امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

عزت و تکریم انسان کے الٰہی معیارات: تجزیہ و تحقیق

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

موضوع: عزت و تکریم انسان کے الٰہی معیارات: تجزیہ و تحقیق
خلاصہ:
اللہ تعالیٰ نے اپنی گوناگوں مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا اور اپنی نعمات کا وافر حصہ اس کے لیے خاص کیا باقی تمام مخلوقات کو انسان کے لیے مسخر کردیا جبکہ انسان اور اس کے تمام اعمال کو اپنے لیے خاص کردیا ۔جس نے اپنے امور میں خدا کی نافرمانی اور معصیت کی تو راندہ ِدرگاہ ٹھہراجبکہ مطیع و فرمانبردار کواپنے ہاں مقام  ومنزلت سے نوازا اور سماج میں بھی اس عزت و کرامت کا تاج پہنایا۔  
کلیدی الفاظ: عزت ،تکریم،انسان، الٰہی ،معیارات
مقدمہ:
کرہ ارض پر بسنے والے افرادجس مذہب سےبھی تعلق رکھتے ہوں حتی  لادین ہی کیوں نہ ہوں انسان کی بحیثیت انسان تعظیم اور تکریم  کا کوئی ایک بھی انکار نہیں کرتادنیا بھر میں قانون ساز ادارے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر قوانین کو بنانااور ان پر کاربند رہناناگزیر ہے۔آفرینش  آدم کے وقت ابلیس نے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کی، احترام آدمیت کی بجائے تحقیر کی  خود کو اس سے برتر سمجھااور ابوالبشر کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو خدا نے اپنی رحمت سے دور کردیاتواس کا بدلہ لینے کےلیے ابلیس نے بندگان خدا کو محاذ بنایا، یوں روز اول سے ہی خدا اور اس کے نمائندگان اور ابلیس کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوگیا۔شیطان نے لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کیا تو الٰہی نمائندے اس کی راہ میں آڑے آگئے اور انہوں نے راہ راست کی دعوت دی ہر ایک کی تبلیغ اور دعوت کے اپنے پیمانے تشکیل پائے جن کی طبیعت میں سرکشی ،تعصب اور دنیا پرستی وغیرہ جیسی موذی امراض نے جنم لیا تو انہوں شیطان کی پیروی کی جبکہ جن کی جبلت و فطرت میں اطاعت ،فرمانبرداری اورخلوص کا عنصر غالب رہا انہوں نے خدا کے راستے کا انتخاب کیا ۔شیطان نے دنیا ، جاہ و منصب، مال و دولت، اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کو مقام عزت کا معیار قرار دیا جبکہ بارگاہ ایزدی نے یہ قانون مکمل طور پر برعکس ہےاللہ نے  لوگوں میں سب سے زیادہ کرامت اور عزت والا ،صاحب تقویٰ کو قرار دیا حتی کہ فرمایا :
‎وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ۔۔۔‏﴿ الاعراف -٩٦﴾‏
"اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا"۔اس مختصر مقالے میں عزت و تکریم انسان کے انہی الٰہی معیارات کو پیش کرنے کی اپنے تئیں سعی کی گئی ہے۔
مقاصد تحقیق:
1۔عزت و تکریم کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟
2۔تکریم بشر  کے سماجی اور الٰہی معیارات میں فرق کیوں ہے؟
3۔کرامت انسان کے الٰہی معیارات کیا ہیں؟
عزت و تکریم کا مفہوم:
عزت کالفظ اپنے مشتقات کے ساتھ قرآن مجید میں دو  سے تین معانی میں استعمال ہوا ہے۔جن میں سے ایک معنی قوت و طاقت  کو علماء لغت نے کتب میں درج کیا۔علامہ ابن منظور اس بارے میں راقمطراز ہیں:
العزّة: الشدّة والقوّة یقال عزّ یعزّ اذا اشتدّ ، عزّزت القوم و اعززتهم وعزّزتهم: قویتهم وشددته  (۱)

عزت کے معنیٰ کسی چیز میں شدت اور طاقت کے ہیں جیسے جب کوئی چیز شدت اختیار کر جائے تو کہا جاتا ہے کہ عزّ یعزّ یعنی اس نے قوت بخشی کلام عرب میں اس کی مثالیں عام ہیں جیسے آیہ مجیدہ  اور حدیث میں ہے۔
إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ‎﴿ یٰس -١٤﴾‏

"پھر ہم نے تیسرے سے (انہیں) تقویت بخشی"۔ یعنی ہم نے اس قوت دی اورمضبوط بنایا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
انه (صلی الله علیه وآله وسلم) نهی عن البول فی العزاز لئلا یترشش علیه-(۲)
آنحضرتؐ نے سخت جگہوں پر  پیشاب کرنے سے منع کیا تاکہ اس کے چھینٹے آدمی پر نہ پڑیں۔
اس کے علاوہ علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
 قد تستفاد العزة للحمیة والانفة المذمومة
 کبھی عزت سے مذموم قسم کی حمیت اور غیرت یا نفرت کے معنیٰ کا استفادہ کیا جاتاہے جیسے
 اَخَذَتۡهُ الۡعِزَّةُ بِالۡاِثۡمِ  (بقرہ 206)
"نخوت اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے"۔غلبہ کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیاجاتاہےجیسے:
عزّنی فی الخطاب ائ غلبنی (۳)
 اس نے مجھے بیان میں مغلوب کردیااور قرآن مجید میں کئی مقامات پر غلبہ اور قدرت کے لیے استعمال کیا گیا ہے ارشاد ربانی ہے وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ ذُو انۡتِقَامٍ  (آل عمران 04)
" اللہ بڑا غالب آنے والا، خوب بدلہ لینے والا ہے"۔
عزت کی اصطلاحی تعریف میں کہا گیا ہے:
 العزۃ حالۃ مانعۃ للانسان من ان یغلب(۴)
"عزت وہ حالت ہوتی ہے جو انسان کو مغلوب ہونے سے روکتی ہے"۔
لغوی اور اصطلاحی معنی میں کوئی خاص ربط اور تعلق نہیں ہےالبتہ عرف میں عزت کا مفہوم اس سے ملتا جلتا ہے ہے یعنی احترام، تعظیم کسی کے مقام  و منزلت کا پاس رکھنا کیونکہ مقام و مرتبہ کا لحاظ اس کے لیے ممکن ہو گا جس میں اس کا انگیزہ موجود ہوگا۔یہ الگ بات ہے کہ کبھی انسان اپنی سرکشی ،بدی اور کم عقلی کی وجہ سےکسی کی قدر ومنزلت  کے خلاف برسر پیکار ہوجاتا ہےجیسا کہ آیہ مجیدہ میں ہے
سُبۡحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الۡعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوۡنَۚ (الصافات 180)
"آپ کا رب جو عزت کا رب ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتےہیں"۔
لغوی حضرات نے تکریم کے دیگر مشتقات ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے خود لفظ تکریم کے درپے نہیں ہوئےکیونکہ ان میں مناسبت واضح ہے چونکہ ان  مشتقات میں سے کرم، اکرم اور کریم وغیرہ  مشہور اور مستعمل ہیں لہذا انہی کو بیان کیا جاتا ہے۔
الکریم الّذی کرم نفسہ عن التدنّس بشیء من مخالفۃ ربّہ (۵)
"وہ شخص جو خود کو ان گندی اشیاء سے بچا کر رکھتا ہے کہ جن سے پروردگار عالم کی مخالفت لازم آتی  ہے"۔
اس کے علاوہ سہل اور آسان کے لیےآیا ہے جیسے

وَ قُلۡ لَّهُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا (الاسراء،23)
"ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا"۔یعنی آسان اور نرم لہجے کے ساتھ گفتگو کریں۔کثیر کے لیے بھی اطلاق ہوا ہےوَ اَعۡتَدۡنَا لَہَا رِزۡقًا کَرِیۡمًا (الاحزاب،31)
"اور ہم نے اس کے لیے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے"۔اچھے اور بہترین سلوک  کرنے کی خاطر بولا گیا ہے جیسے آیہ مجیدہ ہےوَ نُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا (النساء،31)
"اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے"۔
فضلیت بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے جیسےکرمت علیّ  "تجھے مجھ پر فضلیت دی گئی"۔عظمت و  عزت کے معنیٰ میں آیا ہےآیہ مجیدہ میں ہے
أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴿المؤمنون-۱۰۵﴾
"پس بلند و برتر ہے اللہ جو بادشاہ حقیقی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا رب ہے"۔ان تمام معانی میں قدر جامع عزت افزائی، عظمت اور منزلت ہے۔
خدائی اور بشری معیارات تکریم میں فرق:
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان جس کو معاشرے میں قابل قدر نگاہوں سے دیکھا جاتا ہو مگر وہ خدا کی نظر میں انتہائی ہیچ اور پست ہو ۔ مال و ثروت کے لحاظ سے صاحب حیثیت ہو،عوام الناس میں مقبول،شہرت یافتہ  ہو،خاص و عام  اٹھ کر استقبال کریں،محفل میں مرکزی نشستوں جگہ دی جاتی ہو اور اس سماج کا ایک عزت دار فرد شمار ہوتا ہو مگر جب خدا کی بارگاہ میں جائے تو سب سے ذلیل اور بے توقیر ہو ایسی بے شمار مثالیں ہمیں ارد گرد موجود ہوں گی امام علی علیہ السلام کے فرمان مبارک میں بھی اس گروہ کی طرف اشارہ موجود ہے
اَلَا وَ اِنَّ اِعْطَآءَ الْمَالِ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ تَبْذِیْرٌ وَّ اِسْرَافٌ، وَ هُوَ یَرْفَعُ صَاحِبَهٗ فِی الدُّنْیَا وَ یَضَعُهٗ فِی الْاٰخِرَةِ، وَ یُكْرِمُهٗ فِی النَّاسِ وَ یُهِیْنُهٗ عِنْدَ اللهِ (۶)
"دیکھو بغیر کسی حق کے خرچ کرنا بے اعتدالی اور فضول خرچی ہے اور یہ اپنے مرتکب کو دنیا میں بلند کر دیتی ہے، لیکن آخرت میں پست کرتی ہے اور لوگوں کے اندر عزت میں اضافہ کرتی، مگر اللہ کے نزدیک ذلیل کرتی ہے"۔اگرچہ یہاں صرف مال کے اسراف  کا تذکرہ ہے مگر اس کے عوامل اور بھی ہوسکتے ہیں مثلا طاقت، حکومت ، عہدہ ، سلطنت وغیرہ کا ناجائز استعمال کرنے والا شخص کی لوگ اپنے مقاصد کے حصول کےلیے ظاہری طور پر عزت کرتے ہیں جبکہ قلبی طور پر اس سے بیزار ہوتے ہیں یہی وجوہات ہیں کہ لوگوں اور خدا کے مابین کرامت انسان کے معیارات بسا اوقات جدا ہوجاتے ہیں۔
دنیا کی فراوانی سبب عزت ؟
حس گرائی تاریخ بشریت کا المیہ رہی ہے محسوسات کی معقولات پر اہمیت ہر دور میں  عوام الناس کے اندر غالب  رہی ہے جیسا کہ کئی ایک امتوں نے اپنے  پیغمبروں سے خدا کے واضح نظر آنے کا تقاضہ کیا اس کے پس منظر میں  وہ مادیت زدہ لوگوں کی تہذیب و تمدن سے مرعوب اور اشیاء کی کنہ حقیقت  تک  پہنچنے کےلیے آمادہ ہی نہ تھے سائنسی پیشرفت کے ساتھ اس میں اور ترقی آئی جس نے انسان کو مکمل طور پر  مشینری بنا دیا جس کے نتیجے میں مادیات اور دنیوی نعمتوں سے لیس فرد سماج کا قابل قدر فرد ٹھہرا جبکہ ان سے محروم گروہ  کو  معاشرے نے عزت و اکرام نہ بخشا لیکن اسلام کا نظریہ اس کے بلکل برعکس ہے حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں
فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌۢ بِعَقْلِهٖ: اَكْرَمَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِذٰلِكَ اَمْ اَهَانَهٗ! فَاِنْ قَالَ: اَهَانَهٗ، فَقَدْ كَذَبَ وَ اَتٰى بِالْاِفْكِ الْعَظِیْمِ، وَ اِنْ قَالَ: اَكْرَمَهٗ، فَلْیَعْلَمْ اَنَّ اللهَ قَدْ اَهَانَ غَیْرَهٗ حَیْثُ بَسَطَ الدُّنْیَا لَهٗ، وَ زَوَاهَا عَنْ اَقْرَبِ النَّاسِ مِنْهُ (۷)
"چاہیے کہ دیکھنے والا عقل کی روشنی میں دیکھے کہ اللہ نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا نہ دے کر ان کی عزت بڑھائی ہے یا اہانت کی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ اہانت کی ہے تو اس نے جھوٹ کہا ہے اور بہت بڑا بہتان باندھا اور اگر یہ کہے کہ عزت بڑھائی ہے تو اسے یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ نے دوسروں کی بے عزتی ظاہر کی جبکہ انہیں دنیا کی زیادہ سے زیادہ وسعت دے دی اور اس کا رخ اپنے مقرب ترین بندے سے موڑ رکھا"۔
اگر دنیا کی فروانی کرامت انسانی کا  وسیلہ ہوتیں تو خدا اپنے محبوب اولیاء و اوصیاء کو عطا کرتا   اور ان کے حصول کی خاطر تگ و دو کرنے سے منع نہ کرتا لیکن اللہ نے اسے جاہ و منزلت کی بجائے ناکام اور خسارہ اٹھانے والوں کا کام قرار دیا ہے۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ﴿۱۰۳﴾ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ﴿الكهف-۱۰۴﴾

کہدیجئے: کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے نامراد کون لوگ ہیں؟جن کی سعی دنیاوی زندگی میں لاحاصل رہی جب کہ وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ درست کام کر رہے ہیں۔
احترام انسانیت کے الٰہی قواعد و ضوابط:
ابو البشر حضرت آدمؑ کی آفرینش کے وقت ہی کروبیوں نے خدا وندعالم سے عرض کی کہ آپ زمین پر ایسی مخلوق کو بطور خلیفہ و جانشین منتخب کررہے ہیں جو خونریزی، قتل و غارت،فساداور برے کاموں کا ارتکاب کرے گا سب معلوم ہونے کے  باوجود فرشتوں نے سر تسلیم خم کیا اور آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوئے مگر ابلیس نے انکار کیا اور بارگاہ ایزدی سے دھتکارا گیاتو اس نے قیامت تک کےلیے مہلت مانگی خدا نے اسے چھوٹ دی اس نے خدا کےبندوں کو اس کی سیدھی راہ سے ہٹانے کا چیلنج کیا اللہ نے اپنے مخلص بندگان کے حوالے سے اطمئنان کے اظہار کیا کہ تو ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔اللہ نے انبیاء ، اوصیاء کو تبلیغ دین کے لیے بھیجاتو شیطان نے لوگوں کو گمراہ کیا جس کے نتیجے میں الٰہی اور شیطان ہر ایک کے نمائندگان  معاشرے میں موجود  ہیں اور انسان کی تکریم کے دونوں نے اپنے  اپنے معیاراتاور پیمانے مقرر کیےان میں دین و فطرت کے لحاظ سے  الٰہی قواعد و ضوابط درج ذیل ہیں۔
غیرت  و عزت کا باہمی ربط:
انسان کی تعمیر میں بنیادی طور پر دو عناصر نسبی خصوصیات اور حسب کارفرما ہوتے ہیں لیکن ان میں زیادہ اہم اس کا حسب اور نفس کی تربیت ہوتی ہے اگر تربیت نفس نہ ہوسکے تو نسب کی وقعت بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے قرآن مجید میں اس کی کئی ایک مثالیں ذکر ہوئی ہیں فرزند نوح کی مثال لے لیجیے جو ایک نبی کا بیٹا ہے مگرطوفان میں غرق ہوگیا جبکہ جناب طالوت معیشت اور قوم و قبیلہ کے حوالے سے کمزور تھے مگر خدا کے ہاں عزت و آبرو پائی۔احادیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس حیا نہیں اس کا کوئی دیں نہیں۔ یہی غیرت دینی اور خدا سے حیا  انسان کے کردار کی تشکیل میں وافر حصہ ڈالتی ہیں طول تاریخ میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو  چھوٹے قبیلے والے ، مجبور اور بے بس ہوتے ہیں مگرخدا کے سامنے حیا کرتے ہیں اس کی نافرمانی پر ان کی غیرت و حمیت جاگ اٹھتی ہے جس کی وجہ سے اللہ انہیں عزت و کرامت عطا کرتا ہے لوگوں کے دلوں میں ان کا مقام پید اکردیتا ہے جس سے مجبور ہوکر ان کی پیروی کرتے ہیں جیسا کہ امام علیؑ نے بھی اپنے عمال کو جب روانے کرتے اور مقامی عہدوں کی تقرری کے لیے باقاعدہ ہدایات جاری کرتے ہوئے صاحبان عزت اور اچھے کردار کے لوگوں کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کرتے۔
وَ تَوَخَّ مِنْهُمْ اَهْلَ التَّجْرِبَةِ وَ الْحَیَآءِ، مِنْ اَهْلِ الْبُیُوْتَاتِ الصَّالِحَةِ وَ الْقَدَمِ فِی الْاِسْلَامِ ، فَاِنَّهُمْ اَكْرَمُ اَخْلَاقًا، وَ اَصَحُّ اَعْرَاضًا، وَ اَقَلُّ فِی الْمَطَامِعِ اِشْرَافًا (۸)
"اور ایسے لوگوں کو منتخب کرنا جو آزمودہ و غیرت مند ہوں، ایسے خاندانوں میں سے جو اچھے ہوں اور جن کی خدمات اسلام کے سلسلہ میں پہلے سے ہوں۔ کیونکہ ایسے لوگ بلند اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں"۔
ایک غیرت مند شخص ہی دین پر عمل پیرا ہوسکتا ہے کیونکہ حیا اور غیرت کا دین کے ساتھ گہرا تعلق ہےپس خدا کے کاموں میں جو غیرت کا مظاہرہ کرتے ہے پھر اللہ تعالیٰ بھی اسے معاشرے میں رسوا کرتے ہوئے حیا کرتا اور عزت و کرامت سے نوازتا ہے۔
تقویٰ الٰہی:
اسلام سے قبل عربوں بلکہ تمام تر لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ طاقت کے بل بوتے پر زندگی بسر کرتے اور قبائلی شان و شوکت اور امتیازات کے قائل تھےدور جاہلیت میں عربوں کے اندر یہ خصوصی تعصب موجود تھا کمزور قبائل کو غلام بنا کر رکھا جاتا انہیں عزت و سیادت کا کوئی حق حاصل نہ تھے یہ قبائل کی تقسیم ان کے ہاں عزت و احترام کا معیار تھی حتی کہ فتح مکہ موقع پر جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر اذان دے تو اس وقت قریش کی حالت یوں تھی،
"عتاب بن اسید بولااللہ کا شکر ہے میرا باپ یہ روح فرسا منظر دیکھنے سے پہلے مر گیاابن سہیل نے کہا جیسے اللہ کی مرضی"۔ (۹)
 اسی طرح حارث بن ہشام نے بھی ناہنجار قسم کے لفظ استعمال کیےمگر اسلام نےجہاں قوم و قبیلو ں میں تقسیم کرنے کی وجہ بیان کی وہاں اس غیر منصفانہ تقسیم کو مسترد کیا اور خدا کے ہاں معیار عزت تقویٰ الٰہی کو قرار دیا ارشاد ربانی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿۱۳الحجرات-﴾
"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے"۔
مشہور مفسر علامہ آلوسی اس آیت کے ذیل میں راقمطراز ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بنو بیاضہ کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنی عورت کا ابوہند سے نکاح کردیں، انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا ہم اپنی بیٹیوں کا اپنے آزاد شدہ غلاموں سے نکاح کردیں ؟ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (۱۰)
یہ نسلی تفاخر عرب کے ہاں طرہ امتیاز سمجھا جاتا تھابالا نسل کے لوگوں سے چھوٹے قبائل کا قصاص تک کا حق چھینا ہوا تھا حتی یہ نسلی امتیاز ہندو سماج میں تو بیسویں صدی میں بھی ختم نہ ہوسکا بد قسمتی سے یہ تہذیب مسلمانوں میں بھی سرایت کرچکی ہے حلانکہ اسلامی تعلیمات اس کے برعکس تھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَتَعَاظُمَهَا بِآبَائِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَالنَّاسُ رَجُلَانِ بَرٌّ تَقِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ هَيِّنٌ عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَخَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ (۱۱)
لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کا فخر و غرور اور خاندانی تکبر ختم کر دیا ہے، اب لوگ صرف دو طرح کے ہیں(۱)اللہ کی نظر میں نیک متقی اور محترم ہے(۲)دوسرا فاجر بدبخت، اللہ کی نظر میں ذلیل و کمزور، لوگ سب کے سب آدم کی اولاد ہیں۔ اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔
گناہ کبیرہ سے اجتناب:
قرآن مجید میں ارشاد خداوندی  ہے:
إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا ﴿۳۱النساء﴾
"اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت کے مقام میں داخل کر دیں گے"۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ گناہ کی حیثیت سے تمام  کبیرہ  ہیں مگر بعض ، دیگر بعض سے بڑے ہیں گناہوں میں صغیرہ نہیں ہوتا  مگر ان کا چھوٹا بڑاہونا امور نسبی میں سے ہے وگرنہ خدا کی نسبت تو ہر معصیت بڑی ہے اور اس پر اکثر عذاب ہوتا ہے (۱۲)
لیکن خود قرآن میں صغیرہ اور کبیرہ دونوں کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جیسےناکام لوگ اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر کہیں گے
وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ﴿الكهف-۴۹﴾
ہائے ہماری رسوائی! یہ کیسا نامہ اعمال ہے؟ اس نے کسی چھوٹی اور بڑی بات کو نہیں چھوڑا (بلکہ) سب کو درج کر لیا ہے۔
ان کے علاوہ بھی کثیر روایات موجود ہیں جن میں صغیرہ اور کبیرہ گناہوں میں فرق بیان کیا گیا ہے حتی کہ کبیرہ گناہوں کی تعداد بھی بیان کی گئی ہے لیکن اس  بات کی طرف توجہ رہے کہ سماج میں میں یہ مسائل دو طرح سے جنم لیے ہوئے ہیں ایک تو یہ کہ گناہ کبیرہ کو اصلا گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا یا ان کی پراوہ نہیں کی جاتی مثلا غیبت کو گلہ شکوہ یا درد دل کا نام دے دیا، دوسروں کی توہین کو مذاق،تکبر ،بڑائی اور خودپسندی کودوسروں کے معاملات سے چشم پوشی کی ملمع کاری کی جاتی ہےایسے صغیرہ گناہوں کا ارتکاب معمول بن چکا ہےاورمعاشرہ انہیں حق گو، سچا ، ہمدرد اور قابل عزت تصور کرتا ہے جبکہ یہ رویہ تشویش ناک ہے کیونکہ کبیرہ گناہوں پر خدا نے واضح الفاظ میں جہنم کی وعید سنائی ہے اور صغیرہ  گناہ بھی بار بار انجام دینے سے صغیرہ نہیں رہتا جیسے روایت میں ہے:
لَا صَغِيرَةَ مَعَ الْإِصْرَارِ وَ لَا كَبِيرَةَ مَعَ الِاسْتِغْفَارِ (۱۳)
اگر چھوٹے چھوٹے گناہ کو انسان بار بار کئے جائے تو چھوٹا نہیں رہتا اور اگر خدا سے توبہ کرے توبڑا گناہ معاف ہو جاتا ہے۔پس جو انسان کبیرہ گناہوں سے دامن کو بچائے اور صغیرہ کے قریب بھی نے بھٹکے مگر کبھی غلطی سے سرزد ہوجائےتو خداوندعالم سے اس کی تلافی کرےتو بارگای ایزدی میں مقام کریم کا حامل ہے۔
نصرت الٰہی:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ‎﴿محمد-٧﴾‏
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا"۔
انسان عزت و مقام کا طلب گارہےاس خواہش کو پورا کرنے کے لیےہر ممکن کوشش کرتا ہے  لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ناصران دین کو اس مرتبے سے نوازا ہے۔
دوسرا یہ کہ انسان  روز آخرت جنت اور دوزخ کا حقدار نہیں بنتا بلکہ اسی دنیوی زندگی میں ہی وہ اہل بہشت یا اہل جہنم ہوتا ہےروز قیامت تو بس اپنے کیے کا نتیجہ حاصل کرے گا اور جو خدا کے نزدیک کامیاب ہوگا اسے جنت میں داخل کرے گا جسے مدخل کریم سے تعبیر کیا ہے یعنی خدا اسے عزت کے مقام میں داخل کرے گا اور اس مقام عزت میں وہی داخل ہو سکتا ہے جو دنیا میں بھی اس کا اہل رہا ہو۔ یعنی جو خدا کے دین کا حامی و مددگار رہا ہو اللہ اس کی دشمنوں کے خلاف مدد کرے گا اور پل صراط پر اس کے قدم ڈگمگانے سے محفوظ رکھے گا حتی کہ وقت حساب بھی ثبات قدمی عطا کرے گا اور مقام کریم داخل کرے گا ۔جیساکہ حدیث میں ہے
فَإِنَّهُ جَلَّ اِسْمُهُ قَدْ تَكَفَّلَ بِنُصْرَةِ مَنْ نَصَرَهُ وَ إِعْزَازِ مَنْ أَعَزَّهُ(۱۴)
کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے ذمہ لیا ہے کہ جو اس کی نصرت کرے گا، وہ اس کی مدد کرے گا اور جو اس کی حمایت کیلئے کھڑا ہو گا، وہ اسے عزت و سرفرازی بخشے گا۔
سرچشمہ عزت سے وابستگی:
انسان جامد اشیاء کی مانند نہیں ہے کہ جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے کے لیےیا ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کرنے کے لیے کسی آلے کی ضرورت ہو بلکہ یہ اشرف المخلوقات اور عقل کے ذریعے شرف امتیاز رکھتا ہے مسلسل نمو اور ترقی کا خواہاں رہتا ہےسوچ بچار کرتا ہے اور ارتقاء کی منازل طے کرتا ہے لیکن  انسان جوہر اس وقت بنتا ہے جب  ہر میدان میں کمال سے متمسک ہوتا ہے  چاہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا میدان ہو یا عمرانیات کا ۔کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اگر کوئی وقعت و قدر باقی ہے تو وہ سماج کی بقاء سے مشروط ہے اگر سماج میں رہنے والی انسان کی ہی قدر نہ ہو تو اس کے لیے مسخر کی گئی تمام تر ایجادات بے سود نظر آئیں گی اس عزت و قدر کے حصول کے لیے ضروری ہے ایسی ذات سے رابطہ جوڑا جائے جوعزت کا سرچشمہ ہوجس تک رسائی کے بعد کوئی بلندی نہ ہو باقی سب اس کے سامنے ہیچ اور پست دکھائی دیں ۔

کفار کو یہی ڈر تھا کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کی عزت و وقار خاک میں مل جائے گی اور معاشرے میں انہیں منہ کی کھانی پڑ جائے گی اور آیہ مجیدہ میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے عزت تو تما  تر اللہ کے ہاں ہے جو اس سے الگ ہووہ نابودی کا سودا کررہا ہےجیسے:
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ جَمِیۡعًا ؕ اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَمۡکُرُوۡنَ السَّیِّاٰتِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ؕ وَ مَکۡرُ اُولٰٓئِکَ ہُوَ یَبُوۡرُ (فاطر 10)
"جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو (وہ جان لے کہ) عزت ساری اللہ کے لیے ہے ، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف اوپر چلے جاتے ہیں اور نیک عمل اسے بلند کر دیتا ہے اور جو لوگ بری مکاریاں کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اور ایسے لوگوں کا مکر نابود ہو جائے گا"۔
پس معیار عزت و کرامت کلام کی خوبصورتی اور عمل صالح ہے جو شجرہ الٰہی کی برگزیدہ شاخوں سے پیوستہ رہ کر ہی ممکن ہے۔
عفوو درگزر:
قرآن مجید میں عفو و درگزر کوصاحبان تقویٰ کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہےآنحضرتؐ کے پاس کچھ لوگ آئےجو مکہ میں مشرکین کے ظلم و ستم سے تنگ آکر جہاد کی اجازت کا مطالبہ کرتے اور کہتے تھے: یا رسول اللہ (ص)!

جب ہم مشرک تھے تو ہم معزز اور محترم تھے۔ جب ہم ایمان لائے تو ذلیل ہوگئے۔ ہمیں جہاد و قتال کی اجازت دیجیے۔ جواب میں آپ (ص) نے فرمایا:

امرت بالعفو فلا تقاتلوا القوم
مجھے عفو و درگزر کا حکم دیا گیا ہے۔(۱۵)
کیونکہ معاف کرنا عزت و کرامت کی کلید ہے
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ عَلَيْكُمْ بِالْعَفْوِ فَإِنَّ الْعَفْوَ لَا يَزِيدُ الْعَبْدَ إِلَّا عِزّاً فَتَعَافَوْا يُعِزَّكُمُ اللَّهُ(۱۶)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ  رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"تمہارے اوپر عفو کو لازم قراردیا ہے اس لیے کہ معاف کرنا ہی انسان کی عزت میں اضافہ کرتا ہے پس ایک دوسرے کو معاف کرو تاکہ اللہ تمہیں عزت دار بنا دے"۔
اخلاق الٰہی میں سے ایک عفو و درگزرہے یہ   صفت ہر کریم الطبع شخص کے  نزدیک پسندیدہ ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو سب بالاتفاق معاف کرنے  اور امن و آشتی کے ساتھ رہنے کو پسند کرتے ہیں اگر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو دیکھیں تو عفو و درگزر کے بے شمار نمونے ملتے ہیں حتی کہ خود خداوندعالم کی خصوصی صفات اور اسماء میں سے ایک غفور و رحیم ہے کہ جو بخشنے والا ہے اور لوگوں کو بھی اسی کا حکم دیتا ہے پس جو انسان اللہ کے اس حکم تعمیل کرتا ہے تو خدا بھی اسے عزت و وقار عطا کرتا ہے بلکہ اللہ نے اسے عزت و توقیر کا سبب اور معیار  قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: ثَلَاثٌ لَا يَزِيدُ اللَّهُ بِهِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ إِلَّا عِزّاً الصَّفْحُ عَمَّنْ ظَلَمَهُ وَ إِعْطَاءُ مَنْ حَرَمَهُ وَ الصِّلَةُ لِمَنْ قَطَعَهُ(۱۷)
امام محمد باقر علیہ السلام  سے روایت ہے کہ:

"تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے مرد مسلمان عزت حاصل کرتا ہے۔اس سے درگزر کرنا جواس پرظلم کرے،  جو اسے محروم رکھےاسے عطا کرنا ،جو قطع رحمی کرے اس کے ساتھ صلہ رحمی کرنا"۔
سخاوت:
انسان کی فطرت ہے کہ جو اسے عطا کرتا ہے اس کی عزت و تکریم کرتا ہے اسے اپنا سرچشمہ فیض سمجھتا ہے جبکہ بخیل شخص سے دور بھاگتا ہے حتی روایات میں بخیل افراد سے دوستی کی بھی مذمت وارد ہوئی ہے کیونکہ بخیل شخص جب دوست کو اس کی ضرورت ہوگی تو وہ اپنا ہاتھ روک رکرکھے گا جبکہ مقابل میں سخی انسان کی بہت زیادہ مدح و تعریف کی گئی حتی کہ خدا وندعالم نے خود کو معطی اور جواد قرار دیا ہے قرآن مجید میں بھی متعد جگہوں پر اللہ نے خرچ کرنے اور عطا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسے صاحبان تقوی، مومنین اور اولوالباب کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہےحضرت امام علی ؑ ارشاد فرماتے ہیں
اَلْجُوْدُ حَارِسُ الْاَعْرَاضِ(۱۸)
"سخاوت، عزت و آبرو کی پاسبان ہے"۔
اس لیے کے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بغیر کسی عوض اور معاوضے کے نہیں ہوتا لوگوں کو عطا کرنے کی بھی انسان کو قیمت حاصل ہوتی ہےجب وہ خرچ کرتا تو پست اور چھوٹے لوگ اس کی غیبت کرنے اور الزام تراشی سے باز رہتے ہیں یوں اس کی عزت و حرمت برقرار رہتی ہے لوگ ہتک عزت نہیں کرتے۔(۱۹)
دنیا کی پستی اور اس سے آشنائی:
لغت میں دنیا کے دو معنی ذکر کیے گئے ہیں یہ دنٰی سے ہے یعنی کسی کے قریب ہونے کے معنی میں ہے شاید یہ آخرت کے قریب ہے تو اس وجہ سے دنیا کہا جاتا ہو یا پھر ادنیٰ یعنی پست اور حقیر ہونے کے معنی میں ہےکیونکہ دنیوی آرائشات و لذات آخرت کے مقابلے میں ہیچ و پست نظر آتی ہیں قرآن مجید میں بھی کئی ایک مقامات پر دنیا کی مذمت وارد ہوئی اسے عارضی ٹھکانہ اور جائے گزر قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے
وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ؕ وَ لَلدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ(الانعام 32)
اور دنیا کی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور اہل تقویٰ کے لیے دار آخرت ہی بہترین ہے، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔
دنیا کی زندگی میں مشغول افراد کے مقابل میں اہل تقویٰ کا ذکر کیا گیا اورآخرت میں ان کی کامیابی کو یقینی قرار دیا ہےکیونکہ انسان جب دنیا کی پستی اور عارضی ہونے سے آشنا ہوجاتا ہے تو اس کی دلچسپی ختم ہوجاتی ہےاور آخرت کو ترجیح دینے لگتا دنیا سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور اسے پس پشت ڈال دیتا ہے تو دنیا اس کی عزت کرنا شروع کردیتی ہے جیسا حضرت علیؑ فرماتے ہیں
كَانَ لِیْ فِیْمَا مَضٰۤى اَخٌ فِی اللهِ، وَ كَانَ یُعْظِمُهٗ فِیْ عَیْنِیْ صِغَرُ الدُّنْیَا فِیْ عَیْنِهٖ، وَ كَانَ خَارِجًا مِّنْ سُلْطَانِ بَطْنِهٖ(۲۰)
عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا اور وہ میری نظروں میں اس وجہ سے باعزت تھا کہ دنیا اس کی نظروں میں پست و حقیر تھی، اس پر پیٹ کے تقاضے مسلط نہ تھے۔
برا انسان:
اللہ تعالیٰ نے سب انسانوں کو ایک باپ سے پیدا کیا اور برابر عزت و تکریم سے نوازا لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاء و اوصیاء بھیجے اور انہیں عبادت و معاملات کے ساتھ اخلاقیات اور سماجیات کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سپرد کی تاکہ لوگ ایک دوسری کی عزت و ناموس پر حملہ آور نہ ہوں اس کے علاوہ انسان کو باطن میں وجدان اور عقل جیسی نعمت سے نوازا جو اس کوتمام برائیوں سے دور رہنے کی ہدایت کرتی ہےاس کے باجود اگر کوئی شخص انبیاء، احکام الٰہی اور اپنے ضمیر و وجدان کی مخالفت کرکے لوگوں کی ہتک کرتا ہے اور ان برائیوں کا ارتکاب کرتا ہےتو اسے غوروفکر کرنا چاہیے کہ اسے کس اوج و کمال کے لیے خلق کیا گیا اور وہ کہاں کھڑا ہے کہیں کرہ ارض پر برائیوں کا سرچشمہ تو نہیں ؟حضور اکرمؐ کا ارشاد ہے
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ التَّقْوَى هَاهُنَا وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ(۲۱)
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےروایت   ہے کہ آپ نے فرمایا:
"ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو ، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ مسلمان ( دوسرے ) مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے ، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے" ۔اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا تقویٰ یہاں ہے ۔پھر فرمایا: "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہےکہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے،ہر مسلمان پر(دوسرے)مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرام ہیں"۔
بلکہ بعض روایات میں ایک مسلمان کی عزت کو کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ قرار دیا ہے ۔
سیاسی نظام کی خرابی:
وَ إِذَا غَلَبَتِ  اَلرَّعِيَّةُ وَالِيَهُمْ وَ عَلاَ اَلْوَالِي اَلرَّعِيَّةَ اِخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ اَلْكَلِمَةُ وَ ظَهَرَتْ مَطَامِعُ اَلْجَوْرِ وَ كَثُرَ اَلْإِدْغَالُ فِي اَلدِّينِ وَ تُرِكَتْ مَعَالِمُ اَلسُّنَنِ فَعُمِلَ بِالْهَوَى وَ عُطِّلَتِ اَلْآثَارُ وَ كَثُرَتْ عِلَلُ اَلنُّفُوسِ وَ لاَ يُسْتَوْحَشُ لِجَسِيمِ حَدٍّ عُطِّلَ وَ لاَ لِعَظِيمِ بَاطِلٍ أُثِّلَ فَهُنَالِكَ تَذِلُّ اَلْأَبْرَارُ وَ تَعِزُّ اَلْأَشْرَارُ وَ تَخْرَبُ اَلْبِلاَدُ وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عِنْدَ اَلْعِبَادِ(۲۲)
"اور جب رعیت حاکم پر مسلط ہو جائے یا حاکم رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہو گا، ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے، دین میں مفسدے بڑھ جائیں گے، شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی، خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا، شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے، نفسانی بیماریاں بڑھ جائیں گی اور بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کوئی نہ گھبرائے گا۔ ایسے موقعہ پر نیکو کار ذلیل اور بد کردار باعزت ہو جاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں"۔
کسی بھی معاشرے کی کامیابی کا دارو مدار اس کے سیاسی نظام کے استحکام  سے ہوتا ہے جتنا لوگوں کی بودوباش اور رہن سہن کے سلیقے اچھے ہوں گے معاشرہ اس قدر بڑھوتری کی جان ب گامزن ہوگا جبکہ اگر حاکم ظالم ہو تو رعیت بیزار ہوگی اور رعیت نافرمانبردار ہو تو حاکم ظلم و ستم کا بازار گرم کرے گا جس کےنتیجے میں معاشرے اپنا ارتکاز کھو بیٹھے گا اور دگرگوں سمت میں چلنے لگ جائے گا جہاں نہ کسی کا مال محفوظ ہوگا نہ جان اور نہ ہی عزت و ناموس کی حفاظت ہوگی طاقت ور اور اوباش افراد دوسروں کو تنگ کریں اور ستائیں گے جبکہ شریف اور با حیاء افراد خاموشی سے زندگی بسر کریں گے جس کے نتیجے میں بدکردار اور پست لوگ عزت دار جبکہ نیکوکار لوگوں کو ذلت کی زندگی گزرانے پر مجبور ہوں گے۔
نتیجہ:
اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ منتخب کیا اور اسے تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی باقی خلق خدا کو اس کے لیے مسخر کیا عز وشرف سے نوازامگر اس سے الٰہی سماج کی تشکیل چاہی جس کےخاطر راہنما اصول اور ہادی بھی عطا کیےان اخلاقی  اصولوں پر عمل پیرا ہو کر تمام برائیوں سے پاکیزہ معاشرہ سازی کی جاسکتی ہے جس میں تمام انسان مساوات، بھائی چارہ اور عزت واحترام کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات:
1.    ابن منظور،محمد بن مکرم،لسان العرب،بیروت،دار احیاء التراث العربی،طبع اولیٰ، ج09 ص186
2.    -ابن منظور،محمد بن مکرم،لسان العرب،بیروت،دار احیاء التراث العربی،طبع اولیٰ، ج09ص186
3.    اصفہانی، علامہ راغب حسین بن محمد، مفردات فی الفاظ القرآن،قدیمی کتب خانہ کراچی،ص336
4.      اصفہانی، علامہ راغب حسین بن محمد، مفردات فی الفاظ القرآن، قدیمی کتب خانہ کراچی، ص335
5.      جزری، مبارک بن محمد بن اثیر، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر،بیروت دار الکتب العلمیہ،ج04، ص145
6.     مجلسی، محمد باقر،بحارالانوار، بیروت،دار احیاء التراث العربی،طبع ثالث، باب أحوال الملوك و الأمراء،ج۷۲،ص۳۵۸
7.      سید رضی،محمد بن حسین،نہج البلاغہ،مترجم مفتی جعفر حسین،مرکز افکار اسلامی،خطبہ158،ص449
8.      حرانی، حسن بن علی شعبہ،تحف العقول عن آل الرسول،بیروت،منشورات موسسہ اعلمی للمطبوعات،طبع سابع،ص97
9.      ازہری،پیر محمد کرم شاہ،ضیاء القرآن،لاہور،ضیاء القرآن پبلی کیشنز،ج4،ص599
10.      آلوسی،شہاب الدین سید محمود،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی،بیروت،دارالکتب العلمیہ،طبع اول ،ج13،ص314
11.      ترمذی، محمد بن عیسٰی،سنن ترمذی،پی ڈی ایف https://archive.org/،حدیث3575،ج4،ص251،252، حدیث 3270،islam360
12.      امین الاسلام طبرسی،فضل بن حسن،مجمع البیان فی تفسیر القرآن،بیروت، دارالمرتضٰی،طبع جدیدہ،ج03،ص59
13.      کلینی، محمد بن یعقوب،الکافی،بیروت،منشورات الفجر،طبع اولیٰ،باب الاصرار علی الذنب ،ج2،ص168
14.      نوری، میرزا حسین،مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث طبع ثالث  ج ۱۳، ص ۱۶۰
15.      ابن کثیر،حافظ عماد الدین،تفسیر ابن کثیر،مکتبہ قدوسیہ،مترجم مولانا محمد جونا گڑھی،ج5،ص636
16.      حرعاملی،محمد بن حسن،تفصیل وسائل الشیعہ ،قم،موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،طبع رابع،باب استحباب العفو،حدیث02، ج12،ص170
17.      امین الاسلام طبرسی،فضل بن حسن،مشکاۃ الانوارفی غرر الاخبار،قم،دار الحدیث،طبع اول،باب مکارم الاخلاق، حدیث 1334،ص403
18.      آمدی، عبدالواحدبن محمد،غرر الحکم و دررالکلم،بیروت،دارالھادی،طبع اول،حدیث526،ص26
19.      الخوئی،میرزا حبیب اللہ،منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ، تہران،مکتبہ اسلامیہ،طبع ثالث،ج21،ص282
20.      سید رضی،محمد بن حسین،نہج البلاغہ،مترجم مفتی جعفر حسین،مرکز افکار اسلامی،حکمت 289،ص919،920
21.      مسلم، مسلم بن حجاج،صحیح مسلم، کتاب: حسن سلوک،صلہ رحمی اور ادب حدیث،6541،islam360
22.      کلینی، محمد بن یعقوب،الکافی،بیروت،منشورات الفجر،طبع اولیٰ،کتاب الروضۃ، باب خطبۃلامیرالمومنین، ج08،ص352

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک