امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

تعدّد ازواج

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

 


نظام اجتماعی کے لئے بنائے گئے قوانین اسی وقت کامل، ترقی پسندا ور فائدہ مند ثابت ھو سکتے ھیں جب انسانی فطرت کے مطابق ھوں اور بشری ضرورتوں کو مکمل طور پر پورا کرتے ھوں۔قوانین بناتے وقت واضع قانون کے سامنے معاشرے کے تمام حالات ھوں ۔ اگر یہ صورت نھیں ھے تو پھر وہ قوانین باقی نھیں رہ سکتے ۔
اسلامی قوانین دنیا کے کسی خاص طبقے یا جگہ کے لئے نھیں ھیں بلکہ یہ تمام دنیا اور ھر زمان ومکان کے لئے ھیں اور نظام آفرینش کے عین مطابق بھی ھیں ۔ اسی لئے ھر زمانے میں بشری تقاضوں کو پورا کرتے رھے ھیں ۔ حوادثات کے مد وجزر میں مضمحل و نابود نھیں ھوئے اور نہ نابود ھو سکتے ھیں بلکہ اس دنیا میں جب تک انسان موجود ھے یہ قوانین اپنی برتری اور قدر و قیمت منواتے رھیں گے ۔
اسلام کے بر خلاف کلیسا اور مسیحی مبلغین نے تعدّد ازواج کے مسئلہ کو اس طرح غلط طریقے سے پیش کیا کہ آج یہ مسئلہ دنیا میں محل بحث بن گیا ھے۔ اپنی کمزور و سست پوزیشن کو بچانے کے لئے کلیسا ناواقف لوگوں پر تعدد ازواج کے مسئلے کوھزاروں تھمت و تبدیلی ٴحقائق کے ساتھ پیش کرتا ھے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ھے کہ یہ مسئلہ عورتوں پر ظلم و جور کے مرادف ھے کیونکہ عیسائی مبلغین لوگوں کو یہ باور کراتے ھیں کہ مردوں کو حسب دل خواہ کسی قید و بند کے بغیر عورتوں سے شادی کرنے کا اختیار ھے اور اپنی سختیوں کا پابند بنانے کا حق ھے ۔
در حقیقت اسلام کے خلاف یہ پروپیگنڈہ ھے جس کی کوئی حقیقت نھیں ھے حالانکہ ان لوگوں کے ذھنوں میںاس مسئلے کے خلاف دور از کار اور خلاف انصاف باتیں موجود ھیں لیکن اگر تعصب کی عینک اتار کر واقع بینی کے ساتھ عقل و منطق کی رو سے، انسانی معاشرے کی فطرت پر غور کر کے بے شمار واقعات و حادثات کو نظر میں رکھتے ھوئے اور قوموں کی زندگی کے تغیرات اور تحولات کو دیکھتے ھوئے اس اسلامی قانون کے بارے میں سوچا جائے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ھوئے فیصلہ کیا جائے تو اس قانون کے اصولی و منطقی ھونے میں کوئی شک و شبہ باقی نھیں رھے گا ۔
گذشتہ انبیاء کی تاریخ اور موجودہ ادیان کے مطالعہ سے یہ حقیقت بخوبی واضح ھو جاتی ھے کہ تعدد ازواج کا مسئلہ اسلام سے پھلے رائج و مرسوم تھا یہ کوئی نئی بات نھیں ھے جس کو صرف اسلام نے ایجاد کیا ھو ۔ مثلا چین میں ” لیکی “ قانون کی بناء پر ایک شخص کو ۱۳۰ عورتوں سے شادی کرنے کا حق تھا اور یھودی قانون میں ایک مرد کئی سو عورتوں سے شادی کر سکتا تھا ۔ 1
اسی طرح ” ارد شیر بابکان “ اور ” شارلمانی “ کے لئے لکھا گیاھے کہ ان میں سے ھر ایک کے حرم سرا میں تقریباً چار سو عورتیں تھیں ۔
توریت (جو تعدد ازواج کو جائز سمجھتی ھے) کے خلاف انجیل نے بھی کوئی آواز نھیں اٹھائی بلکہ اس مسئلے میں خاموش ھے۔ اسی لئے آٹھویں صدی عیسوی کے نصف آخر تک یعنی شارلمانی بادشاہ فرانس کے زمانے تک مسیحی یورپ میں تعدد ازواج کی باقاعدہ رسم تھی اور کلیسا اس کی مخالفت نھیں کرتا تھا لیکن اسی بادشاہ (شارلمانی) کے زمانے میں کلیسا کے حکم سے پورے یورپ کے اندر یہ مسئلہ منسوخ قرار دیا گیا اور جن لوگوں کے پاس کئی کئی عورتیں تھیں ان کو شرعی لحاظ سے صرف ایک ایک عورت پر اکتفا کرنا پڑا اور اسی باعث عیسائی بد کاری و زنا کاری کی طرف مائل ھونے لگے اور جن کے پاس صرف ایک بیوی تھی وہ فسق و فجور کی طرف مائل ھو گئے زمانھٴ جاھلیت میں عرب کے مختلف قبیلوں میں نھایت نا پسند یدہ طریقے سے تعدد ازواج کا مسئلہ رائج تھا اورعدالت، مالی حیثیت اور دیگر شرائط کا لحاظ کئے بغیر ھر شخص اپنی حسب ِ خواھش جتنی عورتیں چاھے رکہ سکتا تھا ۔ اس وقت عورتوں کی کوئی قدر و قیمت نھیں تھی، ان پر ظلم و ستم کے پھاڑ توڑنا ایک عام بات تھی ۔ مردوں کی مطلق العنانی نے عورتوں پر عرصھٴ حیات تنگ کر رکھا تھا ۔
اسلام نے اس ظلم کی مخالفت کی اور اس فساد کا خاتمہ کر دیا لیکن مخصوص شرائط کے ساتھ ۔اسلام نے اصل مسئلہ تعدد ازواج کو قبول کیا البتہ معاشرے کی ضرورتوں اور مرد و عورت کے مصالح کو پیش نظر رکھتے ھوئے عورتوں کی تعداد کو صرف چار میں محدود کر دیا ۔
یہ بات قابل لحاظ ھے کہ اسلام کی نظر میں شادی بیاہ کے مسئلے میں اصل تعدد نھیں ھے بلکہ یہ ایک اجتماعی پیش بندی ھے جس کی بنیاد یہ ھے کہ مختلف خطروں کو دور کیا جا سکے کیونکہ کبھی ایسا ھوتا ھے کہ بڑے ضرر سے بچنے کے لئے چھوٹا ضرر انسان کو برداشت کرنا پڑتا ھے ۔ مثلا جان بچانے کے لئے مال کی قربانی مذموم نھیں ھے ۔
اس کے علاوہ تعدد ازواج کا قانون تمام مسلمانوں کے لئے نماز، روزے کی طرح ھر شخص پر واجب و لازم نھیں ھے کہ اگر ایک شخص چند عورتوں کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کر سکتا ھو اور اس کے معاشی حالت بھی چند عورتوں سے شادی کی اجازت دیتی ھو اور وہ اس کے باوجود صرف ایک عورت سے شادی کرے تو گویا اس نے فعل حرام کا ارتکاب کیا ! ایسا قطعاًنھیں ھے ۔
تعدد ازواج کے مسئلے میں عورتوں کو بھی ارادہ و عمل کی آزادی بخشی گئی ھے تاکہ وہ اپنی مرضی سے اس کام کو کریں کوئی جبر نھیں کیا گیا ھے ۔ تعدد ازواج کی اجازت دے کر اسلام نے عورتوں کی کسی قسم کی اھانت نھیں کی ھے بلکہ عورتوں کو صرف اجازت دی گئی ھے کہ حالات کے لحاظ سے اگر وہ چاھیں تو ایسا کر سکتی ھیں ان کو قید تنھائی پر مجبور نھیں کیا گیا ھے ۔
اگر شادی کرنے والے مردوں اور عورتوں کی تعداد برابر ھو تو وھاں پر ھر مرد کے حصے میں ایک ھی عورت آئے گی اور تعدد ازواج کا مسئلہ خود بخود حل ھو جائے گا ۔ لھذا جب معاشرے کو ضرورت نہ ھو تو پھر اس مسئلے کا وجود ھی نہ ھو گا لیکن اگر معاشرے کو شدید ضرورت ھو مثلاً عورتوں اور مردوں کا توازن مختلف اسباب کی وجہ سے باقی نہ رھے بلکہ مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابل میں کم ھو جائے تو فاضل عورتوںکے لئے کیاحل ھونا چاھئے؟
آئے دن کی جنگوں، مشکل کاموں کی انجام دھی، معادن کے اندر کام کرنا (جس میں ھزاروں آدمی ھلاک ھوتے رھتے ھیں) وغیرہ ان اسباب کی بناء پر مردوں کی تعداد کم ھوتی جاتی ھے اور عورتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ھے ۔ اب یھاں پر اعداد و شمار کر کے فیصلہ کیجئے کہ کیا کیا جائے کیونکہ صحیح فیصلہ تو مردم شماری کے بعد ھی ھوگا ۔ اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں قطعی طور پر عورتوں کی تعداد بھت زیادہ ھے اور یہ زیادتی مندرجہ بالا اسباب کی بنا پر ھمیشہ سے دنیا میں رھی ھے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ھے جس سے فرار ممکن نھیں ھے ۔ اس صورت حال میں تعداد ازواج کے علاوہ اس کا اورکیا حل ھو سکتا ھے؟
فرانس کے اعداد و شمار کے مطابق وھاں ھر سو پیدا ھونے والی لڑکیوں کے مقابلے میں ایک سو پانچ بچے پیدا ھوتے ھیں لیکن اس کے با وجود عورتوں کی تعداددس لاکہ سات سو پینسٹہ ھزار سے زیادہ ھے ۔ حالانکہ پورے فرانس کی آبادی پانچ کروڑسے زیادہ نھیں ھے ۔ اس کی وجہ یہ ھے کہ عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں امراض کا مقابلہ کرنے کی طاقت کم ھے اس لئے پانچ فیصد لڑکے انیس سال کی عمر تک ختم ھو جاتے ھیں، کچہ پچیس سال تک اسی طرح مردوں کی تعداد گھٹتی رھتی ھے اور اب یہ حال ھے کہ ۶۵ سال کی عمر میں پندرہ لاکہ عورتوں کے مقابلے میںساڑھے سات ھزار سے زیادہ مرد باقی نہ رھیں گے ۔ 2
اس وقت امریکہ میں دو کروڑ عورتیں شوھر نہ ملنے کی وجہ سے کنواری ھیں اور مختلف عادتوں کی شکار ھیں ۔ 3
پروفیسر ” پیٹر مڈاوار (PROFESSOR PETER MUDAWAR) مندرجہ بالا نظریے کی تائید کرتے ھوئے لکھتے ھیں: اس سبب سے اور دوسرے اسباب کی بناء پر بھی دنیا میں مردوں کی تعداد رو بہ نقصان ھے ۔ 4
جس طرح عورت ضروریات زندگی کا احساس کرتی ھے اسی طرح وہ اندرونی طور پر شوھر، تولید نسل، پرورش اولاد کی بھی ضرورت کا احساس کرتی ھے اور اس کی یہ خواھش شادی کے بغیر پوری نھیں ھو سکتی ۔ محض وسائل زندگی کا مھیا ھو جانا اس کے باطنی التھاب کو ختم نھیں کر سکتا اور عورت ھی کیا مرد کے یھاں بھی یہ احساس موجود ھے اور اصولا ًان باتوں کا انکار ممکن نھیں ھے ۔
دنیا میں عورتوں کی کثرت کی علت بیان کرتے ھوئے اخبار اس اھم مسئلے کا بھی ذکر کرتے ھیں ۔ عورتوں کی تعداد روز بروز دنیا میں کیوں بڑہ رھی ھے؟ اس کی دو علتیں ھیں ۔
1۔ عورتوں کی پیدائش (مردوں کے بہ نسبت) زیادہ ھوتی ھے ۔
2۔ مردوں کے مقابلے میں ان کی عمریں بھی لمبی ھوتی ھیں ۔
یہ حقیقت ھے کہ عورتوں کی بہ نسبت مردوں کی عمر یں کم ھوتی ھیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک غیر شادی شدہ مردکے مقابلے میں بیس بیوہ عورتیں موجود ھیں۔ عورت کی تنھائی اس کے لئے بھت دشوار اور افسردہ کرنے والی چیز ھے ۔ غیر شوھر دار عورتیں ھمیشہ شریک زندگی کے انتظار میں رھتی ھیں اور ان کی پوری زندگی انتظار کے کمرے میں گزر جاتی ھے ۔
آخر کیا بات ھے کہ بڑی زحمت و محنت سے پکائے ھوئے کھانے عورتوں کو تنھا کھانے میں لطف نھیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ھے محض اپنے لئے کام کرنے کو عبث و بیکار سمجھتی ھیں، حالانکہ بچوں اور شوھر کے لئے کام بڑی رغبت سے کرتی ھیں ۔ کنواری اور بیوہ عورتیں زیادہ تر اپنے دن کوبے مقصد اور بد دلی سے گزارتی ھیں ۔ دوستوںاورقرابت داروں کے یھاں شوھر دار عورتوں کو دیکہ کر ان کایہ احساس مزید بڑہ جاتا ھے ۔ 5
فاضل اور زائد عورتوں کا حل اسلام نے تعدد ازواج کی صورت میں نکالا ھے کہ عورتوں کو یہ حق ھے کہ شادی شدہ مرد کے ساتھ شادی کر کے اپنے رنج وتنھائی اور دیگر محرومیتیوں سے نجات حاصل کریں ۔
مردوں میں تولید نسل کی صلاحیت اور جنسی خواھش تقریباً ھمیشہ باقی رھتی ھے لیکن عورتیں پچاس سال کے بعد حمل و پیدائش کی صلاحیت کھو بیٹھتی ھیں ۔ اب جس زمانے میں عورت کی صلاحیت ختم ھو جاتی ھے مرد کی شھوت پھر بھی بیدار رھتی ھے ۔ اس لئے اگر مردوں کے لئے دوسری شادی کرنا غیر قانونی ھو جاتا ھے تو اس کا مطلب یہ ھوا کہ عمر کے ایک حصے میں مرد کو اپنی اس صلاحیت سے فائدہ اٹھا نانا ممکن ھو جائے گا ۔
اس کے علاوہ بھت سی عورتیںعقیم ھوتی ھیں لیکن میاں بیوی کے آپسی محبت کی بناء پر مرد سے جدائی بھی نھیں چاھتیں اور ادھر مرد کے اندر وجود فرزند اور بقائے نسل کی فطری خواھش موجود ھے، ایسی صورت میں کس جرم کی بناء پر مرد پوری زندگی اولاد کی خاطر آتش حسرت میں جلتا رھے اور اپنے مقصد کو کیوں نہ حاصل کرے؟
ایرانی اخبار” اطلاعات “ ” ایک مرد کی تین بیویاں شوھر کی چوتھی شادی پر راضی “ کے عنوان سے لکھتا ھے: کل ظھر کے بعد ایک مرد اپنی تین عورتوں کو لے کرایران کے شھر رشت کی عدالت میں حاضر ھوا اور حاکم سے خواھش کی کہ میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ھوں مجھے اس سے شادی کی جازت دی جائے اور میری موجودہ بیویاں اس پر راضی ھیں اور لطف کی بات یہ ھے کہ تینوں عورتوں نے عدالت کے سامنے اپنی رضا مندی کا اظھار کیا ۔ اس شخص نے عدالت کے سامنے اپنی مجبوری اس طرح بیان کی کہ میری تینوں بیویاں بانجہ ھیں لیکن زراعت کے کاموں میں میرا ھاتہ بٹاتی ھیں اس لئے ان کو طلاق بھی نھیں دینا چاھتا اور چاھتا ھوں کہ ایک اور لڑکی سے شادی کروں جس سے میرے یھاں اولاد پیدا ھو ۔ لڑکی نے بھی ھمارے رشت کے نامہ نگار سے کھاکہ ھمارا ھونے والا شوھر ھمارے دیھات ” سفید کپلتہ “ کے بھت اچھے لوگوں میں سے ھے ۔ اس کے علاوہ ھمارے دیھات میں دو ھزار عورتیں اور صرف چار سو مرد ھیں ۔ مردوں میںبھی آدھے دس سے سولہ سال کے لڑکے ھیں یعنی ھمارے دیھات میں ایک مرد کے حصے میں پانچ عورتیں پڑتی ھیں ۔ ان دلائل کے پیش نظر اگر میں چوتھی بیوی بنوں تو جائے تعجب نھیں ھے ۔ 6
جو قانون مرد کو اس کی خواھش پوری نہ کرنے دے یعنی اولاد کی خواھش کو پوری نہ ھونے دے، کیا وہ مرد کے حق میں ظالم قانون نھیں ھے ۔؟
اسی طرح زائد عورتوں کی صورت میں جب مردو عورت دونوں کے مصالح پیش نظر رکھے جائیں تو تعدد ازواج کی صورت کے علاوہ کون سا ایسا طریقہ ھے کہ معاشرے میں خلل واقع نہ ھو اورنسل کے اندر تعاون و توازن موجود رھے؟
یہ ایک روحی، حیاتی و اجتماعی ضرورت ھے اور ایک واقعی حقیقت ھے جس کا سامنا کرنا ھی ھے، یہ کوئی افسانہ یا تخیل نھیں ھے ۔ اسی طرح کبھی یہ بھی ھو سکتا ھے کہ عورت کسی زمانے میں کسی زمین گیر بیماری میں گرفتار ھو جائے جو ناقابل علاج ھو اور ھمبستری کے لائق بھی نہ ھو، دوسری طرف مرد کی شھوت میں کوئی کمی نہ ھو اور اسلام عفت و پاکدامنی کے مخالف کام کی اجازت تو دیتا نھیں اب دوسری شادی کو بھی روک دے تو یہ کتنا بڑا ظلم ھو گا ۔ اس موقع پر تعدد ازواج کے قانون سے بھتر کون سا طریقہ ھے جس سے مرد کی ضرورت پوری ھوجائے؟
اسی طرح اگر شوھر کسی ایسی بیماری میں مبتلا ھو جائے جو ناقابل علاج ھو اور جنسی رابطہ عورت کے لئے نقصان دہ ھو تو اس کو بھی حق ھے کہ قاضی اسلام کی طرف رجوع کر کے طلاق کی خواھش کرے اور حاکم شرع شوھر سے اس کو طلاق دلوا دے گا ۔ اگر شوھر طلاق دینے پر تیار نہ ھو تو حاکم شرع اپنے اختیارات کو استعمال کر کے خود طلاق نافذ کر سکتا ھے ۔
اب ایسی صورت میں کہ جب عورت زمین گیر مرض میں مبتلا ھو کیا یہ بھتر ھے کہ مرد اس کو طلاق دیدے اور اس عضو معطل کے ذریعہ معاشرے کے بے سر و ساماں لوگوں میںایک اور فرد کا اضافہ کر دے؟ یا پھر تعدد ازواج پر عمل کرتے ھوئے دوسری شادی کر لے اور اس عورت کو اپنی سر پرستی میں رکہ کر علاج و معالجہ کرائے؟ ظاھر ھے دوسری صورت بھتر ھے کیونکہ جس عورت نے اپنی زندگی کے قیمتی حصے کو شوھر کے گھر میں گزارا ھو اس کے رنج و غم خوشی و مسرت میں برابر کی شریک رھی ھو کیا انصاف اور وجدان کا تقاضا یہ ھے کہ شوھر تندرستی کے زمانے میں تو شریک زندگی بنائے لیکن بیمار ھونے کے بعد اس کو علیحدہ کر دے؟ کیا یھی انسانیت اور شرافت ھے؟
حفظ عفت عمومی اور جنسی بے راہ روی کی روک تھام کرنے ھی کے لئے اسلام نے ” تعدد ازواج “ جیسا موثر قانون ایجاد کیا ھے جس سے لاکھوں عورتوں کو انحرافات جنسی سے بچا کر ان کی فطری شوھر و اولادکی خواھش کو پورا کیا جا سکتا ھے ۔
دوسری جنگ عظیم میں جب کروڑوں افراد لقمہٴ اجل بن گئے اور بھت سی عورتیں بغیر شوھر کے رہ گئیں تو عورتوں کی انجمن نے جرمنی حکومت سے جرمن کے اندر ” تعدد ازواج “ کے قانون کے نفاذ کی مانگ کی لیکن کلیسا کی مخالفت کی وجہ سے ان کی مانگ پوری نھیں کی گئی اور خود کلیسا نے اس مسئلے کا کوئی عملی و منطقی حل نھیں پیش کیا اس لئے عورتیں مختلف اخلاقی مفاسد اور جنسی بے راہ روی کی شکار ھو گئیں اور ناجائز اولاد کی بھر مار ھو گئی ۔
اخباروں نے اس طرح تفصیل لکھی ھے:
” دوسری عالمگیر جنگ کے بعد جرمنی کی بے شوھر عورتوں نے حکومت سے تعدد ازواج کے قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا تاکہ عورتوں کی شرعی و فطری مانگ (شوھر و اولاد) پوری ھو سکے مگر کلیسا نے مخالفت کی جس کا نتیجہ یہ ھوا کہ پورا یورپ بد کاری کا اڈا بن گیا ۔ 7
زندگی کی وحشت تنھائی، بیس سالہ عورتوں تک میں عام ھو رھی ھے تیس چالیس سالہ عورتوں کا پوچھنا ھی کیا ۔ مردوں اور عورتوں کی آزادی بھی عورتوں کے دل سے (شوھر) کی خواھش نھیں نکال سکی ۔ آج بھی ”بنت حوا“ کی نظریں ”ابن آدم“ کی متلاشی ھیں ۔ تمام امکانی صورتوں اور ترقیوں کے باوجود جو اتحادی جرمنی کے اندر عورتوں کے لئے مھیا کی گئی تھیں، آج بھی عورت اپنی حفاظت و پاسداری کے لئے شوھر کی تلاش میں ھے ۔
مغرب کا دعویٰ ھے کہ اس نے عورتوں کے ساتھ بڑی مھربانی برتی ھے اور ان کو کامل آزادی بخشی ھے۔ اگر ایسا ھے تو ان کی جائز خواھشوں اور گھر بسانے کی تمنا کے سامنے کیوں دیوار کھڑی کرتا ھے؟ ان کو ان کے اصلی فریضے ۔ تولید فرزند و تربیت اولاد ۔ سے کیوں محروم کرتا ھے؟
ایک مرد کے گھر میں ایک یا چند عورتوں کے ساتھ رہ کر زندگی بسر کرنے پر آمادگی خود بتاتی ھے کہ بے شوھری اور تنھائی کی زندگی سے ”تعدد ازواج “ بھتر ھے ۔ یہ بے چارہ مرد ھے جو کئی شادیاں کر کے اپنی ذمہ داریوں میںاضافہ کر لیتا ھے ۔
ایک پڑھی لکھی معزز خاتون جنھوں نے حقوق میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ھے اس مسئلے پر اظھار رائے کرتے ھوئے واضح الفاظ میں تحریر کرتی ھیں: کوئی بھی عورت چاھے وہ پھلی بیوی ھو یا دوسری یا کوئی اور ” تعدد ازواج “ سے اس کو کوئی نقصان نھیں ھوتا ! بلکہ طے شدہ بات یہ ھے کہ اس قانون سے مردوں کو ضرر پھونچتا ھے کیونکہ ان کا بوجہ بڑہ جاتا ھے ان کی تکلیف زیادہ ھو جاتی ھے اس لئے کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرے گا تو شرعاً، اخلاقاً، قانوناً اور عرفاً اس عورت کا ذمہ دار ھو گا اور آخر عمر تک اس عورت کے شایان شان وسائل زندگی مھیا کرنا مرد کا فریضہ ھو گا ۔ اسی طرح عورت کے صحت کی ذمہ داری بھی اس پر ھو گی یعنی بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کرانااور اس کے مصارف برداشت کرنا ھوں گے اور خطرات سے بچانا بھی اس کا فریضہ ھو گا ۔ !
اگر مردان چیزوں میں کوتاھی کرتا ھے تو عرف اس کو فرائض کی انجام دھی پر مجبور کرے گا اس خاتون کے عقیدے کے لحاظ سے تعدد ازواج کے سلسلے میں نادانستہ جتنے اعتراض عورتوں کی زبان سے ھوتے ھیں یہ در حقیقت مردوں کے اعتراض ھیں جو عورتوں کی زبان سے ھوتے ھیں ۔ عورتیں طوطی کی طرح رٹ کر ھر جگہ اس راگ کو الاپتی رھتی ھیں (گویا یہ عورتوں کی بے وقوفی اور مردوں کی عقل مندی ھے) کیونکہ در حقیقت مرد مختلف شبھات پیدا کر کے شادی سے روکتے ھیں کیونکہ اس قانون سے انھیںکو نقصان ھے عورتوں کو کوئی نقصان نھیںھے اور مرد یہ چاھتا ھے کہ قانونی پابندی سے بچ کر اپنی جنسی خواھش پوری کرتا رھے مگر نادان عورت اس بات کو نھیں سمجہ پاتی ۔ اگر کسی مرد کی دو بیویاں ھیں تو جنسی تعلق سے عورت کو کوئی نقصان نھیں ھے بس روحانی طور پر عورت کو یہ احساس ھوتا ھے کہ میرے شوھر کی دوسری بیوی بھی ھے لیکن یہ روحانی تکلیف بھی حقیقی چیز نھیں ھے بلکہ مردوں کی سمجھائی ھوئی بات ھے اور اس کی دلیل یہ ھے زمانھٴ سابق میںلوگوں کی کئی بیویاں ھوتی تھی اب بھی ایسی مثالیں مل جائیں گی کہ ایک گھر میں دو تین بیویاں مل کر زندگی بسر کرتی ھیں اور کسی کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نھیں ھے لیکن مردوں کے بھکائے میں آکر اب ان کو بھی تکلیف کا احساس ھونے لگا ھے اگر واقعاً دوسری بیوی باعث تکلیف ھوتی تو پھلے زمانے میں یہ احساس کیوں نھیں تھا؟
اب آپ سمجھئے کہ مغرب نے جنسی بے راہ روی توجائزقرار دے دی لیکن فطری خواھش (شوھر و اولاد) پر پابندی لگا دی لیکن اسلام لوگوں کو معقول آزادی دیتا ھے اور ایسی آزادی جو مصالح فرد یا اجتماع کے لئے نقصان دہ ھو، اس کی کسی قیمت پر اجازت نھیں دیتا ۔
چونکہ اسلام کی نظر میں عدل و انصاف، فرد و اجتماع کی سعادت کا اھم جزو ھے اسی لئے ” تعدد ازواج “ میں بھی اسلام نے عدالت کی شرط رکھی ھے اور مختلف امور میں عورتوں کے ساتھ کیسی عدالت برتی جائے اس سلسلے میں فقہ اسلامی کے اندر بھت زیادہ دستور بتائے گئے ھیں اور عورتوں کی آزادی و برابر ی کے حقوق وغیرہ کی بھت عمدہ طریقے سے ضمانت دی گئی ھے ۔
بھت سی ایسی عورتیں بھی ھیں جو رضا و رغبت کے ساتھ اپنے شوھروں کو دوسری شادی کی اجازت دے دیتی ھیں، عورتوں کی یہ رضا مندی اس بات کی دلیل ھے کہ ” تعدد ازواج “ کا مسئلہ انسانی فطرت سے ھم آھنگ ھے ۔ اگر یہ خلاف فطرت قانون ھوتا تو عورت کسی بھی قیمت پر مرد کو دوسری شادی کی اجازت نہ دیتی۔
اگر کسی گھر میں ناراضگی، اختلافات دکھائی دیتے ھیں تو اس کی وجہ صرف یہ ھے کہ وھاں امتیاز برتا جاتا ھے عورتوں کے ساتھ انصاف نھیں ھوتا ھے اسلام کا اعلان ھے”اور اگر یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ھے تو جو عورتیں تمھیں پسند ھیں دو تین ۔چار ان سے نکاح کر لو اور اگر ان میں بھی انصاف نہ کر سکنے کا خطرہ ھے تو صرف ایک یا جو کنیزیں تمھارے ھاتہ کی ملکیت ھیں یہ بات انصاف سے تجاوز نہ کرنے سے قریب تر ھے “ ۔ 8
مختصر یہ بعض اوقات کچہ مردوں کے غیر معقول اور سخت گیر رویہ سے گھروں میں شدید اختلاف پیدا ھو جاتا ھے اور شرعی و اخلاقی فریضہ میںبیویوں سے انصاف نہ کرنے کی وجہ سے گھر یلو ماحول مھر و محبت کے بجائے دھکتا ھوا جھنم بن جاتا ھے ۔ اس لئے مسلمانوں کے اعمال کی طرف توجہ دئے بغیر اسلام کے احکام کی گھرائی کو سوچنا چاھئے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے ۔ اسلام کے اندر ایسے بھی دستور و قانون موجود ھیں جن کی بناء پر مردوں کو عورتوں سے منصفانہ سلوک کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ھے مثلاً اگر کوئی مرد بیوی کا نان و نفقہ نھیںدیتا یا بیویوں میں عدالت سے کام نھیں لیتا اور اپنی ذمہ داری کا احساس نھیں کرتا تو اس سے شرعی باز پرس ھو گی اور اس کو سز ابھی دی جائے گی ۔
البتہ دلی لگاؤ اور قلبی جھکاؤ انسان کی قدرت سے باھر کی چیز ھے اور بھت ممکن ھے کہ کسی عورت کے اندر زیادہ خصوصیات ھوں جس کی بناء پر مرد اس سے زیادہ محبت کرتا ھو، اسی لئے اسلام نے مرد کونان و نفقہ، مکان، ھمبستری اور تمام روحانی، جسمانی اور مالی خواھشات کی مساوات پر مجبور کیاھے یعنی جو چیزیں انسان کے بس کی ھیں ان میں عدالت شرط ھے اس میں کسی قسم کی زیادتی اور ظلم و ستم جائز نھیں ھے لیکن جو باتیں انسان کے بس سے باھر ھیں ان میں عدالت شرط نھیں ھے ۔
عورتوں کے لئے جن حقوق کی خانگی زندگی میں زیادہ اھمیت ھے اسلام نے ان کی حفاظت کی ھے اور یہ طے شدہ بات ھے کہ دلی لگاؤ کی وجہ سے اگر برتاؤ میں فرق پڑ جائے تب تو عورت کے حقوق ضائع ھوتے ھیں لیکن اگر کسی عورت سے قلبی لگاؤ ھونے کے باوجود لباس، خوراک، مکان، اور دیگر ضروریات زندگی میں مثلا ھمبستری وغیرہ میں کوئی فرق نھیں پڑتا بلکہ عدالت کے موافق کام ھوتا ھے تو پھر اس قلبی لگاؤ کی کوئی اھمیت نھیں ھے ۔ اسی لئے خانگی زندگی میں بے مھری، کے آثار نھیں پیدا ھونے دنیا چاھئے۔ قرآن کھتا ھے: عورت کو معلق (نہ شوھر دار نہ بے شوھر) نہ کرو اس کو موت و زندگی کے بیچ میں مت پھنساؤ ۔ اسی لئے کسی مرد کو یہ حق نھیں ھے کہ اپنی کچہ بیویوں کے ساتھ بے رخی سے پیش آئے اور ان کو بیچ منجدھار میں چھوڑ دے ۔
حضور سرور کائنات کے زمانے میں جب یہ حکم نافذ ھوا تو جن اصحاب کے پاس چار بیویاں تھیں ان کو پابند بنایا گیا کہ اگر سب کے ساتھ انصاف نہ کر سکو تو صرف ایک بیوی پر اکتفا کرو اور اگر انصاف بھی کر سکتے ھو تو چار بیویوں سے زیادہ نھیں رکہ سکتے ۔ اس حکم کے ذریعے اسلام نے ”تعدد ازواج“ کے غیر عادلانہ برتاؤ، عورتوں کے حقوق سے لا پرواھی اورمطلق العنان جنسی بے راہ روی پر پابندی عائد کر دی اور ھر ظلم و ستم کا خاتمہ کر دیا ۔
مسلمانوں میں جو مذھبی قانون کے پابند تھے ان میں ایسے لوگ بھی ملتے ھیں جنھوں نے عورتوں کے مرنے کے بعد بھی عدالت و انصاف کے دامن کو ھاتہ سے نھیں چھوڑا مثلاً ”معاذ بن جبل“ صحابی پیغمبر کی دو بیویاں تھیں اور طاعون میں دونوں ایک ساتھ مر گئیں ۔ معاذ اس وقت بھی عدل انصاف سے کام لینا چاھتے تھے کہ کس کو پھلے دفن کیا جائے ۔ چنانچہ انھوں نے اس کام کے لئے قرعہ اندازی سے کام لیا“ 9
مغرب میںبھی بعض ایسے منصف مزاج دانش مند پیدا ھوئے ھیں جنھوں نے اس مسئلے پر کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ دیا ھے کہ ” تعدد ازواج “ معاشرے کی ایک اھم ضرورت ھے ۔ مشھور جرمنی فلسفی شوپنھاور (SCHOPENHAUER) اپنی کتاب عورتوں کے بارے میں چند باتیں میں تحریر کرتا ھے: جس مذھب میں ” تعدد ازواج “ کا قانون موجود ھے اس میں اس کا امکان ھے کہ عورتوں کی ایسی اکثریت جوكُل کے قریب ھو شوھر، فرزند اور سرپرست سے ھمکنار ھو ۔ لیکن یورپ کے اندر کلیسا ھم کو اس بات کی ا جازت نھیں دیتا اس لئے شوھر دار عورتیں بغیر شوھر والی عورتوں سے کئی گنا کم تعداد میں ھیں۔ بھت سی کنواریاں شوھر کی آرزو لے کر اور بھت سی عورتیں اولاد کی خواھش لے کر اس دنیا سے چلی گئیں اور بھت سی عورتیں اور لڑکیاں جنسی خواھش کے ھاتھوں مجبور ھو کر اپنی عفت کھو بیٹھیں اور بد نام ھو گئیں اور ساری زندگی آتش عصیاں و تنھائی میں جلتی رھیں اور انجام کار اپنی فطری خواھش تک نہ پھنچ سکیں اگر تعدد ازواج کا قانون ھوتا تو یہ بات نہ ھوتی ۔
کافی غور وخوض کے بعد بھی کوئی دلیل نھیں ملی کہ اگر کسی مرد کی بیوی زمین گیر مرض میں گرفتار ھو یا بانجہ ھو، یا عمل حمل و وضع سے عاجز ھو تو وہ بے چارہ دوسری عورت سے شادی کیوں نہ کرے؟ اس کا جواب کلیسا کو دینا چاھئے مگر کلیسا کے پاس کوئی جواب نھیں ھے ۔ بھترین قانون وہ ھوتا ھے جس کے سھارے زندگی کی سعادت محفوظ رھے نہ کہ وہ جس کی بدولت زندگی جھنم کا نمونہ بن جائے ۔
آنی بسنٹ (ANIE BESANT) تحریر کرتی ھے: مغرب کا دعویٰ ھے کہ اس نے ” تعدد ازواج “ کے قانون کو نھیں قبول کیا لیکن واقعیت یہ ھے کہ بغیرقبول کئے یہ قانون مغرب میں موجود ھے بایں معنی کہ مرد جب اپنی معشوقہ سے سیر ھو جاتا ھے تو اس کو بھگا دیتا ھے اور یہ بے چاری گلی کوچوں میں ماری ماری پھرتی ھے کیونکہ پھلا عاشق اپنی کوئی ذمہ دار ی محسوس ھی نھیں کرتا اور عورت کی یہ حالت ھزار درجہ اس عورت کی حالت سے بدتر ھے جو قانونی شوھر رکھتی ھے بال بچے والی ھے، خاندان میں شوھر کے زیر حمایت زندگی بسر کر رھی ھے ۔ میں جب ھزاروں عورتوں کو رات کے وقت سڑکوں پر حیران و سر گرداں دیکھتی ھوں تو مجبورا ًسوچتی ھوں کہ اھل مغرب کو اسلام کے ”تعدد ازواج “ کے قانون پر ھرگز اعتراض نھیں کرنا چاھئے ۔جو عورت ”تعدد ازواج“ قانون کے ماتحت شوھر رکھتی ھے، گود میں چھوٹے چھوٹے بچے رکھتی ھے اور نھایت احترام کے ساتھ شوھر کے خاندان میں زندگی بسر کرتی ھے وہ ھزاروں ھزار درجے اس عورت سے بھتر ھے جو گلی کوچے میں حیران و پریشاں گھومتی ھے، گود میں نا جائز بچہ رکھتی ھے جس بچے کو کوئی قانونی حمایت حاصل نھیں ھے، جو دوسروں کی شھوتوں کے قربان گاہ پر بھینٹ چڑہ چکی ھے ۔
ڈاکٹر گوسٹاو لبون (Dr. GUSTAVELEBON) لکھتا ھے: مشرقی رسم و رواج میں سے ” تعدد ازواج “ کے مسئلے کو مغرب میں جس قدر غلط طریقے سے پیش کیا گیا ھے کسی بھی رسم کے بارے میں ایسا نھیں ھوا ھے، اور کسی بھی مسئلے پر مغرب نے اتنی غلطی نھیں کی ھے جتنی ” تعدد ازواج “ کے مسئلے پر کی ھے، میں واقعاً متحیر ھوں اور مجھے نھیں معلوم کہ مشرق میں” تعدد ازواج “ کا مسئلہ مغرب کے ” فریبی ازدواج “ سے کس طرح کم ھے اور اس میں کیا کمی ھے ۔ میرا تو یہ عقیدہ ھے کہ ” تعدد ازواج “ کا شرعی مسئلہ ھر لحاظ سے بھتر و شائستہ ھے ۔ 10
www.ishraaq.net
--------------------------------------------------------------------------------
1. حقوق زن در اسلام و اروپا / ص ۲۱۵
2. ایرانی اخبار” اطلاعات“ ۱۱/ ۹/ ۳۵
3. خواندین ھا شمارہ ۷۱ سال ۱۴
4. ایرانی اخبار” کیھان“ ۳/۱۲/۳۸
5. سروس مخصوص خبر گزاری فرانسہ اطلاعات ۱۲۲۳۹
6. ایرانی اخبار” اطلاعات“ ۲۰ بھمن ۴۸ شمارہ ۱۳۱۶
7. ایرانی اخبار” اطلاعات“ ۲۹/۸/۴۰
8. سورہ ٴنسا /۳
9. مجمع البیان ج۳ /ص ۱۲۱
10. تمدن اسلام و عرب/ ص ۵۲۶ ۔ ۵۲۷

 

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک