مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۲
- شائع
-
- مؤلف:
- سیدعبدالکریم بہبہانی -مترجم :حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
- ذرائع:
- عالمی مجلس اہل بیت(ع)
مسافر کا روزہ ۔۔۔گزاشتہ سے پیوستہ۔ قسط نمبر-۲
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج ذیل مقالات کے تمام اقساط کتاب: مسافر کا روزہ - سے ماخوذ ہے
۔۔۔
اہل سنت کی تأویلات پر ایک تحقیقی نظر
۱۔مسافر کے روزے کو حرام سمجھنے والوں نے ابن عباس کی روایت کے جس فقرے سے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے:
ان رسول اللہ خرج فی عام الفتح فی رمضان فصام حتی بلغ الکدید ثم افطر۔
(رسول اللہﷺفتح مکہ کے سال رمضان میں سفر پر نکلے۔ آپ نے ’’کدید ‘‘ نامی جگہے تک روزہ رکھا پھر آپ نے روزہ قصر فرمایا۔ (۴۶)
یہ حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ رمضان کا روزہ سفر میں رکھنا صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺنے مقام کدید سے روزہ کھولا۔ اس کے بعد آپ نے کبھی سفر میں رمضان کا روزہ نہیں رکھا۔ جہاں تک اس حدیث سے ملحق کلام کا تعلق ہے اس کے بارے میں واضح ہو کہ یہ کلام زہری کی ہو یا کسی دوسرے شخص کی بہر حال اس حدیث سے سفر میں روزے کے عدم جواز کا استدلال اس الحاقی جملے پر موقوف نہیں ہے کیونکہ خود اہل سنت کے علماء کے ہاں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ رسول اللہﷺ کا آخری فعل سابقہ فعل کا ناسخ ہے جس طرح قرآن میں بھی نسخ کا یہی قاعدہ کارفرما ہے۔
پس جب روایت بتاتی ہے کہ رسول اللہﷺنے فتح مکہ کے سال رمضان میں روزے کی حالت میں سفر فرمایا اوربعد میں روزہ نہیں رکھا تو ثابت ہوا کہ اس بارے میں نبی کی آخری سنت سفر میں روزہ نہ رکھنا ہے جیسا کہ زہری نے اس کی تصریح کی ہے اور مسلم نے صحیح مسلم میں اپنی اسناد کے ساتھ اس سے نقل کیا ہے ۔(۴۷)
یہ ساری باتیں دلالت کرتی ہیں کہ جواز کا حکم منسوخ ہو چکا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس جدلی بحث میں عدم جواز کے قائلین یہ کہہ سکتے ہیں کہ نہ تو رسولﷺ نےمسافر کے روزے کی سرے سے کوئی اجازت دی تھی اور نہ ہی یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ ہے بلکہ سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا ابتدا سے ہی جائز نہیں تھا۔ چنانچہ آپ جان چکے ہیں کہ جواز کو ثابت کرنے کے لیے جو احادیث پیش کی گئی ہیں وہ اس حکم کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں اور یہ تمام روایتیں رمضان کے روزے سے بحث ہی نہیں کرتیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مذکورہ احادیث سفر میں رمضان کے روزے رکھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں تب بھی یہ آپ کے مذہب کے مسلمہ قواعد کی رو سے جواز کے حکم سے مناسبت نہیں رکھتیں کیونکہ اہل سنت کی صحاح میں ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول خداﷺنے ماہِ رمضان کے سفر میں روزہ نہیں رکھا تھا ۔جب دوقسم کی احادیث میں تعارض اور ٹکراؤ ہوتو آخری سنت نبوی پر عمل لازم ہوگا۔ یہاں حضورﷺ کی آٓٓٓخری سنت سفر میں روزہ نہ رکھنے سے عبارت ہے جیسا کہ زہری نے تصریح کی ہے۔
پس اہل سنت کے مسلمہ مذہبی قاعدے کی روسےسفر میں رمضان کا روزہ رکھنا جائز نہیں بلکہ ممنوع اور حرام ہوگا۔
سوال: فتح مکہ کے سفر میں رسول ﷺ کا رمضان کا روزہ نہ رکھنا ایک فعل ہے جبکہ فعل کی دلالت مجمل اورغیر واضح ہوتی ہے کیونکہ سفر میں روزہ نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مسافر کا روزہ رکھنا حرام ہے اور دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ روزہ رکھنے کے مقابلے میں نہ رکھنا بہتر اور افضل ہو۔پس یہ کیسے ثابت ہو گا کہ رسولﷺکا فعل(روزہ نہ رکھنا) نہ رکھنے کے وجوب کی وجہ سے ہی تھا؟
جواب: یہ اعتراض برمحل اورصحیح ہے البتہ دونوں پر یکساں طور پر وارد ہوتا ہے۔
پس حق بات وہی ہو سکتی ہے جو مسلمہ قواعد سے ہم آہنگ ہو اور اس فریق کے قول کے مطابق ہو جو اس اعتراض کا مدلل جواب دے۔
اب جو لوگ سفر میں روزے کو حرام اور قصر کو واجب سمجھتے ہیں وہ مذکورہ اجمال کو آیت صوم کے ذریعے دور کرسکتے ہیں کیونکہ آیتِ صوم سفر میں رمضان کے روزے کو حرام قرار دیتی ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا۔
اس کے بر خلاف جواز کے طرفدار اس اجمال کو آیت کے ذریعے دور نہیں کر سکتے کیونکہ آیت کا ظاہری اور واضح مفہوم جواز کی تائید نہیں کرتا۔اسی لیے وہ آیت کی تأویل کرنے پر مجبور ہوئے۔ جبکہ ایسے مقام پر عدم تاویل کا قاعدہ اور اصول جاری ہوتا ہے۔ پس اس حدیث کےتحقیقی جائزے سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث ان لوگوں کے لیے دلیل بن سکتی ہے جو مسافر کے روزے کو جائز نہیں سمجھتے ۔ فہو المطلوب ۔
سوال: ممکن ہےکہ جواز کے طرفدار یہ کہیں کہ اس حوالے سے رسول کی آخری سنت قصر کا وجوب نہیں بلکہ جواز تھا اور نبی نے بعد میں سفر کے دوران روزہ نہیں رکھا تھا جیسا کہ شوکانی نے نقل کیا ہے اور ابو سعید خدری کی روایت سے استدلال کیا ہے جو یہ ہے:’’ہم رسول اللہﷺکےساتھ مکہ کی جانب روانہ ہوئے جبکہ ہم روزے سے تھے۔جب ہم ایک منزل پر پہنچے تو رسول اللہﷺنے فرمایا:’’تم اپنے دشمن کےنزدیک ہوئے ہو اور روزہ کھولنا تمہارے لیے زیادہ طاقت بخش ہے۔‘‘
یہ آنحضرت کی طرف سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت تھی۔اس لیے ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ کھولا۔ پھر جب ہم ایک اور منزل پر پہنچےتو آپ نے فرمایا:
’’صبح تم دشمن سے روبرو ہو گے اور روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ توانائی بخش ہے۔ لہٰذا تم روزہ نہ رکھو۔‘‘
(ابو سعید کہتا ہے:) یہ آنحضرت ﷺکی طرف سے واجب حکم تھا لہٰذا ہم نے روزہ نہیں رکھا۔
اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد وہ کہتےہیں: بے شک تو نے دیکھا کہ اس کے بعد بھی ہم رسول اللہﷺکے ہمراہ سفر میں روزہ رکھتے تھے۔‘‘(۴۸)
جواب:
الف۔ ابن عباس کی روایت سے سفر میں روزہ نہ رکھنے کے وجوب پر ہمارا استدلال اس بات پر موقوف نہیں کہ رسول اللہﷺ کا روزہ نہ رکھنا آپ کی آخری سیرت ہو ۔
پس یہ آپ کا آخری عمل ہو یا نہ ہو بہر صورت مذکورہ حدیث عدم جواز کے حکم کو ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ جو فقہاء عدم جواز کے قائل ہیں وہ تو اس حوالے سے کسی گزشتہ اجازت یا جواز کے قائل ہی نہیں جو مذکورہ حدیث سے استدلال اس بات پرموقوف ہو کہ یہ رسولﷺ کا آخری فعل اور ناسخ تھا۔ یہ تھا ہمارا جدلی جواب جس کا ہم نے ذکر کیا ۔
ب۔ سنت نبوی کے حوالے سے زہری اس بات کا قائل ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا ہی سنت لاحقہ ہے۔مسلم نے اسے درست قرار دیتے ہوئے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے جیسا کہ ذکر ہو چکا ۔
ج۔ ابن عباس کی حدیث اور ابو سعید خدری سے مروی حدیث میں کوئی تعارض اور تضاد موجود نہیں ہے۔ان دونوں میں سے ہر ایک کا موضوع بحث دوسرے سے الگ ہے۔ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف سفر میں بعض صحابہ روزہ دار تھے جبکہ بعض روزے سے نہیں تھے۔ موصوف نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ یہ سفر رمضان میں ہوا تھا یا کسی اور مہینے میں نیز ان کے روزے رمضان کے روزے تھے (جو ہمارا موضوع بحث ہے) یا نہیں ۔ جبکہ ابن عباس کی روایت میں واضح طور پر رمضان کے روزوں کی بات ہوئی ہے۔اس میں صاف بتایا گیا ہے کہ نبیﷺ نے سفر میں اس سے منع فرمایا تھا ۔
بنا بریں ان دونوں حدیثوں کے درمیان کوئی منافات یا تعارض نہیں ہے کیونکہ زہری کہتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا نبی کی آخری سنت ہے۔اس سے مراد یہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی کے تمام روزوں میں آپ کی آخری سیرت یہی ہے۔اگر مراد یہ ہوتی تو ابوسعید خدری کی روایت اور زہری کے کلام کے درمیان تعارض ہوتا۔ زہری کی مراد یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے سفر میں آنحضرت ﷺکا آخری عمل روزے کا قصر تھا جبکہ ابو سعید خدری اس روزے کی بات نہیں کر رہے ہیں جو ماہ ِ رمضان کے سفر میں پیش آیا تھا۔
یاد رہے کہ سیرت نبوی کے مطالعے کی رو سے یہ بات ثابت ہی نہیں کہ آپﷺنے فتح مکہ کے سفر کے علاوہ(جس کا ذکر ابن عباس نے کیا ہے)رمضان میں سفر فرمایا ہو۔ تاریخ کی اس گواہی سے زہری کے قول کی تائیدہوتی ہےاور ابو سعید خدری کی روایت میں موجود اس فقرے:’’تو نے دیکھا ہے کہ ہم اس کے بعد رسول اللہﷺکے ساتھ سفر میں روزہ رکھتے تھے‘‘ کے لیے بھی قرینہ بنتی ہے کہ اس جملے میں ابو سعید کا مقصود وہ سفر ہیں جو رمضان میں واقع نہ ہوئے ہوں۔
یہ تھا ابن عباس کی روایت کے ذریعے رمضان میں مسافر کے روزے کی حرمت پر استدلال کرنے والوں پر شوکانی کے اعتراضات کا جواب۔
۲۔ ’’اولئک العصاۃ‘‘
والی حدیث ان اصحاب کے بارے میں وارد ہوئی ہے جنہوں نے فتح مکہ کے سال آنحضرت ﷺ کے ہمراہ سفر کے دوران آپ کے منع کرنے کے باوجود رمضان کے روزے رکھے تھے۔اس حدیث سے ابن عباس کی سابق الذکرحدیث کی تائید ہوتی ہے جو اسی واقعے سے مربوط ہے۔
شوکانی نے جمہور(اہل سنت) کی طرف سے یہ جواب دیا ہے کہ رسول خداﷺنے سفر میں روزہ رکھنے والوں کو اس لیے سرکش و نافرمان کہا کیونکہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے تاکیدی حکم کی مخالفت کی تھی
(یعنی آپ نے انہیں نافرمان اس لیے نہیں کہاکہ ان کے لیے سفر میں روزہ رکھنا حرام تھا۔مترجم)
تبصرہ۔شوکانی کی یہ توجیہ بھی الفاظ کو گھما پھرا کر استدلال کو الجھانے سے عبارت ہے کیونکہ جب رسول اللہﷺ نے ان پر قصر کو لازم قرار دیا تو یہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہے۔
شاید شوکانی کا مقصد یہ ہو کہ ان لوگوں کے نافرمان ٹھہرنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ انہوں نے روزے کے بارے میں اللہ کے کسی تشریعی حکم کی کی مخالفت کی تھی بلکہ انہوں نے پیغمبرﷺ کے اس حکم کی مخالفت کی تھی جو آپ نے ان کے حاکم اور سرپرست ہونے کی حیثیت سے دی تھی اور اس حاکمانہ دستور کی مخالفت کی وجہ سے وہ لوگ نافرمان قرار پائے تھے۔
جواب: رسول اللہﷺیہاں حکم شرعی بیان فرما رہے تھے۔یہ انتظامی امور سے مربوط کوئی حاکمانہ دستور نہیں تھا۔اگرایسا ہوتا تو مذکورہ احتمال کی گنجائش ہوتی ۔پھر اگر یہ احتمال درست ہو تو آنحضرتﷺ کے سارے تشریعی احکام حاکمانہ ٹھہریں گے۔ اس صورت میں ہمارے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ آپ کے کسی بھی حکم سے شریعت کو ثابت کر سکیں۔ کیونکہ ہر حکم کے بارے میں اس بات کا احتمال رہے گا کہ شاید وہ شرعی نہ ہو بلکہ عارضی اور حاکمانہ ہو۔ یوں یہ احتمال شریعت کے لیے ایک عظیم سانحہ ثابت ہوگا ۔(۴۹)
۳۔حدیث نبوی :
’’لیس من البر الصیام فی السفر‘‘
(سفر میں روزہ رکھنا نیکی اور اچھا عمل نہیں) کا اہل سنت نے دو طرح سے جواب دیا ہے:
پہلا جواب ۔ نبی کریمﷺ نےسفر کی وجہ سے شدید مشقت میں مبتلا انسان کے بارے میں یہ جملہ فرمایا ہے۔
دوسرا جواب ۔ نیکی اور بھلائی کی نفی کرنے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اگر روزہ رکھا جائے تو وہ باطل ہو جائے۔
پہلے جواب کا جواب : اگر چہ یہ حدیث ایک ایسے شخص کے بارے میں صادر ہوئی ہے جس نے روزہ رکھ کر اپنے آپ کو مشقت اور ضررمیں مبتلا کیا تھا لیکن رسول اکرمﷺنے اپنے کلام میں اس خاص زاویے کو مد نظر نہیں رکھا بلکہ آپ نے صرف سفر کے زاویے کو مدنظر رکھا اور مطلق سفر کےبارے میں فرمایا: ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔‘‘ اگر رسولﷺ کا مطمح نظر شوکانی کے بشمول دیگر اہل سنت کے نظرئے کے موافق ہوتا توحدیث نبوی کے الفاظ کچھ یوں ہوتے: جو روزہ مشقت اور تکلیف کا باعث ہو اس میں نیکی و بھلائی نہیں۔ اس صورت میں حدیث کا یہ حکم صرف اس روزے کو شامل ہوتا جو سفر میں ضرر اور مشقت کا موجب ہو نیز یہ بیان اتنا واضح اور صریح ہوتا کہ شوکانی کو اہل سنت کے موقف پر اعتراضات کا جواب دینے کے لیے خود کو تھکانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
اہل سنت کے موقف کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ معیار الفاظ کی عمومیت ہے نہ کہ سبب کا خاص ہونا۔
پھرشوکانی اس اعتراض کا جواب یوں دیتے ہیں: کہا گیا ہے کہ کلام کا سیاق و سباق اور قرائن تخصیص پردلالت کرتے ہیں۔اس کے بعد وہ ابن دقیق العید کا قول نقل کرتے ہیں:
کہ اگر کسی خاص سبب کی وجہ سے کوئی حکمِ عام صادر ہو تو وہ سبب(حکمِ عام کی )تخصیص کا باعث نہیں بنتا......البتہ کلام کے سیاق و سباق اور قرائن و شواہد سے مجملات کی وضاحت ہوتی ہے (عام کی تخصیص ہوتی ہے)جیسا کہ اس حدیث میں یہی ہوا ہے۔
یہاں ان ساری باتوں (عام و خاص کی لمبی بحث) کی کوئی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہاں سبب ِ صدور کا دائرہ محدود اور ذکر شدہ الفاظ کا دا ئرہ وسیع و عام نہیں بلکہ دونوں میں مطابقت پائی جاتی ہے (بالفاظِ دیگر یہاں عام و خاص کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔مترجم)اگر عام و خاص کا مسئلہ ہوتا تو یہ کہنے کی نوبت آتی کہ معیار سبب کے دائرے کا خاص ہونا نہیں بلکہ لفظ کی عمومیت ہے۔یہاں الفاظ کا تعلق بھی مسافر سے ہے اور سببِ صدور بھی مسافر ہی ہے ۔
پھر یہ کہنے کی بھی کوئی وجہ نہیں بنتی کہ سیاق وسباق اور قرائن تخصیص پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ یہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو مشقت اور ضرر (خاص) کو قصر کے حکم کا معیار قرار دے۔ حدیث کے صریح الفاظ سفر کو ہی حکم کا معیار قرار دے رہے ہیں۔
پس ہم کس دلیل کی بنا پرحدیث کی واضح دلالت کے باوجود سفر کی بجائے مشقت اورعسروحرج کو حکم کا معیار قرار دے سکتے ہیں؟
اگر ہم کلام کے سیاق و سباق، قرائن اور ابن دقیق العید کے کلام کو مد نظر رکھیں تو ہمیں یہ کہنا پڑےگا کہ حدیث کے صریح الفاظ کے مطابق حکم کا معیار خود سفر ہے نہ کہ مشقت یاعسر و حرج جسے اس حدیثِ نبوی میں نظر انداز کیا گیا ہے ۔
(جاری ہے)
---
حوالہ جات:
۴۶ ۔صحیح بخاری۵/۹۰،مطبوعہ دارالفکر،صحیح مسلم ۳/۱۴۰،مطبوعہ دارالفکر
۴۷ ۔صحیح مسلم۳/ ۱۴۱
۴۸ ۔ صحیح مسلم ۳/ ۱۴۴
۴۹ ۔ بنیادی قاعدہ یہ ہے : کہ رسولﷺ کے تمام اوامرو نواہی اپنے موضوع کے شرعی حکم کو بیان کرنے کے لیے صادر ہوئے ہیں مگر یہ کہ کوئی یقینی ثبوت ہو جو یہ بتائے کہ کوئی حکم دینِ اسلام کا دائمی اور شرعی حکم نہیں بلکہ عارضی ،حاکمانہ اور انتظامی نوعیت کا ہے۔ اب اگر کہیں شک ہو کہ کوئی حکم شرعی ہے یا حاکمانہ اور عارضی تو بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ وہ حکم اس موضوع کا دائمی اور شرعی حکم ہے نہ کہ وقتی اور انتظامی۔ یہاں پر بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ عارضی و حاکمانہ ہونے پر کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔ لہٰذا یہ حکم شرعی و دائمی ہے اور رسول اللہﷺ کی طرف سے انہیں نافرمان قرار دینے کا سبب بھی حکمِ شرعی کی مخالفت ہی ہے۔ مترجم۔
---
ماخوذ ازکتاب: مسافر کا روزہ
)عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں (۲۷) (
نام کتاب: اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع : علم فقہ
مولف : سید عبد الکریم بہبہانی
مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی: غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی
ایڈیٹنگ : حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ : حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت : اول ۲۰۱۸
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت(ع)
جملہ حقوق محفوظ ہیں