ضرورت وجود امام
موضوع امامت اپنی اھمیت اور خصوصیت کی بنا پر ھمیشہ شیعہ اور اھل سنت کے درمیان بحث و گفتگو کا موضوع رھا ھے. شیعہ علماء اور دانشمندوں نے اپنے مخصوص عقائد کے اثبات کے لئے بے شمار کتابیں تالیف کی ھیں جن میں ھزارھا دلائل و براھین کا ذکرکیا گیا ھے کہ اگر یھاں اجمالی اور سرسری طور پر بھی انکا ذکر کیا جائے تو یہ مباحث نھایت طویل ھو جائیں گے .
امامت سے مربوط مباحث دو حصوں میں تقسیم کئے جاسکتے ھیں: پھلا حصہ، اصل ضرورت وجود امام کے اثبات سے متعلق ھے اور دوسرا قرآن اور روایات پرمبنی متعدد دلائل پر مشتمل ھے کہ جن کے ذریعہ یہ ثابت کیا جاتا ھے کہ حضرت علی بن ابی طالب علیھ السلام اور آپ کے گیارہ فرزند، خداوند عالم کی طرف سے رسول اکرم کے اعلان کے مطابق اس مقام ومنصب کے لئے منتخب ھوئے ھیں.
اثبات ضرورت وجود امام
شیعی نقطہ نظر سے، جس طرح نبوت ایک امر لازم وضروری ھے اور حکمت خدا مقتضی ھے کہ انبیاء ھدایت بشر کے لئے بھیجے جائیں اسی طرح امامت بھی ایک امر لازم وضروری ھے جس کے بغیر راہ سعادت و کمال کی طرف بشرکی ھدایت نامکمل ھے.
شیعوں کی کتب کلامی میں اصل ضرورت وجود امام معصوم پر بے شمار عقلی ونقلی دلائل پیش کئے گئے ھیں. یھاں ھم صرف ایک ھی دلیل عقلی پر اکتفا کررھے ھیں. یہ دلیل پانچ مقدموں پر مشتمل ھے.
1) نبی شناسی میں گزر چکا ھے کہ حکمت خداوند عالم کے مطابق ضروری ھے کہ ھدایت بشر کے لئے انبیاء بھیجے جائیں.
2) دین اسلام ایسے قوانین واحکام کا مجموعہ ھے جوابدی اور ھمیشہ باقی رھنے والا ھے نیز رسول اکرم کے بعد اب کوئی دوسرا پیغمبر نھیںآئے گا.
3) خاتمہ? نبوت فقط اسی صورت میں حکمت نبوت سے مطابقت رکھتا ھے جب آخری آسمانی شریعت ، بشر کی تمام مادی ومعنوی اور روحانی ضرورتوں کوپورا کرسکتی ھو نیز جس کی بقا کی ضمانت دنیا کے اختتام تک دی جاسکے.
4) اگرچہ خدا وند عالم نے قرآن کریم کوھر قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے کا وعدہ کیا ھے (1) لیکن تمام احکام و قوانین اسلام، قرآن کی ظاھری آیات سے واضح نھیں ھو پاتے ھیں کیونکہ عموماً قرآن مجید میں احکام وقوانین کی تفصیل بیان نھیں کی گئی ھے بلکہ ان کی تعلیم پیغمبر اکرم کے حوالے کردی گئی ھے تاکہ خدا کے ذریعے عطا کردہ علم کی مدد سے ان کو لوگوں کے لئے بیان کرسکیں.«وانزلنا الیک الذکرلتبین للناس مانزل الیھم»
5) رسول اکرم کی سختیوں ومشکلات سے بھری ھوئی زندگی اور دشوار حالات وشرائط کے پیش نظر آپ کو اتنی فرصت و وقت نھیں مل سکا تھا کہ تمام احکام وقوانین کوبالتفصیل بیان فرماسکتے حتی جس قدر بھی آپ کے اصحاب آپ کی تعلیمات حاصل کرسکے تھے اس کی بقا کی بھی ضمانت نھیں تھی. یھاں تک کہ آپ ھی کی امت میں وضو کی کیفیت کے بارے میں اختلاف پیدا ھوگیا تھا جب کہ سالھا سال آپ کے اصحاب نے آپ کووضوفرماتے ھوئے مشاھدہ کیا تھا. جب اس طرح کے عملی احکام (وہ عملی احکام جو روزمرہ زندگی میں مسلمانوں کی ضرورت رھے ھیں اور ھیں نیز جن میں تبدیلی و تحریف کی بھی کوئی وجہ سمجھ میں نھیں آتی) میں اختلاف پیدا ھوسکتے ھیں تولامحالہ دقیق اور پیچیدہ احکام میں تحریف و تبدیلی کے امکانات کھیںزیادہ ھیں مخصوصاً ایسے احکام و قوانین میں جو لوگوں کی نفسانی خواھشات اور ذاتی مفادات میں حائل ھوتے ھیں یا رکاوٹ پیدا کرتے ھیں.
مذکورہ پانچوں نکات کے مدنظر دین اسلام اسی وقت، دین کامل کے عنوان سے تا ابد بشریت کی تمام ضروریات کو پورا کرسکتا ھے جب اس میں معاشرے کی ان مصلحتوںاور مسائل کا کوئی راہ حل پیش کیا گیا ھو جو رسول خدا کی رحلت کے بعد ھی پیدا ھو گئے تھے.
اسلام نے اس کا راہ حل خدا کی طرف سے معین شدہ نبی اکرم کے جانشین کے طور پر پیش کیا ھے ایسا جانشین جو علم لدنی کا حامل ھوتا کہ تمام حقائق و احکام دینی کو ان کے تمام پھلوؤں کے ساتھ بیان کرسکے ساتھ ھی معصوم بھی ھوتا کہ نفسانی خواھشات وجذبات اس پر حاوی نہ ھوسکیں. اور وہ دین میںعمداً یا سھواً تحریف نہ کرسکے نیز رسول اکرم کی روش پرمعاشرے کی تربیت بھی کرسکے اور کمال طلب افراد کو کمال وسعادت کے اعلی. مراتب تک لے جا سکے. ساتھ ھی ساتھ شرائط اجتماعی کے سازگار ھونے کی صورت میں حکومت وتدبیر امور جامعہ بھی کرسکے تاکہ اسلام کے قوانین اجتماعی کی ترویج کے ذریعہ دنیا میں عدل و انصاف کو پھیلا سکے.
علم اور عصمت امام
اس طرح ختم نبوت اس صورت میں حکمت الھی کے مطابق ھوگی جب کوئی ایسا امام معصوم نصب و معین کردیا جائے جونبوت کے علاوہ رسول اکرم کی تمام صفات وخصوصیات کا حامل ھو. یھی ضرورت امام پر عقلی دلیل ھے جس کے ذریعہ امام کا علم لدنی اور عصمت بھی ثابت ھوجاتی ھے.
خدا کی طرف سے امام کا انتخاب و تعین
جو کچھ بیان کیا جاچکا ھے اس کے ذریعہ امامت سے متعلق شیعوں کے تیسرے عقیدے کو بھی سمجھا جا سکتا ھے جسکا لب لباب یہ ھے کے امام کا خدا کی طرف سے نصب و معین ھونا ضروری ھے کیونکہ فقط خداوند عالم ھی جانتا ھے کہ اس کا کونسا بندہ اس مخصوص علم و عصمت کا حامل ھے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ علم اور ملکات نفسانی غیر محسوس، امور میں سے ھیں کہ براہ راست بشری تجربہ کے دائرے میں نھیں آتے ھیں. یہ بھی خیال رکھنا چاھئے کہ عصمت سے مراد فقط یہ نھیں ھے کہ انسان روز مرہ زندگی میں گناھوں کو انجام نہ دے بلکہ عصمت کی تعریف یہ ھے کہ انسان تمام شرائط وحالات میں گناھوں سے مبرّا و پاک رہ سکے اور یہ وہ حالت ھے جو وحی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے حاصل نھیں ھوسکتی.
علم ودانش سے متعلق بھی یہ وضاحت ضروری ھے کہ ھر چند کسی شخص کی گفتگو یا تحریر سے اس کے علم کی وسعت وگھرائی کا کسی حد تک اندازہ لگایا جاسکتا ھے لیکن اس روش سے قطعاً اطمینان حاصل نھیں کیا جاسکتا کہ وہ جوکچھ کھہ رھا ھے صحیح کھہ رھا ھے.
اس کے علاوہ ایک دوسری دلیل بھی خدا کی طرف سے امام معصوم کے نصب وتعین پردلالت کیلئے پیش کی جا سکتی ھے اور وہ یہ کہ:
امامت کے وظائف و ذمہ داریوں میں سے ایک حکومت اور لوگوں پر ولایت ھے اور یہ وہ امور ھیں جو حقیقةً فقط خدا کا حق ھیں. ولی مطلق اور حقیقی حاکم صرف خدا ھے. انسان فقط اس کا تابع اور فرمانبردار ھے. لھذا دو سروں کی اطاعت اور پیروی فقط اور فقط اس صورت میں جائز اور درست ھوگی جب خداوند عالم ان لوگوں کو اپنی طرف سے یھ منصب اور مقام عطا کردے.