امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔قسط نمبر-۸

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۸
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج بالا مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ  - سے ماخوذ ہے

۔۔۔

جواب  کے دوسرے حصےکا تنقیدی جائزہ (۵۰)
جب قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر استعمال ہونے والے الفاظ  کی دلالت اور ان کے معانی کو سمجھنے کےلیے ضروری ہے کہ انسان پہلے مرحلے میں خود قرآن و سنت کی طرف رجوع کرے اور دیکھے کہ دیگر موارد میں قرآن و سنت  نے انہی الفاظ سے کیا مراد لیا ہے۔ یہ درست نہیں کہ شرعی بیانات  کو سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان اور لغت  کے عر فی معانی سے آشنائی  پر ہی اکتفا کیا جائے۔ انہی موارد میں سے ایک زیر بحث حدیث میں مذکور ’’لیس البرّ‘‘ کی ترکیب ہے۔ اس ترکیب  کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے بھی عربی لغت کی طرف مراجعہ کرنے سے پہلے قرآن و سنت میں اس کے  دیگر مواردِ استعمال کی جانب رجوع کرنا  چاہیے۔اگر اس بارے میں ہمیں قرآن و سنت سے کوئی راہنمائی ملے تو ٹھیک وگرنہ  دوسرے مرحلے میں عربی زبان،لغت اور عرف سے مدد لینی چاہیے۔قرآن کریم نے’’لیس البر‘‘ کی ترکیب کو دو مرتبہ استعمال کیا ہے۔ایک بار سورۂ بقرہ کی آیت ۱۷۷ میں جہاں ارشاد ہوتا ہے:
 لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الأخر والملائکۃ والکتاب ۔..(۵۱)
)نیکی یہ نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کر و بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم اللہ،آخرت، فرشتوں اور کتاب خداوندی پر ایمان لے آؤ۔)
دوسری بار اسی سورۂ بقرۃ کی آیت ۱۸۹ میں ارشاد ہوتا ہے:
لیس البر بأن تأتوا البیوت من ظھورھا ولکن البر من اتقی وأتوا البیوت من ابوابھا…(۵۲)
 )یعنی ایام حج کے بعد گھروں کے پیچھے سے نقب لگا کر داخل ہونا نیکی نہیں بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔تم  گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔)
ان دونوں آیتوں میں لیس البر کی ترکیب مذکورہ افعال کی شرعی حیثیت  کی نفی کرنے کے لیے  استعمال ہوئی ہے۔
پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے  کہ قبلے کی جانب خالی رخ کرنا نیکی نہیں بلکہ  نیکی  یہ ہے کہ اللہ اور آخرت پر ایمان کی بنیاد پر قبلے کا رخ کیا جائے۔

اسی طرح دوسری آیت زمانۂ جاہلیت کی ایک بے بنیاد رسم کو باطل ثابت  کرنے کے لیے  نازل ہوئی تھی۔ عہد جاہلیت میں لوگ حج سے واپسی پر اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہونے کی بجائے گھر کی عقبی دیوار میں نقب لگا کر داخل ہوتے تھے۔اس  آیت نے یہ بتایا کہ اس جاہلانہ رسم کی  کوئی شرعی و  دینی حیثیت نہیں ہے۔ (۵۳)
مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے مجموعی  طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم  نے بعض امور کو(جنہیں شریعت کا لبادہ اوڑھایا جاتا ہے )شرعی طور پر بے بنیاد قرار دینے کے لیے  لیس البر کی اصطلاح  استعمال کی ہے۔
بنا بریں زیر بحث حدیث کی تفسیر اسی مفہوم کے تناظر میں ہونی چاہیے جسے قرآن  نے بیان کیا  ہے۔پس اس حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ مسافر کے روزے کی کوئی شرعی اساس نہیں ہے۔l
اس مفہوم کا لازمہ یہ ہے کہ سفر میں رکھا جانے والا روزہ باطل ہے۔ اس بطلان کی وجہ یہ ہے کہ کوئی چیز اس وقت تک عبادت نہیں ہو سکتی جب تک اس کا شرعی حکم موجود نہ ہو۔ پس جب کسی عمل کا حکمِ  شرعی سے عاری ہونا  ثابت ہو تو یہ اس عمل کے شرعی بطلان  کی دلیل ہے۔
احادیث کے معانی کو سمجھنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنا  شوکانی صاحب کے لیے اس بات سے بدرجہا بہتر تھا کہ وہ شافعی اور طحاوی کے بیانات کی طرف رجوع کرتے۔
۴۔سنی علما نے حدیثِ رسول:
 الصائم فی السفر کالمفطر فی الحضر
(مسافر کا روزہ رکھنا مقیم کے روزہ توڑنے کے مانند ہے) کے جواب میں کہا ہے کہ اولاً  اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور ثانیاً  یہ حکم مشقت کی صورت میں ثابت ہے نہ کہ عام حالات میں۔
تبصرہ : اس جواب کی پہلی شق (کہ حدیث کی سند ضعیف ہے ) کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی سند ابن حزم کی تحقیق کے مطابق درست اور صحیح ہے۔ ابن حزم لکھتے ہیں:
 معن بن عیسیٰ القزاز سے مروی ہے کہ اس نے ابن ابی ذئب سے، اس نے زہری سے، اس نے ابی سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے اور اس نے اپنے والد (یعنی خود عبدا لرحمن بن عوف) سے نقل کیا ہے کہ عبدالرحمن نے کہا:’’ کہا جاتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا حضر میں روزہ توڑنے کی طرح ہے۔ ‘‘
ابو محمد کہتا ہے: اس روایت کی سند صحیح ہے اور ابوسلمہ کا اپنے والد سے حدیث کا سماع بھی درست ہے۔ عبدالرحمن بن عوف کسی دینی معاملےمیں’’کہا جاتا ہے‘‘ کے الفاظ  اس وقت تک استعمال نہیں کرسکتے جب تک وہ  ان کے ساتھیوں یعنی اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے سنی ہوئی بات نہ ہو۔ رہےہمارے مخالفین تو اگر ان کے ہاتھ اس قسم کا کوئی جملہ آجائے تو  وہ بڑی آسانی کے ساتھ کہیں گے:عبدالرحمان اس قسم کی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک رسول اللہﷺ سے سنی ہوئی نہ ہو۔
مروی  ہے کہ ابو معاویہ نے  ابن ابی ذئب سے، اس نے زہری سے، اس نے حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے اور اس نے اپنے والد سے  نقل کیا ہے:سفر میں روزہ رکھنے والا گھر میں روزہ توڑنے والےجیسا ہے۔ اس حدیث کی سند  نہایت صحیح ہے۔(۵۴)
جواب کی دوسری شق کا جواب یہ ہے کہ حدیث کو مشقت کی صورت پر حمل کرنے  کی کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ ایک ایسی چیز کو جو شریعت نے نہیں کہی ، اپنی طرف سے شریعت میں داخل کرنے  سے عبارت ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ جوازکے دلائل اور وجوب کے دلائل کے  درمیان ہماہنگی پیدا کرنے کے لیے وجوب کے دلائل کومشقت کی صورت پر حمل کیا گیا ہےتو یہ اس وقت درست ہے جب ایک ہی موضوع کے بارے میں متعارض و متضاد احادیث موجود ہوں اور ان میں سے کسی کو دوسرے پر ترجیح حاصل نہ ہو۔
یوں ان کے درمیان تعارض اور اختلاف برقرار رہے درحالیکہ یہ بات  واضح ہو چکی ہے کہ  جن احادیث کو جواز کی دلیل بنایا گیا ہے  وہ اس بات پر دلالت ہی نہیں رکھتیں کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا جائز ہے۔ پس عدمِ جواز پر دلالت کرنے والی احادیث بلا مقابلہ حجت  ہیں۔لہذامذکورہ احادیث کو  جمع کرنے اور ان میں تأویل کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
۵۔ شو کانی نے حدیثِ نبوی :
ان اللہ وضع عن المسافر الصوم و شطر الصلاۃ
(اللہ نے مسافر سے روزے اور نماز کے ایک حصے کی ذمہ داری اٹھالی ہے) سے استدلال کا یہ جواب دیا تھا :
 الف۔ یہ حدیث مختلف فیہ ہے۔
ب۔حدیث کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں  ذمہ داری کے  ساقط ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ روزہ باطل ہو۔

پہلی شق کا جواب: کسی حدیث کے مختلف فیہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سرے سے نا قابلِ تمسک اور مردود ہو بلکہ ہم اسےصحیح ماننے  والےوالوں کے قول پرعمل سکتے ہیں۔
دوسری شق کا جواب: اس حدیث کو تسلیم کرنے کا لازمہ  یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا باطل ہےکیونکہ روزہ عبادت ہے اور کوئی عبادت اس وقت تک صحیح قرارنہیں پاتی جب تک اس کے بارے میں کوئی حکم موجود نہ ہو۔ ادھر مسافر سے روزے کی ذمہ داری کا ساقط ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے  کہ مسافر کے روزے کے بارے میں کوئی شرعی حکم موجود نہیں ہے جو اسے عبادت قرار دے۔
اب اگر کوئی مسافر روزہ رکھ لے تو یہ عمل کسی شرعی حکم کے بغیر ہوگا اورعبادت کے باطل ہونے کا یہی مطلب ہے۔بنا بریں یہ حدیث بھی  فرمان ِنبوی:

لیس من البر الصیام فی السفر

کی طرح اصل جواز کی نفی کرتی ہے۔

خلاصہ بحث:
۱۔ سفر میں رمضان کے روزوں کی حرمت  پر قرآن کی قطعی و صریح دلالت کے علاوہ سنت نبوی میں بھی  متعدد واضح دلائل موجود ہیں۔

علاوہ ازیں صحابہ و تابعین کی سیرت سے بھی اس حکم کی زبردست تائید ہوتی ہے۔
۲۔ مسافر کے روزے کو جائز قرار دینے والوں کے پاس قرآن و سنت اور سیرت صحابہ و تابعین پر مشتمل کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔ اسی لیے انہوں نے وجوبِ قصر پر دلالت کرنے والی آیت کریمہ اور احادیث کی تأویل و توجیہ کی ہے جیسا کہ شوکانی نے ان سے نقل کیا ہے۔ اس سلسلے میں  انہوں نے ان روایات کا سہارا  لیا ہے  جو ان کے مقصود کو واضح طور پر بیان نہیں کرتیں۔
۳۔  گزشتہ مباحث سے یہ بنیادی اصول بھی واضح ہوا  کہ دلائل میں تأویل و توجیہ سے اجتناب کرنا چاہیےمگر یہ کہ اس کے علاوہ کوئی اورچارہ نہ ہو۔
۴۔ چونکہ اس فقہی مسئلے میں تأویل و توجیہ سے کام لینے کی کوئی (شرعی یا عقلی) مجبوری نہیں ہے لہٰذا سفر میں رمضان کے روزوں کی حرمت  کا قول(جس کی تائید مکتب اہل بیت سے بھی ہوتی ہے) ہی درست اور برحق ہے۔


باز نگری تمام شد  در مشہد ۔اسےادارہ " البلاغ"والوں نے کمپوز کیا تھا ۔۳۔۸۔۲۰۱۷
---
حوالہ جات:

۵۰۔ سفر میں روزوں کے قصرکو واجب سمجھنے والوں نے اس حدیث سے استدلال کیا تھا:لیس من البر الصوم فی السفر یعنی سفر میں روزہ رکھنا نیک کام نہیں۔اہل سنت کی طرف سے اس کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ ممکن ہے کوئی عمل نیکی شمار نہ ہو لیکن صحیح ہو۔یہاں اس  جواب کا جواب دیا جا رہا ہے۔ 
۵۱ ۔بقرہ/۱۷۷
۵۲ ۔بقرہ/۱۸۹
۵۳ ۔تفسیر المیزان ۲/۵۷
۵۴۔ المحلی ۶/۲۵۷
---
ماخوذ ازکتاب:  مسافر کا روزہ
)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں  (۲۷) (
نام کتاب:         اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع :         علم فقہ
مولف :         سید  عبد الکریم بہبہانی    
مترجم :          حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:        غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی        
ایڈیٹنگ :        حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ :         حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت :        اول  ۲۰۱۸
ناشر:         عالمی مجلس اہل بیت(ع)
جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک