خمس سات چیزوں پرواجب ہے: وہ کون سے ہیں؟
خمس سات چیزوں پرواجب ہے: وہ کون سے ہیں؟
۱:) کاروبار (یاروزگار) کامنافع۔
۲:)معدنی کانیں ۔
۳:)خزانہ۔
۴:)حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہوجائے۔
۵:)غوطہ خوری(یعنی سمندر میں ڈوبکی لگانے) سے حاصل ہونے والے سمندری موتی۔
۶:)جنگ میں ملنے والامال غنیمت۔
2- وہ حلال مال جو حرام میں مخلوط ہو جائے
مسئلہ 2390: اگر حلال مال حرام مال میں اس طرح مخلوط ہو جائے کہ انسان تشخیص نہ دے سکے اور حرام مال کا مالک اور اس کی مقدار کچھ بھی معلوم نہ ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ حرام کی مقدار خمس (ایک پنجم ۵؍۱ مال) سے کم ہے یا زیادہ ہے یا برابر ہے تو اس کا خمس ادا کرنے سے حلال ہو جائے گا، اور احتیاط واجب کی بنا پر اسے ایسے شخص کو دے جو مستحق خمس اور ردّ مظالم ہے اس لیے اس کا آدھا حصہ سید غریب کو دے اور دوسرا آدھا حصہ کسی غریب کو اپنی ضروری حاجات کو پورا کرنے کے لیے دے خواہ سید یا غیر سید ہو اوردونوں صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر اس کام کو مرجع اعلم کی اجازت سے انجام دے۔
مسئلہ 2391: اگر حلال مال حرام مال میں اس طرح مخلوط ہو جائے کہ انہیں تشخیص نہ دے سکے اور انسان کو اجمالی طور پر معلوم ہو کہ حرام کی مقدار خمس (ایک پنجم مال) سے کم ہے لیکن اس حرام مال کے مالک کے بارے میں معلومات حاصل نہ کر سکتا ہو:
الف: چنانچہ حرام مال کا حلال مال میں مخلوط ہونا خود انسان کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو مثلاً غلطی سے وہ مال اس کے مال سے مخلوط ہو گیا ہو تو کافی ہے کہ جتنی مقدار یقین ہے کہ حرام مال ہے اس کے حقیقی مالک کی طرف سے صدقہ دے۔
ب: چنانچہ حرام مال کا حلال مال میں مخلوط ہونا خود انسان کی کوتاہی کی وجہ سے ہو تو یقینی مقدار کے علاوہ اور مزید مقدار بھی جس کے بارے میں احتمال دے رہا ہو کہ حرام مال ہوصدقہ دے لیکن اس صورت میں کیونکہ ممکن ہے عین حرام[286]مال غریب کو دینا واجب ہو اور عین حرام مال قابلِ تشخیص بھی نہیں ہے تو پورا مال غریب کو دے اس نیت سے کہ حرام کی واقعی مقدار کو صدقہ کے طور پر دیا ہو اور غریب بھی اسی نیت سے دریافت کرے اور پھر غریب مصالحہ کے ذریعے اس مقدار کو جو یقیناً حلال تھا اور خود اس شخص کا مال تھا جدا کرکے واپس کردے اور احتیاط واجب کی بنا پر اس صدقے کو حاکم شرع کی اجازت سے دے۔
مسئلہ 2392: اگر حلال مال حرام مال میں اس طرح مخلوط ہو جائے کہ انسان انہیں تشخیص نہ دے سکے اور انسان کو اجمالی طور پر معلوم ہو کہ حرام مقدار خمس ( ایک پنجم ۵؍۱) سے زیادہ ہے تو گذشتہ مسئلے کا حکم رکھتا ہے اس کا خمس ادا کرنا کافی نہیں ہے۔
مسئلہ 2393: اگر حلال مال حرام مال میں مخلوط ہو جائے اور انسان کو حرام مال کی مقدار معلوم ہو خواہ وہ مقدار خمس (ایک پنجم ۵؍۱مال) سے کم ہو یا زیادہ ہو لیکن اس کے مالک کو نہ جانتا ہو تو لازم ہے کہ اس مقدار کو اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دے اور احتیاط واجب ہے کہ اس کام کو حاکم شرع کی اجازت سے انجام دے۔
مسئلہ 2394: اگر حلال مال حرام میں مخلوط ہو جائے اور انسان حرام مقدار کو نہ جانتا ہو لیکن اس کے مالک کو جانتا ہو تو اگر ممکن ہو تو مالک کی رضایت صلح وغیرہ کے ذریعے حاصل کرے اور اگر ایک دوسرے کو راضی نہ کر سکیں تو اگر حلال مال کا حرام مال میں مخلوط ہونا خود اس کی کوتاہی کی وجہ سے نہ ہو تو جتنی مقدار یقین یا اطمینان ہے کہ اس شخص کا مال ہے لازم ہے کہ اتنی مقدار اسے دے اور اس صورت میں اطمینان سے زیادہ مقدار کا دینا لازم نہیں ہے لیکن اگر حلال مال کا حرام مال سے مخلوط ہونا خود اس کی کوتاہی کی وجہ سے ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر یقینی مقدار سے زیادہ بھی جس کا احتمال دے رہا ہو کہ اس کا مال ہے اُسے دے قابلِ ذکر ہے کہ یہ مطلب اس وقت ہے جب مقدار کے معین کرنے میں یا یہ کہ ہر ایک کا حصہ مال کے کس حصے سے ہو آپس میں نزاع نہ رکھتے ہوں ورنہ لازم ہے کہ حاکم شرع کے پاس جائیں تاکہ ان کے درمیان نزاع کو حل کرے۔
مسئلہ 2395:اگر حلال مال حرام مال میں مخلوط ہو جائے اور انسان حرام کی مقدار کو جانتا ہو اور اس کے مالک کو بھی پہچانتا ہو تو واجب ہے کہ اسے مالک کو واپس کرے اور مال کا تعیّن (کہ کون سا حصہ کون لے گا) دونوں کی رضایت سے ہوگا۔
مسئلہ 2396: اگر انسان ایسے مال کا خمس ادا کردے جو حرام میں مخلوط ہو گیا تھا اور بعد میں معلوم ہو کہ حرام کی مقدار خمس سے زیادہ تھی تو جتنی مقدار خمس سے زیادہ تھی اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دے۔
مسئلہ 2397:اگر انسان ایسے مال کا خمس ادا کرے جو حرام میں مخلوط ہو گیاتھا اور بعد میں معلوم ہو کہ حرام مقدار خمس سے کم تھی تو احتیاط واجب کی بنا پر جتنی مقدار حرام مال سے زیادہ ادا کیا ہے اسے واپس نہیں لے سکتا۔
مسئلہ 2398: اگر ایسے مال کا خمس ادا کرے جو حرام میں مخلوط ہو گیا ہو یا ایسا مال کہ جس کے مالک کو نہیں جانتا مالک کی طرف سے صدقہ دے اور اس کا مالک مل جائے اور وہ راضی نہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کے مال کی مقدار اسے واپس کرے۔
مسئلہ 2399: اگر حلال مال حرام میں مخلوط ہو جائے اور حرام کی مقدار معلوم ہو اور انسان جانتا ہو کہ اس کا مالک چند معین افراد میں سے کوئی ایک ہے لیکن معلوم نہ ہو سکے کہ کون ہے تو لازم ہے کہ ان کو اطلاع دے چنانچہ ان میں سے ایک کہے کہ میرا ہے اور دوسرے کہیں کہ ہمارا نہیں ہے یا اس کی تصدیق کریں تو اسی شخص کو دے دے اور اگر دو فرد یا اس سے زیادہ کہیں کہ ہمارا ہے چنانچہ مصالحہ وغیرہ کے ذریعے ان کا نزاع حل نہ ہو تو نزاع کے فیصلے کےلیے حاکم شرع كی طرف رجوع کریں اور اگر سب کہیں کہ ہم اطلاع نہیں رکھتے اور مصالحہ بھی نہ کریں تو ظاہر ہے کہ اس مال کے مالک کو قرعہ اندازی سے معین کریں گے اور احتیاط واجب ہے کہ حاکم شرع یا اس کا وکیل قرعہ اندازی كرے۔
مسئلہ 2400: اگر وہ حلال مال جس میں حرام مال مخلوط ہو گیا ہے اس پر خمس واجب ہو جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ پہلے حلال مال جو حرام میں مخلوط ہے اُس کا خمس جس طریقے سے بیان کیا گیا ادا کرے اور پھر حلال مال پر خمس واجب ہونے کے سبب بقیہ حلال مال کا خمس بھی ادا کرے۔
مثال کے طور پر اگر انسان کے پاس 75 ہزار تومان حلال مال جو حرام میں مخلوط ہے موجود ہو جو خمس کی تاریخ پر باقی ہو اور اخراجات میں خرچ نہ ہو ا ہو اور اس تفصیل کے مدّنظر جو درآمد کے خمس کے بارے میں بیان ہوئی اس جہت سے بھی اس پر خمس واجب ہو تو پہلے 15 ہزار تومان حلال مال جو حرام میں مخلوط ہے اُس کا خمس دے اور پھر بچے ہوئے 60 ہزار تومان کا 12 ہزار تومان خمس درآمد کے خمس کے عنوان سے ادا کرے اور نتیجتاً اس کے پاس 48 ہزار تومان باقی بچے گا۔
مسئلہ 2401: اگر کسی کے ذمے میں حرام مال ہو لیکن عین حرام مال موجود نہ ہو تو حلال مال جو حرام مال میں مخلوط ہے کے عنوان سے اس کا خمس واجب نہیں ہے ، چنانچہ انسان حرام مال کی جنس اور اس کی مقدار کو جانتا ہو اور اس کے مالک کو بھی جانتا ہو تو لازم ہے کہ اسے واپس کرے اور اگر اس کے مالک کو نہ جانتا ہو لیکن ۔ چند محدود افراد میں سے ہے مثلاً جانتا ہو کہ چند مشخص افراد میں سے کوئی ایک ہے تو احتیاط واجب ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی رضایت حاصل کرے اور اگر سب کی رضایت ممکن نہ ہو تو قرعہ اندازی کرے اور اگر حرام مال کا مالک غیر محدود افراد میں سے ہو تو اس مال کو اس کے حقیقی مالک کی طرف سے صدقہ دے اور احتیاط واجب ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے صدقہ دے اور مسئلے کی دوسری صورتیں آئندہ مسائل میں بیان کی جائیں گی۔
مسئلہ 2402: اگر حرام مال کسی کے ذمے ہو اور حرام مال کی جنس کو جانتا ہو لیکن اس کی مقدار کو نہ جانتا ہو اور حرام مال کی مقدار کے نہ جاننے میں مقصر (کوتاہی کرنے والا) نہ ہو تو كم از كم مقدار جس کا یقین ہے کہ دوسرے کا مال ہے دینا کافی ہے اور اگر حرام مال کی مقدار نہ جاننے میں مقصر ہو تو احتیاط واجب ہے کہ زیادہ مقدار کو دے[287] اور ہر حال میں چنانچہ مالک کو جانتا ہو تو وہ مال مالک کو پلٹا ئے ، اور اگر اس کے مالک کو نہ پہچانتا ہو لیکن محدود افراد میں سے ہو مثلاً جانتا ہو کہ مالک چند مشخص افراد میں سے کوئی ایک ہے تو احتیاط واجب ہے کہ سب سے رضایت حاصل کرے اور اگر ان کی رضایت ممکن نہ ہو تو لازم ہے کہ قرعہ اندازی پر عمل کرے لیکن اگر اس مال کا مالک غیر محدود افراد کے درمیان نا معلوم ہو تو لازم ہے کہ مال کو اس مالک کی طرف سے صدقہ دے اور احتیاط واجب ہے کہ صدقہ حاکم شرع کی اجازت سے دے۔
مسئلہ 2403: اگر حرام مال انسان کے ذمے ہو اور وہ حرام مال کی جنس کو نہ جانتا ہو لیکن اتنا معلوم ہو کہ حرام مال قیمی[288] چیزوں میں سے ہے تو اس کا حکم اس جگہ کی طرح ہے جہاں جنس کو جانتا ہو کہ گذشتہ مسئلے میں بیان کی گئی لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ وہ حرام مال جو اس کے ذمے ہے مثلی [289] چیزوں میں سے ہے یا اسے معلوم نہ ہو کہ جو اس کے ذمے میں ہے مثلی تھی یا قیمی یا مختلف (یعنی دونوں تھی) تو اگر ممکن ہو اور ضرر یا سختی غیر قابلِ تحمل نہ ہو تو لازم ہے کہ جس طرح بھی ہو یقین حاصل کرے کہ اس کا ذمہ دوسرے کے مال سے بری ہو گیا ہے مثلاً مالک کے ساتھ مصالحہ کرے لیکن اگر ضرر یا غیر قابلِ تحمل مشقت کا باعث ہے تو قیمی چیزوں کا حکم اس کے بارے میں جاری ہوگا۔
مسئلہ 2404: اگر حرام مال جو انسان کے حلال مال میں مخلوط ہو گیا ہے خمس یا زکوٰۃ یا وقف عام یا خاص ہو تو اس صورت میں حرام سے مخلوط مال خمس دینے سے پاک نہیں ہوگا بلکہ اس مال کا حکم اس پر جاری ہوگا جس کا مالک معلوم ہے اور مال کو حرام سے پاک کرنے کے لیے خمس یا زکوٰۃ یا وقف کے ولی اور سرپرست كی طرف رجوع کیا جائے اور گذشتہ مسائل میں بیان شدہ طریقوں پر عمل کرتے ہوئے حرام مال کو حلال سے جدا کرے۔
3۔ معدن
مسئلہ 2405: معدن جیسے سونا، چاندی، المیونیم، تانبا، کچا تیل، پتھر کا کوئلہ، فیروزہ، عقیق، پھٹکری، نمک، سلفر (گندھك)، پارہ، اور دوسرے معدن سب انفال میں سے شمار ہوں گے یعنی مال امام علیہ السلام اور ان کی ملکیت ہے لیکن اگر کوئی شخص ان چیزوں میں سے کچھ نکالے تو اگر شرعاًؑ کوئی مانع نہ ہو تو وہ اسے اپنی ملكیت بنا سکتا ہے اور اگر نصاب کی حد تک پہونچ جائے تو لازم ہے کہ اس کا خمس ادا کرے۔
مسئلہ 2406: معدن کا نصاب 15 مثقال معمولی سکہ دار سونا ہے یعنی وہ چیز جو کان سے نکالی ہے خارج کرنے کا خرچ کم کرکے 15 مثقال معمولی سکہ دار سونے کی مقدار ہو تو لازم ہے کہ اس کا خمس بعد کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد: جیسے اسے خالص کرنے کا خرچ۔ فوراً اس کا خمس ادا كرے۔
مسئلہ 2407: وہ معدن جو انسان نے نکالا ہے چنانچہ اس کی قیمت نکالنے کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد 15 مثقال سکہ دار سونا نہ ہو تو معدن ہونے كی وجہ سے اس کا خمس دینا واجب نہیں ہے ، لیکن وہ چیز سال کے درآمد میں شمار ہوگی اور اس کا خمس اس صورت میں لازم ہے کہ خمس کی تاریخ تک باقی رہے اور اخراجات زندگی میں خرچ نہ ہو۔
مسئلہ 2408: جسپم، چونا، احتیاط لازم کی بنا پر معدن کا حکم رکھتا ہے پس اگر حد نصاب تک پہونچ جائے تو احتیاط لازم ہے کہ انسان اس سے مربوط اخراجات کو کم کرنے کے بعد اس کا خمس فوراً اپنے سال کے اخراجات (خود اور اہل و عیال کے اخراجات) کو کم کئے بغیر ادا کرے۔
مسئلہ2409: جس شخص کو معدن میں سے کوئی چیز حاصل ہو لازم ہے کہ مسئلہ (2307) کے مطابق اس کا خمس فوراً ادا کرے خواہ معدن زمین کے اوپر ہو یا اندر خواہ ایسی زمین میں ہو جو اس کی ملکیت ہو یا ایسی زمین ہو جس کا کوئی مالک نہیں ہے۔
مسئلہ 2410: اگر انسان کو معلوم نہ ہو کہ اس معدن کی قیمت جو نکالا ہے خارج کرنے کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد 15 مثقال سکہ دار سونا ہے یا نہیں تو احتیاط لازم ہے کہ چنانچہ ممکن ہو وزن کرنے یا کسی اور طریقے سے معلوم کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو اس پر خمس واجب نہیں ہے۔
مسئلہ 2411: اگر چند لوگ مل کر کوئی معدن نکالیں، چنانچہ خارج کرنے کے اخراجات کو کم کرنے کے بعد اس کی قیمت 15 مثقال سکہ دار سونا ہو لیکن ان میں سے ہر ایک کا حصہ 15 مثقال نہ ہو تو ان میں سے ہر ایک پر اپنے حصے کا خمس معدن کے خمس کے عنوان سے واجب نہیں ہے لیکن ہر ایک کا حصہ اس کے سال کی درآمد میں سے شمار ہوگا اور اس کا خمس اس صورت میں لازم ہے کہ خمس کی تاریخ تک باقی رہے اور اخراجات زندگی میں خرچ نہ ہو۔
مسئلہ 2412:اگر انسان کسی دوسرے کی زمین سے مالک کی اجازت کے بغیر معدن نکالے تو مشہور قول یہ ہے کہ جو کچھ اس نے نکالا ہے زمین کے مالک کا ہے اور اس کا خمس اس کے ذمے ہے لیکن یہ مطلب اشکال سے خالی نہیں ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ آپس میں مصالحہ کریں، چنانچہ مصالحہ کرنے پر راضی نہ ہوں تو حاکم شرع كی طرف رجوع کریں تاکہ نزاع کو حل کرے۔
________________________________________
[286] خود وہی مال جو حرام تھا۔
[287] البتہ اگر حرام کی مقدار کو جانتا ہو اور کچھ رقم پہلے دی ہو لیکن کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس میں سے کتنا دیا ہے تو ابھی اس کے ذمے میں کتنا ہے معلوم نہیں ہے تو اس صورت میں فتویٰ یہ ہے کہ زیادہ مقدار کو دے مثلاً اگر اسے معلوم ہو کہ ایک لاکھ تومان کسی کا مقروض تھا لیکن اسے معلوم نہ ہو کہ پہلے 60 ہزار تومان دیا تھا یا زیادہ تو اس صورت میں لازم ہے کہ چالیس ہزار تومان اسے دے۔
[288] قیمی اشیا ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ جن کے افراد کی خصوصیات کی وجہ سے ان کی قیمت الگ ہوا کرتی ہیں جیسے گائے ، بھیڑ کہ وزن اور دوسری خصوصیات کی وجہ سے ان کی قیمت الگ ہوا کرتی ہے۔
[289] مثلی اشیا ان چیزوں کو کہتے ہیں کہ ایک جیسی خصوصیات کی وجہ سے معمولاً قیمت بھی ایک ہوتی ہے اور اس کے جیسی خصوصیات کے حوالے سے جو طلب اور رسد (خرید و فروش) میں موثر ہے۔ فراوان ہو جیسے گندم یا جو یا اس جیسی دوسری چیزیں۔