جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے لقب ام ابیھا کی مختصر وضاحت
جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے لقب ام ابیھا کی مختصر وضاحت
حضرت زہراءسلام اللہ علیہا کے اسماء و القاب کے سلسلے میں پیغمبر اکرمﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔ منجملہ آپ کے لیے جو کنیت بیان ہوئی ہے وہ ام ابیہاہے۔یعنی فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا پیغمبر اکرمﷺ کی ماں ہیں۔
مقاتل الطالبین، ص 29،بحارالأنوار، ج 43، ص 19
حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کی اس کنیت کے تین معنی ہیں۔ اور تینوں معنی نہایت اہم ہیں۔ اگر ان پر توجہ کی جائے تو اس کے علاوہ کہ آپ کی نسبت ہمارا عقیدہ مزید مستحکم ہو گا آپ کی زندگی کو بہتر انداز میں اپنے لیے اسوہ اور نمونہ عمل قرار دیں سکیں گے۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرمﷺ کی تخلیق مقصد:
پہلے معنی یہ ہیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پیغبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے علت غائی ہیں معروف و مشہور روایت
لَولاکَ لما خَلَقتُ الأفلاکَ و لَولا عَلیٌ لَما خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَما خَلَقتُکُما
الجنّة العاصمه، ص 148 ، مجمع النورین، ص 14
اس حدیث کا پہلا حصہ یعنی "لولاک لما خلت الافلاک” سند کے اعتبار سے معتبر ہے اور شیعہ و سنی کتابوں میں متواتر طریقہ سے نقل ہوا ہے۔ پروردگار عالم نے فرمایا: یا رسول اللہﷺ کائنات کے وجود کا مقصد آپ ہیں اور آپ نہ ہوتے تو میں کائنات کو خلق نہ کرتا۔
بحارالانوار، ج 15، ص 28،ج16، ص406، ینابیع المودة، ج 1، ص 24،کشف الخفاء، ج 2، ص 164
اس روایت کا دوسرا حصہ یعنی عبارت
’’و لَولا عَلیٌ لَما خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَما خَلَقتُکُما‘‘
اگر چہ سند کے لحاظ سے پہلے حصے کے برابر نہیں ہے لیکن پھر بھی متعدد شیعہ و سنی کتابوں میں یہ فقرہ بیان ہوا ہے۔ اگر امیر المومنین علی علیہ السلام نہ ہوتے تو خدا اپنے حبیب کو بھی خلق نہ کرتا یعنی پیغمبر اکرمﷺ کے مقصد علیؑ ہیں اور اگر فاطمہ سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو پیغمبرﷺ اور علیؑ دونوں نہ ہوتے۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر فاطمہ سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو کائنات نہ ہوتی یعنی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا در حقیقت کائنات کی وجہ تخلیق ہیں۔ خداوند عالم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے صدقے میں کائنات کو خلق کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پروردگار عالم کے یہاں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ ماسوائے خدا ہر چیز ان کے صدقے میں ہستی کائنات ہوئی ہے۔
اور شاید اس بات کے معنی بھی یہی ہوں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو ام ابیھا کہا ہے وہ اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ پیغمبر اکرم ﷺ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ اے فاطمہ سلام اللہ علیہا تم میری تخلیق اور ہستی کا سبب ہو۔ لہذا اس معنی میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرمﷺ اور ان کے دین اسلام کا مقصد ہوں گی۔
بزرگان اور اہل معرفت اس معنی پر تاکید کرتے ہیں اور اسی وجہ سے روایت
لَولاکَ لما خَلَقتُ الأفلاکَ و لَولا عَلیٌ لَما خَلَقتُکَ و لَولا فاطِمَةُ لَما خَلَقتُکُما
کے لیے خاص اہمیت کے قائل ہیں۔
شخصیت پیغمبر اکرمﷺ اور حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا:
ام ابیھا کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ کی شخصیت حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ خود پیغمبر اکرمﷺ اپنی ماں حضرت آمنہ کی مرہون منت ہیں کہ انہوں نے جزِ علت ہونے کے اعتبار سے آپ کو وجود بخشا ہے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی والدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کا بھی یہی مقام ہے یعنی انہوں نے بھی اپنی تمام تلاش و کوشش کے ذریعے تیرہ سال اسلام کو مکہ میں پروان چڑھایا۔ اگر حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی دولت و ثروت نہ ہوتی تو مکہ کی بنجر زمین میں آندھیوں اور طوفانوں سے بچ کر نہال اسلام کا تنومند ہونا بہت مشکل ہو جاتا۔ اگر پیغمبر اکرمﷺ شعب ابوطالب میں چالیس افراد کے ساتھ مشکلات کو متحمل کر پائے تو یہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔
حضرت خدیجہسلام اللہ علیہا کی پیغمبر اکرم ﷺ کی حمایت کے سلسلے میں گفتگو طولانی ہے ہم صرف یہاں پر ایک جملہ میں ان تمام قربانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے پیغمبر اکرمﷺ سے شادی کے بعد پہلی رات ہی اپنے تمام مال و متاع کی کلیدکو پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا اور فرمایا: میں آپ کی خدمت گذار ہوں اور یہ سارا مال آپ کا ہے۔
الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 140،141
شادی کی پہلی رات میں حضرت خدیجہ کی بات صرف ایک تعارف اور تکلف نہیں تھا بلکہ انہوں نے عملا اس چیز کو ثابت کر دیا اور اس طریقہ سے اپنی بات پر سچائی کا ثبوت دیا کہ دنیا سے جاتے وقت اپنے پاس کفن تک بھی نہ تھا۔ اور اپنے شوہر پیغمبر گرامی اسلامﷺ کو یہ بات کہتے ہوئے بھی شرما رہی تھیں کہ مجھے کفن دے دینا۔ لہذا انہوں نے اپنی بیٹی جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے ذریعہ پیغمبر اسلامﷺ سے یہ وصیت کرتے ہوئے کہلوایا کہ وہ عبا اور چادر جسے نزول وحی کے وقت آپ اپنے شانوں پر ڈالتے ہیں اسے میرا کفن قرار دیں۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی درخواست دو اعتبار سے توجہ کی طالب ہے ایک یہ کہ یہ وحی کی عبا ہے اور متبرک ہے اور دوسرے یہ کہ آپؐ نے اپنا سارا مال راہ اسلام میں خرچ کر دیا تھا لہذا آپ کے پاس کفن تک کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔
حضرت رسول اسلامﷺ نے بھی وصیت کے مطابق عمل کیا اور اسی عبا کو اپنی بہترین شریک حیات جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کے لیے کفن قرار دیا۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو کفن دیتے وقت جناب جبرئیلؑ بھی جنت سے کفن لے کر نازل ہو گئے۔ رسول خدا ﷺ نے اپنی عبا اور بہشتی کفن دونوں سے جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کو کفن دیا اور دفن کر دیا۔
شجرہِ طوبی، ج 2، ص 234
خود حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے مدینہ میں دس سال کے عرصہ میں حضرت علی علیہ السلام کی مدد سے پیغمبر اکرمﷺ کی ہمیشہ نصرت کی۔ اگر حضرت زہراء اور حضرت علی علیہما السلام نہ ہوتے تو پیغمبر اکرمﷺ کے لیے مدینہ میں موجود مشکلات کو سر کرنا بھی بہت ناگوار ہو جاتا۔
فدک، میراث حضرت زہراء سلام اللہ علیہا:
پیغمبر اکرمﷺ نے مدینہ کے دس سالوں میں ۸۴ جنگیں لڑیں۔ اور بالاتفاق جس شخص نے ان تمام جنگوں میں فتح حاصل کی وہ تنہا ذات حضرت علی علیہ السلام کی ہے۔ اور جس نے ہر حال میں حضرت علیؑ کی نصرت کی اور انہیں جنگوں کے لیے آمادہ کیا وہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی ذات ہے اور اس کے بعد فدک کا سرمایہ ہے۔ فتح خیبر کے بعد جب رسول اسلامﷺ نے فدک لیا اور اسے اپنی ملکیت قرار دیا تو یہ آیت نازل ہوئی:
وَ آتِ ذَا القُر بىٰ حَقَّهُ
الاسراء : 26
شیعہ و سنی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اسلامﷺ نے فدک حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو دے دیا۔
بحارالأنوار، ج 21، ص 22،الدرّالمنثور، ج 4، ص 177
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی پوری زندگی اس کے سرمایہ سے استفادہ نہیں کیا بلکہ اس کا سارا سرمایہ آپ بنی ہاشم کے فقرا اور مساکین میں تقسیم کیا کرتی تھیں۔
الکافی، ج 7، ص 48، 49،کشف المحجّة، ص 182
آپ نے خود نہایت سادہ زندگی گزاری، یہاں تک کہ سورہ ھل اتٰی کی شکل میں اس کی سند مل گئی۔ آپ کی زندگی بہت سادہ تھی جبکہ آپ فدک کے سرمایے سے اپنی زندگی کو بہتر بھی بنا سکتی تھیں۔ لیکن جب آپ کی والدہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنا سارا مال و متاع راہ اسلام میں خرچ کر دیا تو کیسے آپ فدک کے سرمایہ کو اپنی ذاتی زندگی میں استعمال کر سکتی تھیں۔ لہذا آپ اس بات کی معتقد تھیں کہ فدک کا مال اسلام کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے۔ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح مکہ میں تیرہ سال اسلام کو جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اپنے مال سے پروان چڑھایا اسی طرح مدینہ کے دس سال میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ام ابیھا کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ کی شخصیت اور دین اسلام کی شخصیت حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے وابستہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مکہ میں اسلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے وابستہ تھا اور مدینہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے تو غلط نہیں ہو گا۔ اگر پیغمبر اکرمﷺ نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو ام ابیہا کہا ہے تو شاید اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ آپ کی شخصیت حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے وجود پر موقوف ہے۔ دین اسلام اور قرآن کی بقاء حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پر موقوف ہے۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا مخصوص احترام:
ام ابیھا کے تیسرے معنی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا رسول گرامی اسلامﷺ کی جانب سے مخصوص احترام ہے۔ یعنی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا احترام کرنا رسول اسلامﷺ اور ائمہ اطہار پر ضروری ہے۔
پیغمبر اکرمﷺ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے لیے فوق العادہ احترام کے قائل تھے روایات میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ ہر روز حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر جاتے تھے۔ جس طرح مستحب ہے کہ مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی جائے رسول خداﷺ جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے کبھی آپ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی پیشانی کا۔ اور فرماتے تھے: میں زہراء سلام اللہ علیہا سے جنت کی خوشبو سونگھتا ہوں۔ اور ایک خاص ادب کے ساتھ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے سامنے بیٹھتے تھے۔
بحارالأنوار، ج 43، ص 25،المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 154
اگر حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرمﷺ کے پاس آتی تھی تو پیغمبر اکرمﷺ اپنے پورے وجود کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ اور ان سے گفتگو کرتے تھے اور اگر پیغمبر اکرمﷺ جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر میں آتے تھے تو زہراء سلام اللہ علیہا آپ کا ایسے ہی احترام کرتی تھیں۔
اعلام الوری، ص 150
تسبیح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا:
تسبیح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا واقعہ بھی بہت عجیب ہے۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو گھر کے کاموں اور چار بچوں کی دیکھ بھال میں ہاتھ بٹانے کے لیے ایک خادمہ کی ضرورت تھی لہذا حضرت علی علیہ السلام کی اجازت سے رسول خداﷺ کے پاس گئیں پیغمبر اکرمﷺ بھی جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو منع نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا آپ نے بجائے منع کرنے کے فرمایا:
یا فَاطِمَةُ أُعْطِیکِ مَا هُوَ خَیرٌ لَکِ مِنْ خَادِمٍ وَ مِنَ الدُّنْیابِمَا فِیهَا
بحارالأنوار، ج 82، ص 336
اے فاطمہ سلام اللہ علیہا میں ایسی چیز تمہیں عطا کروں گا جو خادمہ اور دنیا سے زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے۔
اس کے بعد فرمایا: نماز کے بعد، چونتیس مرتبہ اللّٰہ اکبر، تینتیس مرتبہ الحمد للّٰہ، تنیتیس مرتبہ سبحان اللّٰہ پڑھو۔ یہ عمل اللہ کے نزدیک دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر تسبیح کے بعد لا الہ الا اللّٰہ اور استغفر اللّٰہ بھی کہا جائے تو بہتر ہے لیکن تسبیح کا جزء نہیں ہے۔
الکافی، ج 3، ص 343،ثواب الاعمال، ص 163
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: تسبیح حضرت زہراء سلام اللہ علیہامیرے نزدیک، ہزار رکعت نماز سے زیادہ محبوب ہے۔
الکافی، ج 3، ص 343
اس کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ تسبیح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے وابستہ ہے۔ اس ماجرا کے بعد حضرت زہراء سلام اللہ علیہا واپس گھر امیر المومینؑ کے پاس آئیں اور پورا واقعہ نقل کیا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ رسول خداﷺ جناب فضہ کو خادمہ کے عنوان سے لے کر جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے۔ اور انہیں جناب زہراء سلام اللہ علیہا کو ہدیہ دے کر فرمایا: بیٹی یہ خاتون بھی آپ کی طرح ہے آرام کو دوست رکھتی ہے اور زیادہ کام کرنے سے تھک جاتی ہے۔ لہذا اس کے ساتھ کاموں کو تقسیم کر لینا۔
الخرائج و الجرائح، ج 2، 530
ایک دن یہ کام کرے اور ایک دن آپ ،پیغمبر اکرمﷺ اور امیر المومنین علیؑ نے کبھی بھی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے سامنے ’’نہ‘‘نہیں کہا۔ اور آپ کے لیے ایک خاص اہمیت کے قائل تھے اور ائمہ معصومینؑ بھی اسی وجہ سے ایک آپ کی نسبت مخصوص احترام کرتے ہیں۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے حجت ہونے کے معنی:
امام حسن عسکری علیہ السلام سے منسوب ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
نَحنُ حُجَجُ اللَّه عَلَى خَلقِه وَ جَدَّتُنَا فَاطِمَة حُجّة اللَّه عَلَینا
اطیب البیان، ج 13، ص 225
ہم ائمہؑ لوگوں پر اللہ کی حجتیں ہیں اور ہماری ماں فاطمہ سلام اللہ علیہا ہمارے اوپر حجت ہیں۔
اس روایت کے اندر عجیب دقیق معنی پوشیدہ ہیں۔ خلاصہ کے طور پر عرض کروں۔ جب رجعت کا زمانہ آئے گا اور اہلبیت علیہم السلام کی عالمی حکومت ہو گی اور لاکھوں سال اہلبیت علیہم السلام روئے زمین پر حکومت کریں گے اس دوران حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حجیت نمایاں ہو گی۔ یہ جو امام عسکری علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ ہماری ماں زہراء سلام اللہ علیہا ہمارے اوپر حجت ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں عالم وجود کی ملکہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ہوں گی۔ البتہؑ پیغمبر اکرمﷺ، امیر المومنینؑ اور دیگر ائمہؑ کے زمانے میں بھی جناب زہراء سلام اللہ علیہا حجت خدا رہی ہیں۔ لیکن امام زمانہؑ کے دور میں آپ کی حجیت آپ کے صحیفہ ’’ مصحف فاطمہ‘‘ کے ذریعہ خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے اور اسی طرح رجعت کے زمانے میں۔
البتہ اس سلسلے میں کہ مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا کی حقیقت کیا ہے ہماری معلومات بہت کم ہیں۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرمﷺ کی رحلت کے بعد جبرائیل امینؑ جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پر نازل ہوتے تھے اور کچھ اسرار و رموز کو انہیں تعلیم کرتے تھے اور امیر المومنین علی علیہ السلام ان کی کتابت کرتے تھے۔
الکافی، ج 1، ص458
یہ اسرار و رموز مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نام سے معروف ہو گئے اور ائمہ معصومینؑ کے علاوہ کسی کو مصحف فاطمہسلام اللہ علیہا تک رسائی نہیں ہے اور ہمارے زمانہ میں یہ صحیفہ امام مہدی ارواحنا فداہ کے پاس ہے۔
بصائر الدرجات، صص 158،153،من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 419
لیکن یہ کہ اس کی حقیقت کیا ہے اس میں کیا لکھا ہوا ہے جو قرآن میں نہیں ہے سوائے ائمہؑ کے کسی کو خبر نہیں ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ رجعت اور عالمی اسلامی حکومت کے زمانے میں جو لاکھوں سال بلکہ کروڑوں سال ہو گی اس میں بنیادی قانون مصحف فاطمہ سلام اللہ علیہا ہو گا لہذا اس اعتبار سے بھی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ائمہ معصومینؑ پر حجت ہیں اور کائنات کی ملکہ ہیں اور ام ابیھا ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں۔