جنگ صفین
جنگ صفین
جنگ صفین حضرت علیؑ اور معاویہ کے درمیان لڑی گئی جنگوں میں سے ایک ہے جو 37ھ کو صفر کے مہینے میں صفین کے مقام پر لڑی گئی۔
اس جنگ میں جب معاویہ نے جنگ کو ہارتے دیکھا تو قرآن کو نیزوں پر بلند کیا جس پر امام علیؑ کے بعض سادہ لوح ساتھیوں نے جنگ جاری رکھنے سے انکار کیا۔ آخر کار فریقین نے حکمیت کے ذریعے اختلافات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن لشکر شام کے نمائندہ عمرو عاص نے طے شدہ معاہدہ کے خلاف لشکر عراق کے نمائندہ ابو موسی اشعری کو دھوکہ دے کر امام علیؑ کو خلافت سے معزول اور معاویہ کو خلافت پر برقرار رکھا۔
عمار یاسر اور خزیمہ بن ثابت اسی جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔
جنگ کی تمہیدات
جنگ صفین کا تاریخچہ
سنہ 36 ہجری
5 شوال امام علیؑ کی لشکر کا شام کی طرف روانگی
ـ کربلا پہنچنا اور واقعہ عاشورا کی پیشگوئی
ـ ساباط مدائن تک پہنچنا اور 1200 افراد کا لشکر امام سے الحاق
36ھ کے آخری ایام:
دونوں لشکر کے ہراول دستے کا آمنا سامنا اور لشکر شام کی پسپائی
سنہ 37 ہجری
محرم حرام مہینے کی وجہ سے جنگ میں وقفہ
1 صفر جنگ صفین کا باقاعدہ آغاز
5 صفر شام کے بعض حافظ قرآن کا امام علیؑ کی لشکر سے ملحق ہونا[1]
9 صفر شہادت عمار یاسر
لیلۃ الہریر
(جنگ کے آخری ایام)
نماز فجر سے آدھی رات اور آدھی رات سے اگلے دن ظہر تک جنگ جاری، عمروعاص کی مکاری سے قرآن کو نیزوں پر اٹھانا اور حکمیت کی درخواست
17 صفر حکمیت کا تحریر نامہ تیار اور زمان اور مکان کا تعین
ربیع الاول امام کی کوفہ واپسی
رمضان برپایی حکمیت در دومۃ الجندل میں حکمیت کا قیام اور ابوموسی اشعری کو عمروعاص کا دھوکہ، امام علیؑ کا حکمیت کے نتیجے کی مخالفت۔[2]
جس وقت امام علیؑ خلافت پر فائز ہوئے، معاویہ کئی سالوں سے شام کا حکمران بنا بیٹھا تھا۔ معاویہ کو خلیفہ دوم نے سنہ 18 ہجری میں دمشق کا گورنر مقرر کیا تھا،[3] جو خلیفہ سوم کے دور میں بھی جاری و ساری رہا۔[4] لیکن امیرالمؤمنین حضرت علیؑ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی عبداللہ بن عباس کو شام کا گورنر مقرر فرمایا اور اسی ضمن میں معاویہ کو خط لکھا اور شام کے بزرگان سمیت مدینہ آ کر آپ کی بیعت کرنے کا مطالبہ کیا لیکن معاویہ نے نہ صرف بیعت سے انکار کیا بلکہ حضرت علیؑ سے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا عندیہ دیا۔
حضرت علیؑ نے معاویہ کو یوں مرقوم فرمایا تھا کہ لوگوں نے آپ سے مشورہ کئے بغیر عثمان کو قتل کر ڈالا ہے اور اب آپس کے صلاح مشورے کے بعد سب نے یک زبان ہو کر مجھے بطور خلیفہ منتخب کیا ہے۔ معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں امام علیؑ یوں رقمطراز ہیں:
" میری بیعت ایک عمومی بیعت ہے جس میں تمام مسلمان شامل ہیں، چاہے بیعت کے وقت مدینہ میں حاضر ہوں یا بصرہ اور شام یا دوسرے شہروں میں ہوں۔ تم نے یہ گمان کیا ہے کہ مجھ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگانے کے ذریعے میری بیعت سے سرپیچی کر سکو گے؟ سب کو معلوم ہے کہ ایک تو عثمان کو میں نے قتل نہیں کیا تاکہ مجھ پر کوئی قصاص لازم ہو دوسری بات عثمان کے ورثاء ان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے تم سے زیادہ سزاوار ہے اور تم خود ان افراد میں سے ہو جو عثمان کی مخالفت کیا کرتے تھے اور جس وقت انہوں نے تم سے مدد کی درخواست کی تو تم نے ان کی مدد نہیں کی یہاں تک کہ انہیں قتل کر دیا گیا"[5]
اس پر معاویہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔[6]
جنگ جمل کے بعد امام علیؑ کوفہ میں مستقر ہوئے اور معاویہ کو اپنی اطاعت پر قانع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔[7] لیکن جب امام علیؑ کو یہ یقین ہو گیا کہ معاویہ آپؑ کی بیعت اور اطاعت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور کوفہ کے سرکردگان نے بھی شام کے ساتھ جنگ میں آپ کا ساتھ دینے کا عندیہ دیا تو آپ نے ایک خطبے کے ذریعے لوگوں کو جہاد کی دعوت دی۔
معاویہ کے مددگار
امام علیؑ کے دور حکومت کی جنگیں مد مقابل تاریخ وقوع
جنگ جمل حضرت عایشہ اور طلحہ و زبیر 15 جمادی الثانی سنہ 36 ہجری
جنگ صفین معاویہ صفر سنہ 37 ہجری
جنگ نہروان خوارج صفر سنہ 38 ہجری
عمرو بن عاص (اس وقت فلسطین میں تھا معاویہ نے اس کے مشوروں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسے مصر کی حکومت کا وعدہ دے کر شام بلوایا)،[8] عبید اللہ بن عمر، عبد الرحمن بن خالد بن ولید، عبداللہ بن عمرو بن عاص، مروان بن حکم، معاویہ بن حدیج، ضحاک بن قیس، بسر بن ارطاۃ، شرحبیل بن سمط کندی اور حبیب بن مسلمہ۔[9]
امیرالمؤمنینؑ کی دعوت جہاد
امام علیؑ نے فرمایا:
"نحن النجباء، وأفراطنا أفراط الانبیاء، وحزبنا للہ حزب، وحزب الفئة الباغیة حزب الشیطان، و من سوّی بیننا وبین عدونا فلیس منا
(ترجمہ: ہم منتخب اور برگزیدہ ہیں اور ہم سے گذرنا ـ (اور ہمیں نظرانداز کرنا) انبیاء سے گذرنے کے مترادف ہے اور ہماری جماعت اللہ کی جماعت ہے اور باغی جماعت شیطان کی جماعت ہے اور جو ہمیں اور ہمارے دشمنوں کو یکسان سمجھے وہ ہم سے نہیں ہے۔)
ابن حنبل، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالبؑ، ص310۔
امامؑ مطمئن ہوئے کہ معاویہ طاقت کی زبان کے سوا دوسری زبان نہیں سمجھتا اور دوسری جانب سے کوفہ کے زعماء شام کے ساتھ جنگ میں آپؑ کے ساتھ ہیں تو آپؑ نے خطبہ دے کر لوگوں کو جہاد کی دعوت دی۔ آپؑ نے عبداللہ بن عباس کو مکتوب روانہ کیا کہ بصرہ کے عوام کو آپؑ کا ساتھ دینے کی دعوت دیں اور یوں بصرہ کے بہت سے لوگ ابن عباس کے ساتھ کوفہ چلے آئے۔ نیز آپؑ نے اصفہان کے والی مخنف بن سلیم کو بھی خط لکھا اور ہدایت کی کہ اپنی سپاہ کے ساتھ آپؑ سے آملیں۔[10]
جنگ کا آغاز
آخر کار امام علی علیہ السلام کی سپاہ عراق اور شام کے شمال میں اور روم کی سرحد پر سپاہ شام کے آمنے سامنے قرار پائی۔ امیرالمؤمنینؑ نے مالک اشتر کو ان کی طرف روانہ کیا اور ان سے تاکید فرمائی کہ کسی طور بھی جنگ کا آغاز نہ کریں۔ مالک کے آنے کے ساتھ ہی سپاہ شام نے جنگ کا آغاز کردیا اور فریقین کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کے بعد سپاہ شام پسپا ہوگئی۔[11]
بعض لوگوں کو یہ سوال درپیش تھا کہ امام علیؑ ان کے ساتھ کیونکر لڑ رہے ہیں جبکہ وہ مسلمان ہیں اور رسول اللہؐ نے فرمایا ہے: ہمیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اس وقت تک کہ لوگ توحید کی گواہی دیں، اور جب گواہی دیں تب ان کی جان اور ان کا مال محفوظ ہے۔ لیکن عمار یاسر نے ان لوگوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: یہ بات صحیح ہے لیکن یہ لوگ اسلام نہیں لائے ہیں، وہ باطن میں کفر ہی برتتے تھے آج تک انہوں نے اعوان و انصار اپنے گرد جمع کئے ہیں۔[12]
جنگ میں خواتین کی موجودگی
کوفہ کی بعض خواتین بھی صفین میں موجود تھیں جو شعر کہتی تھیں جن میں وہ امیرالمؤمنینؑ کی مدح کرتی تھیں اور آپؑ کے فضائل بیان کرتی تھیں اور خلیفۃ المسلمین کی سپاہ کو باغی فوج کے خلاف جنگ کی ترغیب دلاتی تھیں۔ سورہ بنت عمارہ ہمدانی اور ام سنان،[13] زرقاء بن تعدی ہمدانی،[14] ام الخیر اور جروہ بنت مرہ بن غالب تمیمی ان ہی خواتین میں شامل تھیں۔[15]
جنگ بندی
ایک دو لڑائیوں کے بعد محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے قرار پایا کہ جنگ روک دی جائے۔[16]
لیکن امیرالمؤمنینؑ اور معاویہ کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات جاری تھے اور معاویہ نے جنگ بندی کو عمار یاسر، عدی بن حاتم، مالک اشتر سمیت ان لوگوں کے قتل سے مشروط کردیا جو اس کے خیال میں قتل عثمان میں ملوث تھے! یہ شرط نہ تو امیرالمؤمنینؑ کے لئے قابل قبول تھی اور نہ ہی عراقی عوام کے لئے اور پھر ان افراد نے عثمان کے قتل میں کوئی کردار بھی ادا نہیں کیا تھا۔ یہ مسئلہ اس سے پہلے بھی مسجد کوفہ میں جب ابو مسلم خولانی نے معاویہ کا خط لا کر امیرالمؤمنینؑ سے عثمان کے قاتلوں کے حوالے کرنے کی درخواست کی تھی تب بھی مسجد میں موجود تمام افراد نے کھڑے ہوکر کہا تھا: "ہم سب عثمان کے قاتل ہیں"۔[17]
صفین میں یہی واقعہ دہرایا گیا اور سپاہ امیرالمؤمنینؑ میں سے 20000 افراد نے الگ ہوکر کہا: "ہم عثمان کے قاتل ہیں"۔[18]
معاویہ درحقیقت جنگ کا ارادہ رکھتا تھا اور یہ شرطیں وہ اس لئے لگا رہا تھا کہ اس کو معلوم تھا کہ امیرالمؤمنینؑ اس کا یہ مطالبہ کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے۔ وہ مذاکرات کے مواقع فراہم کرکے ان افراد کو دھوکہ دے کر اپنی طرف مائل کرانا چاہتا تھا جو اس کے خیال میں امامؑ سے منحرف ہو سکتے تھے! چنانچہ اس نے امامؑ کی طرف سے مذاکرات کے لئے آئے "زیاد بن حفصہ" سے کہا: "میں تم سے تقاضا کرتا ہوں کہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ آکر ہم سے آ ملو اور میں عہد کرتا ہوں کہ فتح کی صورت میں سے کوفہ اور بصرہ میں سے ایک شہر تمہارے سپرد کروں"۔ زیاد نے کہا: "جو نعمت مجھے اللہ نے عطا کی ہے اس کے لئے میرے پاس اللہ کی جانب سے واضح برہان موجود ہے اور ہرگز خطا کاروں کا حامی نہیں بننا چاہتا"۔[19]
بہرحال جنگ بندی جاری نہ رہ سکی۔
جنگ کا دوبارہ آغاز
صفر سنہ 37 ہجری کو دو لشکروں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔ ہر روز امیرالمؤمنینؑ کا ایک سپہ سالار اگلی صفوں کی کمان سنبھالتا تھا، پہلے روز مالک اشتر، دوسرے روز ہاشم بن عتبہ، تیسرے روز عمار یاسر، چوتھے روز محمد حنفیہ اور پانچویں روز عبداللہ بن عباس سپاہ امیرالمؤمنینؑ کے سپہ سالار تھے۔[20]
حوالہ جات
1. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفين، 1404ھ، ص222.
2. جعفریان رسول، اطلس شیعہ، 1391شمسی ہجری، ص58.
3. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۱۷۲، به نقل از: منتظری مقدم، «روابط امام علی(ع) و معاویه»، ص۴۳.
4. ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، ۱۴۲۱ق، ج۶۲، ص۸۱، به نقل از: منتظری مقدم، «روابط امام علی(ع) و معاویه»، ص۴۳.
5. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، داراحیاء التراث العربی، ج۳، ص۸۹.
6. بلاذری، انساب الاشراف، موسسه الاعلمی، ج ۲، ص ۲۱۱.
7. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۷۵.
8. ابن اعثم، الفتوح، ج2، ص382۔
9. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص 195، 429، 461، 552 و 455۔؛ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ج 3، ص 436۔؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 2، ص 392۔؛ ذہبی، وہی ماخذ، 3، ص 91 ؛ ۔
10. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص 115۔
11. جعفریان، تاریخ خلفاء، ص 276۔
12. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص215۔
13. ابن اعثم، الفتوح، ج 2، ص 101۔
14. ابن اعثم، الفتوح، ج 3، ص 142۔
15. ابن بکار، الوافدات من النساء علی معاویہ بن ابی سفیان، ص 36۔
16. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص 196۔
17. دینوری، اخبار الطوال، ص 163۔
18. دینوری، اخبار الطوال، مان، ص 170۔
19. ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص 199۔
20. بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص305۔
مآخذ
o ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، تحقیق محمد ابو الفضل ابراهیم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
o ابن اثیر، عز الدین ابو الحسن، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۰۸ق.
o ابن اعثم، محمد بن علی، الفتوح، بیروت، دار الندوه، [بیتا] و دار الأضواء، ۱۴۱۱ق.
o ابن بکار، اخبار الوافدات من النساء علی معاویہ بن ابی سفیان، بیروت، مؤسسة الرسالہ، بیتا.
o ابن جوزی حنبلی، المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم، بیروت، دار صادر، بیتا.
o ابن حنبل، احمد، فضائل امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب، تحقیق سید عبد العزیز طباطبایی، قم، دار التفسیر، ۱۴۳۳ق.
o ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق یوسف البقاعی، بیروت، دار الاضواء، بیتا.
o ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق الکبیر، تحقیق ابی عبدالله علی عاشور الجنوبی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۱ق.
o ابن مزاحم، نصر، وقعة صفین، تحقیق عبد السلام محمد هارون، قم، منشورات مكتبة المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
o ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الأمم، تحقیق ابو القاسم امامی، تهران، سروش، چاپ دوم، ۱۳۷۹ش.
o بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر محمودی، بیروت، موسسہ الاعلمی، بیتا.
o جعفریان، رسول، تاریخ خلفاء، قم، انتشارات دلیل ما، بیتا.
o دینوری، احمد، الاخبار الطوال، بہ کوشش عبد المنعم عامر، قاهره، بینا، ۱۹۶۰ء.
o ذهبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق محب الدین ابو سعید، بیروت، دار الفکر، بیتا.
o سبط بن جوزی، تذکرة الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، چاپ اول، ۱۴۱۸ق.
o منتظری مقدم، حامد، «روابط امام علی (ع) و معاویہ» (از خلافت تا جنگ صفین)، در مجلہ معرفت شماره ۵۲، ۱۳۸۱ش