خَوارِج
خَوارِج
خَوارِج امام علیؑ کے سپاہیوں میں سے تھے اور جنگ صفین میں حضرت علیؑ پر کفر کا الزام لگاتے ہوئے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہیں خلیفہ مسلمین کے خلاف قیام کرنے کی بنا پر خوارج کا نام دیا گیا ہے۔ یہ لوگ حکمیت کو قبول کرنے اور حضرت علیؑ کو کافر نہ سمجھنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔
مسجد کوفہ میں امام علیؑ کے خلاف نعرہ بازی کرنا اور آپ کو قتل کی دھمکی دینے کو خوارج کے کاموں میں شمار کیا گیا ہے۔ حکمیت کو قبول کرنے کی وجہ سے یہ لوگ امام علیؑ کے سر سخت دشمن بن گئے اور عبداللہ بن وہب کی بیعت کر کے کوفہ سے نکل کر نہروان چلے گئے اور راستے میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا۔ امام علیؑ نے اتمام حجت کرنے کے بعد سنہ 38 ہجری کو ان کے ساتھ نہروان کے مقام پر جنگ کیا جس میں ان کی اکثریت مارے گئے لیکن ان میں سے بعض زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ خوارج کی مختلف فرقے تاریخ میں منقرض ہوئے ہیں اور ان میں صرف فرقہ اباضیہ جن کے عقائد تقریبا دوسرے مسلمانوں کے قریب ہیں، عمان اور الجزایر کے بعض مناطق میں اب بھی موجود ہیں۔
اسلامی منابع میں خوارج کے مختلف اور چہ بسا متفاوت خصوصیات ذکر ہوئی ہیں؛ من جملہ ان میں قرآن میں تدبر اور تفکر کیے بغیر اسے حفظ اور اس کی تلاوت کرنے میں دوسروں سے پیش پیش ہونا، جہالت اور تنگ نظری، غرور، شدت پسندی اور عقائد میں تعصب ان کے چیدہ چیدہ خصوصیات میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے اعتراض کرنے اور تفرقہ ایجاد کرنے والا گروہ یہی خوارج تھے۔ ان کے عقیدے میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا کافر ہے۔ اکثر خوارج پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے خلیفہ منصوب ہونے کے مخالف اور خلیفہ کے انتخابی ہونے کے معتقد تھے۔ اسی طرح یہ لوگ بدکار عورت کو سنگسار کرنا اور قول و عمل میں تقیہ کرنے کے بھی مخالف تھے۔
اگرچہ خوارج میں علمی بحث و مباحثے کا رجحان بہت کم پایا جاتا تھا لیکن علوم قرآن، کلام، فقہ اور اصول فقہ جیسے علاوم نیز توحید اور امامت کے موضوعات پر مختلف آثار ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ابن ندیم کے مطابق خوارج اپنی کتابوں کو لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے مخفی رکھتے تھے۔ خوارج کے اعتقادات اور ان کے اعمال کی رد میں مستقل اور غیر مستقل طور پر مختلف کتابیں نشر ہوئی ہیں؛ من جملہ ان میں ان کے خلاف نقل ہونے والی احادیث اور ابن ابی الحدید جیسے بعض مفسرین کی جانب سے گناہ کبیرہ کے مرتکب کے کافر ہونے کے ان کے عقیدے کی ردّ میں لکھی گئی کتاب قابل ہیں ہے۔
پیدایش اور اسامی
خوارج کی پیدائش کو جنگ صفین میں رونما ہونے والے وقعات سے مرتبط سمجھا جاتا ہے؛ جب امام علیؑ نے حکمیت کی مخالفت کرنے سے انکار کیا[1] تو مذکورہ گروہ جس نے خود شروع میں حکمیت کی تجویز دی تھی، امام علیؑ کی جانب سے اسے قبول کرنے اور جنگ کے متوقف ہونے کے بعد اپنی تجویز سے صرف نظر کرتے ہوئے امام علیؑ کو بھی توبہ کرنے کا کہا۔[2] اس کے بعد خوارج نے حکمیت کے قبول کرنے کو موجب کفر قرار دیا اور امام علیؑ کے کوفہ واپسی پر ان سے الگ ہو کر حروراء نامی مقام پر چلے گئے۔[3]
متکلمین اور مورخین کے برخلاف خوارج امام علیؑ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کو ظالم کی حکومت اور حاکمیت کے خلاف قیام سمجھتے ہوئے اپنے اس عمل کو پیغمبر اکرمؐ کی ہجرت سے تشبیہ دیتے تھے۔[4] خوارج کا اسی مشہور نام کے علاوہ امام علیؑ کے کلام میں [5] ان کے دیگر اسامی کا ذکر بھی ملتا ہے؛ من جملہ ان میں مُحَکِّمۃ جو حکمیت کی مخالف میں ان کے نعرے "لاحکم الا للہ" سے مأخوذ ہے،[6] حَروریّۃ جو ان کے جمع ہونے کی جگہ کی طرف اشارہ ہے[7] اور مارقۃ منحرفین کے معنا میں۔[8]
خوارج کو امام علیؑ کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے نواصب یا ناصبہ بھی کہا جاتا ہے[9] اسی طرح پہلی بار گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو کافر قرار دینے پر انہیں مُکَفّرہ بھی کہا جاتا ہے۔[10] اہل النہر یا اہل النہروان بھی خوارج کے دیگر اسامی میں سے ہیں۔[11] اسی طرح انہیں "شُراۃ" اپنے جانوں کو بہشت کے مقابلے میں فروخت کرنے والے کے معنی میں، بھی کہا جاتا ہے۔[12]
شروع میں ان لوگوں کا مقر اصلی کوفہ اور بصرہ تھا۔[13] بصرہ کے خوارج کی تعداد کوفہ کے خوارج سے زیادہ تھی؛ کیونکہ کوفہ کے خوارج میں سے بہت سارے امام علیؑ کے ساتھ گفتگو کے بعد خوارج سے جدا ہو گئے تھے۔[14] لیکن اس کے بعد خوارج مختلف شہروں اور ان کے گرد و نواح میں منتشر ہو گئے اور ایران اور یمن سے لے کر افریقہ کے شمال تک پہنچ گئے تھے۔[15] خوارج کی مختلف فرقے تاریخ میں منقرض ہوئے ہیں اور ان میں صرف فرقہ اباضیہ جن کے عقائد دوسرے مسلمانوں کے تقریبا قریب ہے عمان، سیوہ، حضرموت، جربہ، زنگبار، مغربی طرابلس اور الجزایر کے بعض مناطق میں اب بھی موجود ہیں۔[16]
امام علیؑ پر کفر کا الزام
حکمیت کی مخالف پر مبنی اپنے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے پر حضرت علیؑ سے جدا ہونے والے خوارج امام علیؑ اور عبداللہ بن عباس کی کوششوں سے ایک دفعہ پھر کوفہ واپس آگئے[17] لیکن کوفہ پہنچنے کے بعد دوبارہ حضرت علیؑ کی مخالفت پر اتر آئے اور حکمیت کو قبول کرنے اور امام علی کو کافر نہ سمجھنے والوں کو کافر کہنے لگے۔[18] یہ لوگ نہ صرف حَکَمین بلکہ حاکم اسلامی کی ضرورت سے بھی انکار کرنے لگے۔[19] یہ لوگ مختلف مقامات خاص کر مسجد کوفہ میں حکمیت کی صریح مخالفت کرتے تھے، امام علیؑ پر کفر کا الزام اور آپ کو قتل کی دھمکی دیتے تھے اور امام علیؑ کے خطبے کے دوران نعرہ بازی کرتے تھے تاکہ اس طرح آپ کو حکمیت کے قبول کرنے سے منصرف اور معاویہ کے ساتھ دوبارہ جنگ کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ ان تمام کاموں کے باوجود جب تک ان لوگوں نے خود جنگ اور خونریزی شروع نہیں کی امام علی نے ان کے ساتھ جنگ میں پہل نہیں فرمایا۔[20]
سنہ 37ھ کو شعبان یا رمضان کے مہنے میں ابوموسی اشعری اور عمرو بن عاص کے درمیان جاری ہونے والی حکمیت اور اس میں عمروعاص کے ہاتھوں ابوموسی کے دھوکا کھانے اور اس کے بے نتیجہ ثابت ہونے کے بعد[21] امام علیؑ نے حکمین کے فیصلے کو قرآن کریم کا مخالف قرار دیا اور ایک بار پھر معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔ اس موقع پر امام علیؑ نے خوارج جو اس وقت نہروان میں جمع ہو گئے تھے، کے دو سرداروں عبداللہ بن وہب راسبی اور یزید بن حصین کے نام ایک خط لکھا اور انہیں معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے صفن میں آپ کا ساتھ دینے کی دعوت دی۔ انہوں نے جواب میں امام علیؑ سے کہا جب تک آپ اپنی کفر پر اعتراف اور توبہ نہیں کرنے ہم آپ سے دور رہیں گے۔ یوں حکمین کے فیصلے کے بعد امام علیؑ کے ساتھ خوارج کی دشمنی میں مزید شدت آگئی۔[22]
خوارج نے 10 شوال سنہ 37 ہجری کو عبداللہ بن وہب کی بعنوان امیر بیعت کی اور کوفہ سے باہر نہروان کی طرف جانے پر متفق ہو گئے۔[23] خوارج نے نہروان کی طرف جاتے ہوئے راستے میں کئی بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا۔ امام علیؑ نے ان کو حق کی طرف دعوت دینے اور اتمام حجت کے بعد ناگزیر ان سے جنگ کرنے کیلئے تیار ہوئے اور سنہ 37ھ جنگ نہروان میں ان میں سے اکثر امام کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان میں سے ایک گروہ نے فروۃ بن نوفل کی سرکردگی میں شروع سے ہی امام علیؑ کے ساتھ جنگ کرنے میں تردید کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔[24]
خوارج پر امام علیؑ کو فتح اور برتری ملنے اور ان میں سے اکثریت کے ختم ہونے کے باوجود یہ لوگ ایک سیاسی، فکری اور نظامی گروہ کے عنوان سے تاریخ میں باقی رہے۔ امام علیؑ نے اپنے بعد اپنے شیعوں کو خوارج کے ساتھ جنگ کرنے سے منع فرمایا۔[25] امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ صلح کے بعد اس کی طرف سے خوارج کے ساتھ جنگ کرنے کی درخواست کو رد فرمایا۔[26]
خصوصیات
خوارج کی جو خصلتیں امام علی علیہ السلام نے بیان کی ہیں ان کے علاوہ ادبی، تاریخ، حدیثی اور ملل و نحل کی کتابوں میں بھی مولفین نے بہت ساری خصلتیں بیان کی ہیں۔ اور جو صفات ان کے لئے بیان ہوئی ہیں اکثر بری صفات ہیں۔
• تدبر کے بغیر قرآن کا حفظ اور قرائت
• ایمان کی حقیقت سے عاری ڈھیر ساری عبادتیں [27]
• زہد کا دکھاوا اور اس کی طرف رغبت[28]
• جہل اور تنگ نظری (جیسے گناہ گار کو کافر سمجھنا اور اللہ تعالی کی رحمت کو محدود کرنا)
• پیغمبر کی سنت اور دین کے احکام سے ناآشنایی [29]
• سادہ لوحی اور سطحی نگری کے ساتھ ساتھ قرآن کو صحیح سے نہ سمجھنا اور آیات کو غلط موارد میں استعمال کرنا [30]
• غرور اور خودبینی اور اپنے علاوہ سارے مسلمانوں کو کافر اور گمراہ سمجھنا[31]
• عقیدے میں شک
• جدل اور مناظرے کی طرف توجہ اور دلیل میں کمزوری [32]
• عقائد اور نظریات میں جھگڑالوپنی، ضدیت، تعصب اور تندروی [33]
• شدّت پسندی کے ساتھ نیک گفتاری اور بدکرداری [34]
• دوستوں کے قتل کی جگہ کو مقدس قرار دینا اور اسے دار الہجرہ کا مقام دینا[35]
• عدالتخواہی، امر بہ معروف، نہی از منکر اور ظالم حکمرانوں کے ساتھ جہاد کرنا بہترین معاشرتی آرزو [36] بعض دفعہ تو امر بہ معروف کے لئے قیام نہ کرنے اور جہاد نہ کرنے کو کفر سمجھتے تھے۔[37]
• اہل قبلہ سے جہاد کرنے کو فضیلت سمجھنا، انکے بچے اور خواتین کو اسیر کرنا یا قتل کرنا اور مشرکوں اور کافر ذمی سے نرم برتاؤ کرنا۔[38]
• بےنظمی اور پےدرپے گروہوں میں بٹنا [39]
• امام علی علیہ السلام سے بغض و کینہ، یہاں تک کہ شہادت کے بعد بھی۔ [40]
• لڑاکو، دلیر، صابر اور عسکری امور میں منظم[41]
اسی آخری صفت کی وجہ سے انکے سپاہی کم ہونے کے باوجود بنی امیہ کی فوج پر کئی بار غالب آئے۔ لیکن اس کے باوجود میدان جنگ سے ان کے بھاگنے کی اطلاعات بھی موجود ہیں۔[42] خوارج کبھی اپنے گھوڑوں کے پاوں کاٹتے، تلواروں کے نیام کو توڑ ڈالتے اور دلیری سے متحد ہوکر دشمن کی فوج پر حملہ آور ہوتے تھے اور بہشت کی لالچ میں موت کی طرف دوڑتے چلے جاتے تھے۔[43] اسی وجہ سے ان کے طور و طریقے خارجیوں کے حملوں کی خصوصیات کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ خدا کی بندگی، موت کی تیاری اور جانبازی کی علامت کے طور پر یہ لوگ اپنے سروں کو تراشتے تھے۔ اسی وجہ سے دوسرے مسلمان ان کی مخالفت میں سر کے بال چھوٹے نہیں کرتے تھے۔[44] چہ بسا یہ لوگ اپنے سر کے درمیانی حصے کو تراش کر باقی حصوں کو چھوڑ دیتے تھے۔[45]
اسلام میں خوارج کا کردار
خوارج کا تاریخ اسلام پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں من جملہ ان میں امام علیؑ کی فوج میں انتشار اور تفرقہ[46] جو اسلام میں ایک معارض گروہ اور نئے فرقہ کی ایجا کا سبب بنا۔[47] شروع میں خوارج سیاسی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آگئے لیکن عبدالملک بن مروان کے دور میں انہوں نے اپنی ان سیاسی نظریات کو کلامی مباحث کے ساتھ خلط کر کے پیش کرنے لگے۔[48]
طبری اور ابن اعثم جیسے مورخین کے مطابق خوارج کا امام علیؑ کے ساتھ آمنا سامنا ہونا اور آپ کو قتل کرنے نے معاویہ کے لئے مسلمانوں پر حکومت کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔[49] ان سب چیزوں کے باوجود خوارج معاویہ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے امام حسنؑ کی فوج میں شامل ہو گئے [50] اور معاویہ کے ساتھ امام حسنؑ کی صلح ہونے کے بعد بھی انہوں نے معاویہ اور بنی امیہ کے ساتھ جنگ جاری رکھا۔[51] یہ لوگ بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کو بھی کافر سمجھتے تھے ارو ان کا عقیدہ تھا کہ ظلم سے نجات حاصل کرنے کیلئے کافروں کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہے۔[52]
خوارج بنی امیہ کے خالف چلنے والی ہر تحریک میں شامل ہو گئے اسی بنا پر انہوں نے عبداللہ بن زبیر، زید بن علی اور ابومسلم خراسانی کی مدد کیں۔[53] ان تمام باتوں کے باوجود بعض اوقات انہوں نے بنی امیہ کی حاکموں کے ساتھ سازباز کر کے ان کی طرف سے بعض اہم مناصب بھی حاصل کئے ہیں۔[54] چہ بسا انہوں نے مستقل طور پر بعض شہروں کی باگ ڈور سنبھالیں اور امام، امیرالمؤمنین اور خلیفہ کے عنوان سے حکومت کرنے لگے۔[55] بنی امیہ نے خصوصی طور پر عراق اور ایران میں سختی سے انہیں سرکوب کرنے کی کوشش کیں۔[56] خوارج کے انجام پانے والے یہی جنگیں بنی امیہ کے کمزور ہونے اور آخر کار ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا سبب جانا جاتا ہے۔[57]
نظریات اور اعتقادات
خوارج کا سب سے اہم عقیدہ گناہ کبیرہ کے مرتب شخص کا کافر ہونا ہے۔ اس عقیدے کو علم کلام کی پیدائش اور اس میں انقلاب آنے کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔[58] خوارج کی بعض اعتقادات یہ ہیں:
• مرتکب گناہ کبیرہ کی تکفیر: سب سے پہلا نظریہ جس پر سب خوارج متفق ہیں وہ گناہان کبیرہ کے مرتکب ہونے والے کی تکفیر ہے۔[59] خوارج کا ازارقہ نامی فرقہ اس عقیدے میں بہت زیادہ افراط کا شکار ہوتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ مرتکب گناہ کبیرہ دوبارہ ایمان بھی نہیں لا سکتا ہے اس بنا پر گویا یہ شخص مرتد ہو گیا ہے اب اس کو اس کے بال بچوں کے ساتھ قتل کرنا چاہئیے اور اس کا ٹھکانہ ہمیشہ کیلئے جہنم ہے۔[60] اس سلسلے میں خوارج کی ایک دلیل سورہ مائدہ کی آیت نمبر 44 ہے۔[61]
• امامت: امامت کے بارے میں خوارج کا نظریہ مرتکب گناہ کبیرہ کی تکفیر والے نظریہ سے لیا گیا ہے۔ اس بنا پر ان کا عقیدہ ہے کہ گناہان کبیرہ کا مرتکب شخص اسلامی معاشرے میں مسلمانوں کی امامت کا عہدہ نہیں سنبھال سکتا ہے اور اگر ایسا کوئی شخص امامت کے عہدے پر موجود ہو تو مومنوں پر اس کے خلاف قیام کرنا واجب ہے۔ [62] خوارج کی اکثریت اس بات کے معتقد تھے کہ خلیفہ پیغمبر اکرمؐ نے نصب نہیں فرمایا بلکہ ہر شخص جو کتاب و سنت عمل پیرا ہو وہ خلیفہ یا امام بن سکتا ہے اور دو شخص کی بیعت سے اس کی امامت یا خلافت مستقر ہو جاتی ہے۔[63] اس بنا پر امامت اور خلافت کے مسئلے میں یہ لوگ اس عہدے کے انتخابی ہونے کے قائل تھے نہ انتصابی ہونے کے[64] اور اس زمانے کے رائج نظریے کے بر عکس یہ لوگ غیر قریش کی امامت اور خلافت کے بھی قائل تھے۔[65]
• خلفائے راشدین: خلفائے راشدین کے دور میں رونما ہونے والے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے خوارج عمر اور ابوبکر کو امام اور رسول اللہ کا خلیفہ مانتے تھے لیکن عثمان کی ابتدائی 6 سال اور امام علیؑ کی حکمیت قبول کرنے تک کے عرصے کو صحیح سمجھتے تھے اور ان دونوں کے دور حکومت کے باقی ایام میں ان کی تکفیر کرتے ہوئے انہیں خلافت سے معزول سمجھتے تھے۔[66]
• فقہی نظریات: خوارج کے بعض فرقوں سے کچھ فقہی نظریات بھی نقل ہوئے ہیں؛ جن میں زانی کو سنگسار کرنے کی ممانعت(چونکہ اس کا قرآن میں کہیں تذکرہ نہیں ہے) مخالفین کے بچوں اور خواتین کے قتل کا حائز ہونا، یہ عقیدہ کہ مشرکوں کے ساتھ ان کے بال بچے بھی جہنم میں ہونگے اور قول اور فعل میں تقیہ کو جائز نہ سمجھنا قابل ذکر ہیں۔ [67] خوارج میں سے ازارقہ والوں کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں میں سے جسکا بھی خوارج سے تعلق نہیں ان کو قتل کیا جانا جاہئے لیکن عیسائیوں، مجوسیوں اور یہودیوں کے قتل کرنے کو حرام سمجھتے تھے۔[68]
علمی اور ادبی آثار
دوسری صدی ہجری کے درمیان سے خوارج نے بتدریج دینی، فقہی اور تاریخی کتابوں پر توجہ دینے لگا یوں ان کے درمیان سے بھی راوی، علماء اور فقہاء پیدا ہونے لگا۔[69] خوارج نقل حدیث پر زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے اسلئے صرف قرآن کو ہی فقہی احکام کا منبع سمجھتے تھے۔[70] خوارج کوئی وسیع اور منسجم فلسفی اور فقہی مکتب فکر کے مالک نہیں تھے؛ اس بنا پر ان میں سے صرف فرقہ اباضیہ اعتقادات اور فقہی آثار کے مالک تھے۔[71]
ابن ندیم اپنی کتاب "الفہرست" میں اس بات کے معتقد ہیں کہ خوارج لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے اپنے علمی آثار مخفی رکھتے تھے۔[72] اس سلسلے میں ابن ندیم نے خوارج کے بعض علماء کا نام ذکر کیا ہے جو علوم قرآنی، کلام، فقہ اور اصول فقہ میں صاحب تصانیف تھے۔[73] اس کے علاوہ توحید اور امامت نیز اپنے مخالفین من جملہ معتزلہ، مرجئہ، شیعہ اور غلاۃ کے رد میں لکھی گئی کتابوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔[74]
خوارج کے بہت سارے خطباء اور شعراء بھی تھے اور ان میں سے بعض بہت ہی مشہور و معروف تھے۔[75] کہا جاتا ہے کہ خوارج کے اکثر اشعار جنگوں میں پڑھی جانے والی رجزیں تھیں۔[76] خوارج سے منسوب بعض خطبے اور مکتوبات بھی نقل ہوئی ہیں جو ان کے سرداروں کی طرف سے مختلف افراد کے نام بھیجے گئے تھے جن میں ان افراد کو اپنے طور طریقے کی طرف دعوت اور قیام، جہاد اور امر بہ معروف کی طرف رغبت دی جاتی تھی۔[77]
وجود میں آنے کے علل و اسباب
اسلامی منابع میں خوارج کے وجود میں آنے کے مختلف علل و اسباب ذکر کئے گئے ہیں من جملہان میں بادیہنشینوں کی نفسانی کیفیت کو سب سے زیادہ مؤثر علت قرار دیا گیا ہے۔ بعض مضنفین زمانہ جاہلیت کے بدو اعراب کو خارجیوں کا اصلی چہرہ قرار دیتے ہیں جو اپنے سرداروں، قبائلی آداب و رسوم اور خاندانی اقدار کی خاطر بغاوتوں پر اتر آتے تھے اور بہت چھوٹی چھوتی چیزوں کی خاطر جذباتی ہو کر فورا اسلحہ اٹھاتے اور ایک دوسرے سے جنگ کرنے لگتے تھے۔[78] خوارج کے اکثر چیدہ چیدہ افراد انہی اعراب میں سے تھے اور عرب کے کسی بھی مشہور قبیلے سے ان کا تعلق نہیں تھا۔[79] اس بنا پر مہاجرین اور انصار میں سے کوئی صحابی خوارج میں شامل نہیں تھا۔[80]
بعض محققین خوارج کے وجود میں آنے کی علل و اسباب میں عثمان کے خلاف اٹھنے والی تحریک و دخیل سمجھتے ہوئے[81] اس بات کے معتقد ہیں کہ عثمان کے قتل اور خلافت کے معاملے میں اصحاب کے درمیان ہونے والی کشمکش سبب بنی کہ عام لوگوں میں یہ نظریہ پیدا ہونا شروع ہوا کہ اگر خلیفہ لوگوں کے نظریات سے مخالفت کرے یا دینی احکام پر صحیح عمل نہ کرے یا عدل و انصاف کی رعایت نہ کرے تو اسے برکنار یا قتل کیا جاتا سکتا ہے۔[82] اسلامی منابع جیسے تاریخ طبری، میں صراحتا آیا ہے کہ عثمان کے مخالفین میں سے کم از کم 30 چیدہ چیدہ افراد شامل تھے جو بعد میں خوارج کے رکن رکین کے طور پر ظاہر ہوئے۔[83]
ان کے علاوہ بعض دوسرے عوامل جیسے غنائم کی تقسیم میں امام علیؑ کے طور و طریقے سے ناراضی ار جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے داخلی جنگوں کا آغاز جن میں پہلی بار مسلمان ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑے ہوئے تھے کو خوارج کے وجود میں آنے کے علل و اسباب میں شمار کیا جاتا ہے۔[84]
خوارج کے عقائد کا تنقیدی جائزہ
تاریخ اسلام میں خوارج کی پیدائش سے ہی ان کے اعتقادات کی رد میں مختلف کتابیں لکھی جا چکی ہیں یا مختلف حدیثی منابع میں ان کے عقائد کی مذمت میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔ من جملہ ان احادیث میں پیغمبر اسلامؐ کی طرف سے خوارج اور ان کی دین سے خارج ہونے کی پیشن گوئی نیز ان کی دینداری اور طور طریقوں کی مذمت پر مبنی احادیث شامل ہیں۔ اسی طرح احادیث میں ان سے جنگ کرنے کیلئے اجر و ثواب کا وعده دیا گیا ہے۔[85] شیعہ علماء پیغمبر اکرمؑ سے منسوب ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے امام علیؑ سے جنگ کرنے والوں من جملہ خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں۔ مذکورہ حدیث کی روشنی میں امام علیؑ سے جنگ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے رسول خداؐ کے ساتھ جنگ کیا ہو۔[86]
تفاسیر میں خوارج کی طرف سے اپنے عقائد کو ثابت کرنے کیلئے قرآن کریم سے کی گئی استناد کو مورد نقد قرار دے کر اسے باطل قرار دیا گیا ہے؛ بطور مثال مرتکب گناہ کبیرہ کی تکفیر کے سلسلے میں وہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کیلئے سورہ آل عمران کی آیت نمیر 97 سے تمسک کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس نے بھی حج کو ترک کیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور جو بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو وہ کافر ہے۔ اس استدلال کے جواب میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت میں "مَنْ کَفَرَ" سے مراد وہ شخص ہے جو مستطیع پر حج کے وجوب کا انکار کرے نہ یہ کہ اس سے مراد اس شخص کا کافر ہونا ہے جیسا کہ خوارج نے گمان کیا ہے۔[87] ابن حزم اس بارے میں خوارج کے مدعا کو قرآن کریم کی کسی اور آیت کے ذریعے رد کرتے ہیں۔[88]
حوالہ جات
1. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۵۱۳-۵۱۴؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۴، ۱۲۲؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۶۳، ۷۲، ۷۸؛ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۳، ص۱۴۴۔
2. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۴۸۴؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۱-۱۱۲۔
3. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۵۱۳-۵۱۴؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۴، ۱۲۲؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۶۳، ۷۲، ۷۸؛ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۳، ص۱۴۴۔
4. ↑ صنعانی، المصنَّف، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۱۵۲؛ ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۱۲۱؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۵۹؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ص۲۶۹۔
5. ↑ نہج البلاغہ، تصحیح محمد عبدہ، خطبہ ۶۲؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۷۶۔
6. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۰-۱۱۲؛ شہرستانی، الملل والنحل، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۳۳؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۲۷۷۔
7. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۴، ۱۲۲؛ سمعانی، شعر الخوارج، ۱۹۷۴م، ج۲، ص۲۰۷؛ یاقوت حموى، معجم البلدان، ذیل حروراء۔
8. ↑ شیخ صدوق، الأمالي، ۱۴۱۷ق، ص۴۶۴؛ مقدسى، البدء و التاریخ، ۱۸۹۹-۱۹۱۹م، ج۵، ص۱۳۵، ۲۲۴؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۳۰۴، ج۸، ص۱۲۷؛ بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۴۹؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۹۱؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۲۱۶۔
9. ↑ مقریزی، المواعظ و الاعتبار فى ذکر الخطط و الآثار، ۱۴۲۲-۱۴۲۵ق، ج۴، قسم ۱، ص۴۲۸۔
10. ↑ ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ۱۴۲۱ق، ج۴، جزء ۷، ص۲۶۱؛ ج ۷، جزء ۱۳، ص۲۰۸-۲۰۹۔
11. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۵، ۲۴۷؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۸۳، ۱۶۶۔
12. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۲۷۲۔
13. ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۷۶۔
14. ↑ عاملی، علی ؑ و الخوارج، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۱۰۴۔
15. ↑ خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۲؛ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۴، ص۲۷؛ مقدسی، احسن التقاسیم فی معرفہ الاقالیم، دار صادر، ص۳۲۳؛ حمیرى، الحور العین، ۱۹۷۲م، ص۲۰۲-۲۰۳۔
16. ↑ امین، ضحی الاسلام، دار الکتاب العربی، ج۳، ص۳۳۶؛ عاملی، علی ؑ و الخوارج، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۱۱۰، ۲۷۰؛ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۸۱۔
17. ↑ اسکافی، المعیار و الموازنۃ فی فضائل الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب، ۱۴۰۲ق، ص۱۹۸-۱۲۰؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۲۲-۱۲۳، ۱۳۳-۱۳۵؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۶۴-۶۶، ۷۳؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۷، ص۲۷۸۔
18. ↑ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۳، ص۳۴۔
19. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۴۰۴ق، ص۴۸۹، ۵۱۷؛ ابن ابی شیبۃ، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، ۱۴۰۹ق، ج۸، ص۷۳۵، ۷۴۱؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۲۲، ۱۲۶، ۱۳۴، ۱۵۱؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۶۶، ۷۲-۷۴۔
20. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۲۶، ۱۳۳؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۷۲-۷۴؛ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۳، ص۱۴۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵-۱۳۸۶ق، ج۳، ص۳۳۵۔
21. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۷-۱۲۶، ۱۳۳؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۵۷، ۶۷، ۷۱؛ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۳، ص۱۴۵-۱۵۰۔
22. ↑ نہج البلاغہ، تصحیح محمد عبدہ، خطبہ ۳۵؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ص۲۰۶؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۷۷-۷۸؛ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۸۵۔
23. ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۷۴-۷۵؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵-۱۳۸۶ق، ج۳، ص۳۳۵-۳۳۶۔
24. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۸۰-۹۲؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۵۲۸۔
25. ↑ نہج البلاغہ، تصحیح محمد عبدہ، خطبہ ۶۰؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۳۸۵-۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۴، ۷۳۔
26. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۷۸-۷۹؛ عاملی، دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۳۷۔
27. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۴۹۱؛ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۵، ص ۲۱۲، ۴۱۷-۴۱۸؛ محمدبن عبداللّہ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج۲، ص ۱۴۷-۱۴۸؛ محمدبن یوسف صالحیشامی، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیرالعباد، ج ۱۰، ص ۱۳۱-۱۳۲
28. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۴۹۱؛ محمد بن یزید مبرّد، الکامل، ج ۳، ص ۲۱۱؛ ابنماکولا، الاکمال فی رفع الارتیاب، ج ۷، ص ۲۵۱-۲۵۲؛ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ، ج ۹، ص ۱۱
29. ↑ نہج البلاغہ، خطبہ ۳۶، ۱۲۷؛ جمیری، ص ۳۸۵، کلینی، الکافی، ج ۲، ص ۴۰۵؛ ابنتیمیہ، مجموع الفتاوی، ج ۱۱، جزء ۱۹، ص ۳۹-۴۰؛ جعفر مرتضی عاملی، علی (ع) و الخوارج: تاریخ و دراسۃ،ج۲، ص ۱۳، ۱۳۷-۱۴۱، ۱۶۷-۱۷۱
30. ↑ محمد بن اسماعیل بخاری، صحیحالبخاری، ج ۸، ص ۵۱؛ ابنتیمیہ، مجموع الفتاوی، ج ۸، جزء ۱۳، ص ۱۶؛ احمد عوض ابوشباب، الخوارج: تاریخہم، فرقہم، و عقائدہم، ص ۵۹-۶۱؛ عامر نجار، الخوارج: عقیدۃ و فکرآ و فلسفۃ، ص ۱۴۲
31. ↑ ابنتیمیہ، مجموع الفتاوی، ج ۱۶، جزء ۲۸، ص ۲۲۱؛ ناصربن عبدالکریم عقل، الخوارج: اول الفرق فى تاریخ الاسلام، ص ۳۲-۳۳
32. ↑ محمد بن یزید مبرّد، الکامل، ج ۳، ص ۱۶۵، ۲۳۸؛ ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، ج ۶، ص ۱۴۹: ابن ابی الحدید، شرح نہجالبلاغۃ، ج ۴، ص ۱۳۶-۱۳۹، ۱۶۹
33. ↑ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۴۵؛ احمد بن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، ص ۲۰۷-۲۰۸؛ محمد بن یزید مبرّد، الکامل، ج ۳، ص ۲۲۰؛ عامر نجار، الخوارج: عقیدۃ و فکرآ و فلسفۃ، ص ۱۴۱-۱۴۲؛ احمد عوض ابوشباب، الخوارج: تاریخہم، فرقہم، و عقائدہم، ص ۵۷-۵۹
34. ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص ۳۹۴؛ احمد بن حنبل، ج ۳، ص ۲۲۴، ج ۵، ص ۳۶
35. ↑ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۸، ص ۵۹، ۳۵۳
36. ↑ ابنقتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، ج ۱، ص ۱۲۱؛ احمد بن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، ص ۲۰۲؛ عبدالقاہربن طاہر بغدادی، الفرق بینالفرق، ص ۴۵؛ ابن حزم، کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ص ۲۰۴
37. ↑ اشعری ص ۸۷؛ ابن حوزی، ص ۱۱۰؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۴، ص ۱۶۷؛ ابن حجر عسقلانی، فتحالباری: شرح صحیح البخاری، ج ۱۲، ص ۲۵۱
38. ↑ ابنشاذان، الایضاح، ص ۴۸؛ محمد بن یزید مبرّد، الکامل، ج ۳، ص ۱۶۴-۱۶۵، ۲۱۲، ۲۹۳؛ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۷، ص ۱۴۴، ۱۴۶؛ طبری، تاریخ، ج ۵، ص ۱۷۴، ج ۶، ص ۱۲۴
39. ↑ ابن شاذان، الایضاح، ص ۴۸؛ محمد بن یزید مبرّد، الکامل، ج ۳، ص ۳۹۳، جعفر مرتضی عاملی، علی (ع) و الخوارج: تاریخ و دراسۃ، ج ۲، ص ۱۷، ۲۴-۲۶، ۱۵۰-۱۵۲؛ احمد عوض ابوشباب، الخوارج: تاریخہم، فرقہم، و عقائدہم، ص ۶۸-۶۹؛ عامر نجار، الخوارج: عقیدۃ و فکرآ و فلسفۃ، ص ۱۴۳
40. ↑ احمد بن یحیی بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۳، ص ۱۲۸-۱۲۹، ۲۵۷-۲۵۸
41. ↑ عمروبن بحر جاحظ، رسائل الجاحظ، ج ۱، ص ۴۱-۴۶؛ عمروبن بحر جاحظ، کتاب الحیوان، ج ۱، ص ۱۳۶، ۱۸۵-۱۸۷، عمروبن بحر جاحظ، البیان و التبیین، ج ۱، ص ۱۲۸-۱۲۹؛ ابنقتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، ج ۱، ص ۱۲۸: احمد بن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، ص ۲۷۹؛ طبری، تاریخ، ج ۶، ص ۳۰۲؛ ابن عبد ربّہ، العقد الفرید، ج ۱، ص ۱۸۳؛ ابراہیمبن محمد بیہقی، المحاسن و المساوی، ج ۱، ص ۲۱۷، ج ۲، ص ۳۹۱؛ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، ، ج ۹، ص ۱۲
42. ↑ جعفر مرتضی عاملی، علی (ع) و الخوارج: تاریخ و دراسۃ،ج ۲، ص ۷۷-۸۲، ۱۵۲-۱۵۳
43. ↑ عمرو بن بحر جاحظ، کتاب الحیوان، ج ۱، ص ۱۸۵-۱۸۷؛ ابنقتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، ج ۱، ص ۱۲۸؛ احمد بن داوود دینوری، الاخبار الطِّوال، ص ۲۷۹
44. ↑ احمد بن حنبل، ج ۳، ص ۶۴، ۱۹۷؛ ابن منظور، لسان العرب، ذیل سبت، سبد؛ ابن حجر عسقلانی، فتحالباری: شرح صحیح البخاری، ج ۸، ص ۵۴؛ محمود بن احمد عینی، عمدۃالقاری: شرح صحیح البخاری، ج ۲۲، ص ۶۸، ج ۲۵، ص ۳۰۱-۳۰۲
45. ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہجالبلاغۃ، ج ۸، ص ۱۲۳
46. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۱۱۳؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۶۲۔
47. ↑ نجار، الخوارج: عقیدۃ و فکرا و فلسفۃ، ۱۹۸۸م، ص۱۴۴؛ معیطہ، الاسلام الخوارجی، ۲۰۰۶م، ص۱۴، ۱۷؛ عقل، الخوارج: اول الفرق فى تاریخ الاسلام، ۱۴۱۹ق، ص۲۴-۲۵۔
48. ↑ ابوالنصر، الخوارج فی الاسلام، ۱۹۴۹م، ص۴۱، ۱۰۱-۱۰۲۔
49. ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۷۸؛ ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۵۷-۵۸۔
50. ↑ شیخ مفید، الارشاد فى معرفۃ حجج اللّہ على العباد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۱۰؛ بہاءالدین اربلی، کشف الغمّۃ فی معرفۃ الائمۃ، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۶۲۔
51. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۱۶۵-۱۶۶؛ عاملی، علی ؑ و الخوارج، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۵۱؛ قلماوی، ادب الخوارج فی العصر الاموی، ۱۹۴۵م، ص۱۵۰-۱۵۱۔
52. ↑ سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۵۸-۱۷۴۔
53. ↑ بخاری، التاریخ الصغیر، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۱۹۲-۱۹۳؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۵، ص۳۶۰، ۳۷۳؛ اخبار الدولۃ العباسیۃ، ۱۹۷۱م، ص۲۹۷-۳۰۰؛ حمیرى، الحور العین، ۱۹۷۲م، ص۱۸۵-۱۸۷۔
54. ↑ ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴۷، ص۲۷۴؛ شیخ مفید، الاختصاص، ۱۴۰۲ق، ص۱۲۲؛ عاملی، علی ؑ و الخوارج، ۱۴۲۳ق، ج۲، ص۷۱-۷۶، ۹۴-۹۶۔
55. ↑ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۴، ص۲۶-۲۷؛ ابن حزم اندلسی، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ۱۳۱۷-۱۳۲۰ق، ص۳۸۶؛ یاقوت حموی، معجم الادباء، ۱۹۹۳م، ج۱، ص۲۸، ج۶، ص۲۴۹۷؛ ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱۰، ص۳۰۔
56. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۳۰؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ص۲۷۰-۲۷۷۔
57. ↑ عاملی، دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۳۹-۴۰؛ اخبار الدولۃ العباسیۃ، ۱۹۷۱م، ص۲۵۱؛ مسعودی، مروج الذہب، بیروت، ج۴، ص۷۹-۸۰۔
58. ↑ ولہاوزن، احزاب المعارضۃ السیاسیۃ الدینیۃ فی صدر الاسلام، ۱۹۷۶م، ص۴۶؛ ابن فورک، مجرد مقالات الشیخ ابی الحسن الاشعری، ۱۹۸۷م، ص۱۴۹-۱۵۷۔
59. ↑ ابوحاتم رازی، کتابالزینۃ فی الکلمات الاسلامیۃ العربیۃ، قسم ۳، ص ۲۸۲؛ بغدادی، کتاب اصول الدین، ص ۳۳۲؛ ہمو، الفرق بین الفرق، ص ۷۳؛ ابن حزم، کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ج ۲، ص ۱۱۳؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج ۸، ص ۱۱۳
60. ↑ اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۴۱ش، ص۸۵-۸۶؛ بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۳۶۷ق، ص۸۲-۸۳؛ شہرستانی، الملل والنحل، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۴۰-۱۴۱۔
61. ↑ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۳۴؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۳۸۵-۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۱۴-۱۱۸؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۳۴-۳۳۸۔
62. ↑ بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۳۶۷ق، ص۷۳؛ ابن حزم اندلسی، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ۱۳۱۷-۱۳۲۰ق، ج۲، ص۱۱۳؛ اسفراینی، التبصیر فی الدین و تمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الہالکین، ۱۳۵۹ق، ص۲۶۔
63. ↑ اشعری، المقالات والفرق، ۱۳۴۱ش، ص۸؛ نوبختى، فرق الشیعۃ، ۱۳۵۵ق، ص۱۰۔
64. ↑ شہرستانی، الملل والنحل، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۳۴۔
65. ↑ نوبختى، فرق الشیعۃ، ۱۳۵۵ق، ص۱۰؛ ابن حزم اندلسی، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ۱۳۱۷-۱۳۲۰ق، ج۲، ص۱۱۳؛ شہرستانی، الملل والنحل، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۱۳۴۔
66. ↑ ابوحاتم رازی، کتاب الزینۃ فی الکلمات الاسلامیۃ العربیۃ، قسم ۳، ص ۲۸۲؛ علی ابن اسماعیل اشعری، ج ۱، ص ۱۸۹، ج ۲، ص ۱۲۸؛ محمد بن احمد مَلَطى شافعى، التنبیہ و الرد على اہل الاہواء و البدع، ص ۵۱؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج ۲، ص ۲۷۴
67. ↑ محمد بن عبدالکریم شہرستانی، الملل والنحل، ج ۱، ص ۱۸۶
68. ↑ ابن حزم، کتاب الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ج ۴، ص ۱۸۹
69. ↑ جولدتسیہر، العقیدۃ والشریعۃ فی الاسلام، ۱۳۷۸ق، ص۱۹۳؛ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۶۰؛ کشّی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۲۲۹۔
70. ↑ شیخ مفید، الجمل و النُصرۃ لسید العترۃ فى حرب البصرۃ، ۱۳۷۴ش، ص۸۵۔
71. ↑ امین، ضحی الاسلام، دار الکتاب العربی، ج۳، ص۳۳۴-۳۳۷۔
72. ↑ ابن ندیم، الفہرست، تہران، ص۲۳۳، ۲۹۵۔
73. ↑ ابن ندیم، الفہرست، تہران، ص۲۹۵۔
74. ↑ ابن ندیم، الفہرست، تہران، ص۲۳۳-۲۳۴؛ سابعی، الخوارج و الحقیقۃ الغائبۃ، ۱۴۲۰ق، ص۲۸-۳۹۔
75. ↑ تنوخی، نشوار المحاضرۃ و اخبار المذاکرۃ، ۱۳۹۱-۱۳۹۳ق، ج۳، ص۲۹۱۔
76. ↑ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۲۵۰-۲۵۲، ۲۵۶-۲۵۸؛ سمعانی، شعر الخوارج، ۱۹۷۴م، ص۱۰-۲۷؛ قلماوی، ادب الخوارج فی العصر الاموی، ۱۹۴۵م، ص۴۶-۴۸، ۵۰۔
77. ↑ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۲۹۳-۳۰۲؛ خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۱-۲۵۲؛ جاحظ، البیان و التبیین، ۱۳۶۷ق، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹، ۳۱۰-۳۱۱؛ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۴۳۲-۴۳۵؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۷، ص۳۹۴-۳۹۷۔
78. ↑ معروف، قراءۃ جدیدۃ فی مواقف الخوارج و فکرہم و ادبہم، ۱۹۸۸م، ص۲۱-۲۳؛ شلبی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی و الحضارۃ الاسلامیۃ، ۱۹۸۲م، ج۲، ص۲۱۰-۲۱۱؛ اخبار الدولۃ العباسیۃ، ۱۹۷۱ق، ص۳۳۵؛ ابن عبد ربّہ، العقد الفرید، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۸۶۔
79. ↑ ابوالنصر، الخوارج فی الاسلام، ۱۹۴۹م، ص۱۴، ۲۱؛ بابطین، حرکۃ الخوارج، ۱۴۰۹ق، ص۲۵۰۔
80. ↑ جاحظ، کتاب الحیوان، ۱۳۸۵-۱۳۸۹ق، ج۶، ص۴۵۵؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۷، ص۳۹۶؛ ابن جوزی، تلبیس ابلیس، ۱۴۰۷ق، ص۱۰۶، ۱۱۰؛ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۶۰۔
81. ↑ ولہاوزن، احزاب المعارضۃ السیاسیۃ الدینیۃ فی صدر الاسلام، ۱۹۷۶م، مقدمہ بدوی، ص۱۳؛ معیطہ، الاسلام الخوارجی، ۲۰۰۶م، ص۱۷؛ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۵۵؛ ضیف، التطور و التجدید فی الشعر الاموی، ۱۹۸۷م، ص۸۷۔
82. ↑ ابوالنصر، الخوارج فی الاسلام، ۱۹۴۹م، ص۲۱-۲۳؛ ابوزہرۃ، تاریخ المذاہب الاسلامیۃ، ۱۹۷۱م، ج۱، ص۷۰-۷۱؛ معروف، الخوارج فی العصر الاموی، ۱۴۰۶ق، ص۲۱۔
83. ↑ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۵، ص۴۹؛ معروف، قراءۃ جدیدۃ فی مواقف الخوارج و فکرہم و ادبہم، ۱۹۸۸م، ص۲۵-۲۶؛ بکاری، حرکۃ الخوارج، ۲۰۰۱م، ص۱۷۔
84. ↑ بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵-۳۶، ۵۶-۵۷، ۱۳۴-۱۳۵؛ دینوری، الأخبار الطوال، ۱۹۶۰م، ص۱۵۱-۱۵۲، ۱۶۴-۱۶۵؛ طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۴، ص۵۴۱-۵۴۲؛ بابطین، حرکۃ الخوارج، ۱۴۰۹ق، ص۲۹۳، ۲۰۰-۳۰۲، ۳۰۴؛ بکاری، حرکۃ الخوارج، ۲۰۰۱م، ص۱۱-۱۵؛ عاملی، علی ؑ و الخوارج، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۳۴-۱۳۷۔
85. ↑ ابوحاتم رازی، کتاب الزینۃ فی الکلمات الاسلامیۃ العربیۃ، ۱۹۸۸م، قسم ۳، ص۲۷۶؛ ابن حزم اندلسی، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ۱۳۱۷-۱۳۲۰ق، ج۴، ص۱۶۱؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۳۸۵-۱۳۸۷ق، ج۲، ص۲۶۵-۲۶۷۔
86. ↑ نصیرالدین طوسی، تجرید الاعتقاد، ۱۴۰۷ق، ص۲۹۵؛ علامہ حلّى، کشف المراد فى شرح تجرید الاعتقاد، ۱۴۲۷ق، ص۵۴۰؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیۃ فى المباحث الکلامیۃ، ۱۳۸۰ش، ص۳۷۲۔
87. ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۳۸۵-۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۱۴؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۳۵۔
88. ↑ ابن حزم اندلسی، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، ۱۳۱۷-۱۳۲۰ق، ج۳، ص۲۳۵-۲۴۳؛ جرجانی، شرح المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۲۴-۳۲۵۔
مآخذ
o ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۸۵ـ۱۳۸۷ق/۱۹۶۵ـ۱۹۶۷م (افست، بیروت، بی تا)۔
o ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنَّف فی الاحادیث و الآثار، تحقیق سعید محمد لحّام، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م۔
o ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت ۱۳۸۵ـ۱۳۸۶ق/۱۹۶۵ـ۱۹۶۶م، چاپ افست ۱۳۹۹ـ۱۴۰۲ق/۱۹۷۹ـ۱۹۸۲م۔
o ابن اعثم کوفی، احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م۔
o ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۰م۔
o ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، تلبیس ابلیس، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م۔
o ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، قاہرہ، بولاق، ۱۳۰۰ـ۱۳۰۱ (چاپ افست بیروت، بیتا)۔
o ابن حزم اندلسی، علی بن احمد، الفصل فی الملل والاہواء والنحل، مصر، ۱۳۱۷ـ۱۳۲۰ق (افست، بیروت، بیتا)۔
o ابن عبد ربّہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، ج۱ و ۲، تحقیق مفید محمد قمیحہ، بیروت، ۱۴۰۴ق/۱۹۸۳م۔
o ابن فورک، محمد بن حسن، مجرد مقالات الشیخ ابی الحسن الاشعری، تحقیق دانیال ژیمارہ، بیروت، ۱۹۸۷م۔
o ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، تحقیق طہ محمد زینی، قاہرہ، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م، (چاپ افست بیروت، بیتا)۔
o ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م۔
o ابن ماکولا، علی بن ہبۃ اللہ، الاکمال فی رفع الارتیاب عن المؤتلف و المختلف فی الاسماء و الکنی و الانساب، ج۷، تحقیق نایف عباس، بیروت، محمدامین دمج، بیتا۔
o ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب۔
o ابن ندیم، محمد بن اسحاق، الفہرست، تہران۔
o ابو النصر، عمر، الخوارج فی الاسلام، بیروت، ۱۹۴۹م۔
o ابوحاتم رازی، احمد بن حمدان، کتاب الزینۃ فی الکلمات الاسلامیۃ العربیۃ، تحقیق عبداللّہ سلوم سامرائی، بغداد، ۱۹۸۸م۔
o ابو زہرہ، محمد، تاریخ المذاہب الاسلامیۃ، قاہرہ، ۱۹۷۱م۔
o ابو شباب، احمد عوض، الخوارج: تاریخہم، فرقہم، و عقائدہم، بیروت، ۱۴۲۶ق/۲۰۰۵م۔
o احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت، دار صادر، بیتا۔
o اخبار الدولۃ العباسیۃ و فیہ اخبار العباس و ولدہ، تحقیق عبدالعزیز دوری و عبدالجبار مطلّبی، بیروت، دارالطلیعۃ للطباعۃ و النشر، ۱۹۷۱م۔
o اسفراینی، شہفور بن طاہر، التبصیر فی الدین و تمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الہالکین، تحقیق محمد زاہد کوثری، قاہرہ، ۱۳۵۹ق/۱۹۴۰م۔
o اسکافی، محمد بن عبداللہ، المعیار و الموازنۃ فی فضائل الامام امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب، تحقیق محمدباقر محمودی، بیروت، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۱م۔
o اشعری، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تحقیق محمدجواد مشکور، تہران، ۱۳۴۱ش۔
o امین، احمد، ضحی الاسلام، بیروت، دارالکتاب العربی، بیتا۔
o بابطین، یوسف، حرکۃ الخوارج: نشأتہا و اسبابہا، تحقیق شاکر مصطفی، کویت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۸م۔
o بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد ذہنی افندی، استانبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م (چاپ افست بیروت، بیتا)۔
o بخاری، محمدبن اسماعیل، التاریخ الصغیر، تحقیق محمود ابراہیم زاید، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
o بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، اصول الدین، استانبول، ۱۳۴۶ق/۱۹۲۸م (افست، بیروت، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م)۔
o بغدادی، عبدالقاہر بن طاہر، الفرق بین الفرق، تحقیق محمد زاہد کوثری، قاہرہ، ۱۳۶۷ق/۱۹۴۸م۔
o بکاری، لطیفۃ، حرکۃ الخوارج: نشأتہا و تطورہا الی نہایۃ العہد الاموی، بیروت، ۲۰۰۱م۔
o بلاذری، احمد بن یحیی، جُمَل من انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۷م۔
o بہاءالدین اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمّۃ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م۔
o بیہقی، ابراہیم بن محمد، المحاسن و المساوی، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۸۰ق/۱۹۶۱م۔
o تنوخی، مُحَسّن بن علی، نشوار المحاضرۃ و اخبار المذاکرۃ، تحقیق عبود شالجی، بیروت، ۱۳۹۱ـ۱۳۹۳ق/۱۹۷۲ـ۱۹۷۳م۔
o جاحظ، عمرو بن بحر، البیان و التبیین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، بیروت، ۱۳۶۷ق/۱۹۴۸م۔
o جاحظ، عمرو بن بحر، رسائل الجاحظ، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، ۱۳۸۴ق۔
o جاحظ، عمرو بن بحر، کتاب الحیوان، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، مصر، ۱۳۸۵ـ۱۳۸۹ق/۱۹۶۵ـ ۱۹۶۹م (چاپ افست بیروت، بیتا)۔
o جرجانی، علی بن محمد، شرح المواقف، تحقیق محمد بدرالدین نعسانی حلبی، مصر، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م (افست قم، ۱۳۷۰ش)۔
o حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، و بذیلہ التلخیص للحافظ الذہبی، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔
o حمیری، نشوان بن سعید، الحور العین، تحقیق کمال مصطفی، ۱۹۷۲م۔
o خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۷ق۔
o خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
o دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطِّوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قاہرہ، ۱۹۶۰م (افست قم، ۱۳۶۸ش)۔
o سابعی، ناصر، الخوارج و الحقیقۃ الغائبۃ، بیروت، ۱۴۲۰ق/۲۰۰۰م۔
o سبحانی، جعفر، بحوث فی الملل و النحل: دراسۃ موضوعیۃ مقارنۃ للمذاہب الاسلامیۃ، ج۵، قم، ۱۳۷۱ش۔
o سمعانی، عبدالکریم بن محمد، شعر الخوارج، گردآوری احسان عباس، بیروت، دار الثقافۃ، ۱۹۷۴م۔
o شلبی، احمد، موسوعۃ التاریخ الاسلامی و الحضارۃ الاسلامیۃ، ج۲، قاہرہ، ۱۹۸۲م۔
o شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل والنحل، تحقیق امیرعلی مہنا و علی حسن فاعور، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م۔
o شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، قم، ۱۴۱۷ق۔
o شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، تحقیق علی اکبر غفاری، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م۔
o شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، بیروت، ۱۴۱۴ق۔
o شیخ مفید، محمد بن محمد، الجمل و النُصرۃ لسید العترۃ فی حرب البصرۃ، تحقیق علی میرشریفی، قم، ۱۳۷۴ش۔
o صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م۔
o صنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنَّف، تحقیق حبیب الرحمان اعظمی، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م۔
o ضیف، شوقی، التطور و التجدید فی الشعر الاموی، قاہرہ، ۱۹۸۷م۔
o طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم والملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، بینا، بیتا۔
o عاملی، جعفر مرتضی، دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، بیروت، ۱۴۱۴ق/۱۹۹۳م۔
o عاملی، جعفر مرتضی، علی (ع) و الخوارج: تاریخ و دراسۃ، بیروت، ۱۴۲۳ق/۲۰۰۲م۔
o عقل، ناصر بن عبدالکریم، الخوارج: اول الفرق فی تاریخ الاسلام، ریاض، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م۔
o علامہ حلّی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق حسن حسنزادہ آملی، قم، ۱۴۲۷ق۔
o علی بن ابی طالب (ع)، نہج البلاغۃ، تحقیق محمد عبدہ، بیروت، بیتا۔
o عوض ابو شباب، احمد، الخوارج: تاریخہم، فرقہم، و عقائدہم، بیروت، ۱۴۲۶ق/۲۰۰۵م۔
o عینی، محمود بن احمد، عمدۃ القاری: شرح صحیح البخاری، تحقیق عبداللّہ محمود محمد عمر، بیروت، ۱۴۲۱ق/۲۰۰۱م۔
o فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الالہیۃ فی المباحث الکلامیۃ، تحقیق محمدعلی قاضی طباطبائی، قم، ۱۳۸۰ش۔
o فضل بن شاذان، الایضاح، تحقیق جلال الدین محدث ارموی، تہران، ۱۳۶۳ش۔
o قلماوی، سہیر، ادب الخوارج فی العصر الاموی، قاہرہ، ۱۹۴۵م۔
o کشّی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، تلخیص محمد بن حسن طوسی، تحقیق حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش۔
o جولدتسیہر، اجناس، العقیدۃ و الشریعۃ فی الاسلام، ترجمہ و تعلیق محمد یوسف موسی و علی حسن عبدالقادر و عبدالعزیز عبدالحق، بغداد، ۱۳۷۸ق/۱۹۵۹م۔
o مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب، بیروت۔
o معروف، احمد سلیمان، قراءۃ جدیدۃ فی مواقف الخوارج و فکرہم و ادبہم، دمشق، ۱۹۸۸م۔
o معروف، نایف محمود، الخوارج فی العصر الاموی: نشأتہم، تاریخہم، عقائدہم و ادبہم، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
o معیطہ، احمد، الاسلام الخوارجی: قراءۃ فی الفکر و الفن و نصوص مختارۃ، دمشق، ۲۰۰۶م۔
o مقدسی، محمد بن احمد، احسن التقاسیم فی معرفہ الاقالیم، بیروت، دار صادر۔
o مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، تحقیق کلمان ہوار، پاریس، ۱۸۹۹ـ۱۹۱۹م (چاپ افست تہران، ۱۹۶۲م)۔
o مقریزی، احمد بن علی، المواعظ و الاعتبار فی ذکر الخطط و الآثار، تحقیق ایمن فؤاد سید، لندن، ۱۴۲۲ـ۱۴۲۵ق/۲۰۰۲ـ۲۰۰۴م۔
o نجار، عامر، الخوارج: عقیدۃ و فکرا و فلسفۃ، قاہرہ، ۱۹۸۸م۔
o نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، ۱۳۸۲ق (چاپ افست قم، ۱۴۰۴ق)۔
o نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، تجرید الاعتقاد، تحقیق محمدجواد حسینی جلالی، قم، ۱۴۰۷م۔
o نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعۃ، تحقیق محمدصادق آل بحرالعلوم، نجف، ۱۳۵۵ق/۱۹۳۶م۔
o ولہاوزن، یولیوس، احزاب المعارضۃ السیاسیۃ الدینیۃ فی صدر الاسلام: الخوارج والشیعۃ، ترجمہ عبدالرحمان بدوی، کویت، ۱۹۷۶م۔
o یاقوت حموی، معجم الادباء، تحقیق احسان عباس، بیروت، ۱۹۹۳م۔
o یاقوت حموی، معجم البلدان، تحقیق فردیناند ووستنفلد، لایپزیگ، ۱۸۶۶ـ۱۸۷۳م (چاپ افست تہران، ۱۹۶۵م)۔