سترھویں پارے کا مختصر جائزه
سترھویں پارے کا مختصر جائزه
سترھویں پارے کےچیدہ نکات
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ ﴿٣٠﴾ سورة الأنبياء
دور حاضر کی تازہ ترین دریافت یہ ہے کہ یہ پورا نظام شمسی باہم متصل تھا اور اس کے بعد تمام کواکب کو الگ کیا گیا ہے تو زمین بھی اس سے جدا کر کے فضائے بسیط میں ڈال دی گئی اور وہ مسلسل گردش کر رہی ہے جس کی طرف دحوالارض اور مہد وغیرہ کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ﴿٣٥﴾ سورة الأنبياء
ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ حضرت علیؑ کی بیماری میں ایک شخص نے مزاج پوچھا کہ آپ کیسے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ برے حال میں اس نے عرض کیا کہ یہ جواب آپ کو زیب نہیں دیتا ہے تو فرمایا کہ قرآن کہتا ہے کہ خدا اچھے اور برے ہر حال سے آزماتا ہے تو اچھا حال صحت اور مالداری ہے اور برا حال غربت اور بیماری۔
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿٦٩﴾ سورة الأنبياء
اس واقعہ نے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ باطل کسی قدرتدبیریں کرنا چاہے خدائے برحق بچانا چاہتا ہے تو اس کے بندہ کو کوئی مٹا نہیں سکتا اور یہی وہ ایمان ہے جس سے دور حاضر کی اکثریت محروم ہوگئی ہے اور اس طرح باطل کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں ورنہ کسی بھی نمرود میں اہل حق کو جلانے کی ہمت نہیں ہوسکتی تھی ، بہر حال اہل ایمان کو ہمیشہ اس نکتہ کو پیش نظر رکھنا چاہیئے کہ ’’دشمن اگر قوی است نگھبان قوی تر است!‘‘
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ سورة الأنبياء
نون کے معنی مچھلی کے ہیں اور جناب یونسؑ کو ذوالنون کہا جا تا ہے کہ وہ قوم کی بے ایمانی سے عاجز آ کر ناراض ہو کر آبادی سے باہر نکل گئے تھے اور قوم کو عذاب کے حوالے کر دیا تھا تو خدا نے انہیں کشتی کے ذریہ مچھلی کے شکم تک پہنچا دیا اور انہوں نے اس ترک اولیٰ کا اعتراف کرکےتو یہ کی کہ مجھے قوم کو لاوارث نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ورنہ خدا مجھے بھی مچھلی کے حوالے نہ کرتا یہ ایک بہترین درس عبرت ہے کہ مصلح اور لیڈر کو ہمیشہ قوم کے دکھ درد میں شریک رہنا چاہے اور ناراض ہو کر قوم کو لاوارث نہیں چھوڑ دینا چاہیے ورنہ کسی دوسری مصیبت میں مبتلا ہو سکتا ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴿١﴾ سورة الحج
ملاصدر الدین شیرازی کے بیان کے مطابق قیامت کو ساعت اس لئے کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا اس کی طرف دوڑی چلی جا رہی ہے اور یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ لوگوں کو اگر معلوم ہو جائے کہ ہمارا ہر قدم قيامت کی طرف ہے تو شاید ایک قدم بھی آگے نہ بڑھیں لیکن نادانستہ طور پر سب تیزی کے ساتھ اس کی طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں اور یہ ایک انسانی زندگی کا عجیب وغریب فلسفہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا موت کی طرف بھاگ رہا ہے اور ہر زندہ رہنے والا قیامت کا رخ کیے ہوئے ہے جملہ تعمیرات فنا اور خرابی کی طرف جا رہی ہیں اور اس کے بعد بھی انسان موت کیلئے تیار نہیں ہوتا ہے اور قیامت کے عذاب کی طرف سے بالکل غافل اور بے فکر ہو جاتا ہے ۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ﴿٥﴾ سورة الحج
قیامت کے اثبات کیلئے پہلے خود انسانی خلقت کو دلیل بنایا گیا ہے کہ اللہ نے ایک بے جان مٹّی سے ایک جاندار انسان بنا دیا ہے اور پھر بات کو مزید محسوس بنانے کیلئے سبزه کی پیداوار کی مثال دی گئی ہے کہ زمین بالکل مردہ تھی لیکن پیدا کرنے والے نے اسے زندہ بنا دیا اور اس میں سیکٹروں چیزی پیدا کر دیں تو جو ایسی مردہ زمین کو زندگی دے سکتا ہے وہ مردہ انسانوں کو قبر سے کیوں نہیں نکال سکتا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴿١١﴾ سورة الحج
آج بھی ایسے لوگ یقینا پائے جاتے ہیں جن کے ایمان کا ضعف و استحکام حالات اور منافع سے وابستہ ہوتا ہے کہ خدا، رسول اور مولا مراد پوری کر دیں تو بہتر ین خدا، بہترین رسول اور بہترین مولا ہیں اور ان پر سو جان سے قربان ہو جانے کی ضرورت ہے لیکن اگر مراد پوری نہ ہو یا خدا اور رسول خمس و زکوٰة کا مطالبہ کر لیں تو پھر یہ عجیب وغریب خدا و رسول اور مولا ہیں کہ غر یبوں کے کام آنے کے بجائے غر یبوں ہی سے خمس و زکوٰة کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ انداز فکر در حقیقت ایک کفرِخفی کی نشاندہی کرتا ہے جس پر اسلام کا غلاف چڑھا دیا گیا ہے ۔
لَن يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ ﴿٣٧﴾ سورة الحج
دور جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ کفار عرب قربانی کے جانور کا گوشت مقدس مقامات پر آویزاں کر دیا کرتے تھے اور اس کے خون سے خانہ خدا کی دیواروں کو آلودہ کر دیا کرتے تھے، گویا یہ گوشت اور خون ،خدا کی بارگاہ میں جا رہا ہے جس طرح آج کے بعض نادان افراد مسجدوں میں طرح طرح کے چھاپے لگاتے ہیں، اور اسی طرح ان دھبوں کو اللہ کی بارگاہ تک پہنچانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں قرآن مجید نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ خدا کو راضی کرنے کا راستہ یہ داغ اور دھے نہیں ہیں اس کی رضا کا ذریعہ تقویٰ، پرہیز گاری اور دامن کردار کا ہر دھبے سے پاک ہونا ہے ۔
وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٤٠﴾ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴿٤١﴾ سورة الحج
مالک کائنات نے اپنے نیک بندوں سے مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن نیک بندوں سے مراد بھی وہی افراد ہیں جو اقتدار پانے کے بعد خدا کو بھول نہ جائیں اور انفرادی زندگی میں نماز اور زکوة کا خیال رکھیں اور اجتماعی زندگی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں ان فرائض سے غافل ہو جانے والے نہ دین خدا کے مددگار ہو سکتے ہیں اور نہ خدا نے ان سے کسی طرح کی مدد کا وعدہ کیا ہے جس کا منظر دور حاضر کے مسلمانوں کی زندگی اور ان کی نکبت و ذلت میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔
ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ﴿٦٠﴾ سورة الحج
مالک کائنات نے پہلے صاحبان ایمان کو اطمینان دلایا کہ وہ حالات پر صبر کریں اور دشمن پر بھی زیادتی سے کام نہ لیں پھر اس کے بعد بھی دشمن ظلم کرتا ہے تو ہم مدد کرنے کیلئے تیار ہیں اور تمہیں اس بات سے دل تنگ نہیں ہونا چاہیے کہ جب خدا مددگار ہے تو ظلم ہوتا ہی کیوں ہے اس لئے کہ ہم آفتاب نکالنے اور دن کو لے آنے پر قادر ہیں لیکن یہ کام بھی پوری رات گذر جانے کے بعد کرتے ہیں کہ اس کے بغیر دن کی قدر کرنے والا ہی کوئی نہ ہو گا اور نہ کوئی اس احسان کا اندازہ کر سکے گا یہی حال زمین کا ہے کہ ہم پانی برسا کر اسے سر سبز و شاداب بنا دیتے ہیں، لیکن یہ کام بھی اس وقت ہوتا ہے جب ایک مدت تک زمین اپنی خشکی اور بے آبی کو برداشت کر لیتی ہے اور خدا تو خود بھی ظلم والوں اور کفر والوں کو برداشت کرتا ہے تو تم برداشت کیوں نہیں کرتے ہو!!! تمہارا بھی فرض ہے کہ برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرو، اس کے بعد ہم مدد کرنے والے ہیں اور نتیجہ تمہارے ہی ہاتھ میں رہے گا۔