امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ستائسویں پارے کا مختصر جائزه

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ستائسویں پارے کا مختصر جائزه:
ستائسویں پارے کےچیدہ نکات

اس پارے کے ضمن میں سورهٔ طور النجم القمر الرحمٰن الواقعہ الحدید کا ذکر کیا جائے گا۔

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ ﴿٣٢﴾ سورة الذاريات
 شریعت اسلام کا قانون یہ ہے کہ مرد  وعورت شادی شدہ ہونے کے بعد اور جنسی تسکین کے امکان کے باوجود بھی ناجائز تعلقات قائم کریں تو انہیں سنگسار کر دیا جائے، ظاہر ہے کہ جو پروردگار مرد اور عورت کے ایسے تعلقات کو برداشت نہیں کرسکتا جو فطری طور سے تعلقات کا موضوع ہیں تو وہ مردمرد کے تعلقات کو کس طرح برداشت کر سکتا ہے اور چونکہ اس مسئلہ میں قوم جناب لوط کی بات ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں تھی ،اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی سزا تجویز کرتے قدرت نے خود آسمانی سزا کا انتظام کر دیا اور اقوام عالم کو ہوشیار کر دیا کہ بعض جرائم ایسے بھی ہیں جن کی سزا کا ہم فوراً انتظام کرتے ہیں اور انہیں میں سے ایک ہم جنسی بھی ہے (خدا آج کی ترقی یافتہ اقوام کوعقل سلیم عطا کرے) ۔
أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴿٥٣﴾ سورة الذاريات
 یہ عجیب بات ہے کہ اہل باطل جهان بھی رہتے ہیں ان کی باتیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں کہ مشرق وغرب عالم میں ہر ڈاڑھی منڈانے والے کے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ قرآن میں کہاں لکھا ہے، ہر خمس نہ دینے والا ایک ہی بات کہتا ہے کہ یہ سب کھانے پینے کے ذرائع ہیں، مولا کا مال چاہنے والوں کے لئے حلال ہے؛ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم دوسری قوم کو وصیت کر کے جاتی ہے کہ یہی عذر بیان کرنا ہے یا سب کا استاد کوئی ایک ہی ہے جو سب کو ایک ہی سبق سکھاتا ہے!!!
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ﴿٧﴾ سورة الطور
عذاب کے وقوع کا امکان واضح کرنے کیلئے قدرت نے چند قسم کی مخلوقات اور ان کے اختیارات کی قسم کو ذریعہ بنایا ہے؛ طور،کتاب مسطور، بیت معمور ( جو آسمان پر ہے اور وہاں کے باشندوں کا قبلہ بھی ہے) بلند ترین آسمان ، جوش مارتا ہوا سمندر وغیرہ تا کہ انسان پر یہ بات واضح  ہو جائے کہ جو ان تمام چیزوں کو خلق کرسکتا ہے وہ ایک لمحے میں انہیں خراب بھی کرسکتا ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔
یہ انسان کی بدبختی ہے کہ اس قدر واضح  قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی قیامت کے امکانات پر بحث کرتا ہے اور اپنے کو اس ہولناک موقع کیلئےتیار نہیں کرتا ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ﴿٢١﴾ سورة الطور
یہ بات تقر یباً مسلمات میں سے ہے کہ دنیا میں نابالغ بچوں کا حکم ان کے ماں باپ کا حکم ہوتا ہے اور ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں تو پھر  بچہ بھی مسلمان کے حکم میں رہتا ہے اور ماں باپ کا فر ہوتے ہیں تو بچہ بھی انہیں کے حکم میں رہتا ہے اور یہ ایک طرح سے مسلمان کو اس کے اسلام کا انعام اور کافر کو اس کے کفر کی سزا ہے کہ اس کی نجاست و نحوست نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہے، لیکن آخرت کے اعتبار سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ وہاں ان بچوں کا کیا انجام ہو گا۔
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ سورة النجم
آیات کا تمام تر مقصد یہ ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کی گفتار کی مکمل ضمانت پیش کی جائے کہ اس میں خواہشات کا کوئی دخل نہیں ہے اور وہ سراسروحی ہے چاہے قرآن حکیم کی شکل میں ہو یا حدیث و سنت کی شکل میں ہو، اور اس حقیقت کا تذکرہ آیت ۵ میں بھی ہے اور آیت ۱۰ میں بھی ہے اور پھر تمام ضمائر کا مرجع خود ذات پروردگار ہے جس کا مشاہدہ سرکار دو عالمؐ نے اسی طرح کیا جس طرح امیر المؤمنینؑ اس کی عبادت مشاہد ہ کے ساتھ کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ حقائق ایمان سے دیکھا جاتا ہے مشاہدۂ  عیان سے نہیں ۔
 أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّىٰ ﴿١٩﴾ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَىٰ ﴿٢٠﴾ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَىٰ ﴿٢١﴾ سورة النجم
کفار نے ان تینوں بتوں کوخدا کی لڑکیاں قرار دے لیا تھا اور اسی بنیاد پر ان کی پرستش کیا کرتے تھے اور اسی لئے آیت میں ان کے بارے میں مونث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس قدر ظلم ہے کہ ان لوگوں نے اپنے لئے لڑ کے تجویز کیے ہیں اور خدا کیلئے لڑکیاں قرار دی ہیں جب کہ خدا کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ سب انہیں کے تراشیدہ پتھر ہیں ۔
کفار کے اس انداز فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے والا ہونا باعث شرف ہونا اور لڑکی والا ہونا باعث ذلت و کمزوری ہونا ایک کافرانہ اور جاہلانہ طرزفکر ہے جو دور قدیم سے کام کر رہا ہے اور عالم اسلام بھی آج تک اسی فریب نظر اور خطائے فکری میں مبتلا ہے خدا سب کو اس جاہلانہ انداز فکر سے نجات عطا کرے ۔
اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ﴿١﴾ سورة القمر
بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ آثار قیامت کی طرف ایک اشارہ ہے اور ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے اور بعض کا بیان ہے کہ رسول اکرمؐ نے اتمام حجت کیلئے کفار کے مطالبہ پر چاند کے ٹکڑے کر دیئے تھے جس کا ذکر ہندوستان کی تاریخِ فرشته میں موجود ہے اور اس کا ایک قرینہ بعد والی آیت بھی ہے کہ ’’یہ لوگ ہر نشانی کو دیکھ کر اعراض کر لیتے ہیں اور اسے جادو قرار دیدیتے ہیں‘‘ ظاہر ہے کہ یہ بات آثار قیامت پر منطبق نہیں ہوتی ہے اور ایسی حرکت دار دنیا ہی میں ہو سکتی ہے ورنہ آخرت میں انکار کرنے اور جادو قرار دینے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے، وہاں تو بڑے سے بڑا منکر بھی حقائق کو دیکھ لے گا اور پھر انکار کی  ہمت نہ کرسکے گا۔
سورهٔ قمر کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سورهٔ نجم کے بعد واقع ہوا ہے اور جہاں قرب قیامت پر اُس کا اختتام ہوا تھا وہیں سے اس کا آغاز ہوا ہے اور اس کا ثبوت شق قمر کو قرار دیا گیا ہے، شق القمر ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا امکان قطعی ہے اس لئے کہ سارا نظام شمسی آسمانوں اور سورج کے اجزا میں انشقاق ہی سے پیدا ہوا ہے تو اس کا انکار دلیل جہالت ہے۔
وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴿١٣﴾ سورة القمر
مالک کائنات نے پیغمبرؐ اسلام کو اطمینان دلانے کیلئے جناب نوحؑ کا قصہ بیان کیا اور اس میں چند خصوصیات کی طرف امت پیمبرؐکو توجہ دلائی۔ ۱ قومِ نوحؑ نے نوحؑ کی نہیں ہمارے ایک بندے کی تکذیب کی تھی اور ہمارے بندے کی تکذیب اصل میں ہماری تکذیب ہے۲نوحؑ نے خود مقابلہ کرنے کے بجائے ہمارے اوپر بھروسہ کیا اور ہم سے دعا کر کے مسئلہ کو ہماری مصلحت کے حوالے کر دیا تھا تو ہم نے ان سے انتقام کا انتظام کر دیا تھا۳ ہم نے موسلا دھار بارش اور طوفان سے ان کی امداد کی تھی تا کہ یہ واضح رہے کہ ہماری امداد کے وسائل محدود نہیں ہیں اور ہم جدید ترین وسائل اختیار کر سکتے ہیں۴ ہم نے نوحؑ کو غیبی ذریعہ سے نہیں بچایا بلکہ معمولی کشتی ہی کو اتنا طاقتور بنا دیا کہ طوفانوں کا مقابلہ کر سکے اس لئے کہ طاقت دینا ہمارا ہی کام ہے اور ہمیں غیبی وسائل کی بھی ضرورت نہیں ہے۵ نوحؑ کی کشتی ہمارے اشاروں پر چل رہی تھی اور یہی اس کی نجات کا فلسفہ تھا کہ جو ہمارے اشاروں پر چلتا ہے نجات اور کامیابی اسی کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ پیغمبر1 اسلام نے اہلیبیتؑ کو امت کیلئے کشتئ نوحؑ کی مثال قرار دیا ہے تا کہ لوگ ان کی ظاہری حیثیت پر نگاہ نہ کریں اور انکے درجات تقرب کو دیکھ کر ان سے وابستہ ہو جائیں ورنہ دنیا اور آخرت دونوں کے طوفان سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس ارشاد گرامی کے باوجود  امت اسلامیہ نے اہلبیت طاہرینF سے تمسک کرنے کے بجائے ان کی تکذیب شروع کر دی اور بالآخر انہیں  سے انحراف کرلیا اور ایسے افراد کا اتباع کرلیاجن کے نجات دلانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ان کی خود اپنی نجات کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ ﴿٩﴾ سورة الرحمن
 انسان کو تمام معاملات میں عدل و انصاف اور وزن و مقدار کا صحیح خیال رکھنا چاہیے جس طرح قادر مطلق نے کل کائنات کی تخلیق میں توازن سے کام لیا ہے اور اسے آخر تک برقرار رکھا ہے ۔
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ سورة الرحمن
 سیوطی نے در منثور میں نقل کیا ہے کہ بحرین سے مراد علیؑ و فاطمہؑ ہیں اور برزخ سے مراد رسول اکرم ؐہیں اور لولو ومر جان حسنؑ و حسیؑن کی قرآنی تعبیر ہے،اور ظاہر ہے کہ یہ تطبیق ہے تفسیر نہیں ہے کہ اس پر تفسیر باطنی کا الزام لگایا جا سکے یا اس طرح تفسیر کا ایک نیا درواز کھل جانے کا الزام لگایا جا سکے جس طرح کے بعض علماء اسلام نے یہ طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔
ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ ﴿١٣﴾ وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ﴿١٤﴾ سورة الواقعة
 قیامت کے دن انسان تین گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے بعض کے نامۂ اعمال ان کے داہنے ہاتھوں میں ہوں گے اور بعض کے نامہ ٔ اعمال بائیں ہاتھوں میں اور ظاہر ہے کہ دوسرا گروہ مور دعذاب ہو گا اور پہلا گروہ قابل نجات ہو گا لیکن اس کے بعد اس سے بھی بالاتر ایک گروہ سابقین کا ہے جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے تھے اور ان کی اکثریت اولین میں سے ہو گی جنہوں نے اسلام کا ساتھ دور غربت میں دیا ہے اور ابتدائی دور میں قربانیاں پیش کی ہیں اسکے بعد کچھ آخری دور کے ہوں گے جن کا زمانہ بعد کا ہے لیکن ان کا کردار اوّلین جیسا ہی ہے اور ان سب کا شمار بھی سابقین ہی میں ہے کہ انہوں نے ایسے ہی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جیسے کارہائے نمایاں سابقین اوّلین نے انجام دیئے تھے، سابقین اوّلین کا شرف ان کے کردار اور ایثار کی بنا پر ہے، صرف سِن وسال یا سَن اور صدی کی بنا پر نہیں ہے ورنہ اسلام دینِ کردار ہونے کے بجائے دین طول عمر ہو جائے گا ۔
لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ﴿٧٩﴾ سورة الواقعة
 قرآن اپنی تلاوت و قرأت کے اعتبار سے قرآن ہے اور اپنی معنویت اور جامعیت کے اعتبار سے ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب ہے، اس
کے ظاہر کو مس کرنے کیلئے وضو یا غسل کی ضرورت ہے اور اس کے باطن تک رسائی کیلئے علم وتقوی کے ذریعہ نفس کی طہارت لازمی ہے اور اسی لئے اسے ھدیٰ للمتقین قرار دیا گیا ہے کہ جس انسان کے پاس تقوی نہیں ہے وہ اس کے حقائق ومعارف کا ادراک نہیں کر سکتا ہے اور اس کے معنویات سے مستفید نہیں ہو سکا ہے ۔
وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ ﴿٨٢﴾ سورة الواقعة
 افسوس صد افسوس کہ قرآن اہل دنیا کیلئے وسیلۂ ہدایت بننے کے بجائے ذریعۂ معاش بن گیا ہے ، کوئی اس کی مخالفت کو ذریعۂ معاش بنائے ہوئے ہے اور کوئی اس کی تلاوت و تفسیر و تاویل کو، غرض اس طرح اس کی واقعی افادیت بڑی حد تک مجروح ہوکر رہ گئی ہے اور وہ متاع بازار بن کر رہ گیا ہے ۔
سَبَّحَ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١﴾ سورة الحديد
 ہر شئے کی تسبیح اس کی حیثیت کے اعتبار سے ہوتی ہے جن کو زبان مقال دی گئی ہے وہ الفاظ میں تسبیح کرتے ہیں اور جنہیں اس زبان سے محروم رکھا گیا ہے وہ زبان حال سے کرتے ہیں اور اسی نکتے کی طرف معصومینF نے خاک شفا کے فضائل کے ذیل میں اشارہ کیا تھا کہ اس خاک کی تسبیح کو کوئی تسبیح پڑھنے والا  نہ بھی پڑھے تو بھی یہ ازخود تسبیح کرتی رہتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب کائنات کا ہر ذرّہ محوِتسبیح ہے تو وہ خاک کس طرح محوِتسبیح  نہ ہوگی جس میں خون شہید جذب ہو گیا ہے اور جو عبدیت کی سب سے بڑی قربان گاہ کی خاک ہے اور جس پر کائنات کے عظیم ترین انسان اور راہِ حق میں قربانی دینے والوں کے سید و سردار نے سجدۂ آخری انجام دیا ہے ۔
 لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗوَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿٢٣﴾ سورة الحديد
 امیر المؤمنیؑن کا ارشاد ہے کہ زہد کا کل کمال یہ ہے کہ انسان کو جو نہ ملے اس کا افسوس نہ کرے اور جو مل جائے اس پر غرور نہ کرے،اس کے بعد نہ دولت کا ہونا زہد ہےاور نہ پھٹے حال زندگی گزارنا کمالِ زہد و تقویٰ ہے۔
 وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ  ﴿٢٧﴾ سورة الحديد
 دور حاضر میں بھی رہبانیت اور ترک لذات کی آڑ میں کیا کیا جرائم ہورہے ہیں اس کا انداز ہ صبح وشام کے اخبارات سے کیا جا سکتا ہے اور گرجاؤں کی تاریخ میں ان جرائم کا مکمل مشاہدہ کیا جا سکتا ہے،سادہ لوح عوام ان راہوں سے اس بنا پرقریب تر ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے لذات دنیا سے کنار کشی کر لی ہے اور ان کے پاس روحانیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، رہبانیت کے ٹھیکہ دار اسی قربت کو اپنے مذموم اور ناپاک ارادوں کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیتے ہیں، گر جاؤں کے علاوہ یہ کاروبار بعض مقامات پر خانقاہوں میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، روح سب کی ایک ہے شکلیں چاہے جس قدر مختلف ہوں۔۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک