تین ہجری کا ہندی مسلمان… رتن سَین
تاریخ نویسوں نے ہندوستان میں اسلام کی آمد حجاج بن یوسف کے نو عمر کمانڈر محمد بن قاسم سے منسوب کی ہے
اور یہ ایسی ذہنیت کا نتیجہ ہے جو اسلام کو تلوار کے زور پر پھلتا پھولتا مانتی ہے ،یہاں بھی یہی ظاہر کیاگیا ہے کہ محمد بن قاسم نے ہندوستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ہندوستان میں اسلام کی داغ بیل پڑ گئی ،
لیکن تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور سرکار رسالت مآب کے معجزہٴ شق القمر سے ہندوستان ضیاء اسلام سے منور ہوگیاتھا، کتاب ”بیان الحق و صدق المطلق“ مطبوعہ تہران 1322ھ میں فخر الاسلام لکھتے ہیں کہ حافظ مرّی نے ابن تیمیہ سے نقل کیا ہے کہ بعض مسافروں نے بتایا کہ ہم نے ہندوستان میں ایسے آثار دیکھے جو معجزہ ٴ شق القمر سے متعلق تھے …جن میں سے ایک درگاہ ضلع جے پی نگر کی تحصیل دھنورہ میں نوگانواں سادات سے تقریباً 16کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے گنگا کے کنارے موجود ہے
جس میں کنور سین اور ان کے وزیر حاجی رتن سین دفن ہیں اور تحصیل دھنورہ کے مال خانے میں اس کا اندراج درگاہ شق القمر کے نام سے ہے ،اس درگاہ کی 300بیگھا زمین ہے جس کا بیشتر حصہ خورد برد ہوچکا ہے ،اور اس درگاہ پر ہولی کے بعد آنے والی جمعرات کو عرس و میلا بھی لگتاہے … 13شعبان قبل ہجرت پورن ماشی کے موقع پر ہندوستان میں جب راجا مہا راجاوٴں نے چاند کو دو حصوں میں دیکھا تو انہیں بڑی حیرت ہوئی ،نجومیوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ عربستان سے محمد نام کے پیغمبر نے یہ معجزہ دکھایا ہے ،راجاوٴں نے اپنے نمائندے تصدیق کے لئے عربستان روانہ کئے جن میں شمالی ہندوستان کی چھوٹی سی ریاست کھابڑی کے راجا کنور سین نے بھی اپنے وزیر رتن سین کو مدینہ ٴ منورہ کے لئے روانہ کیا…کھابڑی ریاست موجودہ اترپردیش کے ضلع جے پی نگر و بجنور کے دریائے گنگا سے متصل علاقوں پر محیط تھی ،
اس ریاست میں پراکرت زبان بولی جاتی تھی…رتن سین کے مدینہ جانے اور مع ساتھیوں کے ایمان لانے پر تو سب متفق ہیں مگر ان سے متعلق جو داستانیں سنائی جاتی ہیں اُن سے علماء نے اختلاف کیا ہے ،
شمس الدین بن محمد جزری کہتے ہیں کہ میں نے عبد الوہاب بن اسماعیل صوفی سے سنا کہ جب ہم 675ہجری میں واردِ شیراز ہوئے تو ہماری ملاقات شیخ معمر محمود بن رتن سین سے ہوئی
انہوں نے ہمیں بتایا کہ میرے بابا رتن سین نے معجزہٴ شق القمر دیکھا تھا اور یہی معجزہ ان کی ہندوستان سے عرب ہجرت کا سبب بنااور جب رتن سین مدینہ پہنچے تو مسلمان (جنگ احزاب کے لئے) خندق کھود رہے تھے، (رتن سین)نے رسول اللہ کی صحبت اختیار کی …
(تذکرة الموضوعات، مولف محمد طاہر بن علی ہندی، متوفی 986ھ ناشر امین ،قج، بیروت، لبنان)
رتن سین کے بارے میں عرب و عجم محققین و علماء نے 600سال سے زائد طولانی عمر بیان کی ہے جس کا مآخذ سنے سنائے قصے ہیں”دائرة المعارف قاموس عام لکل فن و مطلب“کی آٹھویں جلد مطبوعہ لبنان میں ر،ت،ن کے ذیل میں رتن کا تذکرہ کرتے ہوئے معلم بطرس بستانی نے لکھا ہے کہ : رتن ہندی نے دوبار رسول اللہ کی زیارت کی اور آپ نے انہیں طولانی عمر کی دعا دی جس سے اِن کی عمر 600سال سے زائد ہوئی ،
علامہ ابن حجر مکی نے الاصابہ فی معرفة الصحابہ میں اور علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال اور لسان العرب میں رتن سین کی طولانی عمر کے قصے کو فرضی قرار دیاہے،
ہندوستان میں جو دستاویز رتن سین اور ان کے راجا کنور سین سے متعلق موجود ہیں ان سے رتن سین کی عمر 600سال ثابت نہیں ہے ،بلکہ سن 3ہجری میں رتن سین مشرف بہ اسلام ہوئے ،3ہجری سے 7ہجری تک مدینہ میں قیام کیا
اور 11ہجری میں وفات پائی،لہٰذا رتن سین کی 600سال عمر والا قصہ بے بنیاد ہے ،ماسٹر سیداختر عباس نوگانوی رٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج امروہہ کی تحقیق کے مطابق رتن سین سے متعلق معلومات کنور سین کی قبر پر لگے کالے قیمتی پتھر (سنگ موسیٰ) سے ریلوے پولس انسپکٹر سید صادق حسین ،نانوتہ ،سہارنپور اور مولوی ارتضیٰ حسین امروہوی مقیم ریاست رامپور کو 1931ء میں حاصل ہوئی تھیں جس کا پتہ سید صادق حسین نانوتوی کو سید احمد حسین رضوی حسن پوری نے دیاتھا ،
انسپکٹر صادق حسین اور مولوی ارتضیٰ حسین صاحبان نے اس پتھر کی عبارت پڑھنے اور ترجمہ کرنے کے لئے مرادآباد کے محلہ کسرول سے پنڈت برہما نند کو تلاش کیا جن کی عمر اُس وقت 95سال تھی ،پنڈت برہما نند نے اس پتھر کو دیکھ کر بتایا کہ یہ پراکرت زبان میں ہے ،بہر حال پنڈت برہما نند ترجمہ کرتے رہے اور یہ لوگ لکھتے رہے ،اس کی اجرت پنڈت برہمانند نے اُس وقت (1931میں) 300روپیہ لی تھی،راجا کنور سین کی قبر کے اس پتھر پر یہ عبارت حاجی رتن سین نے 25ذی قعدہ8ہجری کو راجا کے دفن کے بعد کندہ کرائی تھی،رتن سین نے اس پتھر پر دیگر اہم باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھ تھا کہ میں نے 3سال خدمت رسول اللہ میں رہ کر بھوج پتر پر حالات تحریر کئے ہیں جو کتاب کی شکل میں مجاور کے پاس ہیں اور اس کو ہدایت کردی ہے کہ اس کو ضائع نہ کرے ،جب صادق حسین کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے مجاور شیخ عبدالرزاق سے کہا کہ اگر آپ واقعی اس درگاہ کے مجاور ہیں تو ضرور آپ کے پاس بھوج پتر پر لکھی کتاب ہوگی ورنہ اصل مجاور کوئی اور ہے اس بات کو سن کر شیخ عبدالرزاق گھر میں گئے
اور ٹین کے ڈبے میں بند مطلوبہ بھوج پتر پر لکھی ہوئی کتاب نکال کر لائے اور دور سے صادق حسین کو دکھادی ،صادق حسین نے کہا کہ یہ کتاب امانت کے طور پر ترجمہ کے لئے دے دو ،اس پر مجاور شیخ عبدالرزاق نے کہا کہ میں اسے چھونے بھی نہیں دوں گا ،اس کے بعد 1975میں صدر العلماء مولانا سید سلمان حیدر صاحب نوگانوی نجفی، مولانا روشن علی صاحب سلطان پوری نجفی، مولانا مشکور حسین صاحب نوگانوی اور مولانا نعیم عباس صاحب نوگانوی وغیرہ بھی درگاہ پہنچے اور مجاور سے کتاب کاترجمہ کرانے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس نے ایک نہ سنی ، اگر مجاور با شعور مسلمان ہوتا تو از خود کوشش کرکے اس کتاب کا دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں ترجمہ کراکے شائع کرادیتا جس سے تاریخ نویسوں کو بہت مدد ملتی اور اثبات حق کے لئے یہ کتاب بہترین دستاویز شمار ہوتی ،مجاور اور اس کے گھروالوں نے نہ یہ کہ کتاب ترجمہ کے لئے نہ دی بلکہ پتھر کی عبارت کا ترجمہ سن کر راتوں رات قبر سے اکھاڑ کر پتھر بھی غائب کرادیا،جب بے شعور مسلمانوں کی یہ حالت ہے تو ہم حکومت کے محکمہ ٴ آثار قدیمہ سے کیاشکایت کریں ،اگر آثار قدیمہ نے اس اہم دستاویز کو ضائع ہونے سے بچالیا ہوتا تو آج محققین کو اس میں شک نہ ہوتا کہ ہندوستان نورِ اسلام سے حضرت محمد مصطفی کی حیات طیبہ ہی میں منور ہو گیاتھا ،
مجاوروں نے وہ تمام پتھر بھی ہٹوادیئے جن پر تاریخیں کندہ تھیں ،رتن سین کی قبر کا پتھر بھی غائب کرادیا ،مگر ان کتبوں اور پتھروں کی نقول کاغذاتِ مال میں دھنورہ تحصیل میں موجود ہیں ،راجہ کنور سین کی قبر پر لگے پتھر کی عبارت کے ترجمے سے چند تاریخی حقائق اور واضح ہوجاتے ہیں ،پتھر پر معجزہ ٴ شق القمر کی تاریخ 13شعبان قبل ہجرت پورن ماشی کے موقع پر لکھی ہے ،آیت اللہ مکارم شیرازی تفسیر نمونہ کی جلد 23مطبوعہ قم میں صفحہ 18پر سورہٴ قمر کی پہلی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں کہ بعض روایات سے استفادہ ہوتاہے کہ یہ معجزہ ہجرت کے نزدیک مکی زندگی کے آخری ایام میں رونما ہوا تھااور حضور نے یہ معجزہ اُن حقیقت کے متلاشی افراد کے کہنے پر انجام دیا تھا جو مدینہ سے خدمت پیغمبر میں مکہ آئے تھے اور عقبہ میں انہوں نے حضور کی بیعت کی تھی، اس روایت کو علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی جلد 17کے صفحہ 35پر درج کیا ہے ،
لی بعض علماء نے معجزہٴ شق القمر کو ہجرت سے 8سال قبل بیان کیا ہے جس کو حضور نے ابو جہل و ابو لہب کے کہنے پر انجام دیا، بہر حال رتن سین کا تعلق اُسی معجزے سے ہے جو حضور نے مکی زندگی کے آخری ایام میں انجام دیا، رتن سین کے مدینہ منورہ پہنچنے کی تاریخ 5رمضان 3ہجری اور کھابڑی واپس آنے کی تاریخ 12صفر8ہجری درج ہے اور رتن سین کی قبر پر لگے پتھر پر رتن سین کی تاریخ وفات 11ہجری درج ہے رتن سین نے راجا کی قبر کے پتھر پر یہ بھی لکھوایا تھا کہ مدینہ پہنچنے پر رتن سین اور ان کے ساتھیوں کو حضرت علی کے یہاں مہمان رکھاگیا اور بہت شاندار ضیافت کی گئی …رتن سین کے مدینہ پہنچنے کے 10روز بعد 15رمضان 3ہجری کو رسول خدا کے پہلے نواسے حضرت امام حسن کی ولادت ہوئی ،رتن سین نے امام حسن کو سچے موتیوں کی مالا پہنائی جو رنگ تبدیل کرکے سبز ہوگئی اس پر رتن سین کو بڑی حیرت ہوئی اور رسول خدا سے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا یہ میرا فرزند زہر دغا سے شہید کیاجائے گا (جس سے بدن سبز ہوجائے گا)سن 4ہجری میں رسول اسلام کے دوسرے نواسے حضرت امام حسین کی ولادت 3شعبان المعظم کو ہوئی ،
اس بچے کو دیکھ کر رتن سین بہت خوش ہوئے اور ان کے گلے میں بھی سفید سچے موتیوں کی مالا پہنائی ،رتن سین کے دیکھتے ہی دیکھتے اس مالا کے موتی سرخ ہوگئے ،رسول اللہ نے اس کا سبب یہ فرمایا کہ کربلا کے میدان میں یہ میرا فرزند تین دن کا بھوکا پیاسا مع عزیز و اقربا شہید کیاجائے گا ،یہ فرماکر رسول اللہ بے ساختہ رونے لگے…رتن سین نے رسول اللہ سے 300حدیثیں بھی روایت کی ہیں جن میں چند حدیثوں کو الاصابہ فی معرفة صحابہ میں ابن حجر مکی نے ،لسان العرب و میزان الاعتدال میں ذہبی نے رتن سین کی موضوعہ حدیثوں کے طور پر بعنوان مثال نقل کیا ہے ،
حدیثیں یہ ہیں: =رتن سین کہتے ہیں کہ ہم خزاں کے موسم میں رسول اللہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھے اور ہوا چل رہی تھی جس سے پتے گر رہے تھے یہاں تک کہ اس درخت پر ایک بھی پتہ باقی نہ بچا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ جب مومن فرض نماز کو جماعت سے پڑھتا ہے تو اس سے گناہ اسی طرح ختم ہوجاتے ہیں جیسے اس درخت سے پتے=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے کسی مالدار کی عزت اس کے مال کی وجہ سے کی اور محتاج کی بے عزتی اس کی ناداری کی وجہ سے کی تو اس پر ہمیشہ اللہ کی لعنت ہوگی مگر یہ کہ توبہ کرلے=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ:جو شخص آل محمد کی دشمنی پر مرے گا وہ کافر کی موت مرے گا=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ عالم کے لباس پر اس کی دوات کی سیاہی کا نقطہ اللہ کو شہید کے پسینہ کے سو قطروں سے زیادہ پسند ہے =رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جو روز عاشورا امام حسین پر گریہ کرے گا وہ قیامت کے روز اولو العزم پیغمبروں کے ساتھ محشور ہوگا=رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ روز عاشور کا گریہ قیامت میں نور تام (کا باعث )ہوگا
رتن سین کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس نے تارک الصلوٰة کی ایک لقمہ سے مدد کی گو یا اس نے تمام انبیاء کے قتل میں مدد کی ، اگر ہم رتن سین کو سچا مان لیں تو پھر رتن سین محدث ،صحابی ٴ رسول ،محب اہل بیت اور ہندوستان کے اولین مسلمان شمار ہوں گے ،اور اگرعلمائے رجال ابن حجر اور علامہ ذہبی کے مطابق رتن سین کو ثقہ نہ مانیں تو صحابی ٴ رسول ، محب اہل بیت اور ہندوستان کے اولین مسلمان تو تھے ہی حالانکہ مذکورہ حدیثیں بھی کسی نہ کسی راوی کے ذریعہ ہم تک پہنچ چکی ہیں …رتن سین کے علاوہ موجودہ مدھیہ پردیش کے مالوہ میں ریاست دھار کے راجہ بھوج بھی معجزہٴ شق القمر کے بعد ایمان لے آئے تھے
اور انہوں نے اپنے عہد میں تین مسجدیں ایسی بنوائیں جو آج تک صحیح حالت میں ہیں ،ایک مسجد دھار میں ہے دوسری بھوجپور میں اور تیسری مانڈوہ میں ہے جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آمد محمد بن قاسم کے حملے سے نہیں بلکہ رسول اسلام کے معجزہٴ شق القمر کی برکت سے ہوئی تھی،
اس کے علاوہ ایک اور ہندوستانی راجا کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ مجلسی نے اپنی 110جلدی کتاب کی 51ویں جلد میں باب 19صفحہ 253پر لکھاہے کہ یحیٰ بن منصور نے کہا کہ ہم نے ”صوح“ شہر میں ہندوستانی راجا کو دیکھا جس کا نام سرباتک (کسی ہندی نام کا بگڑا ہوا عربی لفظ)تھا اور وہ مسلمان تھا ،
وہ راجا کہتاتھا کہ رسول االلہ کے دس صحابہ حذیفہ بن یمان، عمرو بن العاص، اسامہ بن زید، ابو موسیٰ اشعری، صہیب رومی اور سفینہ وغیرہ نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور میں نے اسلام قبول کرلیا اور نبی کی کتاب( نبی کا خط یا قرآن )کو قبول کرلیا…محققین کو چاہئے کہ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے تحقیق کریں ،بے شمار سندیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اسلام اپنے انقلاب کے ابتدائی ایام ہی میں وارد ہوگیاتھا