امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

امام حسین علیہ السلام اور اهل بيت عليهم‌السلام

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

ماخوذ، از کتاب:چھل حدیث امام حسین علیہ السلام

 پہلا حصہ:  امام حسین علیہ السلام  اور اهل بيت عليهم‌السلام  
اعلیٰ والدین
حديث-۱- قالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلّىٍ عليه السلام: مَنْ عَرَفَ حَقَّ اَبَوَيْهِ الْأفْضَلَيْنِ: مُحَمَّدٍ وَعَلّىٍ وَاَطاعَهـُما حَقَّ طاعـَتِهِ، قيـلَ لَهُ: تَبَحْبَحْ في اَىِّ جِنانٍ شِئْتَ. [موسوعة كلمات الامام الحسین590، ح589]
امام حسين عليه السلام نےفرمایا: جوبہترین والدین( پدر طبيعى)  کی  حق کو پہچانے۔کہ وہ اپنے آپ کو یعنی حضرت محمّد (صلي الله عليه و آله وسلم) اور على (عليه السلام) کو پہچانے اور ان کی جتنا حق ہے اتنا ہی حق ِاطاعت کرے جیسے اسے کرنا چاہیے۔جب اس سے کہا جائے: تم جس جنت میں اور جہاں کہیں بھی جگہ لینا چاہیےبیٹھ جائے۔
قیمتی جواہرات
حديث-۲- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: نَحْنُ حِزْبُ اللّهِ الْغالِبُونَ، وَعِتْرَةُ رَسُولِ اللّهِ صلي الله عليه و آله الاْقْرَبُونَ، وَاَهْلُ بَيْتِهِ الطَّيِّبُونَ، وَأَحَدُالثَّقَلَيْنِ الَّذينَ جَعَلَنا رَسُولُ اللّهِ ثانِىَ كِتابِ اللّهِ۔۔۔
 [احتجاج طبرسى،229،وسائل الشيعه،ج 18،ص 144]

امام حسين عليه السلام نےفرمایا: ہم ہی، حزب اللہ ہیں، جیتیں گے۔ اور ہم ہی  کے رسول خدا(ص) کےپاک و پاکیزہ خاندان و عترت رسول(ص) سے ہیں جو سب سےزیادہ ان سے قریب ہیں۔ اور ہم ان دو، مؤثر، اثر انگیز وزنوں میں سے ایک ہیں جن کو رسول خدا نے کتاب الہی قرآن کے برابرقرار دیا ہے۔
حبّ اهل بيت(ع)
حديث-۳- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: مَنْ أحَبَّنا لايُحِبُّنا إلاّ لِلّهِ، جِئْنا نَحْنُ وَهُوَ كَهاتَيْنِ ـ وَقَدَّرَ بَيْنَ سَبّابَتَيْهِ ـ وَمَنْ أَحَبَّنا لايُحِبُّنا إلاّ لِلدُّنْيا، فَإنَّهُ إذا قامَ قائِمُ الْعَدْلِ وَسِعَ عَدْلُهُ الْبِرَّ وَالْفاجِرَ. [محاسن البرقى، ج 1، ص 134ـ بحارالانوار، ج 27، ص 90]
امام حسين عليه السلام نےفرمایا: جوبھی ہم (اہل بیت)سے صرف خدا کی خاطر محبت کرتا ہے، ہم(اہل بیت) اور تم دونوں اس کی مانند(دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)ساتھ آئینگے اور جو کوئی ہم (اہل بیت)سے دنیا کی خاطر محبت کرے گا وہ اس (بھی مفید ہے) ہوگا جب امام زمانہ (عج)ظہور فرمائینگے اوراس وقت پوری کائنات پر عدل و انصاف کا بھول بالا ہو گا۔
امام کی شناخت
حديث-۴- عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: خَرَجَ اَلْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ: اَيُّهَا النّاسُ! اِنَّ اللّه َجَلَّ ذِكْرُهُ ماخَلَقَ الْعِبادَ اِلاّ لِيَعْرِفُوهُ، فَاِذا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ، فَإذا عَبَدُوهُ اسْتَغْنُوا بِعِبادَتِهِ عَنْ عِبادَةِ ماسِواهُ. فَقالَ لَهُ رَجُلٌ: يَابْنَ رَسُولِ اللّهِ بِأَبى أَنْتَ وَاُمّي فَما مَعْرِفَةُ اللّهِ؟قالَ:«مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمانٍ إِمامَهُمْ اَلَّذى يَجِبُ عَلَيْهِمْ طاعَتُهُ» [علل الشرايع،ص۹-تفسيرنورالثقلين،ج۵ ص۱۳۲]
امام حسين عليه السلام نےاپنے اصحاب کےپاس تشریف لاکرفرمایا:۔۔ اے لوگو!بے شک پروردگارِعالم نےاپنے بندوں کو خلق  نہیں کیا، مگر اپنی معرفت اور پہچان  کےلئے۔ جب خلق خدا  کواس ذات الہی کی معرفت حاصل ہوجائے تو وہ اس ذاتِ اقدس کی عبادت کریں گے، اور جب وہ اس  ذات الہی کی عبادت کریں گے، تو وہ کسی اور کی پرستش اور  بندگی کے محتاج نہیں  ہوں گےیعنی وہ مستغنی ہونگے۔ کسی آدمی نے آپ (ع)سے عرض کیا: اے فرزند رسول خدا !میرے ماں باپ کی جان آپ پر قربان!خدا کی  شناخت اورمعرفت و علم سےکیا مراد ہے؟
تو آپ(ع)نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ اپنےزمانے کے امام یا امام وقت کو جانتا ہو اور اس کی شناخت سحاصل کریں، وہ امام ،جس کی اطاعت اور پیروی ان لوگوں پر واجب ہے۔
شناخت منافقين
حديث-۵- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: ما كُنّا نَعْرِفُ الْمُنافِقِينَ عَلى عَهْدِ رَسُولِ اللّهِ صلي الله عليه و آله وسلم اِلاّ بِبُغْضِهِمْ عـَليـّاً وَوُلْـدَهُ عليه السلام. [عيون اخبارالرضا،ج2، ص72ـ بحارالانوار، ج39، ص302]
امام حسين عليه السلام نےفرمایا:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے میں منافقوں کو صرف علی ابن ابی طالب اور ان کی اولاد سے دشمنی سے ہی پہچانتے تھے۔(یعنی منافق کی پہچان علی اور اولاد علی سے دشمنی ہے)
اهل بيت عليهم‌السلام پر آنسوؤ بہانے کی قدر
حديث-۶ -قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: مَنْ دَمَعَتْ عَيْناهُ فينا دَمْعَةً بِقَطْرَةٍ اَعْطاهُ اللّه ُتَعالى الْجَـنَّةَ. [ينابيع المودة، ص 228- ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربی،محبالدین الطبری،ص ۱۹]
امام حسين عليه السلام نے فرمایا: جوبھی شخص ہم(اہل بیت)پر ایک قطرہ آنسوبہائے گا پروردگارعالم، اس کو(قیامت کے دن) جنت عطاء کرے گا۔
فرزند ِحسين عليه‌السلام کا ظهور
حديث-۷-قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: لَوْلَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيا إلاّيَوْمٌ واحِدٌ لَطَوَّلَ اللّه ُعَزَّوَجَلَّ ذلِكَ الْيَوْمَ حَتّى يَخْرُجَ رَجُلٌ مِنْ وُلْدى، فَيَمْلاَءُها عَدْلاً وَقِسْطاً كَما مُلِئَتْ جَوْراً وَظُلْماً، كَذلِكَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّه ِ صلي الله عليه و آله وسلم يَقُول. [كمال الدين، ص317 ـ بحارالانوار، ج51، ص133]
امام حسين عليه السلام نے فرمایا: اگر اس دنیا میں ایک دن بھی باقی نہ رہے گا تو بھی پروردگار عالم،اس دن کوطویل کر دے گا یہاں تک کہ میری اولاد اور میرے خاندان (اہل بیت) میں سے ایک فرد ظاہر ہو گا اور پوری کائنات کو اس طرح عدل و انصاف سے پر کرگا کہ  جس طرح وہ ظلم و ستم اور جورسے بھری ہوئی ہو گی، اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے۔
شيعيان ِواقعى
حديث-۸- قالَ رَجُلٌ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلىٍّ عليه السلام:يا ابْنَ رَسُولِ اللّهِ أَنَا مِنْ شيعَتِكُمْ،
قالَ: اتَّـقِ اللّهَ وَلاتَدّْعِيَنَّ شَيْئاً يَقُولُ اللّهُ لَكَ كَذِبْتَ وَ فَجَرْتَ فِى دَعْواكَ، إِنَّ شيعَتَنا مَنْ سَلُمَتْ قُلُوبُهُمْ مِنْ كُلِّ غِشٍّ وَغِلٍّ وَدَغَلٍ،وَلكِنْ قُلْ أَنَا مِنْ مَوالِيكُمْ وَمُحِبّيكُمْ [بحارالانوار،ج68، ص 156]

کسی شخص نے امام حسين عليه السلام سے عرض کیا:اے فرزند رسولِ خدا(ص)، میں آپ کےچاہنےوالوں اور شیعوں میں سے ہوں،
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: تقوی الہی اختیارکرو ، خدا سے ڈرو!
دیکھو! کسی چیز کا دعویٰ(اس طرح) مت کرنا: پروردگار عالم تم سےفرمائے کہ تم نے جھوٹ بولا ہے اور فحش و بدتمیز دعوے کیئےہے
یاد رکھنا!

ہمارے شیعہ اور چاہنے والے ایسے ہوتے ہیں، جن کےدل وقلب ہر قسم کےكينه، فريب، دوھوکہ  دہی، اور بگاڑ (ہرقسم کےنوعِ غلّ و غشّ)وغیرہ سے پاک ہوتا ہے،
بلکہ اس طرح کہو! میں آپ کے موالی و محب یعنی دوستوں ، مداحوں  اور محبت کرنے والوں یا چاہنے والوں میں سے ہوں۔
دوسرا حصہ: امام حسين عليه‌السلام اوراهداف ،مواضع اورشعار
امام حسين عليه‌السلام اور زمانِ معاويه

حديث -۹- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام:۔۔۔ لِيَكُنْ كُلُّ امْرِئٍ مِنْكُمْ حِلْساً مِنْ اَحْلاسِ بَيْتِهِ مـادامَ هذَا الرَّجـُلُ حَيـّاً فَاِنْ يُهْلَكْ وَاَنْتُمْ أحْـياءٌ رَجَوْنا اَنْ يُخَيِّرَاللّهُ لَنا وَيُؤْتينا رُشْدَنا وَلا يَكِلَنا اِلى انْفُسِنا، «اِنَ اللّهَ مَعَ الَّذينَ اتَّقَوا وَالَّذينَ هُمْ مُحْسِنُون» [سوره،نحل،128] [موسوعة كلمات الامام الحسين ص 205،ح152]
امام حسين عليه السلام نے فرمایا:۔۔۔ تم میں سے ہر ایک کواپنے  اپنے گھر وںمیں رہنا چاہیے (یعنی حرکت مت کرنا، بہتر ہے اپنے گھروں میں  بیٹھ جائیں)، جب تک یہ شخص (معاویہ) زندہ ہے، اس لئے جب وہ ہلاک ہو گیا تو، تم زندہ ہونگے، تو ہم امید رکھتے ہیں ،کہ ہمیں خداوند عالم ،نجات ،رشد و رستگارى اور ترقی کا انتخاب فرمائے گا۔ اور ہمیں اپنے نفسوں پر چھوڑ دینا،( جیسا کہ قرآن نے وعدہ کیا ہے کہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور عمل صالح،نیک عمل انجام لاتے ہیں) ۔
امام حسين عليه‌السلام اور خاموشی
حديث-۱۰-قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: السيد ابن طاووس: أنه(عليه السلام) قال: اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ راجِعُونَ وَعَلَى الاْسْلامِ الْسَّلامُ اِذ قَدْ بُلِيَتِ الاْمَّةُ بِراعٍ مِثْلَ يَزيدَ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صلي الله عليه و آله يَقُولُ: اَلْخِلافَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلى آلِ اَبى سُفيانَ۔(وعلى الطلقاء أبناء الطلقاء، فإذا رأيتم معاوية على منبري فابقروا بطنه، فوالله لقد رآه أهل المدينة على منبرجدي فلم يفعلوا ما أمروا به، فابتلاهم الله بابنه يزيد، زاده الله في النار عذابا)
 [موسوعة كلمات الامام الحسين عليه السلام 285، ح252- الفتوح لابن أعثم، ج، 5 ص: 17]

سيد ابن طاؤؤس علیہ الرحمہ نے نقل کی ہےکہ: امام حسین علیہ السلام نے(جب مروان بن حکم کی طرف سے یزید کی بیعت کی تجویزپیش کی تو آپ علیہ السلام نے جواب میں) فرمایا: (موجودہ صورت حال میں یہ کہا جانا چاہئے):
" اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ راجِعُونَ " "وَعَلَى الاْسْلامِ الْسَّلامُ "
اس قسم کے اسلام پر فاتحہ خوانی ہی کی جاسکتی ہے!کہ امّت اسلامیہ کو یزید جیسے چرواہے نے گرفتارکر لیا ہے اور میں نے بذات خود اپنے کانوں سے رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہےکہ: ابوسفیان کے خاندان (آل اَبى سُفيان) پر خلافت حرام ہے۔
(اورابن الطلقاء(آزاد کردہ  اور نسل کش کی اولاد)کےبیٹوں اور اولادؤ!، پس تم نے معاویہ کومیرے منبر پر دیکھو، تو (اس وقت ، الے اہل مدینہ) تم اس کے پیٹ کو پھاڑ دو۔خدا کی قسم مدینہ کے لوگوں نے (معاویہ کو) ہمارے جد امجد رسول خدا(ص) کے منبرپر دیکھا  ، لیکن جس چیز کی امر اور دستور وحکم دیا گیا تھا اس پر عمل نہیں کیا۔ پس پروردگار عالم نے انہیں یزید جیسےعذاب اور بلاء میں مبتلا  فرمایا۔ خدایا ان پر جہنم کی عذاب میں اضافہ فرما)
خوارى و ذلّت هرگز!
حديث-۱۱- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: أَلا وَاِنَّ الدَّعِـىَّ ابْنَ الدَّعِـىِّ قـَدْ تَرَكَنى بَيْنَ السِلَّةِ وَالذِّلَةِ، وَهَيْهاتَ لَهُ ذلِكَ مِنّى! هَيْـهاتَ مِنَّـاالذِّلَّـةِ!! أَبَى اللّهُ ذلِكَ لَنا وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَ حـُجـُورٌ طَهُرَتْ وَ جـُدُودٌ طابَتْ، اَنْ يُؤْثِرَ طاعَةَ اللِّئامِ عَلى مَصارِعِ الْكِرامِ.
[موسوعة كلمات الامام الحسين عليه السلام 425، ح412]

امام حسین علیہ السلام نے (عاشورا کے دن) فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! اے کوفیو!یہ زنازادہ (عبید اللہ) فرزند زنازادہ (زياد بن ابيه‏)نے مجھ کو دو چیزوں کے درمیان کھڑا کر دیا ہے ، تلوار اٹھاوں اور جنگ ہو یا ذلت اختیار کروں اور اس کی بات مان لوں، اور میں ذلت نہیں برداشت کرسکتا ہوں،  ذلّت و خوارى  اوررسوائی ہم سے بہت دور ہے !!
 پروردگار عالم، اس کے رسول، مؤمنین، اور پاکیزہ خطوط اور پاکیزہ نسبوں نے ہمیں پسند نہیں کیا !کہ ہم عزّت کے ساتھ لڑنے پر آپ کی فطرت کی بنیاد کو اختیار کریں۔ آئیے ہم عزّت   اور وقار کے ساتھ لڑنے کے بجائے اپنی فطرت کی بنیاد کو ماننے کا انتخاب کریں۔
اعلی موت
حديث-۱۲- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: مَوْتٌ في عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَياةٍ في ذُلٍّ اَلْمَوْتُ اَوْلى مِنْ رُكُوبِ الْعارِ وَالْعارُ اَوْلى مِنْ دُخُولِ النّارِ [موسوعة كلمات الامام الحسين عليه السلام 499، ح289]
امام حسین علیہ السلام نے (یوم عاشورہ) فرمایا: ذلت کی زندگی سے عزّت  اور وقار کی موت بہتر ہے۔ شرم و ذلت کی سواری سے موت بہتر ہے۔ اور ذلت و خواری سےآتش میں داخل ہونا بہتر ہے
آزاد آدمی
حديث-۱۳-قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: وَيْحَكُمْ يا شِيعَةَ آلِ اَبى سُفْيانَ، اِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ دِيْنٌ وَكُنْتُمْ لاتَخافُونَ الْمَعادَ فَكُونُوا اَحْـراراً فِى دُنْيـاكُمْ.[بحارالانوار،ج 45، ص51ـمقتل خوارزمى، ج2،ص33]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اے سفیان کے پیروکارو! تم پر افسوس!اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت اور معاد سے ڈرتے نہیں ہے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد انسان بن کر رہو۔
امام حسین علیہ السلام اور موت و حیات
حديث-۱۴- قالَ الْحُسَيْنُ عليه السلام: لَيْسَ شَأْنى شَأنُ مَنْ يَخافُ الْمَوْتَ، ماأَهْوَنَ الْمَوْتِ عَلى سَبيلِ نَيْلِ الْعِزِّ وَاِحْياءِ الْحَقِّ، لَيْسَ الْمَوْتُ في سَبيلِ الْعِزِّ اِلاّ حَياةً خالِدَةً وَلَيْسَتِ الْحَياةُ مَعَ الذُّلِّ اِلاَّالْمَوْتَ الَّذى لاحَياةَ مَعَهُ، اَفَبِالْمَوْتِ تُخَوِّفُنى...وَهَلْ تَقْدِرُونَ عَلى أَكْثَرِ مِنْ قَتْلى؟! مَرْحَباً بِالْقَتْلِ فيسَبيلِ اللّهِ، وَلكِنَّكُمْ لاتَقْدِروُنَ عَلى هَدْمِ مَجْدى وَمَحْوِ عِزّى وَشَرَفى. [كلمات الامام الحسين عليه السلام،360، ح 348]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:میری شان اور مقام اس شخص کا نہیں جو موت سے ڈرتا ہے، میرے لئے عزت کی حصول اور احیائے حق کے راہ میں جان دینا کتنا آسان ہے، ( میں سمجھتا ہوں کہ)عزت کی راہ میں مرنا حیات جاودانی کےسواء کچھ نہیں۔ لیکن ، اور ذلت کی زندگی و حیات(میرے نزدیک)  ابدی موت کے سوا کچھ نہیں اور   کیا تم مجھے موت سے ڈرا رہے ہو؟!۔۔۔
 کیا تم مجھے مارنے سے زیادہ  کچھ کر سکتے ہو؟!
خدا کی راہ میں مرنا کتنی خوشی کی بات ہوگی  لیکن(یاد رکھو) تم میری شان و شوکت اور منزلت کو ختم نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی  میری عزّت و آبرو کو تباہ کر پائینگے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک