امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ )ایک تحقیقی جائزہ(قسط نمبر-۱

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں عالمی مجلس اہل بیت  (۲۱)
نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ )ایک تحقیقی جائزہ(قسط نمبر-۱
تالیف: تحقیقی کمیٹی ،    ترجمہ: حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل ا لبیت علیہم  السلام قرآن کے آئینے میں:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃٔ احزاب/۳۲ )
ترجمہ :اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے   کہ وہ  آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے  پاک و پاکیزہ رکھے  جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
اہل بیت  رسول علیہم السلام، سنت  نبوی کے آئینے میں:
’’ اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ ‘‘(صحاح و مسانید)
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں  چھوڑے جارہاہوں۔ وہ  اللہ کی کتاب  اور میری عترت  یعنی  میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔
عرضِ مجلس
اہل بیت علیہم السلام  کا علمی و فکری ورثہ  جسے  مکتب اہل بیت  نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے  ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے  مکتب فکر  کی تصویر  پیش  کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ  کی مختلف  جہات کو محیط ہے  ۔اس مکتب فکر نے    اسلامی  معارف  کے اس صاف سرچشمے  سے سیراب  ہونے  کے لائق  نفوس  کی ایک کھیپ کو پروان  چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر  نے امت مسلمہ  کو  ایسے  عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت  علیہم السلام کے نظریاتی  نقش قدم پر چلے ہیں  ۔اسلامی معاشرے کے اندر  اور باہر  سے تعلق رکھنے  والے  مختلف  فکری مناہج  اور مذاہب  کی جانب  سے اُٹھنے والے سوالات  ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل  نظر رہی ہے  ۔
یہ علماء  اور دانشور  مسلسل  کئی صدیوں  تک ان سوالات  اور شبہات کے  معقول ترین اور محکم ترین  جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس  اہل بیت   نے اپنی  سنگین ذمہ داریوں  کو محسوس  کرتے ہوئے  ان اسلامی تعلیمات  و حقائق  کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے  جن پر مخالف  فِرق  و مذاہب  اور اسلام  دشمن  مکاتب  و مسالک کے اربابِ بست و کشاد  نے  معاندانہ توجہ  مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی  مجلس اہل بیت   نے اس  سلسلے میں  اہل بیت علیہم السلام  اور مکتب اہلبیت کے ان   پیروکاروں  کے نقش قدم  پر چلنے کی سعی  کی ہے جنہوں نے  ہر دور   کے مسلسل  چیلنجوں  سے معقول ،مناسب  اور مطلوبہ  انداز میں  نمٹنے  کی  کوشش کی ہے ۔
اس سلسلے میں  مکتب اہل بیت  کے علماء کی کتابوں  کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں  کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں  ،عقل و  برہان کی بنیادوں  پر استوار ہیں  اور  مذموم  تعصبات و خواہشات سے پاک  ہیں  نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین  کو اس انداز میں  اپنا مخاطب  قرار دیتی  ہیں  جو عقل سلیم  اور فطرت سلیمہ   کے ہاں  مقبول  اور پسندیدہ  ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں  کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ  اور شبہات  و اعتراضات کے بارے میں  بے لاگ سوال و جواب   کا ایک  جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی   اٹھائے جاتے رہے ہیں  اور آج بھی انہیں  ہوا دی جارہی ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے  بعض  حلقے  اس سلسلے میں  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد  کررہے  ہیں  ۔اس بارے   میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی  رہی ہے کہ لوگوں  کے جذبات اور تعصبات کو مذموم  طریقے  سے بھڑکانے سے اجتناب  برتا جائے جبکہ عقل  و فکر  اور طالبِ حق نفوس  کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں  جنہیں  اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب  پورے عالم کے سامنے پیش  کرتا ہے اور وہ بھی  اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں  تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
یہاں  اس بات کی طرف اشارہ ضروری  ہے کہ زیر نظر تحقیقی  مباحث  ممتاز  علماء  اور دانشوروں  کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر  اور قدر دان ہیں  جن میں سے  ہر ایک نے ان علمی  مباحث  کے مختلف حصوں  کا جائزہ  لے کر ان کے بارے میں  اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ  ہم نے  اپنی  ان ذمہ داریوں  میں  سے بعض  کو ادا کرنے میں  ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم   رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں  جس نے اپنے رسول کو  ہدایت  اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی  کافی ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت،شعبہ ثقافت

نماز میں ہاتھ  باندھنے کا مسئلہ ۔ایک تحقیقی جائزہ
مکتب اہل بیت اور بعض دیگر اسلامی  مکاتب فکر کے درمیان   جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا ہے ان میں سے ایک نماز میں  ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ہے۔ عربی زبان میں  اسے ’’تکتّف‘‘ ،’’تکفیر  ‘‘اور ’’قبض‘‘  کے ناموں  سے بھی یاد  کیا  گیا ہے ۔ان سب کا مفہوم  ایک ہی ہے  اور وہ یہ  ہے کہ نمازی اپنی ناف کے اوپر یا نیچے اپنا دایاں ہاتھ  بائیں ہاتھ  پر رکھ کر نماز پڑھے ۔
موضوع بحث  کی وضاحت
یاد رہے کہ مسلمانوں  کے مختلف فقہی  مذاہب کا اجماع ہے کہ نماز میں  ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے ۔وجوب سے قطع نظر مذاہب کے درمیان  اس بارے میں درج ذیل  مختلف نظریات پائے جاتے ہیں :
پہلا نظریہ :  نماز میں ہاتھ باندھنا بطور مطلق  مستحب ہے ،خواہ نماز مستحب ہو یا واجب ۔ یہ حنفی ،شافعی اور حنبلی مکاتب  فکرکا قول ہے ۔نووی کا بیان ہے کہ ابو ہریرہ  ،عائشہ اور  بعض دیگر صحابہ  نیز بعض تابعین  مثلا سعید بن جبیر ،نخعی ،ابو مجلّد ،علاوہ ازیں بعض فقہاء  مثلا سفیان ،اسحاق ،ابو ثور ،داؤد اور  جمہور علماء کا یہی نظریہ ہے ۔( المجموع ۳/۳۱۳، مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)
دوسرا نظریہ : اس نظرئے کی رو سے مستحب نمازوں  میں ہاتھ باندھنا جائز ہے جبکہ  واجب نمازوں  میں  یہ عمل مکروہ ہے ۔
ابن رشد قرطبی  نے یہ نظریہ  اپنے امام مالک سے نقل کیا ہے (دیکھیے بدایۃ المجتہد  ۱/۱۳۷،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت،طبع دہم  سال ۱۴۰۸ ھ)
نووی کہتے ہیں  :عبد الحکم نے  مالک سے نقل کیا ہے کہ ہاتھ  باندھنا  چاہیے  جبکہ  ابن قاسم  نے کہا ہے کہ  مالک ہاتھ کھولنے کے حامی  ہیں  جو زیادہ مشہور ہے ۔( دیکھیے المجموع  ۳/۳۱۲)
ادھر سید مرتضی نے مالک اور لیث بن سعد  کے بارے میں  نقل کیا ہے کہ  وہ نوافل میں  طویل  قیام کی وجہ سے ہاتھ باندھنے  کے حامی ہیں۔( دیکھیے الانتصار ،ص ۱۴۰،مطبوعہ  جماعۃ المدرسین ،قم ،سال ۱۴۱۵ ھ )
تیسرا نظریہ : اس نظرئے کے مطابق  ہاتھ باندھنے اور کھولنے دونوں  کی اجازت ہے ۔نووی  نے اوزاعی سے یہی  نقل  کیا ہے (دیکھیے المجموع  ۳/۳۱۲)
چوتھا نظریہ : اس نظرئے  کی روسے  ہاتھ  باندھنا حرام ہے اور  اس سے نماز باطل ہوتی ہے ۔یہ  امامیہ کا  نظریہ ہے ۔سید مرتضی  نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔( دیکھیے الانتصار ،ص ۱۴۲)
نووی نے المجموع میں  نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن زبیر ،حسن بصری ،نخعی اور ابن سیرین ہاتھ کھولنے کے حامی  تھے اور ہاتھ باندھنے  سے منع کرتے تھے۔( دیکھئے :نووی  کی المجموع  ۳/۳۱۱)
ان میں سے پہلے تین اقوال کو ہم جواز کے وسیع تر مفہوم  کی مختلف صورتیں  قرار دے سکتے ہیں  ۔جواز کا یہ مفہوم کراہت اور استحباب  کو بھی شامل ہے ۔بنابریں  اس مسئلے کے بارے میں  دو بنیادی نظریات موجود ہیں  جو جواز کے وسیع تر مفہوم  اور حرمت  سے عبارت  ہیں  ۔اگر حرمت ثابت نہ ہو  بلکہ جواز ثابت ہوتو  اس کے بعد ہم جواز کی مختلف صورتوں  یعنی  کراہت ،استحباب اور تخییر  کے بارے میں  بحث کر سکتے ہیں  ۔لیکن اگر جواز ثابت نہ ہو بلکہ  حرمت ثابت ہوتو پھر استحباب  یا تخییر  پر مبنی قول کی گنجائش  نہیں رہے گی اور ان کے بارے  میں بحث  کی  حاجت بھی باقی نہیں رہے گی ۔
خلاصہ یہ کہ  اس مسئلے  کے بارے میں  بحث کی بنیادی چابی یہ سوال ہے : عبادت میں  کسی چیز کے جائز  یا حرام  ہونے کا معیار  کیا ہے ؟  نیز  کیا نماز میں  ہاتھ باندھنے کی حرمت پر کوئی دلیل موجود ہے یا نہیں  ؟
نماز میں ہاتھ باندھنا : بدعت ہے یا سنت؟
مختلف اسلامی مذاہب   کے فقہاء  کا  اتفاق ہے کہ عبادات  توقیفی ہیں  یعنی کوئی  چیز اس وقت تک عبادت نہیں ہوسکتی جب تک اس پر  کتاب و سنت  پر مبنی کوئی دلیل قائم نہ ہو ۔ پس اگر کتاب  اور سنت نبوی  کی روشنی  میں  یہ بات ثابت ہو کہ کوئی چیز کسی عبادت کا جزء ہے  تو ٹھیک و گرنہ اس چیز  کو اس  میں  عبادت  کا جزء قرار دینا اور اسے عبادت کا جزء  سمجھتے ہوئے  قصد قربت  کے ساتھ  انجام دینا  تمام فقہاء  کے  ہاں  قطعاً حرام ہے کیونکہ  یہ بدعت  کا واضح مصداق ہے ۔
نیز  یہ وہ فتوی ہے  جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ  حکم یا دلیل  سے عاری ہے ۔
یہاں ہمارا موضو ع بحث  دو دعوؤں  سے عبارت ہے ۔
 ایک دعوے کی رو سے نماز میں  ہاتھ باندھنے  پر کوئی  شرعی دلیل  قائم  نہیں  ہے ۔بنابریں  ہاتھ باندھنے کا حکم  بدعت  اور تشریع (شرعی دلیل  کے بغیر  کسی چیز کو شریعت  کا حکم  قرار دینے ) سے عبارت ہے  جو حرام ہے ۔
دوسرے دعوے کی رو سے ہاتھ باندھنے پر شرعی دلیل قائم ہے۔

بالفاظ دیگر  ہاتھ باندھنے  کی حرمت کے طرفدار  ہاتھ  باندھنے  کو بدعت  اور دین کے اندر ناجائز دخل  اندازی  سمجھتے  ہیں  جبکہ اسے جائز اور مستحب سمجھنے والے اسے سنت نبوی قرار دیتے ہیں ۔
بنابریں  اس مسئلے  کی تحقیقی بحث  کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اسے جائز اور مستحب  سمجھنے والوں  کے دلائل  کا جائزہ لیں  اور یہ دیکھیں  کہ کیا یہ دلائل قرآن و سنت پر مبنی حقیقی دلائل  ہیں یا بے بنیاد  ہیں ؟
ہاتھ باندھنے  کے جواز  میں  دئے گئے دلائل
جو حضرات نماز میں  ہاتھ باندھنے کو جائز یا مستحب سمجھتے ہیں  وہ  کچھ احادیث  و روایات کے علاوہ  استحسان کی بعض صورتوں  سے استدلال کرتے ہیں  جیساکہ نووی  کہتے ہیں : ہمارے علماء  کہتے ہیں  کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنا  اسے  فضول حرکات سے محفوظ رکھنے کا  نیز تواضع  اور عاجزی کے اظہار کا بہتر طریقہ ہے۔( دیکھئے : نووی کی المجموع  ، ۳/۳۱۳)
ان حضرات نے جن  روایات  اور استحسانی صورتوں  سے استدلال  کیا ہے ان کا درج ذیل طریقے سے  تحقیقی  جائزہ   لینا  ضروری ہے ۔
الف ۔ احادیث سے استدلال
نماز میں  ہاتھ باندھنے  کے طرفدار وں  نے جن  روایات سے استدلال کیا ہے ان میں سب سے اہم  روایات تین ہیں :
۱۔ سہل بن سعد کی حدیث جو صحیح بخاری میں مروی ہے ۔
۲۔ وائل بن  حجر کی حدیث  جو صحیح مسلم  میں مروی ہے ۔ اسے بیہقی نے  تین اسانید کے ساتھ  نقل کیا ہے ۔
۳۔عبد اللہ بن مسعود کی حدیث  جسے بیہقی  نے سنن  میں نقل کیا ہے ۔
پہلی حدیث :سہل بن سعد کی حدیث
بخاری نے  ابن حازم سے روایت کی ہے کہ  سہل بن سعد نے کہا : لوگوں  کو حکم  دیا جاتا تھا کہ مرد حضرات نماز میں  دایاں ہاتھ  اپنے بائیں  بازو   پر رکھیں۔
ابو حازم  (راوی)  کہتا ہے : جہاں تک  میں  سہل کو جانتا ہوں  وہ اس روایت  کی نسبت  رسول اللہ ﷺ کی طرف  ہی دے گا(یعنی وہ رسول کی سنت کو نقل کرے گا،کسی اور کی نہیں ۔( دیکھئے : ابن حجر کی فتح الباری  فی شرح  صحیح البخاری ۲/۲۲۴، باب وضع الیمنی علی الیسری  ،بیہقی کی  السنن الکبریٰ  ۲/۴۴، باب وضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلاۃ  ،ح  ۲۳۲۶، مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ  ،بیروت، اشاعت اول  ،سال ۱۴۱۴ ھ)
ٍاسماعیل ۔
( اسماعیل  بن  اویس بخاری کے استاد  تھے  جیساکہ حمیدی نے کہا ہے۔  دیکھئے :فتح الباری ۲/۲۲۵۔)
 کا بیان ہے کہ  : ابو حازم  نے  یَنْمیْ  (وہ نسبت دے گا) نہیں کہا ہے بلکہ یُنْمیٰ (نسبت دی جاتی  ہے ) کہا ہے ۔
یہاں یہ دیکھنا ہوگا  کہ کیا یہ حدیث مطلوب پر دلالت کرتی ہے  ؟
حدیث کا راوی  حدیث کی ابتداء  میں کہتا ہے :  ’’لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا ۔‘‘
سوال یہ ہے کہ  حکم دینے والا کون تھا ؟ کیا  حکم دینے والے سے مراد نبی ہیں  یا صحابہ  ؟
ابن حجر اس سوال  کا جواب یوں  دیتے ہیں  :
جب ایک صحابی یہ کہتا ہے : ہمیں فلاں  حکم دیا جاتا تھا  ،تو بظاہر اس سے مراد اس شخص کا حکم ہے جو حکم دینے کا حق اور اختیار ؛ رکھتا ہو ۔ظاہر ہے کہ یہ رسول  ہی ہوسکتے ہیں  ۔ پس صحابی کے اس قول کا مقصود رسولﷺ ہیں  کیونکہ  یہاں  صحابی شریعت کا حکم بیان کرنے کے درپے ہے۔
لہذا   وہ اپنے کلام کو  اس شخص  سے منسوب کرے گا جو شریعت  لے آیا ہو ۔حضرت عائشہ کا یہ قول بھی اسی نوعیت کا ہے : ’’ہمیں  روزے کی قضا کاحکم دیا جاتا تھا ‘‘ اس کلام  کا مقصد بھی یہی  لیا جائے گا کہ حکم دینے والا رسول اللہﷺ تھے ۔( دیکھیے فتح الباری ۲/۲۲۴)
یہ اہل سنت کے اکثر علماء کا نظریہ ہے جیساکہ سیوطی نے تدریب الراوی میں اس کی تصریح کی ہے ۔
( دیکھیے تدریب الراوی ،ص ۱۱۹،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت ،سال ۱۴۱۴ھ)
ابن حجر کی یہ تاویل  ظن و گمان  پر مبنی  بے تکی بات ہے جو ارباب ِخردد سے پوشیدہ نہیں،  خاص کر اس وقت جب ہر صحابی کے جملہ  حالات پر اس کی تطبیق کی جائے ۔ جب کوئی صحابی  یہ کہے : ہمیں  فلاں  چیز کا حکم  دیا جاتا تھا ‘‘ تو ہم یہ بات  کیونکر  ثابت کرسکتے ہیں  کہ حکم دینے  والا رسول ہی تھے ؟ بنابریں  مذکورہ جملہ  مجمل ہے  اور اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صحابی  نے رسول اللہﷺ کے اوامر  کو بیان  کرنے کے لئے ایسا کہا  تھا ۔ عین ممکن  ہے کہ  اس صحابی نے دیگر  صحابہ  کے فتوؤں اور اوامرکو نقل کیا ہو   یعنی جن امور  کا اس  صحابی  کو علم  حاصل نہیں تھا  ان کے بارے میں  اس نے  دیگر اصحاب سے استفسار کیا ہو  اور انہوں   نے اس مسئلے  میں  فتوی دیتے ہوئے اس سے کہا ہو :’’ ایسا  کرو ۔۔۔‘‘
 اگر کوئی صحابی شریعت کا حکم بیان کرنے کے درپے ہوتو  اسے چاہیے کہ اس حکم کو براہ راست نبی ﷺسے منسوب کرے کیونکہ  صحابی کا مقصد نبی کے اوامر کو براہ راست بیان کر کے  شریعت کی ترجمانی کرنا ہے یا صحابہ  کے  ان اوامر   کو بیان کرکے شریعت کی  ترجمانی کرنا جو ان کے اپنے  فہم کے مطابق  سنت رسول یا  صحابہ کی روایت کردہ احادیث رسول سے  ماخوذ ہیں ۔
پس جب کوئی صحابی یہ کہتا ہے : ہمیں  فلاں حکم دیا جاتا تھا ‘‘ تو اس کا  یہ بیان رسول ﷺکے اوامر کی ترجمانی کے مقابلے  میں صحابہ کے اوامر کی ترجمانی  پر زیادہ  واضح دلالت  کرتا ہے  کیونکہ  صحابی کے  نزدیک  اس کے لئے یہ بات  زیادہ باعث  شرف  اور باعث  افتخار  ہے کہ  وہ نبی  کے اوامر  کو براہ راست نقل کر  کے  حضور کے ساتھ نسبت کا  اظہار کرے۔پس اگر کوئی صحابی، رسول کے  اوامر کو بیان کرنے کے درپے ہوتو اس کے لئے یہ بات زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس کا صریح  اظہار کرے اور مبہم گفتگو سے احتراز کرے ۔
سیوطی نے اپنی کتاب تدریب الراوی  کے اندر اس موضوع کے بارے میں  کسی سائل کے  ایک سوال کو رد کیا ہے۔  وہ سوال یہ ہے : ان موارد میں  صحابی نے یہ کیوں  نہیں کہا  : رسول اللہ  نے یہ فرمایا ہے ؟ سیوطی نےاس کایہ جواب دیا ہے:صحابہ نے احتیاط اورپرہیز گاری کی رعایت کے پیش نظر قطعی گفتگوسے اجتناب کیا ہے۔( دیکھیے تدریب الراوی ،ص ۱۲۰)
ملاحظہ ہو کہ سیوطی کا یہ جواب خود اس کےحق میں جانےکی بجائےسائل کےحق میں جاتاہے کیونکہ صحابی نے( سیوطی کے قبول) اس قسم کےموارد میں صریح نص کوذکر کرنے سے تو پرہیز کیا ہے لیکن حکم کو بطور قطع بیان کرنے سے پرہیزنہیں کیا۔
پس اگر صحابی کو یہ  یقین ہوتا کہ یہ رسول کا بیان  کردہ  حکم ہے تو وہ کہہ سکتا تھا :’’ ہمیں  نبی نے یہ حکم دیا تھا ‘‘ اگر چہ وہ  نبی کے  الفاظ  کو بیان نہ کرے۔ صحاح ستہ  میں مذکور   متعدد  احادیث  کا انداز بیان  یہی ہے ۔پس اس قسم کے اوامر  میں  نبی کا نام لینے  سے صحابی  کا احتراز  ایک  نکتے پر دلالت کرتا ہے   جو اس احتراز  کی وجہ  بنا ہے  ۔یہ اس بات پر زیادہ دلالت کرتا ہے  کہ  مذکورہ حکم  نبی سے نہیں بلکہ  کسی صحابی  سے  صادر ہوا ہے ۔اگر ایسا نہیں  تو کم از کم یہ   بیان مجمل ہوکر رہ جاتا ہے ( کہ حکم  کا ماخذ کیا ہے ؟) ظاہر ہے کہ اس اجمال اور ابہام کی موجودگی  میں ہمارے لئے  یہ جائز  نہیں کہ  ہم  ان اوامر  کو رسول کی طرف نسبت  دیں ۔ اس صورتحال میں   جو فقہی  نتیجہ مرتب  ہوتا ہے  وہ یہ ہے کہ اس  طرح  کے اوامر  پر مبنی احادیث  کے ذریعے ہم  کسی  شرعی حکم   کے اثبات  پر براہ راست  استدلال  نہیں کرسکتے  ۔البتہ  ہم انہیں  دیگر دلائل کی تائید کے لئے قرینہ  اور مؤید  قرار دے  سکتے ہیں  ۔
یہ تھا اس قسم کی احادیث کے بارے میں  ایک کلی اور عمومی  نقطہ نظر  ۔رہی بات  سہل  بن سعد کی اس خاص حدیث کی   تو  اس میں  ایک اضافی نکتہ موجود ہے جو اس  بات کی گواہی  دیتا ہے  کہ مذکورہ  حکم  نبی ﷺ  سے صادر نہیں ہوا۔یہ نکتہ  حدیث کے آخر میں  ابن حازم کا یہ تبصرہ ہے : ’’جہاں تک میں سہل کو جانتا ہوں  وہ   اس حدیث کی نسبت رسول کی طرف  ہی دے گا ۔‘‘ اس کی وجہ  یہ ہے  کہ ابن حازم  کے اس کلام  سے پتہ چلتا ہے کہ سہل  بن سعد کی یہ حدیث بذات خود  اس بات کو ثابت  نہیں  کرتی کہ مذکورہ حکم  نبی ﷺسے صادر ہوا ہے کیونکہ  جہاں  اس  بات کا احتمال  ہے  کہ یہ حکم رسول سے صادر ہوا ہو وہاں  اس بات کا بھی   احتمال ہے کہ کسی اور سے صادر ہوا ہو ۔
اس شک اور تردد کو ختم کرنے  اور اپنے ذاتی  خیال کو بیان کرنے کے لئے  ابو حازم کو یہ تبصرہ داغنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس حدیث میں سہل بن سعد کا اصل مقصود رسول اللہ  ﷺہیں  جن کی طرف حدیث میں مذکور  حکم کو منسوب کیا گیا ہے ۔ اس تبصرے کے ذریعے ابو حازم نے  اس احتمال کا  دروازہ بند کرنے کی کوشش کی ہے  کہ یہ  حکم نبیﷺ سے نہیں  بلکہ کسی  اورشخص  سے صادر  ہوا ہے ۔
ان بیانات کی روشنی میں  یہ  بات واضح  ہوتی ہے کہ  اوامر  والی احادیث  ،اصولی طور پر مجمل ہیں  اور ان اوامر کو نبیﷺ سے منسوب کرنے کے لئے مضبوط دلیل درکار  ہے ۔ ابو حازم نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں  کوئی دلیل  پیش نہیں کی ۔پس اس کا کلام  خود اس کے برخلاف جاتا ہے ۔ یہ کلام  اس کے عقیدے کو دوسروں کے لئے ثابت کرنے  کی خاطر دلیل  اور حجت نہیں بن سکتا ۔
خلاصہ  یہ کہ زیر بحث مسئلے میں   سہل بن سعد کی حدیث سے  استدلال  نہیں کیا جاسکتا  ۔
دوسری حدیث:وائل بن حجر کی روایت
یہ حدیث مختلف صورتوں میں نقل ہوئی ہے ۔
مسلم نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ اس نے نبی کریم ﷺ کو یوں  نماز پڑھتے ہوئے دیکھا  کہ آپ نے نماز شروع کرتے ہوئے ہاتھوں  کو اُٹھا کر تکبیر  کہی  پھر اپنی اوڑھنی  اُوڑھ لی۔  پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا ۔رکوع کرتے وقت آپ نے  اپنے ہاتھوں کو  اوڑھنی سے باہر نکالا  پھر انہیں اوپر اُٹھایا  ، پھر تکبیر  کہی اور رکوع  کیا ۔( صحیح مسلم۱/۳۸۲،باب ۱۵ ، کتاب الصلاۃ ،باب وضع  یدہ الیمنی علی الیسری ،مطبوعہ موسسہ عزالدین ،بیروت ،سال ۱۴۰۷ ھ)
اس حدیث کا  ایک راوی ’’ہمام ‘‘ہے ۔ اگر اس سے مراد  ہمام بن یحییٰ ہو تو ابن  عمار نے اس کے بارے میں  کہا ہے : ۲۰
یحیی بن قطّان  کی نظر میں  ہمام  کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔عمر بن شیبہ  کہتے ہیں  :  ہم سے عفان  نے کہا : یحیی  بن سعید  ہمام کی بہت ساری احادیث پر معترض تھا ....ابو حاتم  کا بیان ہے : وہ قوت حافظہ  کے زاوئے  سے موثق اور سچا ہے ۔( دیکھئے : ہدی الساری۱/۲۶۷)
یہی حدیث  دیگر مآخذ  مثلاً  سنن  بیہقی (سنن بیہقی ۲/۴۳)میں(مذکورہ شواہد کے بغیر )  وائل  بن حجر سے مروی ہے ۔
بیہقی نے  تین  احادیث   نقل کی  ہیں جن  کی سند وائل بن حجر پر منتہی  ہوتی ہے ۔
پہلی روایت  کا ایک راوی  ہمام ہے  جس کے بارے میں   تبصرہ ہوچکا ہے  ۔
دوسری روایت  کا  ایک راوی عبد اللہ بن جعفر ہے  ۔عبد اللہ سے مراد  ابن نجیح ہو تو  اس کے بارے میں  ابن معین  کہتے ہیں : اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ نسائی اس کے بارے میں  فرماتے ہیں : وہ  متروک ہے اور وکیع اس کی حدیث پر پہنچتے تھے  تو اسے کاٹ کر پھینک  دیتے تھے  ۔اس کے ضعیف ہونے پر  سب کا اتفاق ہے ۔( دیکھئے : تہذیب  التہذیب  ۵/۱۷۴، حرف عین،  نمبر  ۲۹۸)
تیسری روایت  کی سند میں  عبد اللہ بن  رجاء واقع ہواہے  جس کے بارے میں   عمرو بن علی فلاس  کہتے ہیں : اس کی فضول باتیں  اور غلطیاں  بہت زیادہ ہیں  ۔وہ  حجت نہیں ہے ۔( دیکھئے : ہدی الساری ۱/۴۳۷)
تیسری حدیث : عبد اللہ بن مسعود کی روایت
بیہقی نے اپنی سند  کے ساتھ ابن مسعود سے روایت  کی ہے کہ موصوف نے  نماز میں  اپنا بایاں  ہاتھ دائیں ہاتھ  پر رکھا ۔ نبیﷺنے یہ دیکھا اور ان کے دائیں  ہاتھ کو   بائیں  کے اوپر رکھا۔
( سنن بیہقی ۲/۴۴، ح ۲۳۲۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ،اشاعت اول، سال ۱۴۱۴ھ)
تبصرہ :
اولاً  : یہ بات  بعید از قیاس  ہے کہ  عبد اللہ  بن مسعود  جیسے  جلیل القدر صحابی  کو یہ معلوم  نہ ہو  کہ نماز میں  کیا چیز مسنون  ہے  حالانکہ  ان  کا شمار  دین اسلام کے سابقین میں  ہوتا ہے ۔
ثانیاً : اس حدیث کی سند میں  ہشیم بن بشیر واقع  ہوا ہے  جو تدلیس  میں  معروف  ہے۔( دیکھئے : ہدی الساری۱/۴۴۹)
یہ وہ اہم روایات تھیں  جن سے نماز میں  ہاتھ باندھنے کے حق میں  استدلال کیا جاتا ہے ۔ان کے علاوہ  کچھ روایات  اور ہیں  جن کی سند اور متن  پر اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔
ب۔ استحسانی صورتوں سے استدلال
نماز میں ہاتھ باندھنے  کے قائل علماء  نے’’ قاعدۂ استحسان ‘‘  کی  بعض صورتوں  سے بھی استدلال کیا ہے ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں :  ہاتھ پر ہاتھ رکھنا  ہاتھوں کو فضول  کاموں  سے بچانے کا اور تواضع  و عاجزی کے اظہار  کا بہتر طریقہ ہے ۔
تبصرہ : اگر اس قسم  کی باتوں سے شریعت کی تعلیمات  ثابت ہوتیں  تو دین  نیست و نابود  ہوجاتا  ۔انسان کی ذمہ داری تو بس  یہ ہے کہ  وہ خود شریعت  کے آگے سرتسلیم  خم  ہو ۔اگر انسان  کی ذوقیات اور اس کی پسند کو حلال و حرام کا معیار  قرار دیا جائے تو اُلٹا  نتیجہ  نکلے گا    یعنی بجائے  اس کے کہ انسان شریعت کا تابع  بن جائے شریعت  اس کی تابع بن جائے گی ۔
گاہے انسان کو تصویر کا ایک  رُخ پسند  آجاتا ہے لیکن  اس کے دوسرے رخ جو زیادہ  اہم اور بڑے ہوتے ہیں  اس کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں ۔ پس ہم  یہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں  کہ شریعت  نے  اس استحسانی صورت  کو پسند کیا ہے  اور ہماری  نگاہوں  سے مستور   دیگر استحسانی صورت یا صورتوں  کو  جو گاہے زیادہ  اہم  اور بڑی ہوں  پسند نہیں فرمایا  ہے ؟
اس کی مثال  وہ قول  ہے  جسے  قرطبی  نے  نماز میں  ہاتھ باندھنے کی ردّ میں ذکر کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں  : ہاتھ  باندھنا  مدد لینے سے عبارت ہے  اور اسی وجہ سے  یہ نماز  کے افعال کے ساتھ سازگار نہیں ہے  ۔( بدایۃ المجتہد ،۱/۱۳۷)
البتہ بعض استحسانی صورتیں  کتاب و سنت  پر مبنی شرعی  دلائل  سے ثابت شدہ احکام اور تعلیمات  کی تائید ،تقویت اور حمایت کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہیں ۔ پس استحسان  بجائے خود کوئی دلیل نہیں  ہے  بلکہ  اس کا مرحلہ دلیل  کے بعد آتا ہے ۔
---حوالہ:
نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔  نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی  مسئلہ  
موضوع : فقہ
تالیف : تحقیقی کمیٹی  ،ترجمہ: شیخ محمد علی توحیدی ،نظرثانی:شیخ سجاد حسین،کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ، ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ، جملہ حقوق محفوظ ہیں
حروف چینی و باز نگری و ترجمہ ،تمام شد۔مورخہ ۲۴/۱۰/۲۰۱۷۔ توحیدی/جعفری ۲۹/۱۰/۲۰۱۷

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک