امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۴

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۴
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج ذیل  مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ  - سے ماخوذ ہے

۔۔۔
نویں حدیث: حضرت عائشہ سے مروی ہے: میں رمضان کے عمرے کے لیے رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلی۔اس دوران آپ نے روزہ کھولا لیکن میں نے روزہ رکھا نیز آپﷺ نے نمار قصر کی جبکہ میں نے پوری پڑھی۔ پس میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول!میرے والدین آپ پر قربان ! آپ نے روزہ کھولا جبکہ میں نے روزہ رکھا ،اسی طرح آپ  نےنماز قصر کی جبکہ میں نے پوری پڑھی؟ فرمایا:  آفرین اے عائشہ۔
ابن قدامہ مغنی میں کہتے ہیں:اسے ابو داؤد طیالسی نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے اور اس کا حکم صریح ہے۔
جو کوئی مذکورہ مسند اور اس کتاب میں حضرت عائشہ کی روایات کا مطالعہ کرے وہ اس میں یہ روایت نہیں پائے گا۔ البتہ اسے دارقطنی نے اپنی سنن میں ایک بار اسود سے اور دوسری  بار اس کے بیٹے عبدالرحمن سے نقل کیا ہے۔ (۲۴)
اس حدیث سے استدلال کا ہم یہ جواب دیں گے کہ جو خاتون رسول ﷺکے طرز عمل کے ساتھ اپنی مخالفت   اوراہم ترین دینی مسائل  یعنی نماز اور روزے سے مربوط مسائل میں آنحضرت ﷺکی پیروی نہ کرنے کی تصریح کریں   وہ اگر سنت رسول کو نقل کریں تو ان کی  روایت پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے؟
وہ صاف صاف کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے روزہ  نہیں رکھا اور نماز قصر کی جبکہ  موصوفہ نے  ان دونوں باتوں میں رسول اللہ ﷺ کی متابعت نہیں کی بلکہ سیرتِ رسول کے بر خلاف  روزہ رکھا اور نماز پوری پڑھی۔ اس کے بعد رسول اللہ سے اپنے اس طرز عمل کے بارے میں پوچھا جو رسول کی سیرت کے منافی  تھا۔ ان کا فرض بنتا  تھا کہ یا تو سوال کے بغیر ہی آنحضرت کی پیروی کرتیں یا عمل سے پہلے آپ سے سوال کرتیں۔یہ کیا  بات ہوئی کہ وہ نبیﷺ کو نماز اور روزہ قصر کرتے ہوئے دیکھتی رہیں  اور دونوں باتوں میں آپﷺ کی مخالفت برتتی رہیں پھر وقت گزرنے کے بعد اپنے عمل کے بارے میں پوچھنے لگیں!
چونکہ اس حدیث سے حضرت عائشہ کی شخصیت پر اعتراض لازم آتا ہے اس لیے ابن قیم جوزیہ کہتے ہیں : میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ  کو یہ کہتے سنا ہے:یہ حدیث  عائشہ پر بہتان ہے کیونکہ عائشہ رسول اللہﷺ  اور دیگر اصحاب کی نماز کے بر خلاف نماز نہیں پڑھ سکتی تھیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ انہیں قصر کرتے ہوئے دیکھتی رہیں لیکن خود اکیلی بلا وجہ  پوری پڑھتی رہیں؟(۲۵)
اس کے بعد ابن قیم جوزیہ حضرت عائشہ کی روایت پر وارد ہونے والے ایک اور اعتراض   کی طرف متوجہ ہوئے جو اس حدیث اور ان سے مروی ایک اور روایت کے مابین تعارض سے عبارت ہے۔ وہ روایت یہ ہے:نماز دو رکعت فرض ہوئی ۔پھر مقیم کی نماز میں اضافہ کیا گیا جبکہ مسافر کی نماز حسب سابق (دو رکعت)برقرار رہی۔
ابن جوزی کہتے ہیں:یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ وہ خود کہتی ہیں: نماز دو رکعت فرض ہوئی پھر مقیم کی نماز میں اضافہ کیا گیا جبکہ مسافر کی نماز حسب سابق (دو رکعت)برقرار رہی؟یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے کہ وہ  اللہ کی جانب سے واجب شدہ مقدار میں اضافہ کریں  نیز اللہ  کے رسول اور آپ کے اصحاب کی مخالفت کرتی رہیں؟

جب عروہ نے اپنے باپ زبیرسے نقل کرتے ہوئے  حضرت عائشہ کی  یہ روایت زہری کو سنائی تو زہری نے پوچھا: اس نے نماز کیوں پوری  پڑھی؟عروہ نے جواب دیا:جس طر ح عثمان نے تأویل کی تھی اسی طرح عائشہ نے بھی تأویل کی۔‘‘
(زہری نے کہا:)جب رسول اللہﷺنے ان کے فعل کو اچھا قرار دیا اور اس کی تائید کی  تھی تو پھر مذکورہ تأویل کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔اس صورت میں نماز کے اتمام کو تأویل کی طرف نسبت دینا درست نہیں۔(۲۶)
اس حدیث کے صحیح نہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیرت نگاروں،مورخین  اور محدثین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ رسول اللہﷺنے رمضان میں کوئی عمرہ بجا لایا ہو بلکہ وہ صریحاً کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی میں صرف چار  بار عمرہ فرمایا تھا:تین دفعہ ذیقعدہ میں اور ایک دفعہ حجۃ الوداع کے موقعے پر ذی الحجۃ میں۔ سیر ہ حلبیہ کے مؤلف نے اس کا ذکر کیاہےنیزصحیح بخاری اور مسلم وغیرہ کی روایتیں نقل کرکے اس بات کی تاکیدِ مزید کی ہے۔ان میں سے ایک روایت خود حضرت عائشہ سےمروی ہے۔ ابن قیم سےمنقول ہے کہ رمضان میں حضور کے عمرہ بجا لانے کے بارے میں عائشہ کی روایت غلط ہے اور ان کی طرف اس روایت کی غلط نسبت دی گئی ہے۔(۲۷)
نووی نے جن احادیث کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ مذاہب اربعہ کے فقہاء نے دوسری احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں سے ایک حضرت عائشہ سے منقول یہ روایت ہے:رسول اللہﷺسفر میں نماز پوری بھی پڑھتے تھے اور قصر بھی۔(۲۸)
دارقطنی نے اپنی مسند میں اس روایت کو تین اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے جن میں سے پہلی اور  تیسری  سند خود اس کے نزدیک بھی ضعیف ہیں۔صرف دوسری روایت کی سند اس کے نزدیک درست ہے۔(۲۹)
تبصرہ: یہ روایت(اور اس سے سابقہ روایت )بھی استدلال کے قابل نہیں کیونکہ:
الف۔ یہ صحابہ کی سیرت اور رسول اللہﷺ کی روش کے بر خلاف ہےکیونکہ مذکورہ بالا دسیوں دلیلوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت  سفر میں قصر فرماتے تھے۔ان میں خود حضرت عائشہ  سے مروی روایات بھی شامل ہیں ۔
جب ہمیں اس ایک حدیث اور اس سے متصادم دسیوں احادیث میں سے ایک طرف  کو ماننا اور دوسری کورد کرنا پڑے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہم اس ایک روایت کو ردکریں اور  اس کے مقابلے میں موجود وسیوں احادیث پر عمل کریں۔
ب۔ خود اہل سنت کے بعض بزرگوں  نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
ابن قیم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:یہ حدیث درست نہیں ہے اور میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے سنا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہﷺ پر بہتان ہے۔یہ روایت یوں نقل ہوئی ہے:
’’کان یقصرو تتم‘‘
(آپ قصر پڑھتے تھے اور وہ پوری پڑھتی تھیں)اور
’’کان یفطر و تصوم‘‘
(رسول  روزہ کھولتے تھے اور حضرت عائشہ روزہ رکھتی تھیں ) یعنی حضرت عائشہ سیرت رسول کے برخلاف روزہ رکھتی تھیں اور نماز پوری پڑھتی تھیں  ۔
 اس بارے میں ہمارے استاد ابن تیمیہ نے فرمایا ہے: ’’یہ روایت باطل اورغلط ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا  کہ ام المؤمنین عائشہ رسول اللہﷺاور آپ کے تمام اصحاب کی مخالفت  کریں اور ان کے برخلاف نماز پڑھتی رہیں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ خود ان سے یہ  صحیح حدیث نقل ہوئی ہے: (شروع میں) اللہ نے نماز کو دو دو رکعت فرض فرمایا۔پھر جب رسو ل اللہﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو مقیم کی نمازوں میں (رکعتوں کا )اضافہ کیا گیا جبکہ مسافر کی نماز حسب سابق  برقرار رکھی گئی ؟
اس روایت کی موجودگی میں ان کے بارے میں یہ گمان کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ رسول خداﷺ اور آپ کے ساتھ موجود مسلمانوں کے برعکس نماز پڑھتی رہیں؟
میرا کہنا ہے کہ رحلت رسول کے بعد حضرت عائشہ نے نماز پوری پڑھی تھی۔ اس بارے میں ابن عباس وغیرہ نے کہا ہے کہ عثمان کی طرح عائشہ نے بھی تأویل سے کام لیا  حالانکہ  نبیﷺ (سفر میں ) ہمیشہ قصر پڑھتے تھے ۔ (حقیقت یہ ہے کہ) بعض راویوں نے دونوں احادیث کو ملا کر ایک حدیث بنالی اور کہا :
’’کان رسول اللہ یقصر و تتم‘‘
 (یعنی رسول اللہﷺقصر پڑھتے تھے اور جناب عائشہ پوری پڑھتی تھیں)۔ پھر کسی دوسرے راوی نے مزید غلطی سے کام لیتے ہوئے  کہا:
کان یقصر ویُتم
(یعنی رسول اللہﷺ کبھی قصر اور کبھی پوری پڑھتے تھے)۔‘‘(۳۰)
شوکانی نے نیل الاوطار میں نقل کیا  ہے  کہ امام احمد بن حنبل اس روایت کو بعید از قیاس  مانتے تھے کہ حضرت عائشہ نماز پوری پڑھتی تھیں۔(۳۱)
یہ تھیں وہ احادیث جن سے  اُن فقہاء نے استدلال کیا ہے جو سفر میں  روزہ رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ان میں سے کسی ایک روایت سے بھی اس بات پر استدلال درست نہیں کہ سفر میں ماہ رمضان کا   ادا   روزہ  رکھنا جائز ہے ۔تمام مذکورہ روایات کے ناقابل استدلال ہونے کے علاوہ ان سب پر درجِ ذیل دو اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں:
۱۔ یہ سب احادیث روزے سے مربوط قرآنی آیت اور بہت ساری صحیح احادیث سے متصادم ہیں جو واضح دلالت رکھتی ہیں کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا صحیح نہیں بلکہ باطل ہے ۔ان  صحیح احادیث کا ذکر آگے آئے گا۔
۲۔ اگر ہم سند اور دلالت کے لحاظ سے دونوں قسم کی روایات کو برابر تسلیم کر بھی لیں تب بھی سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہوگا کیونکہ جواز سے مربوط روایات منسوخ قرار پائیں گی اور ممانعت و حرمت پر دلالت رکھنے والی احادیث ناسخ(ظاہر ہے کہ ناسخ کے ہوتے ہوئے منسوخ پر عمل درست نہیں ہے)چنانچہ مسلم نے اپنے سلسلہ سندکےساتھ ابن عباس سے نقل کیا ہے:
’’رسول اللہﷺفتح مکہ کے سال رمضان میں مدینہ سے نکلے۔پس آپ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ کدید کے مقام تک جا پہنچے۔  پھر آپ نے روزہ کھولا۔
ابن عباس کہتے ہیں :صحابہ آپ ﷺکے سب سے آخری قول و فعل پر عمل کرتے تھے۔‘‘(۳۲)
زیر ِبحث مسئلے میں رسول خداﷺ کا آخری موقف سفر میں روزہ نہ رکھنے کا حکم  تھا کیونکہ مسلم نے زہری سے روایت کی ہے: ’’سفر میں روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں سے رسول کا آخری عمل سفر میں روزہ نہ رکھنا تھا اور رسول اللہﷺکےکاموں میں سے سب سےآخری پرعمل کیا جاتا ہے۔‘‘(۳۳)
مسلم نے اپنے سلسلہ سند کےساتھ ابن شہاب سے بھی نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: ’’صحابہ رسول خداﷺکے آخری عمل کی پیروی کرتے تھے۔وہ اس آخری عمل کو محکم اور ناسخ سمجھتے تھے۔‘‘(۳۴)
یہ ساری باتیں پہلے مرحلے میں احادیث نبوی کی رو شنی میں مذکورہ شرعی حکم کو سمجھنے کے حوالے سے تھیں۔
پس اگر ان احادیث(جن میں سے بعض مسافر کے روزے کو جائز اور بعض حرام قرار دیتی ہیں) کا باہمی تعارض برقرار رہے اور سفر کے روزے کو ممنوع قرار دینے والی احادیث کو جائز قرار دینے والی احادیث پر کوئی برتری حاصل نہ ہوتو اب ہم دوسرے مرحلے میں منتقل ہو جائیں گے اوروہ یہ کہ دونوں طرف کی احادیث کی حجیت ساقط ہو جائے گی۔
اس صورت میں  دونوں استدلال کے قابل نہیں رہیں گی اور اس  مسئلے کا حکم معلوم کرنے کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔اِدھر قرآنی آیت(آیتِ  صوم) واضح طور پر بتاتی ہے کہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا ممنوع ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جواز پر استدلال کرنے والوں کوآیت میں تأویل کرنے اور اس میں کسی لفظ کو محذوف رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ بلا وجہ نہ تاویل سے کام لیا جائے اور نہ کسی چیز کو محذوف فرض کیا جائے۔
پس جب کسی قسم کی تأویل یا کسی چیز  کو محذوف سمجھے بغیرحکِم شرعی آیت سے معلوم ہو رہا ہو تو استنباط کا قاعدہ وقانون یہی ہے کہ اسی حکم پر عمل کیا جائے کیونکہ یہاں  کوئی ایسی ضرورت درپیش نہیں جو ہمیں قرآنی آیت  کی تأویل اور اس میں کسی چیز کو محذوف سمجھنے پر مجبور کرے۔
(جاری ہے)
---
حوالہ جات:
۲۴ ۔ سنن دار قطنی ۲/۱۸۸مطبوعہ عالم الکتب۔
۲۵۔ زاد المعاد ۱/۱۶۱
۲۶ ۔ زاد المعاد۱/۱۶۱
۲۷ ۔السیرۃ الحلبیہ،۳/ ۲۷۷
۲۸ ۔ الحاوی الکبیر۲/۳۶۴، المغنی۲/۱۰۹  
۲۹ ۔ سنن الدارقطنی:۲/۱۸۹
۳۰ ۔دیکھیے ابن قیم کی  زاد المعاد ۱/۱۵۸۔
۳۱۔ نیل الاوطار:۳/۲۰۳،مطبوعہ  دار الکتب العلمیہ۔
۳۲۔ صحیح مسلم، شرح نووی ۷/۲۳۰
۳۳ ۔   ایضا، ۷/۲۳۱  
۳۴ ۔ ایضا،۷/۲۳۱
----
ماخوذ ازکتاب:  مسافر کا روزہ
)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں  (۲۷) (
نام کتاب:         اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع :         علم فقہ
مولف :         سید  عبد الکریم بہبہانی    
مترجم :          حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:        غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی        
ایڈیٹنگ :        حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ :         حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت :        اول  ۲۰۱۸
ناشر:         عالمی مجلس اہل بیت(ع)
جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک