چند نکات
چند نکات:
سکّوں کا حساب تعداد کے لحاظ سے اس وقت جائز ہے جب سکےّ عرف میں مثلی اور ایک طرح کی چیزوں میں سے شمار ہوں۔
سنار اور صرّاف شخص کی (Money Exchanger) کی نقد رقم اگر اس کے کام کا سرمایہ ہو اور سال کے دوران تجارت كا مال میں تبدیل ہو جائے تو وہ بھی سونے اور کرنسی کا حکم رکھتا ہے کہ اس کے فائدے اور نقصان کو سونے اور کرنسی کے معیار سے حساب کر سکتا ہے، لیکن جونقد رقم ا س کے کام اور پیسے کا سرمایہ نہیں ہے مثلاً ذخیرہ کرنے کے لیے رکھا ہو تو اسے سونے اور کرنسی کے معیار پر حساب نہیں کر سکتا۔
اگر کوئی شخص ابھی تک اس بات کی طرف متوجہ نہیں تھا کہ معیار سونے کے وزن یا عدد یا کرنسی کی عدد کو قرار دے سکتا ہے تو پہلے سرمایہ کے خمس کو قیمت کے لحاظ سے ادا کرے اور پھر اس کے بعد آئندہ برسوں میں عدد یا وزن کو معیار قرار دے سکتا ہے۔
مقام (ب) کا حساب سونے اور کرنسی سے مخصوص ہے اور بقیہ اشیا کو شامل نہیں کرے گا، اس بنا پر چاول بیچنے والا، کپڑا بیچنے والا وغیرہ چاول کے وزن یا کپڑے کے میٹر کو معیار نہیں قرار دے سکتا البتہ اس تفصیل کے ساتھ جو بعد کے مسئلے میں بیان کی جائے گی اپنے حساب کا معیار سونا یا کرنسی قرار دے سکتا ہے۔
مسئلہ 2344: جو افراد کام کے لیے سرمایہ (تجارت کا مال) رکھتے ہیں اور ان کے لیے ممکن ہے کہ اپنے کام کے سرمایہ کو سونے یا کسی ایک بیرونی کرنسی کے مطابق جیسے عراق کا دینار، یا امارات کا درہم حساب کریں تو پہلے اپنے پورے سرمایہ کو سونے یا اس کرنسی میں تبدیل کریں[257] اور پھر اپنے کام میں حاصل ہونے والے فائدے نقصان کو سونے یا اس کرنسی کے مطابق حساب کریں اور اپنے محاسبہ کی بنیاد تجارت میں معمول حساب کرنے کے زمانے میں (روزانہ، ماہانہ، سالانہ) سونے یا اسی معین کرنسی کے لحاظ سے قرار دیں، اور ملک میں رائج کرنسی کو فائدے اور نقصان کا معیار قرار نہ دیں ۔
قابلِ ذکر ہے کہ اگر کسی شخص کے خمس کی تاریخ آگئی ہو اور ابھی تک متوجہ نہیں تھا کہ تجارت كے مال میں معیار کو سونا یا بیرونی کرنسی میں سے کسی ایک کو قرار دے سکتا ہے تو پہلے اپنے سرمایہ کے خمس کو رائج کرنسی کے مطابق ادا کرے اور اس کے بعد مخمّس سرمایہ کو سونے یا بیرونی کرنسی میں تبدیل کرکے آئندہ برسوں میں اسی سونے یا بیرونی کرنسی کو معیار قرار دے سکتا ہے اور فائدے اور نقصان کو اسی بنیاد پر قرار دے۔ [258]
یہ حکم نقد اور رائج پیسے کو جو انسان کے سرمایہ اور تجارت کا مال کا جز ہے بھی شامل کرتا ہے۔
مسئلہ 2345: سامان بیچنے والے افراد خواہ کلی قیمت والے ہوں یا جزئی کافی ہے کہ سال کے آخر میں اپنی تجارت کے سامان کی قیمت گزاری کریں اور ا س کا خمس ادا کریں اور اس سے مراد وہ قیمت ہے جس قیمت پر تجارت کے سامان کو کوئی اضافی خرچ کے بغیر اور بیچنے کے لیے انتظار کئے بغیر بیچا جا سکتا ہو بالکل اسی طرح جب انسان سامان کو سستے دام پر لگا دیتا ہے البتہ قیمت گزاری اس طرح سے نہ ہو کہ عرف میں نقصان اور ضرر شمار ہو بلکہ اسی طرح کی چیزوں کو بیچنے کی مناسب قیمت ہو اور اس کا خمس اسی حساب سے ادا کرے ۔ [259]
[257] کام کے سرمایہ (تجارت کے مال ) کو سونے اور بیرونی کرنسی میں تبدیل کرنے کے لیے ابتدائے امر میں کافی ہے کہ انسان اپنے سرمایہ کو سونے یا اس معین کرنسی کے لحاظ سے حساب کرے اور مجموعی سرمایہ کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ اسی سونا یا کرنسی كی معینہ مقدار سے مصالحہ کرے تاکہ اسی مقدار سونے یا کرنسی کا عوض مصالحہ کے عنوان سے اس شخص سے شرعاً طلب گار ہو جائے گرچہ صیغہٴ مصالحہ جاری کرنے کے بعد اور متصالح (جس کے ساتھ مصالحہ کر رہا ہے) شخص تک شرعی طور پر مال منتقل ہونے کے بعد دونوں کے توافق سے دوبارہ صیغہٴ مصالحہ جاری کرکے اسی مال کو اس مقدار عوض کے بدلے میں جو پہلے مصالحے میں معین ہوا تھا مالک ہو جائے۔
[258] مثال کے طور پر کوئی ایسا سامان امپورٹ کرنے والے شخص کو فرض کریں کہ جس کا پورا سرمایہ کپڑا اور نقد رقم امارات کے درہم میں تبدیل کرنے کے بعد بیس ہزار درہم کے برابر (ایک سو پچاس ملین ریال ہر درہم 7500 کی قیمت سے حساب کرتے ہوئے) مخمس مال ہو، تو وہ ابھی سے قطعی ارادہ کرے گا کہ اس کے سرمایہ کے حساب کا معیار درہم رہے گا تو آئندہ سال میں اگر امارات کا درہم دس ہزار ریال کے برابر ہو جائے اور اس کے تجارت كے مال کی قیمت درہم کے حساب سے پچیس ہزار درہم ہوگئی ہے تو اس نے صرف پانچ ہزار درہم امارات برابر پچاس ملین ریال كے برابر فائدہ اٹھایا ہے کہ لازم ہے اس کا خمس ادا کرے گرچہ اس کا سرمایہ خمس کی تاریخ پر ریال کے حساب سے دو سو پچاس ملین ریال قیمت رکھتا ہے۔
[259] مثال کے طور پر کوئی کپڑا بیچنے والا نقاب کے کپڑے کے 100 میٹر کے تھان کو دس ہزار ریال ہر میٹر کے اعتبار سے سال کی در آمد سے ایک ملین ریال کی خریداری کی ہے وہ کپڑوں کو تمام اخراجات در آمد اور قابلِ توقع سود کو مدَ نظر رکھتے ہوئے کلی (تھوك) اور جزئی (پھٹكر) طریقے سے خریدار کو بیچتا ہے ان کپڑوں کی جزئی فروش کی قیمت 12000 ریال ہے اور کلی فروش کی قیمت ہر میٹر گیارہ ہزار پانچ سو ریال ہے لیکن اگر وہ کپڑوں کو فروخت کے لیے پیش کرے اور بغیر اخراجات اور فائدہ کو مدَ نظر رکھتے ہوئے منصفانہ قیمت پر بیچے اور خریدار اس کپڑے کو گیارہ ہزار ریال میٹر کی قیمت سے خریدیں تو اس کے لیے کافی ہے کہ خمس گیارہ ہزار کے اعتبار سے حساب کرے اور ادا کرے۔
پورا تجارت كے مال جو مشمول خمس ہے
100x11000=1,100,1000
مقدار خمس تجارت كے مال
1,100,000x%20=000,220
۲ ۔ کیونکہ اگر فرض کرے اسی وقت باغ کو بیچنا چاہتا ہو کیونکہ باغ کی منفعت دوسرے کے اختیار میں ہے اس لیے باغ اور کم قیمت میں بکے گی تو ہر صورت میں اگر ابھی نہ بھی بیچنا چاہے لیکن فی الحال باغ کی قیمت کم ہوئی ہے۔