امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

ان لوگوں کے شرائط جوسہم سادات کے مستحق ہیں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ان لوگوں کے شرائط جوسہم سادات کے مستحق ہیں
مسئلہ 2442:سہم سادات کے مستحق افراد کے لیے جنہیں خمس کا سہم سادات دیا جا سکتا ہے چند شرط کی رعایت لازم ہے:

سہم سادات لینے والا سید شیعہ اثنا عشری اور غریب[291] ہو اور خمس کو حرام کام میں خرچ نہ کرے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس کو خمس دینا گناہ میں مدد شمار نہ ہو ؛ اور اسی طرح احتیاط واجب کی بنا پر شراب خوار اور بے نمازی اور کھلے عام گناہ کرنے والا شخص نہ ہو؛ اور احتیاط واجب کی بنا پر جو شخص خمس دے رہا ہے اس کا واجب النفقہ (یعنی اس کا نفقہ خمس دینے والے پر واجب ) نہ ہو۔

مسئلہ 2443:اس سید سے مراد جسے سہم سادات دیا جا سکتا ہے وہ شخص ہے جس کا نسب باپ کی طرف سے ہاشم، پیغمبر اکرم ﷺکے جد اعلیٰ تک پہونچے اور خمس لینے کے لیے ماں کی طرف سے سید ہونا کافی نہیں ہے۔

مسئلہ 2444: اگر کوئی شخص کہے میں سید ہوں تو اسے خمس نہیں دیا جا سکتا مگر یہ کہ دو عادل شخص اس کے سید ہونے کی گواہی دیں یا کسی اور طریقے سے انسان کو یقین یا اطمینان ہو جائے کہ سید ہے۔

مسئلہ 2445: جو شخص اپنے شہر میں سید ہونے میں مشہور ہے اگر انسان کو اس کے خلاف یقین یاا طمینان نہ ہو تو اسے خمس دے سکتا ہے۔

مسئلہ 2446: غریب وہ شخص ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال کا خرچ اپنی شان کے مطابق نہ رکھتا ہو اور اس کو فراہم کرنے سے ناتوان ہو اور مسکین وہ شخص ہے جو اپنی زندگی غریب انسان سے زیادہ سختی میں گزار رہا ہے اور اس کی زندگی کی حالت زیادہ نامناسب ہے مثلاً اپنے روزانہ کے ضروری اخراجات کو نہ رکھتا ہے۔

مسئلہ 2447: جو شخص در آمد کا کوئی ذریعہ رکھتا ہو مثلاً اپنے کام کے سرمایہ سے تجارت کر رہا ہو یا کوئی ملکیت (پراپرٹی) رکھتا ہو جسے کرایہ پر دے رکھا ہو یا کھیتی، جانور پالنا، باغبانی، یا نوکری یا پیشہ، صنعت یا کوئی ہنر وغیرہ رکھتا ہے جس کی درآمد کے ذریعے اپنے سال کے اخراجات کو پورا کر سکتا ہو تو وہ غریب نہیں ہے اسے ان رقوم شرعیہ میں سے جس میں غریب ہونا شرط ہے نہیں دیا جا سکتا۔

مسئلہ 2448: جو شخص ایک در آمد کا ذریعہ رکھتا ہو جو اس کے سال کے اخراجات سے کم ہو اور اس کو پورا نہ کرتا ہو تو وہ غریب شمار ہوگا اور جتنی مقدار کم ہو اتنی مقدار رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے اس کے مستحق ہونے کے شرائط کو مدّنظر رکھتے ہو ئے دیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ 2449: جس شخص کے پاس کوئی ملکیت (پراپرٹی) یا اضافی سہم وغیرہ ہو کہ جسے بیچ کر اپنی زندگی کے اخراجات میں خرچ کر سکتا ہو یا سرمایہ یا کام کے آلات ضرورت سے زیادہ رکھتا ہو اور انہیں کم سرمایہ یا کم قیمت کام کے آلات میں تبدیل کر سکتا ہو اس طرح سے کہ وہ کم سرمایہ یا کم قیمت کام کے آلات کے ذریعے اس کی شان کے مطابق اس کی زندگی کا گزارا ہو رہا ہو تو اس صورت میں لازم ہے کہ ایسا کرے اور وہ غریب شمار نہیں ہوگا اور اس کے اخراجات کی کمی کو رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا لازم ہے پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ 2450: صنعت گر، یا تاجر اور ان کے مانند افراد جو کام کے لیے سرمایہ، یا اس کے آلات رکھتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی در آمد اس کے سال کے اخراجات سے کم ہو اور ضرورت کو پورا نہ کرتا ہو تو وہ غریب شمار ہوگا اور اس کے اخراجات میں جو کمی ہے اس کو رقوم شرعیہ سے بقیہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دے سکتے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ کام کے آلات یا ملکیت (پراپرٹی) یا سرمایہ جس کا ضرورت مند ہے اسے بیچے اور اپنی ضروریات میں خرچ کرے بلکہ اسے کام کے لیے باقی رکھ سکتا ہے۔

مسئلہ 2451: جو غریب شخص کام کرکے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کو مہیّا کر سکتاہے لیکن کاہلی کی وجہ سے کام نہ کرے تو اس کو رقوم شرعیہ میں سے کچھ دینا جائز نہیں ہے۔

مسئلہ 2452: وہ غریب شخص جس کے لیے کوئی ہنر ، صنعت، یامہارت سیکھنا جس سے حاصل ہونے والی درآمد حلال ہے۔ مشکل نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر رقوم شرعیہ لے کر زندگی نہیں گزار سکتا لیکن جب تک وہ سیکھنے میں مشغول ہے اور اس کے اخراجات میں کمی ہے اسے رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے بقیہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ 2453: جو شخص صرف ایسا کام کر سکتا ہے جو اس کی شان کے خلاف ہے اور درآمد کا کوئی دوسرا ذریعہ بھی نہ ہو تو وہ غریب شمار ہوگا اور اسی طرح انسان کسی صنعت یا کام کو انجام دینے پر قادر ہے لیکن اس کے آلات جو اس كی ضرورت ہیں اس کے پاس نہ ہوں اور کوئی دوسری بھی درآمد نہ رکھتا ہو تو وہ غریب شمار ہوگا۔

مسئلہ2454:جو شخص تحصیل علم میں مشغول ہے اور تحصیل علم میں مشغول ہونے کے سبب اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات شان کے مطابق مہیّا کرنے کی توانائی نہیں رکھتا اور اگر تحصیل علم نہ کرے تو امور معاش کے لیے کام کرکے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کو فراہم کر سکتا ہے تو چنانچہ اس علم کا حاصل کرنا واجب عینی ہو تو اُسے رقوم شرعیہ سے مستحق ہونے کی بقیہ شرطوں کی رعایت کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے اور اس صورت کے علاوہ اسے ایسی رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے نہیں دیا جا سکتا۔

مسئلہ 2455: جو شخص تحصیل علم میں مشغول ہے اور اسے معلوم ہے کہ چنانچہ تحصیل علم کو ترک کردے پھر بھی کوئی ایسا کام جس سے وہ اپنے اخراجات کو پورا کر سکےنہیں ملے گا یا پھر ایسا کام کرنا ہوگا جو اس کی شان کے خلاف ہے یا اگر کام ملے بھی تو اس کی بدنی اور جسمانی حالت ایسی ہے کہ بالکل کام نہیں کر سکتا یا اس کام کو کرنا اس کےلیے عسر و حرج (دشواری) رکھتا ہے یعنی حد سے زیادہ مشقت رکھتا ہے جو قابلِ تحمل نہیں ہے تو جب اس کے لیے ایسی حالت ہے اور کوئی دوسرا بھی درآمد کا ذریعہ نہیں رکھتا ہے تو وہ تحصیل علم کو جاری رکھ سکتا ہے غریب شمار ہوگا اور اس کے اخراجات میں جو بھی کمی ہے اسے ان رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا لازم ہے ۔ مستحق ہونے کی بقیہ شرطوں کی رعایت کرتے ہوئے دیا جا سکتا ہے گرچہ اس علم کا حاصل کرنا اس کےلیے واجب عینی نہ ہو۔

مسئلہ 2456: وہ غریب شخص جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال کا خرچ نہیں رکھتا اگر اس کے پاس اپنا گھر ہو جس میں وہ رہ رہا ہے یا گاڑی ہو چنانچہ اس کی شان کے مطابق ہو اور ان چیزوں کا ضرورت مند ہو گرچہ اپنی آبرو کو حفظ کرنے کے لیے ہو۔ تو انہیں بیچنا لازم نہیں ہے بلکہ اپنے اخراجات میں جو کمی ہے اسے رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے۔ مستحق ہونے کی بقیہ شرطوں کی رعایت کرتے ہوئے لے سکتا ہے۔

اسی طرح گھر کا سامان قالین، ظرف، گرمی اور ٹھنڈک کا لباس اور بقیہ چیزیں جن کا ضرورت مند ہے، بھی یہی حکم رکھتی ہیں اور وہ غریب جو یہ سب چیزیں نہیں رکھتا اگر ان کی ضرورت رکھتا ہو تو رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے( مستحق ہونے کی بقیہ شرطوں کی رعایت کرتے ہوئے) اسے دیا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر انسان کے پاس یہ چیزیں اس کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور اضافی مقدار اس کے سال کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیے کافی ہو تو وہ غریب شمار نہیں ہوگا اوراگر ایسے شخص کے پاس گھر ، گاڑی، یا وہ وسائل جن کا ضرورت مند ہے موجود ہو لیکن اس سے کم قیمت کے سامان بھی اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی اور وہ اضافی مقدار اس کے سال کے اخراجات کو پورا کرتا ہو تو اگر وہ اضافی مقدار اسراف کی حد تک ہے اور اس کی شان سے زیادہ ہے تو غریب شمار نہیں کیا جائے گا۔

مسئلہ 2457: جو شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال کے اخراجات رکھتا ہے یا اس تفصیل کے ساتھ جو گذشتہ مسائل میں بیان ہوئی فراہم کر سکتا ہے چنانچہ پہلے سے مقروض ہو تو غریب شمار نہیں ہوگا اور ان رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے اسے نہیں دیا جا سکتا اس بنا پر صرف قرض ادا کرنے سے ناتوانی جیسا کہ اس کے ادا کرنے کا وقت ہو چکا ہے، سبب نہیں ہے کہ اسے شرعاً غریب شمار کیا جائے (یہاں تک اس صورت میں بھی جب قرض دینے والے کا سختی سے مطالبہ کرنا یا کسی اور وجہ سے قرض کا ادا نہ کرنا اس کے لیے حرج رکھتا ہو یا اس کی حیثیت کے خراب ہونے کا باعث ہو) پس ایسے شخص کو رقوم شرعیہ سے کہ جس میں غریب ہونا شرط ہے نہیں دیا جا سکتا۔ [292]

مسئلہ 2458: جو شخص اپنے اور اپنے اہل و عیال کے سال کے اخراجات نہ رکھتا ہو اور گذشتہ تفصیل کے مطابق شرعاً غریب شمار ہوتا ہے اور اس کے علاوہ مقروض بھی ہے تو صرف اپنے اور ان لوگوں کے اخراجات جن کے سال کے اخراجات اس پر واجب ہیں جیسے اہل و عیال اس کے قرض کو لحاظ کئے بغیر ان رقوم شرعیہ سے جس میں غریب ہونا شرط ہے( مستحق ہونے کی شرائط کی رعایت کرتے ہوئے) دیا جا سکتا ہے گرچہ وہ اس پیسے سے( جو اپنے اوراپنے اہل و عیال کے اخراجات کے لیے قرض کو لحاظ کئے بغیر دریافت کیا ہے) قرض ادا کردے اور پھر اگر اپنے اور اہل وعیال کے اخراجات کے لیے محتاج ہوتو سال کے اخراجات میں سے کمی كے مطابق قرض کو لحاظ کئے بغیر رقوم شرعیہ سے کہ جس میں غریب ہونا شرط ہے بقیہ شرائط کے ہوتے ہوئے دیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ 2459: سہم سادات کے مصرف میں سے ایک سید یتیم ہے اور یتیم سے مراد وہ نابالغ سید بچہ ہے جس کا باپ نہ ہو اور سید یتیم جو غریب ہے اس کا سہم ا س کی ملکیت میں دیں اور اس کا ولی شرعی (جیسے دادا) یا باپ کا وصی یا وہ قیّم(سرپرست) جو حاکم شرع کی طرف سے منصوب ہے اسے قبول کرے تاکہ اس کے لیے خرچ کرے اور قابلِ ذکر ہے کہ سید یتیم جسے خمس دیا جا رہا ہے وہ غریب ہونا چاہیے۔

مسئلہ 2460: وہ مسافر سید جس کا خرچ، پیسہ وغیرہ ختم ہو گیا ہے یا اس کی گاڑی خراب ہو گئی ہے ، چنانچہ اس کا سفر گناہ کا سفر نہ ہو اور قرض کرنے یا کوئی چیز بیچنے کے ذریعے خود کو اپنے مقصد تک نہیں پہونچا سکتا گرچہ اپنے وطن میں غریب نہ ہو خمس لے سکتا ہے لیکن اگر کسی دوسری جگہ جاکر قرض دے سکتا ہے یا کسی چیز کو بیچنے کے ذریعے اپنے سفر کے اخراجات کو پورا کر سکتا ہے تو اتنی مقدار میں کہ اس جگہ تک پہونچ جائے خمس لے سکتا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اگر اپنے وطن میں کسی چیز کو بیچنے یا کسی مال کو کرائے پر دینے کے ذریعے اپنے راستے کا خرچ مہیّا کر سکتا ہے تو بھی خمس نہ لے۔

مسئلہ 2461: وہ سید جو سفر میں محتاج ہو گیا ہے جس شہر میں اُسے خمس دیا جا رہا ہے وہاں اس کا غریب ہونا کافی ہے گرچہ اپنے وطن میں غریب نہ ہو لیکن اُسے اتنی مقدار سے زیادہ جو اسے اس کے مقصد تک پہونچا دے نہیں دیا جا سکتا۔

مسئلہ 2462: وہ سید جو سفر میں محتاج ہو گیا ہے اگر اس کا سفر گناہ کا سفر ہو تو احتیاط واجب كی بنا پر اسے خمس نہیں دیا جا سکتا۔

مسئلہ 2463: وہ سید جو عادل نہیں ہے (ان مقامات کے علاوہ جو آئندہ مسئلے میں ذكر ہوں گے) یا اس کی عدالت معلوم نہیں ہے اُسے خمس دیا جا سکتا ہے لیکن جو سید شیعہ اثنا عشری نہیں ہے اسے خمس نہیں دے سکتے۔

مسئلہ 2464: جو شخص خمس گناہ میں خرچ کرتا ہے اُسے خمس نہیں دیا جا سکتا بلکہ اگر اسے خمس دینا اس کے گناہ میں مدد کرنا شمار ہو پھر بھی احتیاط واجب کی بنا پر اسے خمس نہیں دے سکتے ، گرچہ اسے گناہ میں خرچ نہ کرے، اور اسی طرح احتیاط واجب ہے کہ ایسا شخص جو شراب پیتا ہے یا نماز نہیں پڑھتا یا کھلے عام گناہ کرتا ہے اسے خمس نہ دیں۔

مسئلہ 2465: جس شخص کی دائمی بیوی سید ہ ہے احتیاط واجب کی بنا پر اس کے وہ اخراجات جو شوہر کے ذمے ہیں واجب خمس سے ادا نہیں کر سکتا اور اسی طرح اگر شوہر توانائی رکھتا ہو کہ بیوی غیر واجب اخراجات اس پر وسعت دینے کے لیے اپنے مال سے دے سکتا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اپنا خمس اپنی بیوی کو نہیں دے سکتا کہ اس طرح کے اخراجات میں خرچ کرے، لیکن اگر عورت پر دوسروں کے اخراجات واجب ہوں لیکن انفاق کرنے والے (شوہر) پر واجب نہ ہو اور عورت ان کے اخراجات کو پورا نہ کر سکتی ہو تو شوہر کے لیے اپنا خمس اسے دینا جائز ہے تاکہ ان کے اوپر خرچ کرے، (اس کی وضاحت نفقہ کی بحث میں آئے گی) مثال کے طور پر انسان کی بیوی کے پاس اس کے گذشتہ شوہر سے فرزند ہوں اور گذشتہ شوہر یا وہ شخص جس پر ان کا خرچ واجب ہے خرچ نہ دے رہا ہو، اور عورت بھی غریب ہو اور بچوں کا خرچ پورا نہ کر سکتی ہو تو انسان اپنی بیوی کو خمس دے سکتا ہے تاکہ وہ اسے ان بچوں پر جو گذشتہ شوہر سے ہیں خرچ کرے۔

مسئلہ 2466:اگر کسی سید یا سیدہ جو انسان کی بیوی نہیں ہے اس کے اخراجات انسان پر واجب ہو جسے ماں ، باپ کے اخراجات جو غریب ہیں، ان کے غنی بچوں پر یا ان بچوں کا خرچہ جو غریب ہیں ان کے غنی ماں باپ پر تو احتیاط واجب کی بنا پر انسان ان کے خوراک و پوشاک اور ان کے واجب بقیہ اخراجات کوخمس سے نہیں دے سکتا ، اسی طرح اگر انسان توانائی رکھتا ہو ان کے غیر واجب اخراجات ان پر وسعت کےلیے اپنے مال سے دے تو احتیاط واجب کی بنا پر اپنا خمس انہیں نہیں دے سکتا تاکہ ایسے اخراجات میں خرچ کریں۔

مسئلہ 2467: اس غریب سید کو خمس دیا جا سکتا ہے جس کے اخراجات دوسرے پر واجب ہیں اور وہ اس کے اخراجات نہیں دے سکتا یا رکھتا ہے لیکن دیتا نہیں ہے ۔[293]

مسئلہ 2468: احتیاط واجب یہ کہ غریب سید کو اس کے ایک سال کے اخراجات سے زیادہ خمس یا دوسری رقوم شرعی جس میں غریب ہو ناشرط ہے نہ دے گرچہ ایک دفعہ ہی میں کیوں نہ دے، بلکہ اگر خمس یا رقوم شرعی کہ جس میں غریب ہونا لازم ہے تدریجاً اسے دیں یہاں تک کہ اس کے اور اس کے اہل و عیال کے ایک سال کے اخراجات کےلیے کافی ہو جائے تو پھر اس سے زیادہ خمس یا دوسرے رقوم شرعیہ کو جس میں غریب ہونا شرط ہے نہیں دیا جا سکتا اسی طرح وہ شخص جس کے پاس اس کے سال کے اخراجات ہیں اگر اس میں کچھ مقدار خرچ کر دے اور بعد میں شک کرے جو کچھ بچا ہے اس کے ایک سال کے اخراجات کے لیے کافی ہے یا نہیں تو وہ خمس یا وہ رقوم شرعیہ جس میں غریب ہونا شرط ہے نہیں لے سکتا۔
[291] البتہ اس سید کےلیے جو سفر میں غریب ہو گیا ہے (ابن السبیل) اس کے لیے اس شہر میں غریب ہونا جہاں اسے خمس دیا جا رہا ہے کافی ہے۔

[292] البتہ اگر غارمین (مقروض افراد) کے شرائط ا رکھتا ہو کہ جو بعد میں آئے گا، تو اسے مال زكوٰۃ سے غارمین کے سہم کے عنوان سے دیا جا سکتا ہے۔

[293] البتہ ایسی عورت کو خمس دینا جس کا شوہر اس کے اخراجات نہیں دے رہا ہے اس صورت میں جائز ہے کہ شوہر کو غیر قابلِ تحمل سختی کے بغیر اخراجات دینے پر مجبور نہ کیا جا سکتا ہو۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک