مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۳
- شائع
-
- مؤلف:
- سیدعبد الکریم بہبہانی-مترجم :حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
- ذرائع:
- عالمی مجلس اہل بیت(ع)
مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج ذیل مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ - سے ماخوذ ہے
۔۔۔
حرمت کے دلائل
گزشتہ مباحث سے واضح ہوا کہ جو فقہاء رمضان میں مسافر کے روزے کو جائز نہیں سمجھتے ان کی پہلی دلیل آیت الصوم یعنی روزے سے مربوط آیت ہےجس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے لہٰذا ہم اس کا دوبارہ ذکر نہیں کریں گے۔
سفر میں رمضان کے روزے کی حرمت کے قائل حضرات کے پاس قرآنی دلیل کے علاوہ سنت نبوی پر مبنی متعدد دلائل بھی موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
پہلی دلیل :صحیح مسلم میں مذکورہے:
’’فتح مکہ کے سال رسول خداﷺ رمضان کے مہینے میں عازمِ مکہ ہوئے۔تب آپ نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے۔لوگ بھی روزے سے تھے ۔ پھر آپ نے پانی کا ظرف مانگا اور اسے اس قدر اوپر اٹھایا کہ لوگوں نے اسے دیکھ لیا۔ پھر آپ نے وہ پانی نوش فرمایا۔اس کے بعد آپ سے کہا گیا: کچھ لوگ تو روزہ رکھے ہوئے ہیں(کیا یہ درست ہے)؟
آپﷺنے فرمایا: اولئک العصاۃ ۔ اولئک العصاۃ (یہ لوگ نا فرمان ہیں،یہ لوگ گنہگار ہیں۔)(۳۵)
مسلم نے جابرؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سفر میں تھے۔تب آپ نے ایک شخص کو دیکھا جسے لوگوں نے گھیر رکھا تھا ۔ اسے سائے کے نیچے رکھا گیا تھا۔ آپ ﷺنے پوچھا:اسے کیا ہوگیا ہے؟ لوگوں نے عرض کی:اس نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: تمہارا سفر میں روزہ رکھنا کوئی اچھا کام تو نہیں۔ (۳۶)
ابن ماجہ نے عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والا اس شخص کی طرح ہےجو حضر میں روزہ نہ رکھے۔(۳۷)
ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ بنی عبدالاشہل کے ایک مرد نے کہا:رسول اللہﷺ کی فوج نے ہم پر حملہ کر دیا ۔ پس میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ دن کا کھانا تناول کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:قریب آؤ اور کھاؤ۔ میں نے عرض کی:روزے سے ہوں۔ فرمایا: بیٹھ جا۔ میں تجھے روزے(یا روزوں )کے بارے میں بتاتا ہوں۔اللہ عزو جل نے مسافر کی نماز کا ایک حصہ بخش دیا ہے نیز مسافر، حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت سے روزے(یا روزوں ) کی ذمہ داری اٹھالی ہے۔
اس کے بعد اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! نبی ﷺنے اس ایک یا ان دونوں کا ذکر فرمایا تھا۔
افسوس کہ میں نے رسول اللہﷺکے کھا نے سے کچھ نہیں کھایا۔(۳۸)
تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام اور ظاہری مذہب کےبانی داؤدبن علی اصفہانی اور اس کے پیروکاروں کا اس بات پر اجماع ہے۔علاوہ ازیں بہت سے صحابہ اور تابعین کا بھی یہی موقف ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ دحیہ کلبی رمضان میں دمشق کی ایک بستی سےتین میل کے سفر پر گیا۔پس دحیہ نے روزہ کھولا۔ اس کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے بھی روزہ کھولا جبکہ دوسروں نے روزہ کھولناپسند نہیں کیا۔جب دحیہ اپنی بستی میں واپس آیا تو اس نے کہا:
اللہ کی قسم! آج میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جس کی مجھے توقع نہیں تھی۔وہ یہ کہ ایک گروہ نے پیغمبر خداﷺ کے ہدایت آفرین حکم سے روگردانی کی ۔
دحیہ نے یہ بات ان لوگوں کے بارے میں کہی جنہوں نے روزہ رکھا تھا ۔اسے ابو داؤد نے نقل کیا ہے۔(۳۹)
٭ کیا یہ ممکن ہے کہ دحیہ کلبی جیسا صحابی صرف اس بات پر تعجب کرے کہ لوگوں نے سفر میں روزہ رکھنے کے شرعی اذن پر عمل کیا تھا؟
اس صحابی کےتعجب اور اس کی جانب سے دکھ کے اس اظہار سے واضح ہوتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے والے سنت رسول کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ سفر میں رمضان کا روزہ نہ رکھنا ہی اسلامی معاشرے میں رائج اور مرسوم امر تھا۔ اگر سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا جائز ہوتا تو اس پر دحیہ کلبی کےتعجب کی کوئی وجہ نہیں بنتی ۔
خطابی نے اعلام التنزیل میں عبداللہ بن عمر سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا: جو سفر میں روزہ رکھے وہ گھر آکر اس کی قضا کرے۔ (۴۰)
منقول ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے سفر میں روزہ رکھنے والے کسی مرد کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ رکھے۔(۴۱)
یوسف بن حکم سے مروی ہے:میں نے ابن عمر سے سفر میں روزہ رکھنے کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا:ذرا یہ بتاؤ کہ اگر تو کسی کو کچھ عطا کرے اور وہ تجھے پلٹا دے تو کیا تُو ناراض نہیں ہوگا؟ یہ (سفر میں روزے کی چھوٹ) بھی اللہ کی طرف سے ایک عطا ہے جو تمہیں اس نے دی ہے۔ پس تم اسے رد نہ کرو۔(۴۲)
ابن عباس سے مروی ہے: سفر میں روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔ (۴۳)
ابن حزم اندلسی نے اس مسئلے میں صحابہ و تابعین کے اقوال کو جمع کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
سلیمان ابن حرب سے منسوب یہ روایت ہم تک پہنچی ہے :ہم سےحماد ابن سلمہ نے بیان کیا کہ اس نے کلثوم بن جبر سےاور اس نے بنی قیس کے ایک مرد سے سنا کہ اس نےسفر میں روزہ رکھا تو عمر بن خطاب نے اسے دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
سفیان بن عیینہ نے عاصم بن عبداللہ سےاور اس نے عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ایک شخص کو جس نے سفر میں روزہ رکھا تھا یہ حکم دیا کہ وہ دوبارہ روزہ رکھے۔
عمر بن ابی سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف اپنے والدسے نقل کرتا ہے:ام المومنین عائشہ نے مجھے سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے سے منع کیا۔
ابو ہریرہ سے مروی ہے: سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں۔
شعبہ سے مروی ہے کہ ابو حمزہ نصر بن عمران ضبعی سے مروی ہے:میں نے ابن عباس سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: آسانی اور مشکل میں سے اس آسانی کا انتخاب کرو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے۔
ابو محمد کہتا ہے: ابن عباس کا مسافر کے روزے کو سختی و مشقت قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔
ابن عباس سے مروی ہے:سفر میں رمضان کا روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔
بنی ہاشم کے آزاد کردہ غلام عمار ابن ابی عمار سےمنقول ہےکہ ابن عباس سے سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے والے شخص کے بارے میں سوال ہوا تو ابن عباس نے کہا: اس (سفر میں روزہ رکھنے)سے وہ بری الذمہ نہیں ہو گا۔
مروی ہے کہ ابن عمر سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارےمیں سوال ہوا توانہوں نے کہا:
من کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر
(تم میں سے جو مریض یا مسافر ہو وہ دوسرے ایام میں روزہ رکھ لے۔)
یوسف بن حکم ثقفی سے منقول ہے کہ جب عبداللہ بن عمر سے مسافر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:یہ تو ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تجھے بخشا ہے۔
ذرا یہ تو بتاؤ کہ اگر تو کسی کو کوئی چیز عطا کر ے اور وہ اسے ردّ کرے تو کیا تجھے غصہ نہیں آئے گا؟
ابو محمد کہتا ہے: ابن عمر کا یہ بیان بتاتا ہے کہ وہ رمضان میں(دورانِ سفر)روزہ رکھنے کو اللہ کے غیظ وغضب کا سبب سمجھتے تھے۔ کسی مباح چیز کے بارے میں اس قسم کا جملہ ہرگز نہیں بولاجاتا۔
حماد بن سلمہ سے منقول ہے کہ کلثوم بن جبرنے کہا: کسی سفر میں ایک عورت ابن عمر کی ہمسفر تھی ۔ جب کھانا پیش کیا گیا تو ابن عمر نے اس عورت سے کہا: کھائیے۔بولی:میں روزے سے ہوں۔ ابن عمر نے کہا: پھرتو ہمارے ساتھ نہ رہنا ۔
مروی ہے کہ معن بن عیسیٰ قزاز نے ابن ابی ذئب سے، اس نے زہری سے ،اس نے ابو سلمی بن عبدالرحمن بن عوف سے اور اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے : کہا جاتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا بالکل ایسا ہے جس طرح گھر میں بیٹھ کرروزہ کھانا ۔
ابو محمد کہتا ہے: اس روایت کی سند صحیح ہے اور ابوسلمہ کا اپنے والد سے حدیث کا سماع بھی درست ہے۔ عبدالرحمن بن عوف کسی دینی مسئلےمیں’’کہا جاتا ہے‘‘ کے الفاظ اس وقت تک استعمال نہیں کرسکتے جب تک وہ ان کے ساتھیوں یعنی اصحاب رسول رضی اللہ عنہم سے سنی ہوئی بات نہ ہو۔ رہےہمارے مخالفین تو اگر ان کے ہاتھ اس قسم کا کوئی جملہ آجائے تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ کہیں گے:عبدالرحمان اس قسم کی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک وہ رسول اللہﷺ سے سنی ہوئی نہ ہو۔
مروی ہے کہ ابو معاویہ نے ابن ابی ذئب سے، اس نے زہری سے، اس نے حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے اور اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے:سفر میں روزہ رکھنے والا گھر میں روزہ توڑنے والےجیسا ہے۔
ابن حزم کہتے ہیں: اس حدیث کی سند نہایت صحیح ہے۔یہ عطاء کے طریق سےمحرر سے بھی مروی ہے۔
ادھر ابوہریرہ کے بیٹے کا بیان ہے :میں نے سفر میں رمضان کا روزہ رکھا تو ابوہریرہ نے مجھے حکم دیا کہ میں گھر میں اس کی دوبارہ قضا کروں۔ پس میں نے اس کی قضا کی ۔
(یہ تھے مکتب خلفاء کے برگزیدہ صحابہ جو سفر میں رمضان کا روزہ رکھنے کو ناجائز اور نہ رکھنے کو واجب سمجھتے تھے۔ اب ان تابعین کا ذکر کیا جاتا ہے جو سفر میں قصر کو واجب سمجھتے تھے۔)
عبدالرحمن بن حرملہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے سعید بن مسیب سے پوچھا: کیا میں سفر میں نماز پوری پڑھوں اور روزہ رکھوں؟سعید بن مسیب نے جواب دیا :نہیں۔
کہا: میں اس پر قادر ہوں۔
سعید نے کہا: رسول اللہﷺتجھ سے زیادہ قادرتھے۔ اس کے باوجود آپ نمازقصر پڑھتے تھے اور روزہ نہیں رکھتے تھے۔
مروی ہے کہ عطاء سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے کہا: واجب روزے نہیں رکھے جا سکتے البتہ مستحب روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
منقول ہے کہ عروہ بن زبیر نے کسی شخص کے بارے میں جس نے سفر میں روزہ رکھا تھا کہا: وہ گھر میں اس کی قضا کرے گا ۔
شعبہ کہتا ہے : اگر میں سفر میں رمضان کا روزہ رکھوں تو میرے دل میں اس کے بارے میں ایک خلش رہے گی۔
معمر نے زہری سے نقل کیا ہے کہ ان دونوں باتوں(سفر میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے) میں سے رسول خداﷺ کی آخری سیرت روزہ نہ رکھنے کی سیرت ہے۔یاد رہے کہ رسول ﷺ کی سب سے آخری سیرت ہی حجت ہے۔
اسماعیل بن ابی خالد سے منقول ہے کہ شعبی نے کہا: سفر میں روزہ نہ رکھو۔
امام محمد(باقر) بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے منقول ہے کہ ان(امام باقر ) کے والد گرامی(امام زین العابدین)سفرمیں رمضان کے روزے رکھنے سے منع فرماتے تھے۔
محمد بن علی علیہما السلام بھی اس سے منع کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر کے پوتے قاسم بن محمد کا بیان ہے:مسافر روزہ نہیں رکھ سکتا۔ روزہ کھولو…… روزہ کھولو۔
یونس بن عبید اور اس کے ہم خیال ساتھیوں سے بھی منقول ہے کہ انہوں نےسفر میں رمضان کے روزے رکھنے کی مخالفت کی ہے۔(۴۴)
یہ سارے شواہد اس حقیقت سے پردہ ہٹاتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین کے درمیان مسافر کےروزے کا مسئلہ بہت واضح تھا۔ البتہ جب فقہ کی تدوین کا دور آیا تو اس مسئلے نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ اسی لیے مسافرکے روزے کو جائز سمجھنے والوں کے کمزور دلائل کا مشاہدہ کیا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی طرف سے کھینچ تان کر بنائے گئے ہیں۔
جب انہوں نے روزے سے مربوط آیات کو دیکھا کہ وہ ان کے فتوؤں کے ساتھ ہمآہنگ نہیں ہیں تو وہ کہنے لگے کہ آیت میں لفظ
’’فافطر‘‘محذوف ہے اور جب احادیث نبویہ کا رخ کیا تو ان احادیث سے تمسک کیا جن کی دلالت عام ہے اور ان میں سفر کے دوران رمضان کے روزے رکھنے کے جواز پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔قرآنی آیات نے جس روزے کو ناجائز قرار دیا ہے اسے جائز قرار دینے کےلیے ان روایات میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
پھرجب یہ حضرات سفر میں روزہ رکھنے کی ممانعت پر مشتمل احادیث سے روبرو ہوئے تو وہ ان کی عجیب و غریب تاویلیں پیش کرنے لگے۔
شوکانی نے ان تاویلات (کھینچ تان کر نکالے جانے والے معانی) کو نقل کیاہے۔ساتھ ہی موصوف نے اکثریت کے نظرئے نیز ان کی طرف سے سفر میں رمضان کےروزے کو جائز نہ سمجھنے والوں کے دلائل کے جوابات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
انہوں(قصر کو واجب سمجھنے والوں)نے ابن عباس کی روایت سے استدلال کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ رسول اللہﷺنے سفر میں روزہ نہیں رکھا اور یہ اس حوالے سے رسول ﷺ کا آخری عمل تھا اور(ایک ہی مسئلے میں رسول ﷺکی مختلف سیرتیں ہوں تو) صحابہ آخری سیرت پر عمل کرتے تھے۔ یوں انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنے کی نبوی سیرت منسوخ ہو چکی ہے۔
(شوکانی کہتے ہیں:) جمہور یعنی اہل سنت نے اس کا جواب یوں دیا ہے:یہ اضافہ جو حدیث میں درج کی گئی ہے در اصل زہری کی بات ہے اوریہی اشتباہ مسلم کو بھی ہواہےجبکہ بخاری نے کتاب الجہاد میں یقین کے ساتھ کہا ہے کہ یہ بات (کہ رسول کا آخری عمل قصر تھا) زہری کی اضافات میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں اس واقعے کے بعد رسول اللہﷺنے سفر میں روزہ رکھا ہے جیسا کہ اسی باب کے آخر میں ابو سعید کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’پھر تو نے ہمیں رسول اللہﷺکے ساتھ سفر میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
انہوں(قصر کو واجب سمجھنے والوں)نے صحیح مسلم میں مذکور جابر کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ پیغمبرﷺنے فتح مکہ کے سال رمضان میں سفر فرمایا اور روزہ رکھا۔ لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔جب آپ روزے کی حالت میں کراع الغمیم پہنچے تو آپ نے پانی کا ظرف مانگا اور اسے اٹھایا یہاں تک کہ لوگوں نے اسے دیکھ لیا۔ پھرآپ نے اسے نوش فرمایا۔ بعد میں آپ سے عرض ہوا کہ بعض لوگوں نے تو روزہ نہیں کھولا تو آپ ﷺنے فرمایا : یہ نافرمان لوگ ہیں۔
جابر کی دوسری روایت یوں کہتی ہے: ’’لوگوں پر روزہ سخت گزر رہا ہے۔وہ آپ کے عمل کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔‘‘
تب آنحضرت نے عصر کے بعد پانی کا ظرف مانگا.....الحدیث
اس حدیث کا جواب جمہور(اہل سنت)یوں دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے انہیں اس لیے نافرمان اور گنہگار کہا تھا کیونکہ آپ نے ان پر روزہ کھولنا لازم قرار دیا تھا لیکن انہوں نے اس حکم کی مخالفت کی تھی ( یعنی انہیں نافرمان کہنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ سفرمیں رمضان کا روزہ رکھنا حرام ہو۔مترجم)
انہوں(قصر کو لازم سمجھنے والوں) نے جابر سے منقول حدیث:
لیس من البر الصوم فی السفر
(سفر میں روزہ رکھنا کوئی مستحسن کام نہیں ہے)سے بھی استدلال کیا ہے جبکہ جمہور(اہل سنت) اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے یہ جملہ ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہےجن کے لیے روزہ مشقت کا باعث ہو جیسا کہ روزہ کھولنے کی بحث میں اس کا ذکر ہو چکا ہے۔ظاہر ہے کہ زیادہ مشقت ہو تو سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
اس جواب پریہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ معیار لفظ کی عمومیت ہے نہ کہ سبب کا خاص ہونا۔لیکن اس کا یوں جواب دیا گیا ہے کہ روایت کے سیاق و سباق اور دیگر قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روایت صرف مشقت والوں سے مختص ہے۔
ابن دقیق العید کہتے ہیں: ایک طرف سے عام کی تخصیص اور متکلم کے مقصود پر سبب، سیاق اور قرائن کی دلالت اور دوسری طرف سے کسی سبب پر عام کے خالی ورود کے درمیان جو فرق ہے اسےسمجھنا ضروری ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ان دونوں کو یکساں سمجھنا درست نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی خاص واقعےیا سبب کی بنا پرعمومیت کاحامل کوئی حکم صادر ہو تو وہ خاص واقعہ یا سبب اس حکم کی تخصیص کا سبب نہیں بنتا۔ اس کی مثال صفوان کی چادر(کی سرقت) کے باعث آیتِ سرقت(کے حکمِ عام ) کا نزول ہے۔
اس کے برخلاف سیاق اور قرائن جو متکلم کے مقصود پر دلالت کرتے ہیں کلام کے اجمال کو دور کر دیتے ہیں جیسا کہ زیر بحث باب سے مربوط احادیث کا حال ہے۔
اس حدیث کے حوالے سے دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مسافر کے روزے کا مستحسن نہ ہونا اس بات کا موجب نہیں ہے کہ روزہ صحیح نہ ہو بلکہ باطل ہو۔
شافعی کہتے ہیں :یہاں یہ احتمال موجود ہے کہ بِرّسے مراد وہ واجب نیکی نہ ہو جس کی مخالفت کرنے والا گناہگار ہوتا ہے۔
طحاوی کہتے ہیں:
یہاں نیکی و بھلائی سے مراد نیکی کا درجۂ کمال ہے نہ یہ کہ مسافر کا روزہ نیکی کے دائرے سے ہی خارج ہوکیونکہ بسا اوقات روزہ رکھنے کے مقابلے میں روزہ کھولنا زیادہ بھلائی وثواب کا حامل ہوتا ہے مثلاً یہ کہ روزہ نہ رکھنے کا مقصد دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے قوت و طاقت حاصل کرنا ہو۔
شافعی کا کہنا ہے: اس حدیث میں نیکی کی جو نفی کی گئی ہے وہ ان لوگوں کےبارے میں ہے جو سفر میں روزہ نہ رکھنے کی سہولت اور اجازت کو ٹھکرائیں۔
نسائی نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے:
لیس من البر ان تصوموا فی السفر وعلیکم برخصۃ اللہ التی رخص لکم فاقبلوا
(یہ نیکی نہیں کہ تم سفر میں رزہ رکھو حالانکہ اللہ نے تمہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ پس اس اجازت وسہولت کا رخ کرو۔)
ابنِ قطاّن کہتے ہیں: اس (اضافی حصے ) کی سند متصل اور حسن ہے۔اسے شافعی نے بھی نقل کیا ہے جبکہ ابن خزیمہ نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے۔
(شوکانی کہتے ہیں:)قصر کو لازم سمجھنے والوں کے دلائل میں سے ایک ابن ماجہ کی یہ مرفوع روایت ہے جوعبدالرحمن بن عوف سے مروی ہے:
الصائم فی السفر کالمفطر فی الحضر
(یعنی سفر میں روزہ رکھنے والا حضر میں روزہ کھانے والے کی طرح ہے۔)
اس کا جواب یوں دیا جاتا ہے کہ اس روایت کے سلسلۂ سند میں ابن لہیعہ ہے جو ضعیف ہےلیکن اس روایت کو اثرم نے ابوسلمہ کے ذریعے اس کے والد(عبدالرحمن بن عوف)سے مرفوعاً نقل کیا ہے۔
حافظ کا کہنا ہے کہ ابوسلمہ اپنے باپ سے جو روایت کرے وہ ’’موقوف‘‘ہے۔ نسائی اور ابن منذر نے بھی یہی نقل کیا ہےجبکہ ابن ابی حاتم،بیہقی اور دارقطنی نے اس روایت کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے۔موقوف ہونے کی صورت میں یہ روایت منقطع بھی ہوگی کیونکہ ابو سلمہ نے اپنے باپ سے حدیث نہیں سنی ہے۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ یہ روایت صحیح ہے تو اس کا موردوہاں ہے جہاں مشقت وغیرہ کی بنا پر روزہ نہ رکھنا رکھنے سے بہتر ہو۔ یوں اس سلسلے میں موجودمتعارض ومتخالف دلائل کو باہم جمع کیا جا سکتا ہے۔
قصر کو لازم جاننے والوں نے احمد(بن حنبل) ،نسائی اورترمذی کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے اور اسےحسن قرار دیا ہے۔کعبی نے انس بن مالک والی سند کو حسن قرار دیا ہے جس میں مذکور ہے:
ان اللہ وضع عن المسافر الصوم و شطرالصلاۃ
(یعنی اللہ نے مسافر کو نماز کے ایک حصے اور روزے کی چھوٹ دی ہے۔)
اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس روایت میں اختلاف واقع ہوا ہےجیسا کہ ابن ابی حاتم نے کہا ہے۔اسےصحیح مان بھی لیا جائےتو روزے کی چھوٹ دینے کا لازمہ یہ نہیں کہ سفر میں روزہ رکھا جائے تو وہ باطل ہوجائے جو ہماری بحث و گفتگو کا موضوع ہے۔ (۴۵)
(جاری ہے)
---
حوالہ جات:
۳۵ ۔ صحیح مسلم :۳/۱۴۱
۳۶ ۔ صحیح مسلم ۳/۱۴۲
۳۷ ۔ سنن ابن ماجہ۱/۵۳۲،حدیث ۱۶۶۶
۳۸ ۔ایضا،۱/۵۳۳ ،حدیث ۱۶۶۷
۳۹ ۔ دیکھیے: سنن ابو داؤد ۲/۳۱۹ ، کتاب الصوم، باب قدر مسیرۃ مایفطر فیہ۔ اسے ابن قدامہ نے بھی المغنی ۲/۹۳ میں نقل کیا ہے۔
۴۰۔دیکھئے فخررازی کی التفسیر الکبیر ۵/۷۶
۴۱ ۔ مسند احمد بن حنبل ۳/۳۲۹ ،مطبوعہ المیمنیہ
۴۲ ۔ کنز العمال ۸/۵۰۲، ح۲۳۸۳۸
۴۳ ۔ الدر المنثور ۱/۱۹۱، کتابخانہ مرعشی
۴۴۔ صحابہ و تابعین کے یہ اقوال، ابن حزم اندلسی کی المحلی ۶/۲۵۶۔۲۵۸سے مأخوذ ہیں۔
۴۵ ۔ نیل الاوطار۴/۲۲۴۔۲۲۵ ، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ
-----
ماخوذ ازکتاب: مسافر کا روزہ
)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں (۲۷) (
نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع : علم فقہ
مولف : سید عبد الکریم بہبہانی
مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی: غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی
ایڈیٹنگ : حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ : حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت : اول ۲۰۱۸
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت(ع)
جملہ حقوق محفوظ ہیں