ،مطبوعہ موسسہ آل البیت  ،قم)
یہ روایات وہ تھیں جن میں ہاتھ باندھنے کی ممانعت ہوئی ہے ۔ ادھر ائمہ معصومین علیہم السلام  سے  مروی  بعض روایات وہ ہیں جن میں نماز کی کیفیت  کو بیان کیا گیا ہے ، لیکن ان میں ہاتھ  باندھنے  کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے ۔
 حماد بن عیسی نے امام صادق علیہ السلام   سے نقل کیا ہے  کہ آپ نے فرمایا :کس قدر قبیح اور بری بات ہے کہ ایک شخص کے ساٹھ یا ستر سال گزر جائیں لیکن وہ ایک  نماز بھی مکمل شرائط کے ساتھ بجا نہ لاسکے ؟ حماد نے کہا :  یہ سن کر میرے  اندر شرمندگی  کی کیفیت پیدا ہوئی ۔پس میں نے عرض کیا : قربان جاؤں !  آپ  مجھے نماز سکھائیے ۔ پس ابو عبداللہ قبلہ رخ ہو کر سیدھے کھڑے ہوگئے ۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے ۔ آپ کی  انگلیاں ملی ہوئی تھیں ۔ آپ نے اپنے قدموں کو  ایک دوسرے کے قریب کیا یہاں تک کہ ان  دنوں کے درمیان تین  کھلی ہوئی انگلیوں کے برابر فاصلہ رہ گیا۔  آپ نے اپنے دونوں پیروں کی انگلیاں قبلے  کی جانب رکھیں  اور انہیں قبلے سے ادھر ادھر  نہیں کیا ۔ اس وقت آپ پر خشوع اور عاجزی  کی حالت طاری تھی ۔ تب آپ  نے اللہ اکبر کہا ۔ پھرترتیل کے ساتھ سورہ حمد  اور قل ہو اللہ احد کی تلاوت کی ۔پھر  کھڑے رہ کر ایک سانس  کے برابر توقف کیا اور قیام کی حالت میں اللہ اکبر کہا ۔ اس کے بعد آپ نے رکوع کیا اور اپنے گھٹنوں کو پوری طرح سے اپنی ہتھیلیوں میں لے لیا جب کہ ہاتھوں کی انگلیاں کھلی ہوئی تھیں۔  آپ نے اپنے دونوں گھنٹوں کو پیچھے کی جانب تن لیا یہاں تک   کہ آپ کی پشت اس طرح ہموار ہوگئی کہ اگر اس پر پانی یا تیل کا کوئی قطرہ ڈالا جائے تو پشت کے ہموار ہونےکی وجہ سے وہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرے ۔
آپ علیہ السلام نے اپنے گھٹنے  پیچھے کی  جانب تن لیے ، اپنی  گردن سیدھی رکھی ، دونوں آنکھیں موندھ لیں پھر ترتیل کے ساتھ تین بار تسبیح پڑھی اور  فرمایا :سبحان ربی العظیم وبحمدہ ۔ اس کے بعد آپ سیدھے کھڑے ہوگئے ۔جب آپ کھڑے ہو کر ساکن ہوگئے تو آپ نے فرمایا: سمع اللہ لمن حمدہ۔ پھر آپ نے قیام کی حالت میں تکبیرکہی، اپنے دونوں ہاتھ  چہرے کے متوازی اوپر  اٹھائے اور سجدہ کیا۔ ( سجدہ میں جاتے وقت )  آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں  سے پہلے زمین پر رکھا او ر (سجدے میں ) تین بار کہا :سبحان ربی الاعلی وبحمدہ ۔  آپ نے اپنے جسم کا کوئی حصہ کسی  دوسرے حصے پر نہیں رکھا اور  آٹھ  ہڈیوں  کے بل سجدہ کیا ( جو یہ ہیں ): پیشانی ، دونوں ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنوں کا درمیانی حصہ ، دونوں پیروں کے انگوٹھوں  کے سرے اور ناک ۔ ان  سات اعضاء کو  زمین پر رکھنا واجب ہے جبکہ ناک کو زمین پر رکھنا سنت ہے جسے’’ ارغام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے اپنا سر سجدے سے اٹھایا ۔ آپ نے  ساکن ہو کر بیٹھ جانے کے بعد کہا:  اللہ اکبر۔ پھر آپ اپنے بدن کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنے دائیں پاؤں کے ظاہری حصے کو بائیں پاؤں کے تلوے پر رکھا اور فرمایا:  استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ ۔ پھر آپ نے بیٹھ کر  تکبیر پڑھی اور دوسرا سجدہ کیا۔ آپ نے دوسرے سجدے میں وہی کہا جو پہلے سجدہ  میں  کہا تھا۔ آپ نے رکوع اور سجود میں اپنے بدن کے کسی حصے کو کسی دوسرے حصے کا سہارا نہیں دیا اور اپنے بازؤوں کو بدن سے جدا رکھا۔   آپ نے  اپنے بازؤوں کو زمین پر نہیں رکھا اور اسی طریقےسے دو رکعتیں پڑھیں۔پھر  فرمایا :  اے حماد !اس طریقے پر نماز پڑھو۔  ادھر  ادھر رخ نہ کرو ،اپنے ہاتھ اور انگلیوں سے نہ کھیلو  نیز اپنے دائیں یا بائیں جانب یا سامنے  نہ تھوکو۔
( وسائل الشیعہ،مطبوعہ موسسہ آل البیت  ،قم، ۵/۴۵۹۔۴۶۰،باب  ۱، ابواب  افعال الصلاۃ،   ح۱۔  اس باب میں  ۱۹ حدیثیں ہیں جو   پوری نماز  یا نماز کے بعض پہلوؤں کو بیان  کرتی ہیں)
آپ  نے ملاحظہ کیا کہ ان  دونوں  روایتوں کا مقصد لوگوں پر فرض نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے ۔ ان دونوں  میں ہاتھ باندھنے  کی مختلف صورتوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے ۔ اگر ہاتھ باندھنا سنت ہوتا تو امام اس کا ذکر ترک نہ کرتے جبکہ آپ ہمارے لئے عملی طور پر رسولﷺ کی نماز کی تصویر کشی فرمارہے تھے۔ یہ طریقہ آپ نے اپنے پدر گرامی امام باقر  علیہ السلام سے سیکھا تھا جبکہ امام باقر نے اپنے پدر گرامی سے اور انہوں نے اپنے آبائے طاہرین علیہم السلام کی وساطت  سے امیر المومنین علیہ السلام سے اور  آپ نے رسول اعظم  صلوات اللہ علیہ سے سیکھا تھا  ۔
پس ہاتھ باندھنا بدعت  ہے جو اس بات سے عبارت ہے کہ کسی ایسی چیز کو دین  میں شامل کیا جائے جس کا دین سے کوئی  تعلق نہ ہو۔ ان دلائل کی روشنی میں مکتب اہل بیت کے فقہاء نے نماز میں ہاتھ باندھنے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے۔ سید مرتضیٰ فرماتے ہیں : ہمارے موقف کی درستی کے حق میں ہماری دلیل ہمارے مذہب کا مذکورہ اجماع اور نماز کی درست ادائیگی کے یقین کا حصول ہیں ۔ علاوہ ازیں ہاتھ باندھنا ایک اضافی کام اور عمل ِکثیر ہے جو نماز میں واجب رکوع ، سجود اور قیام کے بشمول شریعت کی جانب سے معین شدہ اعمال کے دائرےسے خارج ہے ۔
ظاہر ہے کہ نماز کے اندر ہر اس عمل کی انجام دہی ناجائز ہے جو شریعت  کے معین کئے ہوئے اعمال  کے دائرے سے خارج ہو(الانتصار،ص ۱۴۲،مطبوعہ جماعۃ المدرسین ،قم المقدسہ، سال ۱۴۱۵ھ)
شیخ طوسی فرماتے ہیں  نماز میں  دائیں  ہاتھ کو بائیں  ہاتھ  پر  یا بائیں کو دائیں  پر رکھنا جائز نہیں  ہے خواہ ناف کے اوپر  رکھا جائے یا ناف کے نیچے ۔اس بات پر ہماری  دلیل ہمارے  فرقے کا اجماع ہے ۔ان کا اس بات  میں کوئی اختلاف نہیں  کہ اس عمل سے نماز ٹوٹ جاتی  ہے  ۔ علاوہ  ازیں  نماز کے افعال  وہ ہیں  جو شریعت  کی طرف سے ثابت ہوں  ۔ جبکہ  شریعت میں کوئی ایسی دلیل  موجود نہیں  ہے جو ہاتھ باندھنے  کے جواز پر دلالت  کرے ۔احتیاط کا تقاضا بھی  یہی ہے کہ ہاتھ باندھنے سے اجتناب  کیا جائے  کیونکہ اس بات میں کوئی اختلاف  نہیں   کہ ہاتھ کھلا رکھنے  والے کی نماز  قطعاً صحیح  ہے لیکن باندھنے کی صورت میں  نماز کے  درست ہونے  میں اختلاف  واقع ہوا ہے۔  چنانچہ  امامیہ کہتے ہیں  کہ اس سے نماز باطل ہوتی ہے  ۔بنابریں  احتیاط  یہ ہے کہ  ہاتھ باندھنے سے قطعاً پرہیز کیا جائے۔( الخلاف ۱/۳۲۱۔۳۲۳ ،مطبوعہ جماعۃ المدرسین ،قم المقدسہ ،سال ۱۴۱۳ھ، اشاعت  سوم)
خلاصہ  بحث
اہل سنت کے مذاہبِ  اربعہ نے نماز میں  ہاتھ باندھنے کے استحباب کو ثابت کرنے  کے لئے جن احادیث  کا سہارا لیا ہے  ان میں سے معروف  ترین  روایات  یا تو سند کے لحاظ سے ضعیف  ہیں یا دلالت کے لحاظ سے ناقص ہیں  ۔
ان کے علاوہ  اگر ہاتھ باندھنے پر دلالت  کرنے والی بعض احادیث  ایسی ہوں  جو سند اور دلالت  کے زاوئے  سے سالم ہوں  تو بھی  ان پر عمل اس لئے جائز نہیں  کیونکہ  ان کے مقابلے میں وہ  صحیح احادیث  موجود  ہیں  جو ہاتھ باندھنے  سے روکتی ہیں  مثال کے طور پر  ابو حمید ساعدی کی حدیث  جس کا ذکر گزر چکا ہے ۔احادیث کے مابین  تعارض  کی صورت میں  دونوں  حجت نہیں  رہتیں  اور بنیادی قاعدے کی طرف رجوع  کرنا پڑتا ہے جو یہاں  ہاتھوں  کو کھلا چھوڑنے  سے عبارت ہے کیونکہ ہاتھ باندھنا ایک زائدفعل ہے   جو قدرتی  حالت  سے خارج  ہے اور اس پر کوئی مضبوط دلیل قائم نہیں ہے ۔
اس بات میں شک کی کوئی گنجائش  نہیں کہ  ہاتھوں  کوکھلا چھوڑنا احتیاط کا بھی تقاضا ہے کیونکہ جو لوگ ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں  وہ بھی  اسے واجب  قرار نہیں دیتے بلکہ  اسے مستحب  سمجھتے ہیں  جس میں  اختلاف  واقع ہوا ہے  جبکہ ہاتھوں  کو کھلا چھوڑنے کے جواز میں  کوئی اختلاف  ہی نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں  ہاتھ باندھنے کے عدم جواز  کا قول  فقہ  اہل بیت کی رو سے ثابت  ہے ۔ یاد رہے کہ اسلام نے مسلمانوں  کو اہل بیت  طاہرین  کی پیروی  کا حکم دیا ہے دوسروں  کی نہیں
 ---حوالہ:
نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔  نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی  مسئلہ  
موضوع : فقہ
تالیف : تحقیقی کمیٹی  ،ترجمہ: شیخ محمد علی توحیدی ،نظرثانی:شیخ سجاد حسین،کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ، ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ، جملہ حقوق محفوظ ہیں
حروف چینی و باز نگری و ترجمہ ،تمام شد۔مورخہ ۲۴/۱۰/۲۰۱۷۔ توحیدی/جعفری ۲۹/۱۰/۲۰۱۷

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک