امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

علما کی ذمے داریوں کا بیان

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

خطبات امام حسین(علیہ السلام) میں سے ایک خطبہ جس میں آپ عیہ السلام نے

 (علما کی ذمے داریوں کا بیان) فرمایا ہے

امام نے فرمایا:

ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُها الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْهُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّهِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَهٰابَةٌ یَهٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْهِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَهُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِهٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِهَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوهُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰهِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّهِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْهُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِهٰا لِلَّذی خَلَقَهٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْهٰا فی ذٰاتِ اللّٰهِ

اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰهَ جَنَّتَهُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِهِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِهِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّها الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰهِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِهِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰهِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِهٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰهِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰهِ فی عِبٰادِهِ تُکْرَمُوْنَ وَ قَد تَرَوْنَ عُهودَ اللّٰهِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰهِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُهْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیهٰا تُعِیْنُوْنَ

وَ بالاِدِّهٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰهُ بِهِ مِنَ النَّهْیِ وَ التَّنٰاهی وَ اَنْتُمْ عَنْهُ غٰافِلُوْنَ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰهِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِهِ وَ حَرٰامِهِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰهِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰهِ فی اَیْدِیْهِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَهٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّهَوٰاتِ سَلَّطَهُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی هِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیهِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْهُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِهِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِهِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَهْوٰائِهِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْهُمْ عَلیٰ مِنْبَرِهِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَهُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیهِمْ فیهٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَهُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعیدَ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِهِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیهِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِهِ فیما شجَرَ بَیْنَنا

اَللَّهُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّهُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْهِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّهُ وَ عَلَیْهِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْهِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ

اہم الفاظ کی تشریح

جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس خطبے کے اس حصے کے بعض جملات کچھ فرق کے ساتھ امیر المومنین کے خطبوں میں بھی ملتے ہیں۔(1)

فاستخففتم بحق الائمة :

کتاب ((تحف العقول ))اور(( وافی)) کے موجودہ نسخوں میں بحق الائمہ درج ہے۔ اس صورت میں امیر المومنین، امام حسن اور امام حسین کے حقوق کا غصب ہونا مرادہے۔ لیکن ممکن ہے کہ دراصل بحق الامہ ہو اور کتابت میں اضافہ ہو گیا ہو اور بعد میں آنے والا جملہ فاما حق الضعفاء بھی اس امکان کی تائید کرتا ہے۔ ( امام خمینی نے اس جملے کا ترجمہ بحق الامہ کے تحت کیا ہے)

ومن یعرف بالله لا تکرمون وانتم بالله فی عباده تکرمون :جملے کی ابتداء میں آنے والا یعرف اور آخر میں آنے والا تکرمون دونوں مجہول کے صیغے ہیں جبکہ درمیان میں آنے والا لاتکرمون معلوم کا صیغہ ہے۔ یعنی بندگان خدا، اللہ والا ہونے کی بنا پر تمہارا احترام کرتے ہیں لیکن تم ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو اللہ کی معرفت کے لئے مشہور ہیں۔

العمی و البکم والزمنی :

تینوں الفاظ بالترتیبأعمی، ابکم اور زمن کی جمع ہیں۔

لاترحمون اور غلبتم به :

مجہول کے صیغے ہیں۔

مجاری الا مور والا حکام علی ایدی العلماء بالله الا مناء علی حلا له و حرامه :

مجاری، مجری کی جمع مصدر میمی یا پھر اسم مکان ہے۔ یعنی مسلمانوں اور مملکت اسلامی کے مختلف امور و معاملات میں مرکزی مقام علما کو حاصل ہونا چاہئے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پڑنے والے تنازعات کا حل و فصل ان ربانی علما کے احکام کے مطابق ہونا چاہئے ،جو حلال و حرام الہی کے امین اور آسمانی قوانین کو تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے والے ہوں۔

یہ جملہ ولایت فقیہ کوثابت کرنے والے ان بے شمار دلائل میں سے ایک دلیل ہے جنہیں بزرگ شیعہ علما اور فقہا نے ذکر کیا ہے۔

والارض لھم شاغرہ :

عرب کہتے ہیں شغرت الارض یعنی اس سرزمین کا کوئی محافظ و نگہبان نہیں ہے۔

خطیب مصقع :( میم پر زیر اور باقی حروف پر زبر)۔ بلند آواز والے خطیب کو کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں دشمنوں کے ہاتھوں میں موجود ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ اسکے نمایاں مصداق ہیں۔

اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ

ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُها الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْهُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّهِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَهٰابَةٌ یَهٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْهِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَهُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِهٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِهَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ،

اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور اللہ والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے ( آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ) گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔

اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوهُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰهِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّهِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْهُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِهٰا لِلَّذی خَلَقَهٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْهٰا فی ذٰاتِ اللّٰهِ

یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، (معاشرے کے) کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ اللہ کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔

اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰهَ جَنَّتَهُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِهِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِهِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّها الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰهِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِهِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰهِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِهٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰهِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰهِ فی عِبٰادِهِ تُکْرَمُوْن

(اسکے باوجود ) آپ جنت میں رسول اللہ کی ہم نشینی اور اللہ کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں اللہ کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ اللہ کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو اللہ کے بندوں میں اللہ کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

وَ قَد تَرَوْنَ عُهودَ اللّٰهِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰهِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُهْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیهٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّهٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰهُ بِهِ مِنَ النَّهْیِ وَ التَّنٰاهی وَ اَنْتُمْ عَنْهُ غٰافِلُوْن

آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ اللہ سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول اللہ کے عہد و پیمان(2) نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو (بھی)منع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔

وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰهِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِهِ وَ حَرٰامِهِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ

آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ہے ، اس لئے کہ (اگر آپ سمجھیں تو) علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو اللہ کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔

وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰهِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰهِ فی اَیْدِیْهِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَهٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّهَوٰاتِ

اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور اللہ کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی (اجراء کے لئے) آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور (معاملات میں) آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور اللہ کے حکم سے چلنے والے امور ( وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی) اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔

سَلَّطَهُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی هِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیهِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْهُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِهِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِهِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَهْوٰائِهِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ

وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر ( آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ) ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور (نتیجہ یہ ہے کہ) کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔

فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْهُمْ عَلیٰ مِنْبَرِهِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَهُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیهِمْ فیهٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَهُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعید

ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں) عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔

فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِهِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیهِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِهِ فیما شجَرَ بَیْنَنا

تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے (مقرر کردہ) گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ (آخر کار) اللہ ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔

اَللَّهُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّهُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْهِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّهُ وَ عَلَیْهِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْهِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْهِ الْمَصِیْرُ

(امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا)

بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر (اور زیادہ) چھا جائیں گے اور(( نور نبوت)) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔

یہ وہ خطبہ تھا جو امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں ارشاد فرمایا اور تمام حاضرین کو تاکید ی حکم دیا کہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں تاکہ رفتہ رفتہ تمام مسلمان، پیکر اسلام کو پہنچنے والے ان نقصانات سے آگاہ ہو جائیں جن کے نتیجے میں اسلام کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔

اس خطبے میں موجود اہم نکات اور نتائج

امام حسین علیہ السلام نے اس خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں نیز اسلامی معاشرے پر معاویہ ابن ابی سفیان کے اقتدار کے اسباب اور ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے معاملات معاویہ کے ہاتھوں میں آ گئے۔ اس کے بعدآپ نے اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ خطرات کی جانب اشارہ کیا ، اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر اب بھی وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور عمائدین قوم، اور ملت کے باشعور افراد نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی ذمے داریوں کو ادا نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ نور نبوت ماند پڑ جائے گا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ مشعل فروزاں، اسلام دشمنوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے بجھ ہی نہ جائے۔

فرزند رسول نے اس خطبے کے ذریعے حاضرین کے سامنے قرآن اور عترت کی مظلومیت کوبیان کیا اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی کہ جہاں تک ممکن ہے وہ اس پیغام کو مملکت اسلامی کے تمام باشعور اور دیندار افراد تک پہنچائیں اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کریں۔

اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطبے کی مفصل تشریح کی جائے کیونکہ اس کا ایک ایک جملہ علمی اور تاریخی لحاظ سے تشریح طلب ہے(3) لیکن فی الحال یہاں نتیجہ گیری کی صورت میں ہم اپنے خیال اور سطح فکر کی حد تک صرف چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔

زمانی اور مکانی حالات

اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرز بیان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس خطبے کے لئے خاص مقام (منیٰ) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیا۔ مملکت اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی ، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابہء کرام بھی مدعو تھے۔ خاص کر اس اجتماع میں ۲۰۰ ایسے افرادشریک تھے جنہیں رسول گرامی کی صحابیت اور ان سے براہ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی ۔ان ۲۰۰ کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد افراد اصحاب رسولکی اولاد (تابعین) تھے۔

جلسہ گاہ : یہ جلسہ منیٰ میں تشکیل پایا ،جو بیت اللہ سے نزدیک ، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل کی قربانگاہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلاد یا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کے ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانے کے لئے حضرت اسماعیل کے یاابت افعل ماتومر(4) سے درس لیتا ہے اور ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین(5) کو نمونہء عمل قرار دے کر اللہ کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتیٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔

زمانہ : یہ جلسہ ایام تشریق میں منعقد ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، خداسے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزل عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کر کے، اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزند رسول کا حیات آفرین پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔

خطبے سے مربوط اہم نکات

۱ - ولایت سے انحراف

اس خطبے میں امام حسین نے جس بات کی طرف سب سے پہلے اشارہ کیا وہ (لوگوں کا) حق سے منحرف ہوجانا ، ولایت اورحکومت کو اس کے صحیح راستے سے ہٹا دینا اور اس بنیادی ترین مسئلے کے بارے میں رسول گرامی کی وصیت کو بھلا دینا تھا۔

رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلان نبوت کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی نبوت کی پوری ۲۳ سالہ مدت میں متعدد مرتبہ امامت اور ولایت کے موضوع پر گفتگو کی اور اس سلسلے میں مختلف موقعوں پر، مختلف طریقوں سے لوگوں کے سامنے حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا تعارف کرایا۔ انہی مواقع میں سے ایک نمایاں اور محسوس موقع سد ابواب ( گھروں کے دروازے بند کروانے) والا واقعہ ہے۔ مدینہ تشریف لانے کے بعد رسول کریم نے مسجد تعمیر کروائی اور پھر اسکے اطراف مکانات اور حجرے بنوانے کے دوران سدالابواب الاباب علی(6) کا دو ٹوک حکم صادر فرمایا اور اسکے بعد وضاحت فرمائی : ما انا سددت ابوابکم ولکن اللہ امرنی بسدابوابکم و فتح بابہ (میں نے اپنی طرف سے دروازے بند نہیں کروائے ہیں بلکہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بندکرا دوں اوران (علی) کا دروازہ کھلا رکھوں۔

یہ تعارف اسکے بعد بھی انت ولی کل مومن بعدی(7) اور ایسے ہی دوسرے ارشادات کے ذریعے جاری رہا۔ یہاں تک کہ رسول کریم نے اپنی زندگی کے آخری مہینوں اور آخری ایام میں اس حساس اور اہم موضوع کو عوام الناس کے درمیان انتہائی کھلے لفظوں میں ، غدیر خم کے موقع پر اور مسجد ومنبر سے بیان کیا تاکہ پھراسکے بعد کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے اور کسی کو تاویل وتفسیر کا کوئی راستہ نہ ملے۔ منیٰ کے جلسے میں موجود متعدد افراد خود ان مواقع کے شاہد و ناظر تھے یا انہوں نے قابل اعتماد اصحاب اور عینی شاہدوں سے سنا تھا ۔لہذا امام حسین علیہ السلام کے ہر بیان کے بعد ان کاجواب یہی تھا کہ اللھم نعم۔

بہر صورت وجہ کوئی بھی ہو (رسول اکرم کی تمام تر کوششوں کے باوجود) یہ انحراف وجود میں آیااور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ کیونکہ خلافت کا پہلا مرحلہ (رسول اکرم کی) وصیت کی نفی کر کے اصحاب کے اجماع اور فیصلے کو دلیل بنا کر طے کر لیا گیا جبکہ صرف دو سال بعد دوسرا مرحلہ اجماع کو پس پشت ڈال کے، صاحب نظر افراد کے کسی قسم کے اظہار نظر کے بغیر ،ارباب حل و عقد اور ماہرین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے وصیت کی بنیاد پر طے کیا گیا، اور اسکے دس سال بعد خلیفہ ء سوم کے انتخاب کے لئے گزشتہ دو خلفاء کے انتخاب کے طریقے کے برخلاف شوریٰ کے نام سے ایک تیسرا راستہ اپنایا گیا ۔

خلیفہ کے انتخاب کے سلسلے میں اختیار کئے جانے والے یہ تین مختلف اورمتضاد راستے اور راہ حق کے مقابلے میں ایجاد ہونے والا یہ انحراف شاید بعض افراد کے نزدیک صرف ماضی کی ایک داستان اور انجام پا چکنے والا عمل ہولیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جوتلخ نتائج اورنقصانات سامنے آئے ،وہ اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ نہ

ہی اجتماعی امور کا کوئی ماہر ان کا مکمل تجزیہ و تحلیل کر سکتا ہے اور نہ ہی حتیٰ کوئی محقق اور مورخ انہیں کماحقہ بیان کر سکتا ہے۔

امیر المومنین کے زمانے کے واقعات انہی کے بیانات کی روشنی میں

اس زمانے کی بعض معاشرتی اور مذہبی مشکلات کو امیر المومنین کے درج ذیل کلام میں محسوس کیا جا سکتا ہے اور یوں احساس ہوتا ہے کہ گویا امام حسین کا خطبہ امیر المومنین کے اسی کلام کی تشریح ہو۔

اس کلام میں خلفائے اول اور دوم کے طریقہ ء انتخاب اور اس دوران اپنی صورتحال اور مقام کو بیان کرنے کے بعد، امیر المومنین نے ان واقعات ، غلطیوں ، خامیوں اور مصیبتوں کی طرف اشارہ کیا جو خلیفہ ء ثانی اور ثالث کے زمانے میں پیش آئیں ،جس نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ امیر المومنین سے رجوع کریں۔ اسی طرح اس کلام میں ان قبیح اعمال کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ، جو نفسانی خواہشات ، حب دنیا ، جاہ ومقام اور مال و منال کی خاطر بعض مسلمانوں نے انجام دیئے۔ آپ فرماتے ہیں:

(( خدا کی قسم لوگ ان (خلیفہء دوم) کے زمانے میں کج روی، سرکشی ،متلون مزاجی اوربے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھی اپنی راہ لی اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گئے اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔ للہ مجھے اس شوریٰ سے کیا واسطہ ؟

ان میں کے سب سے پہلے ہی کے مقابلے میں میرے استحقاق اور فضیلت میں کب شک و شبہ تھا، جو اب ان لوگوں میں، میں بھی شامل کر لیا گیا ۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہوکے پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتیٰ الامکان کسی نہ کسی صورت میں نباہ کرتا رہوں) ۔

ان (اراکین شوریٰ) میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے میرا مخالف ہواا وردوسرا دامادی اور بعض ایسی باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا جن کا بیا ن مناسب نہیں ۔ یہاں تک کہ اس قو م کا تیسرا پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اسکے ساتھ ساتھ اس کے بھائی بند بھی اٹھ کھڑے ہوئے ،جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل بہار کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کا م تمام کردیا اور شکم پری نے اسے منھ کے بل گرادیا ۔اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری طرف بجو کے ایال کی طرح ہر طرف سے مسلسل بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ صورت یہ ہوگئی تھی کہ حسن اور حسین کچلے جارہے تھے اور میری چادر کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد اس طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے جیسے بکریاں بھیڑئیے کے حملے کی صورت میں اپنے چرواہے کے گرد جمع ہوجاتی ہیں ۔لیکن اس کے باوجود جب میں نے خلافت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کیا ۔گویا ان لوگوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ :یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگو ں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گار وں کے لئے ہے ۔ہاں ہاں! خدا کی قسم ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا تھا اور اس کی سج دھج نے انہیں دیوانہ کردیا تھا۔))(8)

امیرالمومنین کے مذکورہ بالا خطبے کے آخری الفاظ میں آپ کا درد دل ملا حظہ کیا جاسکتا ہے ۔لہذا جب آپ نے زمام خلافت کواپنے ہاتھ میں لیا اور اسلام کے صحیح قوانین کا نفاذ اور عدل وانصاف کا بول بالا ہوا اور جب انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروگرام کا اعلان کیاکہ :واللہ لو وجدتہ قدتزوج بہ النساء وملک بہ الاماء لرددتہ فان فی العدل سعة ومن ضاق علیہ العدل فالجور بہ اضیق ۔۔(خدا کی قسم !اگر مجھے کوئی مال اس حالت میں مل جاتا جسے عورتوں کا مہر بنایا دیا گیا ہے، یا اسے کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا ۔اس لئے کہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اسکے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر ۱۵) تو ۲۵ سال کی بے راہ روی، رسول اللہ کی سیرت سے دوری اور قانون شکنی اور حق تلفی کا عادی ہوجانے کی وجہ سے ،لوگ حق وعدالت کے قیام کے لئے امیر المومنین کی کوششوں کو جرم سمجھنے لگے اور آپ کی مخالفت میں کھڑے ہوگئے اور آپ کے خلاف ایک داخلی جنگ کا آغاز کر دیا۔

کچھ لوگ اگرچہ براہ راست اس جنگ میں شامل نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنی خاموشی کے ذریعے دشمن کو مضبوط کیا۔ اس کے نتیجے میں بجائے یہ کہ امیرالمومنین کی طاقت عدل وانصاف کے اجراء اور قرآن وسنت کے اہداف ومقاصد کو جامہء عمل پہنانے کے سلسلے میں صرف ہوتی، آپ کی تمام تر تو جہات اسلام کی بنیادوں کے تحفظ اور اسلامی معاشرے کی حفاظت پر مرکوز ہوگئیں۔ حد یہ ہے کہ ان داخلی جنگوں اور اندرونی اختلافات کے نتیجے میں لشکر حق اتنا کمزور اور بے اثر ہوگیا اور اس صورتحال نے امیرالمومنین کو ایسا آزردہ خاطر کیا کہ آپ نے بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہوئے یوں عرض کی :

اللهم انی قد مللتهم وملونی وسئمتهم وسئمونی، فابدلنی

بهم خیرا منهم، وابدلهم بی شرامنی

((اے پروردگار! میں ان سے تنگ آگیا ہوں اور یہ مجھ سے تنگ آگئے ہیں۔ میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتاگئے ہیں لہذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت کر دے اور انہیں مجھ سے بد تر حاکم دے دے۔ ))

نیز فرمایا :

والله لا ظن ان هولاء القوم سید الون منکم با جتماعهم علی باطلهم ،وتفرقکم عن حقکم وبمعصیتکم اما مکم فی الحق، وطاعتهم امامهم فی الباطل، وبادائهم الامانة الی صاحبهم و خیانتکم ،وبصلاحهم فی بلاد هم وفساد کم

((اور خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار چھین لیں گے ۔اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔ یہ اپنے پیشوا کی باطل میں اطاعت کرتے ہیں اور تم اپنے امام کی حق میں بھی نافرمانی کرتے ہو۔ یہ اپنے مالک کی امانت اس کے حوالے کردیتے ہیں اور تم خیانت کرتے ہو۔ یہ اپنے شہروں میں امن وامان رکھتے ہیں اور تم اپنے شہروں میں بھی فساد کرتے ہو ۔))(نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۲۵)

ساتھ ہی پیش گوئی فرمائی کہ پیش آمدہ حالات میں( جبکہ تم اپنے رہبر اور امام کی طرف سے عائد ہونے والے فریضے کی ادائیگی میں سستی کرتے اور نافرمانی برتتے ہو اور دشمن اپنے مکرو فریب میں ہر روز موثر قدم بڑھا رہا ہے) جلد ہی معاویہ اور اس کے طرفدار کامیاب ہو کر تم پر مسلط ہو جائیں گے اور یوں ایک تاریک مستقبل اور ہولناک مقدر تمہارے انتظار میں ہے۔

اما انکم ستلقون بعدی ذلا شاملا و سیفا قاطعا واثرةیتخذها الظالمون فیکم سنة(9)

((مگر آگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہر طرف سے چھا جانے والی ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں ۔ ))

اور آخر کار امیرالمومنین کی دعا :فابدلنی خیرا منھم (ان کی بجائے ان سے بہتر افراد مجھے عنایت فرما)پوری ہوئی اور ان افراد کی بجائے جن سے امیرالمومنین رنجیدہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں رسول اللہ، انبیاء اور اولیاء کے ہمراہ اپنے جوار خاص میں مقام عنایت فرمایا اور آپ نے اپنی خون آلود اور مجروح پیشانی کے ساتھ آخری کامیابی کا استقبال کیا اور فزت ورب الکعبہ(10) کہتے ہوئے اپنے رب سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئے۔

------

1۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔

2۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔

3۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔

4۔ اے والد گرامی وہ کیجئے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔آیت۱۰۲)

5۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورہ صافات ۳۷ ۔ آیت ۱۰۲)

6۔ علی کے سوا سب کے دروازے بند کر دو۔

7۔ (اے علی) آپ میرے بعد تمام مومنوں کے سرپرست ہوں گے۔

8۔ نہج البلاغہ ۔خطبہ نمبر ۳

9۔ نہج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۵۸

10۔ عربی لغت نامے اقرب الموارد میں ہے کہ ((فاز بخیر ای ظفربه ویقال لمن اخذحقه من غریمة:فاز )) اس طرح کلمہء فوز کے اصلی معنی کامیابی ہیں نہ کہ ہدایت اور اصلاح جیسا کہ بعض لوگوں نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی کسی مقابلے میں جیتنے والے کو فائز کہا جاتا ہے ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک