امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

داستان فدک

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

حدیث «ما ترکنا» کا افسانہ اشارہ :

 

یہ ایک حدیث کی جرح ہے جو مستندات پر مبنی ہے فیصلہ قارئین کو کرنا ہے کہ حق کہاں ہے اور باطل کہاں؟ ملاحظہ فرما‏‏ئیں:
عن عائشة ام المؤمنین حیث قالت: و اختلفوا فی میراثه فما وجدوا عند احد من ذالک علماء فقال ابوبکر سمعت رسول الله یقول (انا معاشر الانبیاء لا نورث ما ترکناہ صدقة).[1]
ترجمہ: عائشہ ام المؤمنین نے روایت کی ہے .... اور انہوں نے (سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ابوبکر نے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میراث میں اختلاف کیا پس ابوبکر نے کہا: میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ فرمارہے تہے: ہم انبیاء ارث نہیں چہوڑا کرتے اور جو کچھ ہم چہوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے.
قال ابن ابی الحدید المشهور انه لم یرو حدیث انتفاء الارث االا ابوبکر وحده
ترجمہ: ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ مورخین اور محدثین کے درمیان مشہور یہی ہے کہ ارث کی نفی کے بارے میں مذکورہ روایت ابوبکر کے سوا کسی نے بہی نقل نہیں کی ہے.[2] - [3]
اور ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:
ان اکثر الروایات انه لم یرو هذا الخبر الا ابوبکر وحده و ذکر ذالک اعظم المحدثین حتی ان الفقهاء فی اصول الفقه اطبقو علی ذالک فی احتجاجاتهم فی الخبر بروایة الصحابی الواحد و قال شیخنا ابوعلی لایقبل فی روایة الا روایة اثنین کالشهادة فخالفه المتکلمون و الفقهاء کلهم و احتجوا بقبول الصحابة بروایة ابی بکر وحده (نحن معاشرالانبیاء لا نورث) و مع هذا وضعوا احادیث اسندوا فیها الی غیر ابی بکر انه روی ذالک عن الرسول (ص)![4]
ترجمہ: اکثر روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ یہ خبر – اکیلے- ابوبکر کے سوا کسی نے بہی نقل نہیں کی ہے اور اکثر محدثین – حتی فقہاء – نے اس روایت کو ان روایات میں شمار کیا ہے جو صرف ایک صحابی سے نقل ہوئی ہیں اور ہمارے شیخ (استاد) ابوعلی نے کہا ہے کہ ہر روایت قابل قبول نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کم از کم دو صحابیوں سے نقل ہوئی ہو جس طرح کہ شہادت اور گواہی بہی صرف اسی صورت میں قابل قبول ہے جب گواہ دو مرد (یا دو عورتیں اور ایک مرد) ہوں چنانچہ تمام علمائے عقائد (متکلمین) اور فقہاء نے اپنے استدلالات میں اس کو مسترد کیا ہے. اورانہوں نے (نحن معاشرالانبیاء لا نورث) کو مقبولیت کا درجہ دینے کے لئے کہا ہے کہ چونکہ اس روایت کو صحابہ نے قبول کیا ہے لہذا ہم بہی اسے قبول کرتے ہیں! (اگرچہ قاعدے کے خلاف ہے) اور اس کے باوجود انہوں نے بعض دیگر احادیث وضع کی ہیں جو ابوبکر کے سوا دوسرے صحابہ سے منسوب کی گئی ہیں اور ان احادیث میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ حدیث رسول اللہ (ص) سے نقل ہوئی ہے!۔[5]
ان علیا قال لابی بکر عند ما ذکر ابو بکر حدیث انتفاء ارت النبی ( و ورث سلیمان داؤود[6]) و قال (یرثتی و یرث من آل یعقوب[7]) فقال ابوبکر: هو هکذا و انت والله تعلم ما اعلم، فقال علی ع):هذا کتاب الله ینطق، فسکتوا و انصرفوا.
ترجمہ: جب ابوبکر نے ارث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفی والی حدیث کا حوالہ دیا تو علی علیہ السلام نے کہا: اور سلیمان داؤد کا وارث ہؤا اور زکریا نے کہا (خداوندا مجھے ایسا ولی عنایت عطا فرما جو) میرا اور آل یعقوب کاوارث بنے " اور ابوبکر نے کہا ایسا ہی ہے اور آپ جانتے ہیں جو میں جانتا ہوں. پس علی علیہ السلام نے کہا: یہ کتاب خدا ہے جو بول رہی ہے. پس سب خاموش ہوئے اور مجلس برخاست ہوئی.[8]
بسط الخصومة علنيا في سقيفة ابى بكر
ترجمہ: عبدالعزیز الجوہری اپنی کتاب میں لکہتے ہیں کہ سقیفہ ابی بکر میں خصومت اور عداوت اعلانیہ طور پر پہیل گئی.[9]


1. ان فاطمة بنت محمد دخلت على ابى بكر وہو في حشد من المهاجرين والانصار . ثم قالت : انا فاطمة بنت محمد اقول عودا على بدء : لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ[10] ، فان تعزوه تجدوه ابى دون آبائكم ، واخ ابن عمى دون رجالكم . . ثم انتم الان تزعمون ان لا ارث لنا ، أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ تَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ؟[11] يابن ابى قحافة اترث اباك ولا ارث ابى ؟ ! ! لقد جئت شيئا فريا[12] ، فدونكها مخطومة تلقاك يوم حشرك ، فنعم الحكم الله، والزعيم محمد ، والموعد القيامة وعند الساعة يخسر المبطلون.[13] – [14]
ترجمہ: فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابوبکر پر وارد ہوئیں جب کہ مہاجرین اور انصار کی جمعیت حاضر تہی، اور فرمایا: میں فاطمہ بنت محمد (ص) ہوں . ابتدا میں دہرانا چاہتی ہوں کہ: یقینا ایک رسول تم ہی میں سے تمہاری طرف آیا جس پر تمہاری تکالیف بہت گران گذرتی ہیں اور تمہاری ہدایت پر اصرار کرنے والا ہے اور مؤمنین پر رؤف اور مہربان ہے!" اگر تم توجہ کرو تو تم آپ (ص) کو میرا باپ پاؤگے جبکہ وہ تمہارا باپ نہیں ہے اور آپ (ص) کو میرے چچا زاد (علی (ع)) کا بھائی پاؤگے جبکہ وہ تمہارا بھائی نہیں ہے. پہر اب تم گمان کرتے ہو کہ ہمارے لئے ارث نہیں ہے؟ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟ اور کون ہے جو یقین والوں کے لئے خدا سے بہتر حکم کرتا ہے؟. اے ابی قحافہ کے بیٹے! تم تو اپنے باپ کے وارث ہوسکتے ہو، میں رسول اللہ کی بیٹی اپنے باپ کی وارث نہیں ہوسکتی؟ تم نے نہایت عجیب اور برا عمل انجام دیا ہے. ++ پس خدا کا حکم اور اس کافیصلہ بہترین ہے اور زعیم میرے والد محمد (ص) ہیں اور ہمارا میعادگاہ قیامت ہے اور اس وقت باطل والے نقصان اٹہائیں گے.
ان فاطمة قالت : افعلى عمد تركتم كتاب الله ، ونبذتموه وراء ظهوركم ، اذ يقول الله تبارك وتعالى (وَ وَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ[15]) وقال الله عزوجل فيما قص من خبر يحيى بن زكريا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا * يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ[16] وقال عزوجل (وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّهِ[17]) وقال (يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ[18]) وقال (إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ[19]) وزعمتم ان لا حظوة ولا ارث لى من ابى ، ولا رحم بيننا ، افخصكم اللہ بآية اخرج منها نبيه ، ام تقولون اهل ملتين لا يتوارثون ، او لست انا وابى من اهل ملة واحدة ، ام لعلكم اعلم بخصوص القرآن وعمومه من النبى(ص) (افحكم الجاهلية تبغون)[20]
ترجمہ: حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: کیا تم نے جان کر کتاب اللہ کو ترک کیا اور اس کو اپنے پیچہے پہینک دیا؟ جب کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (اور سلیمان داؤد کا وارث ہؤا) . اور اللہ تعالی یحیی بن زکریا کا قصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: (پس مجہے ایسا فرزند عطا کردے جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو") اور خداوند عز وجل نے فرمایا"خدا کے مقرر کئے ہوئے احکام میں قرابتدار اور رشتہ دار ایک دوسرے کے لئے (دوسروں سے) زیادہ ترجیح رکہتے ہیں") اور فرمایا: ("خداوند تعالی فرزندوں کے بارے میں تمہیں سفارش کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ (میراث) دو لڑکیوں کی میراث کے برابر ہے") اور فرمایا: ("تمہارے اوپر واجب کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آپہنچے اگر اس نے اپنے پیچہے کوئی اچہی چیز چہوڑ رکہی ہو تو اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لئے شایستہ انداز میں وصیت کرے یہ حق ہے پرہیزگاروں پر.") اور تم نے گمان کیا کہ میرے لئے میرے والد سے کوئی بہی حصہ اور ارث نہیں ہے! اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے! پس کیا خدا نے ایک آیت تمہارے لئے مختص کردی اور اپنے نبی کو اس (آیت) سے نکال باہر کیا؟ یا پہر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اگر رشتہ دار دو دینوں کے پیروکار ہوں تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے! یا یہ کہ میں اور میرے والد ایک دین کے پیروکار نہیں ہیں!! یا یہ کہ قرآن کے عموم اور خصوص کے بارے میں تم میرے والد سے زیادہ عالم اور جاننے والے ہو!!! کیا تم پہر بہی جاہلیت کی حکمرانی چاہتے ہو؟[21]
ایک سوال: اگر اہل بیت اور اولاد نبی(ص)، نبی (ص) کے وارث نہیں ہوسکتے تو پہر کون آپ (ص) کا وارث ہوگا؟
اگر حدیث (لانورث) صحیح ہے تو اس میں تو کوئی بہی استثنا نظر نہیں آتی اور عائشہ کی روایت کے مطابق جناب سیدہ نے اپنا نمائندہ بہیج کر ابوبکر سے مدینہ اور فدک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خدا کی جانب سے لوٹائے جانے والے املاک میں سے اپنے ارث اور خیبر کےباقیماندہ خمس کا مطالبہ کیا. ابوبکر نے کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ "ہم انبیاء" کوئی ارث اپنے پیچہے نہیں چہوڑتے اور ہمارا ترکہ صدقہ ہوتا ہے اور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان اموال میں سے صرف اپنا حصہ مل سکتا ہے. اور یہ کہ ابوبکر نے جناب سیدہ کو کچھ بہی دینی سی انکارکیا. [22] تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابوبکر کے موقف میں کوئی استثنا نہیں تہی مگر ایک روایت ایسی بہی ملتی ہے جس میں ابوبکر استثنا کے قائل ہوئے ہیں اور اس روایت کا عنوان کچھ یوں ہے: «استثناء من نفي ارث النبي و توريثه تحقيقا للعدالة و رحمة باهل البيت الكرام» فقد تفضل ابوبكر لقد دفعت ألة رسول الله و دابته و حذاه الي علي و ما سوي ذالك ينطبق عليه الحديث.[23]
ترجمہ: «ابوبکر کی جانب سی عدل و انصاف کو عملی جامہ پہنانی اور اہل بیت کرام پر رحم و شفقت کی عنوان سی ارث نبی (ص) کی نفی سی اسثناء» پس ابوبکر نی فرمایا: میں نے رسول اللہ کی شمشیر، آپ (ص) کا گہوڑا اور جوتے علی (ع) کے سپرد کئے اور اس کے سوا دیگر تمام اشیاء پر حدیث کا انطباق ہوتا ہے!!!
یہاں خلیفہ کے اس فضل و کرم سی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث واقعی رسول اللہ (ص) نے نہیں فرمائی تہی اور وہ رسول اللہ (ص) کی میراث میں سے اہم چیزیں بہی مستثنی کرسکتے تہے مگر اگر وہ قیمتی چیزیں اہل بیت کے ہاتھ میں رہتیں تو ان کی زندگی میں کبہی غربت نہیں آسکتی تہی. چنانچہ وہ لے لی گئیں اور جوتے اور گہوڑا اور تلوار علی علیہ السلام کے حوالے کردی گئیں. مگر وہ اس بات سے غافل تہے کہ گہوڑا اور تلوار حاکمیت رسول کی منتقلی کی نشانی کے طور پر آپ (ص) کے حقیقی وارث کو ملنی چاہئے تہیں سو ایسا ہی ہؤا.
بہر حال اس بات کا جواب ڈہونڈنا بہت ہی دشوار ہے کہ خلیفہ نے ایسا کیوں کیا اور فدک اور ساری دولت و جائیداد اہل بیت سے کیوں چہینی؟ کیوں کہ حدیث سے تو عدم ارث والی بات ثابت نہ ہوسکی. اب یہ نہیں معلوم کہ اس کا نام حسد رکہا جاسکتا ہے یا نہیں مگر یہ ظلم اور غصب کے زمرے سے خارج نہیں ہوسکتا. اور اگر یہ حدیث واقعی تہی اور تمام عقلی اور نقلی موانع کے باوجود فرض کیا جائے کہ رسول اکرم سے نقل ہوئی تہی تو پہر تو رسول اکرم کا ترکہ صدقہ تہا اور جوتے، تلوار اور گہوڑا بہی صدقہ ہی ہوگا جبکہ علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام پر صدقہ حرام تہا. چنانچہ نہ تو علی علیہ السلام صدقہ لینے پر راضی ہوسکتے تہے اور نہ ہی خلیفہ صدقے کی پیشکش کرسکتے تہے اور پہر وہ جو علی اور فاطمہ علیہماالسلام کا حق لیکر صدقے میں تبدیل کررہے تہے اور اس کے لئے اس قسم کی حدیث کا سہارا لے رہے تہے تو وہ صدقہ – جو شرعا اہل بیت پر حرام تہا – کیونکر انہیں پیش کردیتے؟ چنانچہ ثابت ہوتا ہے کہ جس مال و ملک میں رحمت و شفقت و تفضل کی گنجائش ہو اس کے لئے کوئی شرعی مانع نہیں ہوتا اور شرعی مانع ہو تو ایک خلیفہ کو اس میں کسی بہی عنوان سے استثناء کا قائل ہونا ناقابل قبول ہوگا اور اگر تصور کیا جائے کہ حدیث صحیح تہی تو ان کا یہ تفضل امر حرام تہا اور جو حرام کا مرتکب ہوتا ہے اس کے لئے امامت مسلمین زیب نہیں دیتی. پس آپ خود ہی سوچ لیں.
--------------------------------------------------------------------------------
[1] - (کنز العمال ج14 ص130 باب فضل الصدیق)
[2] - (شرح نہج البلاغہ ج4 ص82)
[3] - ہم اس حقیقت کو بہی نظر انداز کرتے ہیں کہ فدک جناب سیدہ کے تصرف میں تہا اور ابوبکر نے ان کے مزارعین کو فدک سے نکال باہر کیا اور پہر ایک مشکوک سی بات کو حدیث کے طور پر پیش کرکے اپنے دعوے کا دفاع کیا اور بی بی سے شاہد مانگنا شروع کئے جبکہ شاہد تو مدعی کو پیش کرنے چاہئے تہے اور اس بات کو بہی بہول جاتے ہیں کہ ابوبکر نے روئے زمین کی پاک ترین خاتون سے گواہوں کا مطالبہ کرکے گویاان پر جہوٹ کا شبہہ ظاہرکیا مگر چلئے ہم رعایت دیتے ہیں اور اس نکتے کو ان کے عدل اور انصاف کی علامت سمجہتے ہیں!. انہوں نے کہا کہ علی اور ام ایمن کی گواہی اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ ان دو میں ایک عورت ہے اور ایک مرد ے جبکہ ایک مرد ہو تو دوعورتیں ہونی چاہئیں کیونکہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے. ہم نے مندرجہ بالا عبارات میں دیکہا کہہ اگر ایک صحابی ایک حدیث نقل کرے تو بہی قابل قبول نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ وہ ابوبکر جو سیدہ سے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا مطالبہ کررہے تہے انہوں نے اپنی بیٹی سے اس حدیث کی سچائی معلوم کرنے کے لئے حتی ایک شاہد کا مطالبہ نہیں کیا آخر کیوں؟؟؟؟؟
[4] - (شرح نہج البلاغہ – ج4 – ص85)
[5] - (شرح نہج البلاغہ 4 ص85)
[6] - (سورہ نمل آیت 16)
[7] - سورہ مریم آیت 6
[8] - (کنزالعمال ج5 ص365، و طبقات ابن سعد ج2 ص315)
[9] - (السقیفة لاحمد ابن عبدالعزیز الجوہری)
[10] - (سورہ توبہ آیت 128)
[11] - (المائدہ آیت 50 - یہاں سیدہ (س) نے آیت میں مذکورہ صیغہ جمع مذکر غائب کو جمع مذکر مخاطب میں تبدیل کیا ہے کیونکہ وہ دربار خلافت میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں سے مخاطب تہیں(مترجم))
[12] - (سورہ مریم آیت 27)، اس کی وضاحت بہی وہی ہے.
[13] - (.(اشارہ ہے سورہ جاثیہ کی آیت 27 کو جہان ارشاد ہے: وَيَومَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ = اور اس روز – جب قیامت برپا ہوگی باطل والے شدید نقصان و خسران میں ہونگے)
[14] - (بلاغات النساء لاحمد بن ابى الطاہر البغدادى ، برواية ابن ابى الحديد مجلد 4 صفحة 89 87 وصفحة 92 ، وبلاغات النساء صفحة 12 – 15)
[15] - سورہ نمل آیت 16
[16] - سورہ مریم آیات 5 و 6
[17] - سورہ انفال آیت 75
[18] - سورہ نساء آیت 11
[19] - سورہ بقرہ آیت 180
[20] - سورہ آل عمران آیت 50 (أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ) کی جانب اشارہ ہے اور چونکہ مخاطبین اس کا مصداق بن رہی تہے لہذا سیدہ (س) نے مخاطب کا صیغہ استعمال کیا ہے- مترجم
[21] - بلاغات النساء صفحة 16 – 17
[22] - (صحیح بخاری ج3 ص252 کتاب المغازی باب 155- غزوة خیبر حدیث 704)
[23] - شرح النہج ج4 صص 87 ، 89 و بلاغات النسا ص 12 تا 15

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک