امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

مسافر کا روزہ ۔ قسط نمبر-۱

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مسافر کا روزہ ۔ قسط نمبر-۱
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نوٹ: درج ذیل مقالات کے۸ اقساط پر مشتمل اور کتاب: مسافر کا روزہ  - سے ماخوذ ہے
۔۔۔
مسافر کا روزہ  

(عالمی مجلس اہل بیت، اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں  (۲۷) )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
  اہل البیت علیہم السلام،قرآن کے آئینے میں:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃٔ احزاب/۳۲ )
اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ تو  بس یہی ہے  کہ وہ  آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے  پاک و پاکیزہ رکھے  جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
اہل بیت  علیہم السلامسنت  نبوی کے آئینے میں:
اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللہِ وَعِتْرَتِیْ اَھْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ(صحاح و مسانید)
میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں  چھوڑے جارہاہوں۔وہ  اللہ کی کتاب  اور میری عترت  یعنی  میرےاہل بیت ہیں۔جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ  نہیں ہوگے۔
عرضِ مجلس
اہل بیت علیہم السلام  کا علمی و فکری ورثہ  جسے  مکتب اہل بیت  نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے  ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے  مکتب فکر  کی تصویر  پیش  کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ  کی مختلف  جہات کو محیط ہے  ۔اس مکتب فکر نے    اسلامی  معارف  کے اس صاف سرچشمے  سے سیراب  ہونے  کے لائق  نفوس  کی ایک کھیپ کو پروان  چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر  نے امت مسلمہ  کو  ایسے  عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت  علیہم السلام کے نظریاتی  نقش قدم پر چلے ہیں  ۔اسلامی معاشرے کے اندر  اور باہر  سے تعلق رکھنے  والے  مختلف  فکری مناہج  اور مذاہب  کی جانب  سے اُٹھنے والے سوالات  ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل  نظر رہی ہے  ۔
یہ علماء  اور دانشور  مسلسل  کئی صدیوں  تک ان سوالات  اور شبہات کے  معقول ترین اور محکم ترین  جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس  اہل بیت   نے اپنی  سنگین ذمہ داریوں  کو محسوس  کرتے ہوئے  ان اسلامی تعلیمات  و حقائق  کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے  جن پر مخالف  فِرق  و مذاہب  اور اسلام  دشمن  مکاتب  و مسالک کے اربابِ بست و کشاد  نے  معاندانہ توجہ  مرکوز رکھی ہے ۔ عالمی  مجلس اہل بیت   نے اس  سلسلے میں  اہل بیتعلیہم السلام  اور مکتب   اہلبیت کے ان   پیروکاروں  کے نقش قدم  پر چلنے کی سعی  کی ہے جنہوں نے  ہر دور   کے مسلسل  چیلنجوں  سے معقول ،مناسب  اور مطلوبہ  انداز میں  نمٹنے  کی  کوشش کی ہے ۔
اس سلسلے میں  مکتب اہل بیت  کے علماء کی کتابوں  کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں  کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں  ،عقل و  برہان کی بنیادوں  پر استوار ہیں  اور  مذموم  تعصبات و خواہشات سے پاک  ہیں  نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین  کو اس انداز میں  اپنا مخاطب  قرار دیتی  ہیں  جو عقل سلیم  اور فطرت سلیمہ   کے ہاں  مقبول  اور پسندیدہ  ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں  کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ  اور شبہات  و اعتراضات کے بارے میں  بے لاگ سوال و جواب   کا ایک  جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی   اٹھائے جاتے رہے ہیں  اور آج بھی انہیں  ہوا دی جارہی ہے ۔
اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے  بعض  حلقے  اس سلسلے میں  انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد  کررہے  ہیں  ۔اس بارے   میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی  رہی ہے کہ لوگوں  کے جذبات اور تعصبات کو مذموم  طریقے  سے بھڑکانے سے اجتناب  برتا جائے جبکہ عقل  و فکر  اور طالبِ حق نفوس  کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں  جنہیں  اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب  پورے عالم کے سامنے پیش  کرتا ہے اور وہ بھی  اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں  تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔
یہاں  اس بات کی طرف اشارہ ضروری  ہے کہ زیر نظر تحقیقی  مباحث  ممتاز  علماء  اور دانشوروں  کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر  اور قدر دان ہیں  جن میں سے  ہر ایک نے ان علمی  مباحث  کے مختلف حصوں  کا جائزہ  لے کر ان کے بارے میں  اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔
ہمیں امید ہے کہ  ہم نے  اپنی  ان ذمہ داریوں  میں  سے بعض  کو ادا کرنے میں  ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم   رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں  جس نے اپنے رسول کو  ہدایت  اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان  پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی  کافی ہے ۔
عالمی مجلس اہل بیت  شعبہ ثقافت

 

تمہید
مکتب اہل بیت سے مختص فقہی مسائل میں سے ایک یہ ہے کہ سفر میں مسافر پر قصر واجب ہے یعنی سفر میں رمضان کا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ صحابہ میں سے عبدالرحمن بن عوف،حضرت عمر، ان کے صاحبزادے عبداللہ، ابوہریرہ، (ام المؤمنین) عائشہ اور ابن عباس جبکہ تابعین میں سے سعید بن مسیب، عطا، عروہ بن زبیر، شعبہ، زہری، قاسم بن محمد بن ابی بکر، یونس بن عبید اور ان کے پیروکار بھی سفر میں قصر کو لازم اور روزہ رکھنے کو ناجائز سمجھتے تھے۔
ظاہری مذہب کے فقہاء کا بھی یہی فتویٰ ہے  (المحلی ،ج۶،ص۲۵۸)    جبکہ مذاہب اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی مذاہب)کے فقہاء کے نزدیک سفر میں روزہ قصر کرنا جائز ہے یعنی مسافر کو اختیار ہے کہ وہ روزہ رکھے یا نہ رکھے۔ ان فقہاء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ مسافر کے لیے  روزہ رکھنا افضل ہے یا روزہ کھولنا؟
 اس مسئلے کی عملی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ طرفین کے دلائل کا مطالعہ کیا جائے اور ان کی جانچ پرکھ کی جائے۔
اس سے قبل ہم دو تمہیدی مباحث پیش کریں گے۔ پہلے تمہیدی مبحث میں ہم اس مسئلے کا قرآنی زوایہ نگاہ سے جائزہ لیں گے جبکہ دوسرے مبحث میں احادیث و روایات کی روشنی میں بحث ہوگی۔
مسافر کا روزہ قرآن کی روشنی میں
فقہ و حدیث کی رو سے بحث کرنے سے قبل اس بارے میں قرآنی نصوص اور آیات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
 يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلىَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كاَنَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَ عَلىَ الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيرًْا فَهُوَ خَيرٌْ لَّهُ وَ أَن تَصُومُواْ خَيرٌْ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔شهرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْءَانُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى‏ وَ الْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبرِّواْ اللَّهَ عَلىَ‏ مَا هَدَئكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُون۔
( بقرہ ۱۸۳۔۱۸۵۔  اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔( یہ روزے) گنتی کے چند دن ہیں۔ پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کر لے ۔ جو لوگ روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرتے ہیں وہ فدیہ دیں جو ایک مسکین کا کھانا ہے۔پس جو اپنی خوشی سے نیکی کرے اس کے لیے یہ بہتر ہے۔اگر تم سمجھو تو روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے۔رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور(حق و باطل میں)امتیاز کرنے والے ہیں۔لہٰذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار اور مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں مقدار پوری کرے۔ اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔وہ چاہتا ہے کہ تم مقدار پوری کرو اور اللہ نے تمہیں جس ہدایت سے نوازا ہے اس پر اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار کرو۔شاید کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔)
 ان آیات میں:
 فَمَن كاَنَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
واضح اور قطعی طور پر بیان کرتا ہے کہ مسافر کی ذمہ داری ہے کہ وہ سفر میں روزہ نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضا کرے۔ آیت کریمہ کی ظاہری دلالت سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ سفر میں روزہ کھولنا واجب ہے اور روزہ رکھنے کے جواز کانظریہ غلط ہے۔ اسی لیے جواز کے قائلین  قرآنی دلیل سے تہی دامن ہونے کا احساس کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کی تأویل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
چنانچہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیت میں کوئی  چیز محذوف ہے ۔وہ یہ دعویٰ اس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے زعم میں اپنے نظریے کے حق میں کوئی قرآنی دلیل پیش کرسکیں۔
مذکورہ بالا  آیت کی طرح یہ آیت:
 فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ
(تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے یعنی مقیم ہو  وہ روزہ رکھے)بھی سفر میں قصر کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ حکم خداوندی:’’جو اس رمضان میں مقیم ہو وہ روزہ رکھے‘‘ کا مفہومِ مخالف  یہ ہے کہ جو رمضان میں حاضر نہ ہو بلکہ مسافر ہو وہ روزہ نہ رکھے۔ اسی لیے امام صادق علیہ السلام نے اس آیت کے حوالے سے فرمایا:
 ’’ما ابینها من شهد فلیصمه ومن سافر فلا یصمه ‘‘(الکافی،ج۴،ص ۱۲۶،باب کراہیۃ الصوم فی السفر)
ترجمہ:یہ  آیت کتنی واضح ہے کہ جو مقیم ہو وہ روزہ رکھےاور جو سفر کرے وہ روزہ نہ رکھے۔
سید عبد الحسین شرف الدین فرماتے ہیں:
’’سفر میں قصر کے واجب ہونے کی دلیل کے طور پر ہمارے لیے یہ ارشاد ربانی کافی ہے:
فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ وَ مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
کیونکہ یہ آیت متعدد زاویوں سے سفر میں روزہ قصر کرنےکے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔
پہلا زاویہ۔  اس آیت میں مقیم یعنی غیر مسافر کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ روزہ رکھے لیکن مسافر کو یہ حکم نہیں دیا گیا کیونکہ حکم ہوا ہے:
 ’’ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ ‘‘
یعنی تم میں سے کوئی اس مہینے میں حاضر و مقیم ہو تو وہ روزہ رکھے۔
یوں مسافر کو روزہ رکھنے کا حکم ہی نہیں دیا گیا ہے۔ لہٰذا اگر مسافر سفر میں روزہ رکھے تو یہ اس کی اپنی طرف سے دین میں کسی نئی  چیز  کا اضافہ سمجھا جائے گا جو دین کا حصہ نہ ہو۔
دوسرا زاویہ۔
 فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَلْيَصُمْهُ
 (جو رمضان کے مہینے میں مقیم ہو وہ روزہ رکھے) کا مفہومِ مخالف  یہ ہے کہ اگر کوئی مقیم   نہ ہو تو اس پر روزہ واجب نہیں ہوگا۔علمائے علمِ اصول الفقہ کے مطابق مفہومِ شرط حجت ہے۔
پس آیت کریمہ اپنے منطوق ومفہوم کے ذریعے یہ بتاتی ہے کہ مسافر پر رمضان کا روزہ واجب نہیں۔
تیسرا  زاویہ۔ آیت کریمہ کے اس حصے:
’’ وَ مَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلىَ‏ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ‘‘
کا مطلب در اصل  یہ ہے:
 فعلیه عِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ
یعنی  بیمار اور  مسافر  پر لازم ہے کہ دیگر ایام میں (قضا شدہ)عدد پوری کرے۔یہ اس صور رت میں ہے کہ ہم
" فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَر" میں لفظ "فَعِدَّةٌ"
کو رفع کے ساتھ پڑھیں۔ لیکن اگر ہم فَعِدَّة کو منصوب یعنی" فَعِدَّةً" پڑھیں  تو "  فَلیَصُم  " کا لفظ مقدر رہے گا اور معنی یہ ہوں گے:
" فَلْيَصُمْ عدۃً من ایام اخر"
(اس پر لازم ہے کہ دوسرے ایام میں قضا کی تعداد پوری کرے۔)
بہر صورت یہ آیت رمضان میں سفر کرنے والے پر دوسرے ایام میں روزے کی قضاء کو واجب قرار دیتی ہے۔ ظاہر ہے قضاء  تب واجب ہوگی جب رمضان میں سفر(اور بیماری) کی صورت میں روزہ نہ رکھنا واجب ہو کیونکہ اولاً آج تک کسی نے قضا واداء دونوں کے واجب ہونے کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔
ثانیاً ادا  اورقضا دونوں کا واجب ہونا آیت میں مذکور اس علتِ حکم سے بھی متصادم ہے جو یہ ہے کہ خدا آسانی چاہتا ہے جبکہ جمع یعنی ادا و قضا دونوں کا وجوب باعث مشقت ہے۔
چوتھا زاویہ ۔ آیت کریمہ میں دوسرے ایام میں روزہ رکھنے کا حکم دینے کے بعد ذکر ہوا ہے ’’یرید اللہ بکم الیسرو لا یرید بکم العسر‘‘ ترجمہ: اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے،سختی و مشقت نہیں۔
 واضح ہے کہ(مسافر اور مریض کے لیے) آسانی روزہ نہ رکھنے میں ہے جبکہ سختی اورمشکل روزہ رکھنے میں ہے۔ لہٰذا آیت شریفہ کا صاف مفہوم یہ ہوگا: خدا چاہتا ہے کہ تم روزہ نہ رکھو اور یہ نہیں چاہتا کہ تم روزہ رکھو۔
(مسائل فقہیہ: ۶۷۔ ۶۸ ،مطبوعہ عالمی مجلس ا ہل بیت)
---
حوالہ اور ماخذ:
نام کتاب:         اہل بیت کی رکاب میں ۔مسافر کا روزہ
موضوع :         علم فقہ
مولف :         سید  عبد الکریم بہبہانی    
مترجم :          حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
نظرثانی:        غلام حسن جعفری/محمد علی توحیدی        
ایڈیٹنگ :        حجۃ الاسلام شیخ سجاد حسین مفتی
کمپوز نگ :         حجۃ الاسلام غلام حسن جعفری
اشاعت :        اول  ۲۰۱۸
ناشر:         عالمی مجلس اہل بیت(ع)
ایمیل :        www.ahl-ulbait.og
جملہ حقوق محفوظ ہیں

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک