امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ (ایک تحقیقی جائزہ)پہلی قسط-

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

عالمی مجلس اہل بیت ,اہل بیت علیہم السلام  کی رکاب میں  (۲۱)
نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی مسئلہ (ایک تحقیقی جائزہ)پہلی قسط-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل ا لبیت علیہم  السلام قرآن کے آئینے میں:إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (سورۃٔ احزاب/۳۲ )
ترجمہ :اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے   کہ وہ  آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے  پاک و پاکیزہ رکھے  جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
اہل بیت  رسول علیہم السلام، سنت  نبوی کے آئینے میں:
’’ اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ ‘‘(صحاح و مسانید)
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں  چھوڑے جارہاہوں۔ وہ  اللہ کی کتاب  اور میری عترت  یعنی  میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔
عرضِ مجلس
اہل بیت علیہم السلام  کا علمی و فکری ورثہ  جسے  مکتب اہل بیت  نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے  ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے  مکتب فکر  کی تصویر  پیش  کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ  کی مختلف  جہات کو محیط ہے  ۔اس مکتب فکر نے    اسلامی  معارف  کے اس صاف سرچشمے  سے سیراب  ہونے  کے لائق  نفوس  کی ایک کھیپ کو پروان  چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر  نے امت مسلمہ  کو  ایسے  عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت  علیہم السلام کے نظریاتی  نقش قدم پر چلے ہیں  ۔اسلامی معاشرے کے اندر  اور باہر  سے تعلق رکھنے  والے  مختلف  فکری مناہج  اور مذاہب  کی جانب  سے اُٹھنے والے سوالات  ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل  نظر رہی ہے  ۔
یہ علماء  اور دانشور  مسلسل  کئی صدیوں  تک ان سوالات  اور شبہات کے  معقول ترین اور محکم ترین  جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس  اہل بیت   نے اپنی  سنگین ذمہ داریوں  کو محسوس  کرتے ہوئے  ان اسلامی تعلیمات  و حقائق  کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے  جن پر مخالف  فِرق  و مذاہب  اور اسلام  دشمن  مکاتب  و مسالک کے اربابِ بست و کشاد  نے  معاندانہ توجہ  مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی  مجلس اہل بیت   نے اس  سلسلے میں  اہل بیتعلیہم السلام  اور مکتب   اہلبیت کے ان   پیروکاروں  کے نقش قدم  پر چلنے کی سعی  کی ہے جنہوں نے  ہر دور   کے مسلسل  چیلنجوں  سے معقول ،مناسب  اور مطلوبہ  انداز میں  نمٹنے  کی  کوشش کی ہے ۔
اس سلسلے میں  مکتب اہل بیت  کے علماء کی کتابوں  کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں  کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں  ،عقل و  برہان کی بنیادوں  پر استوار ہیں  اور  مذموم  تعصبات و خواہشات سے پاک  ہیں  نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین  کو اس انداز میں  اپنا مخاطب  قرار دیتی  ہیں  جو عقل سلیم  اور فطرت سلیمہ   کے ہاں  مقبول  اور پسندیدہ  ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں  کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ  اور شبہات  و اعتراضات کے بارے میں  بے لاگ سوال و جواب   کا ایک  جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی   اٹھائے جاتے رہے ہیں  اور آج بھی انہیں  ہوا دی جارہی ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے  بعض  حلقے  اس سلسلے میں  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد  کررہے  ہیں  ۔اس بارے   میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی  رہی ہے کہ لوگوں  کے جذبات اور تعصبات کو مذموم  طریقے  سے بھڑکانے سے اجتناب  برتا جائے جبکہ عقل  و فکر  اور طالبِ حق نفوس  کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں  جنہیں  اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب  پورے عالم کے سامنے پیش  کرتا ہے اور وہ بھی  اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں  تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
یہاں  اس بات کی طرف اشارہ ضروری  ہے کہ زیر نظر تحقیقی  مباحث  ممتاز  علماء  اور دانشوروں  کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر  اور قدر دان ہیں  جن میں سے  ہر ایک نے ان علمی  مباحث  کے مختلف حصوں  کا جائزہ  لے کر ان کے بارے میں  اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ  ہم نے  اپنی  ان ذمہ داریوں  میں  سے بعض  کو ادا کرنے میں  ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم   رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں  جس نے اپنے رسول کو  ہدایت  اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی  کافی ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت،شعبہ ثقافت

 

نماز میں ہاتھ  باندھنے کا مسئلہ ۔ایک تحقیقی جائزہ
مکتب اہل بیت اور بعض دیگر اسلامی  مکاتب فکر کے درمیان   جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا ہے ان میں سے ایک نماز میں  ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ہے۔ عربی زبان میں  اسے ’’تکتّف‘‘ ،’’تکفیر  ‘‘اور ’’قبض‘‘  کے ناموں  سے بھی یاد  کیا  گیا ہے ۔ان سب کا مفہوم  ایک ہی ہے  اور وہ یہ  ہے کہ نمازی اپنی ناف کے اوپر یا نیچے اپنا دایاں ہاتھ  بائیں ہاتھ  پر رکھ کر نماز پڑھے ۔
موضوع بحث  کی وضاحت
یاد رہے کہ مسلمانوں  کے مختلف فقہی  مذاہب کا اجماع ہے کہ نماز میں  ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے ۔وجوب سے قطع نظر مذاہب کے درمیان  اس بارے میں درج ذیل  مختلف نظریات پائے جاتے ہیں :
پہلا نظریہ :  نماز میں ہاتھ باندھنا بطور مطلق  مستحب ہے ،خواہ نماز مستحب ہو یا واجب ۔ یہ حنفی ،شافعی اور حنبلی مکاتب  فکرکا قول ہے ۔نووی کا بیان ہے کہ ابو ہریرہ  ،عائشہ اور  بعض دیگر صحابہ  نیز بعض تابعین  مثلا سعید بن جبیر ،نخعی ،ابو مجلّد ،علاوہ ازیں بعض فقہاء  مثلا سفیان ،اسحاق ،ابو ثور ،داؤد اور  جمہور علماء کا یہی نظریہ ہے ۔( المجموع ۳/۳۱۳، مطبوعہ دار الفکر ،بیروت)
دوسرا نظریہ : اس نظرئے کی رو سے مستحب نمازوں  میں ہاتھ باندھنا جائز ہے جبکہ  واجب نمازوں  میں  یہ عمل مکروہ ہے ۔
ابن رشد قرطبی  نے یہ نظریہ  اپنے امام مالک سے نقل کیا ہے (دیکھیے بدایۃ المجتہد  ۱/۱۳۷،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ،بیروت،طبع دہم  سال ۱۴۰۸ ھ)
نووی کہتے ہیں  :عبد الحکم نے  مالک سے نقل کیا ہے کہ ہاتھ  باندھنا  چاہیے  جبکہ  ابن قاسم  نے کہا ہے کہ  مالک ہاتھ کھولنے کے حامی  ہیں  جو زیادہ مشہور ہے ۔( دیکھیے المجموع  ۳/۳۱۲)
ادھر سید مرتضی نے مالک اور لیث بن سعد  کے بارے میں  نقل کیا ہے کہ  وہ نوافل میں  طویل  قیام کی وجہ سے ہاتھ باندھنے  کے حامی ہیں
 (دیکھیے الانتصار ،ص ۱۴۰،مطبوعہ  جماعۃ المدرسین ،قم ،سال ۱۴۱۵ ھ )
تیسرا نظریہ : اس نظرئے کے مطابق  ہاتھ باندھنے اور کھولنے دونوں  کی اجازت ہے ۔نووی  نے اوزاعی سے یہی  نقل  کیا ہے ۔( دیکھیے المجموع  ۳/۳۱۲)
چوتھا نظریہ : اس نظرئے  کی روسے  ہاتھ  باندھنا حرام ہے اور  اس سے نماز باطل ہوتی ہے ۔یہ  امامیہ کا  نظریہ ہے ۔سید مرتضی  نے اس پر اجماع کا دعوی کیا ہے(دیکھیے الانتصار ،ص ۱۴۲)
نووی نے المجموع میں  نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن زبیر ،حسن بصری ،نخعی اور ابن سیرین ہاتھ کھولنے کے حامی  تھے اور ہاتھ باندھنے  سے منع کرتے تھے (دیکھئے :نووی  کی المجموع  ۳/۳۱۱)
ان میں سے پہلے تین اقوال کو ہم جواز کے وسیع تر مفہوم  کی مختلف صورتیں  قرار دے سکتے ہیں  ۔جواز کا یہ مفہوم کراہت اور استحباب  کو بھی شامل ہے ۔بنابریں  اس مسئلے کے بارے میں  دو بنیادی نظریات موجود ہیں  جو جواز کے وسیع تر مفہوم  اور حرمت  سے عبارت  ہیں  ۔اگر حرمت ثابت نہ ہو  بلکہ جواز ثابت ہوتو  اس کے بعد ہم جواز کی مختلف صورتوں  یعنی  کراہت ،استحباب اور تخییر  کے بارے میں  بحث کر سکتے ہیں  ۔لیکن اگر جواز ثابت نہ ہو بلکہ  حرمت ثابت ہوتو پھر استحباب  یا تخییر  پر مبنی قول کی گنجائش  نہیں رہے گی اور ان کے بارے  میں بحث  کی  حاجت بھی باقی نہیں رہے گی ۔
خلاصہ یہ کہ  اس مسئلے  کے بارے میں  بحث کی بنیادی چابی یہ سوال ہے : عبادت میں  کسی چیز کے جائز  یا حرام  ہونے کا معیار  کیا ہے ؟  نیز  کیا نماز میں  ہاتھ باندھنے کی حرمت پر کوئی دلیل موجود ہے یا نہیں  ؟
نماز میں ہاتھ باندھنا : بدعت ہے یا سنت؟
مختلف اسلامی مذاہب   کے فقہاء  کا  اتفاق ہے کہ عبادات  توقیفی ہیں  یعنی کوئی  چیز اس وقت تک عبادت نہیں ہوسکتی جب تک اس پر  کتاب و سنت  پر مبنی کوئی دلیل قائم نہ ہو ۔ پس اگر کتاب  اور سنت نبوی  کی روشنی  میں  یہ بات ثابت ہو کہ کوئی چیز کسی عبادت کا جزء ہے  تو ٹھیک و گرنہ اس چیز  کو اس  میں  عبادت  کا جزء قرار دینا اور اسے عبادت کا جزء  سمجھتے ہوئے  قصد قربت  کے ساتھ  انجام دینا  تمام فقہاء  کے  ہاں  قطعاً حرام ہے کیونکہ  یہ بدعت  کا واضح مصداق ہے ۔
نیز  یہ وہ فتوی ہے  جو اللہ کی طرف سے نازل شدہ  حکم یا دلیل  سے عاری ہے ۔
یہاں ہمارا موضو ع بحث  دو دعوؤں  سے عبارت ہے ۔
 ایک دعوے کی رو سے نماز میں  ہاتھ باندھنے  پر کوئی  شرعی دلیل  قائم  نہیں  ہے ۔بنابریں  ہاتھ باندھنے کا حکم  بدعت  اور تشریع (شرعی دلیل  کے بغیر  کسی چیز کو شریعت  کا حکم  قرار دینے ) سے عبارت ہے  جو حرام ہے ۔
دوسرے دعوے کی رو سے ہاتھ باندھنے   پر  شرعی دلیل قائم ہے  ۔بالفاظ دیگر  ہاتھ باندھنے  کی حرمت کے طرفدار  ہاتھ  باندھنے  کو بدعت  اور دین کے اندر ناجائز دخل  اندازی  سمجھتے  ہیں  جبکہ اسے جائز اور مستحب سمجھنے والے اسے سنت نبوی قرار دیتے ہیں ۔
بنابریں  اس مسئلے  کی تحقیقی بحث  کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اسے جائز اور مستحب  سمجھنے والوں  کے دلائل  کا جائزہ لیں  اور یہ دیکھیں  کہ کیا یہ دلائل قرآن و سنت پر مبنی حقیقی دلائل  ہیں یا بے بنیاد  ہیں ؟

حوالہ:
نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔  نماز میں ہاتھ باندھنے کا شرعی  مسئلہ  
موضوع : فقہ ، تالیف : تحقیقی کمیٹی  ، ترجمہ: شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:شیخ سجاد حسین،کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری
اشاعت :اول  ۲۰۱۸ ،ناشر: عالمی مجلس اہل بیت ، جملہ حقوق محفوظ ہیں
ترجمہ تمام شد۔مورخہ ۲۴/۱۰/۲۰۱۷۔توحیدی،
حروف چینی و باز نگری تمام شد۔ توحیدی/جعفری ۲۹/۱۰/۲۰۱۷

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک