قصاص یعنی خون کا بدلہ خون
قصاص یعنی خون کا بدلہ خون
انتقام لینااسلامی طریقہ ہے
ترجمہ و مختصر(بلاغ القران) تفسیر قرآن الکریم سورہ بقرہ ۱۷۷ سے ا۸۰ تک
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرة -۱۷۷)
نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو، بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ جو کوئی اللہ، روز قیامت، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنا پسندیدہ مال قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے نیز جب معاہدہ کریں تو اسے پورا کرنے والے ہوں اور تنگدستی اور مصیبت کے وقت اور میدان جنگ میں صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔
تشرح:" رسولِ کریم صلىاللهعليهوآلهوسلم سے مروی ہے:
من عمل بهذه الآية فقد استكمل الايمان ۔ (بحار الانوار 66: 346)
جو اس آیت پر عمل کرے اس کا ایمان کامل ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَىٰ بِالْأُنْثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (بقرة -۱۷۸)
اے ایمان والو! تم پر مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، ہاں اگر مقتول کے بھائی کی طرف سے قاتل کو (قصاص کی) کچھ چھوٹ مل جائے تو اچھے پیرائے میں (دیت کا) مطالبہ کیا جائے اور (قاتل کو چاہیے کہ) وہ حسن و خوبی کے ساتھ اسے ادا کرے، یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے، پس جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔
تشرح:۔ یہودیوں کے ہاں قصاص ایک لازمی اور ناقابلِ تلافی سزا ہے۔ ملاحظہ ہو خروج 21، 22 عدد 35۔ عیسائی کہتے ہیں : قصاص کی سزا فقط خاص حالات میں دی جا سکتی ہے۔ اسلام نے یہاں عادلانہ اور فراخدلانہ راہ اختیار کی ہے اور تین راہوں میں سے ایک راہ اختیار کرنے کا حق دیا ہے: ٭قصاص یعنی خون کا بدلہ خون ٭ دیت یعنی خون کا بدلہ مال٭ معافی یعنی نہ خون نہ دیت۔
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (بقرة -۱۷۹)
اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، امید ہے تم (اس قانون کے سبب) بچتے رہو گے۔
تشرح:۔ جو لوگ قصاص کو جانوں کے تلف کرنے کا اعادہ اور جذبۂ انتقام کا فروغ تصور کرتے ہیں، ان کی نظر میں قصاص صرف قاتل اور مقتول تک محدود ہے جبکہ قصاص کا تعلق پوری انسانیت سے ہے اور اس قانون سے قتل میں کمی واقع ہو جاتی ہے، خواہ قصاص عملاً معاف ہو جائے یا دیت لے لی جائے نیز قصاص اندھا انتقام نہیں بلکہ یہ ایک مہذب قانون ہے۔ چنانچہ مقتول کے وارثین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود قاتل سے انتقام لیں۔ ورثاء عدالت کی طرف رجوع کریں گے اور اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ قانونِ قصاص پر عمل کرائے خواہ مقتول کا کوئی وارث ہو یا نہ ہو۔ چشم جہاں نے دیکھ لیا کہ جس دن سے زندان نے قصاص کی جگہ لی ہے، دنیا میں قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے نیز دفاع میں جب قتل سے پہلے قتل جائز ہے، قصاص میں قتل کے بعد قتل کیسے جائز نہ ہو گا۔
قصاص پر اعتراض کرنے والی ایک مہذب قوم نے اپنے ایک فرد کا بدلہ دوسری پوری قوم سے لیا۔ وہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تیسری دنیا میں نسل کشی سے باز نہیں آتے،پھر قصاص کو غیر انسانی عمل کہتے ہیں!
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (بقرة -۱۸۰)
تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔
تشریح:
تَرَکَ خَیۡرَۨا سے مراد مال ہے۔ قرآن مجید میں مال کو یہاں خیر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مال اگرچہ خود مقصد تو نہیں، لیکن اگرکسی نیک مقصد کا ذریعہ بنتا ہو تو اس میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے خیر سے مال کثیر مراد لیا ہے۔ چنانچہ ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس صرف سات سو درہم تھے آپ علیہ السلام نے وصیت کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا:
امیرالمؤمنین (علیه السلام)- أَنَّهُ دَخَلَ عَلَی مَوْلًی لَهُ فِی مَرَضِهِ وَ لَهُ سَبْعُمِائَهًِْ دِرْهَمٍ أَوْ تِسْعُمِائَهًِْ دِرْهَمٍ فَقَالَ: أَ لَا أَوْصَی فَقَالَ (علیه السلام) إِنَّمَا قَالَ اللَّهُ إِنْ تَرَکَ خَیْراً وَ لَیْسَ لَکَ کَثِیرُ مَال ۔ (فقہ القرآن 2: 301)
اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ خیر چھوڑ جائے اور تیرے پاس کثیر مال نہیں ہے۔