امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔قسط نمبر-۷

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نوٹ: درج ذیل  مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ  - سے ماخوذ ہے

قسط نمبر-۷

۔۔۔

مسافر کا روزہ سنتِ نبوی  کی روشنی میں

روزے سے مربوط  مذکورہ  آیات کی منطوقی و مفہومی دلالت نیز علتِ حکم کی روشنی میں واضح ہوا کہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کا وجوب

ہی اس  مسئلے کا قدرتی، واضح  اور درست حکم ہے۔  

اس کے برخلاف اختیار کا قول کم از کم  ایسی بات ہے جو آیت سے کھینچ تان کر نکالی گئی ہے۔

پس یہاں ان دو اقوال  میں سے ایک قول قرآنی آیات کی قدرتی، واضح اور ظاہری دلالت پر مبنی ہے  جبکہ دوسرا قول  زبردستی  اور کھینچ تان کراخذ کیا گیا ہے۔یہ تھا قرآنی نقطۂ نظر ۔

رہی بات سنت نبویہ کی تو واضح ہو کہ مسافر کے روزے کے حوالے سے احادیث کی دو قسمیں پائی جاتی ہیں۔

ایک قسم کی روایات وہ ہیں  جو قصر کے واجب ہونے پر دلالت رکھتی ہیں  جبکہ دوسری قسم  کی احادیث سے رخصت کا پہلو نکلتا ہے۔ ان روایات کے بارے میں تحقیقی نقطۂ نظر کا اظہار دو مراحل کو طے کرنے کے بعد ممکن ہوگا۔

پہلے مرحلے میں دونوں طرف کی احادیث کی سند اور دلالت کا تحقیقی جائزہ لیا جائے گا۔ اس جائزے کی روشنی میں  اگر یہ واضح ہو جائے کہ وجوبِ قصر کا نظریہ درست ہے یا  رخصت کا نظریہ ٹھیک ہے  اور یوں دونوں طرف کی احادیث میں سے  ایک کے دوسری پر غلبے کے باعث تعارض ختم ہو جائے تو کیا ہی خوب لیکن اگر ایسا نہ ہو اور  دونوں طرف کی احادیث کے مابین تعارض باقی رہےنیز یہ احادیث سند اور دلالت کے لحاظ  سے قوی اور مستحکم رہیں تو پھر ہم دوسرے مرحلے میں داخل ہوں گے۔

دوسرا مرحلہ: اس مرحلے میں ہم ان متعارض احادیث کو قرآن کی عدالت میں پیش کریں گے تاکہ قرآن ایک فیصلہ کن قاضی کی حیثیت سے اپنا فیصلہ سنا دے۔ پس ہم رسول  ﷺسے مروی احادیث کو قرآن کے سامنے پیش کریں گے۔پھر  ان میں سے جو قرآن کی موافق ہوں ان پر عمل کریں گے اور جو قرآن کی مخالف ہوں انہیں ترک کریں گے کیونکہ خود رسول اللہﷺ سے مروی  متعدد صحیح احادیث ہمیں حکم دیتی ہیں کہ ہم احادیث کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھیں، پھر جو قرآن کی موافق ہوں انہیں لے لیں اور جو قرآن سے متصادم ہوں انہیں رد کریں۔

علمِ اصول الفقہ کے ماہرین تعادل و تراجیح کے باب میں اس موازنے کو

 ’’العرض علی الکتاب‘‘

کے اصول کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان دو تمہیدی   باتوں کے بعد اب ہم   قصر کے جواز کے طرفداروں کے دلائل کا جائزہ لیں گے۔

قصر کے جواز (عدم وجوب)کےدلائل

سفر میں قصر کو جائز(غیر واجب )قرار  دینے والوں نے چند دلائل پیش کئے ہیں۔ ان دلائل کو ہم نووی کی کتاب المجموع سے نقل کریں گے۔وہ لکھتے ہیں:

۱۔ ہمارے فقہا نے حضرت عائشہ کی روایت سے استدالال کیا ہے۔اس روایت کی رو سے حمزہ بن عمرو نے رسول مقبولﷺسے عرض کیا: کیا میں سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا:

ان شئت فصم و ان شئت فافطر۔

چاہو تو رکھ لو،چاہو تو نہ رکھو۔ اسے بخاری  (صحیح بخاری ۲/۲۳۷ ،باب الصوم فی السفر)  اورمسلم (صحیح مسلم ۳/۱۴۴ ،کتاب الصوم، باب التخییرفی الصوم)نے نقل کیا ہے۔

۲۔ حمزہ بن عمرو سے مروی ہے کہ اس نے کہا: یا رسول اللہ!میں سفر میں روزہ رکھنے کی سکت رکھتا ہوں۔کیا (روزہ نہ رکھنے کی صورت میں ) مجھ پر کوئی گناہ ہے؟فرمایا: ھی رخصۃ من اللہ تعالی۔ فمن اخذ بھا فحسن ومن احب ان یصوم فلا جناح علیہ۔

یہ اللہ کی طرف سے ایک سہولت  ہے۔پس اگر کوئی اس پر عمل کرے تو اچھا ہے اور اگر  کوئی  روزہ رکھنا چاہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘یہ مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم ۳/۱۴۵ ،کتاب الصوم، باب التخییرفی الصوم)

۳۔ ابودرداء کہتے ہیں: ہم رمضان کے مہینے میں شدید گرمی میں رسول اللہﷺکے ساتھ سفر پر نکلے۔

اس وقت رسول خداﷺ اورعبداللہ بن رواحہ کے علاوہ ہم میں سے کوئی روزے سے نہیں  تھا۔اسے بخاری (۱) اور مسلم  (۲) نے  نقل کیا ہے۔

۴۔ انس سے مروی ہے: ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔پس (سفر میں )روزہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کرتے تھے۔ اسے بخاری (۳) اور مسلم  (۴) نے نقل کیا ہے ۔

ابو سعید خدری اور جابر رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے:ہم نے رسول خداﷺکے ساتھ سفر کیا۔پس کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہیں رکھتا تھا۔  اس سلسلے  میں وہ ایک دوسرے پر اعتراض بھی نہیں کرتے تھے۔اسے مسلم نے نقل کیا ہے۔ (۵)

۵۔ ابو سعید خدری سے مروی ہے:ہم رمضان میں رسول اللہﷺکے ساتھ جہاد پر نکلتے تھے۔ پس ہم میں سے بعض روزہ رکھ لیتے تھے جبکہ بعض روزہ نہیں رکھتے تھے اور ایک دوسرے کا برا نہیں مناتے تھے  بلکہ یہ سمجھتے تھے کہ جو اپنے اندر روزہ رکھنے کی طاقت محسوس کرتے ہوئے  روزہ رکھ لے تو یہ اچھا کام ہے لیکن اگر کوئی ناتوانی محسوس کرتے ہوئے  روزہ نہ رکھے تو یہ بھی مستحسن ہے۔اسے مسلم نے  نقل کیا ہے ۔(۶)

۶۔ ابو سعید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’جو اللہ عز و جل کی خاطر ایک دن روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے ستر خریف  (موسم سرما و گرما کے درمیانی زمانے )کے فاصلے کے برابر دور  رکھے گا۔اسے  بخاری(۷)اور ابن ماجہ ( ۸)نے  نقل کیا ہے۔

۷۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول خداﷺنے ماہِ  رمضان میں روزے کی حالت میں سفرفرمایا یہاں تک کہ آپ عسفان (نامی جگہ) پہنچے۔پھر آپ نے پانی کا ظرف طلب فرمایا اور دن کے وقت نوش فرمایا تاکہ لوگ آپ کو دیکھیں۔یوں آپ نے  مکہ پہنچنے تک روزہ نہ رکھا۔‘‘ابن عباس کہا کرتے تھے:رسول اللہ ﷺنے سفر میں روزہ رکھا بھی ہے اور کھولا بھی ہے۔پس جو چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے نہ رکھے۔اسے بخاری نے نقل کیا ہے۔(۹)

۸۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں:میں  ماہِ رمضان میں عمرہ کے سفر میں رسول اللہﷺ کے ساتھ گئی۔پس  رسول اللہﷺنے روزہ نہ رکھا لیکن میں نے روزہ رکھا۔ آپ نے نماز قصر پڑھی جبکہ میں نے پوری پڑھی۔میں نےعرض کیا:میرے ماں باپ آپ کے قربان جائیں! آپ نے روزہ نہیں رکھا لیکن میں نے رکھا۔اسی طرح  آپ نے نماز قصر پڑھی پر میں نے پوری پڑھی؟

آپ ﷺنے فرمایا: اے عائشہ! تو نے اچھا کیا۔اسے دارقطنی نے نقل کیا ہے۔(۱۰)

نووی کہتے ہیں:اس حدیث کی سند اچھی ہے۔نمازِ مسافر کی بحث میں بھی اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں میں نے جن احادیث کا  ذکر کیا ہے ان کے علاوہ بھی بہت سی صحیح احادیث موجود ہیں۔  (۱۱)

چونکہ( مکتب خلفا کے)فقہاء نے اپنے فتاویٰ اور استبناطِ حکم کے لیے ان روایات  کا سہارا لیا ہے اس لیےوہ  متعارض دلائل کی تأویل و توجیہ پر مجبور ہوئے ہیں۔بنا بریں  وہ آیتِ صوم کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں  لفظ" فَاَفطَرَ"محذوف ہے اور آیت کی اصل شکل یہ ہے:

 فمن کان منکم مریضا او علی سفر فَاَفطَرَ فعدۃ من ایام اُخر۔

(یعنی اگر  کوئی مریض یامسافر روزہ نہ رکھےتو وہ قضا کرے۔) اسی طرح  انہوں نے متعارض احادیث(جن میں روزہ   نہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے) کی توجیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ احادیث ان لوگوں سے مخصوص ہیں جن کے لیے روزہ نقصان دہ ہو۔‘‘(۱۲)

(جاری ہے)

حوالہ جات:

۱۔ بخاری ۳/۸۱، کتاب الصوم، باب ۱۲۱،مطبوعہ دارالقلم، بیروت

۲۔ مسلم ۳/۱۴۵ ،کتاب الصوم، باب التخییر فی الصوم والفطر فی السفر 

۳ ۔ بخاری،۳/۸۱ ،کتاب الصوم ،باب ۱۲۳،من لم یصب،ح۲۰۳،مطبوعہ دار القلم

۴۔ مسلم،۳/۱۴۲، کتاب الصوم، باب جواز الفطر و  الصوم فی السفر

۵ ۔ مسلم ۳/۱۴۳ ،کتاب الصوم ،باب المفطر فی السفراذا تولیٰ العمل

۶ ۔ایضا،کتاب الصوم ،باب اجر المفطر فی السفر

۷ ۔ بخاری ۴/۴۲۳ کتاب الجہاد، باب ۶۷۹ ،فضل الصوم فی سبیل اللہ،ح۱۰۳۳،مطبوعہ دار القلم ۔

۸ ۔ سنن ماجہ۳/۲۰۳ حدیث ۱۷۱۷ ،باب  فی صیام یوم فی سبیل اللہ،تحقیق شدہ  ایڈیشن ۔

۹ ۔ بخاری ۳/۸۱ ،کتاب الصوم ،باب ۱۲۴ ،حدیث ۲۰۴،مطبوعہ دار القلم بیروت۔

۱۰ ۔ سنن الدارقطنی ۲/۱۸۸ ،کتاب الصوم، حدیث۳۹ ۔

۱۱ ۔ المجموع: ۶/۲۶۴ 

۱۲ ۔ المجموع: ۶/۲۶۵

-----

ماخوذ ازکتاب:  مسافر کا روزہ

)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں  (۲۷) (

نام کتاب:                 اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ

موضوع :                   علم فقہ

مولف :                     سید  عبد الکریم بہبہانی    

مترجم :                        حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی

نظرثانی:                   غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی                             

ایڈیٹنگ :                  حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی

کمپوز نگ :                  حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری

اشاعت :                  اول  ۲۰۱۸

ناشر:                         عالمی مجلس اہل بیت

جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک