برہان نظم پر وارد ہونے والے اشکالات اور ان کا جواب
- شائع
-
- مؤلف:
- محمد ہادی نبوی- مترجم: دلاور حسین لاکھانی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: صراط مستقیم(عقائد امامیہ پر ایک نظر)
چھٹا درس
برہان نظم پر وارد ہونے والے اشکالات اور ان کا جواب
پانچویں درس مں برہانِ نظم کو بحث اور تحقیق کا موضوع بنایا گیا تھا۔ بیان کیا گیا تھا کہ عالم کے متعلق مطالعہ نظم کی موجودگی پرراہنمائی کرتا ہے اور ہر نظم ایک ناظم کا محتاج ہوتا ہے اور ناظم وہی ذاتِ خدا سبحانہ ہے۔
برہانِ نظرپر اشکالات
الف: ہیوم کے برہانِ نظم پر اشکالات
برہان نظم پر بعض دانشوروں نے اشکال کیا ہے۔ ان دانشوروں میں سے ایک ا سکاٹ لینڈ کا مشہور فلسفی ڈیوڈ ہیوم (۱۷۱۱-۱۷۷۶) ہے، جس کے حوالے سے برہانِ نظم پر چند اشکالات نقل کئے گئے ہے۔
(نگیل واربرٹن، الفای فلسفہ، ترجمہ : مسعود علیا، ص ۲۶-۲۸؛ محسن، غرویان، سیری در ادلہ اثبات وجود خدا، ص ۸۷ و سائٹ ؛ http://fa.wikipedia.org/wiki)
۱۔ نظم، منطقی تمثیل کی ایک قسم
ہیوم کا برہانِ نظم پر پہلا اشکال یہ ہے کہ وہ اس کو منطقی تمثیل کی ایک قسم قرار دیتا ہے جو یقین کا فائدہ نہیں دیتی۔ ایسا شخص جو علم منطق سے وابستہ ہے، وہ جانتا ہے کہ ارسطوئی منطق میں جس جگہ پر کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے دوسری جزئی چیز کا سہارا لیا جائے تو اسسے یقین کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور جب کسی چزئی چیز کو ثابت کرنے کے لئے کو کلی چیز کو بطور دلیل پیش کیا جائے تب ہی یہ دلیل یقین کا فائدہ دیتی ہے۔ اس بنا پر اگر کوئی دلیل ایک جزئی چیز کی بنیاد پر ثابت ہوئی ہو اور اس کو دوسری جزئی چیز جو زیر بحث اور مدعا ہے اس کو ثابت کرنے کے لئے پل بنایا جائے اور اس طریقے سے مدعا کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے یقین کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر یقینی برہان کا کبری (وسیع دائرے پر مشتمل دلیل) ہمیشہ زمان، مکان اور موضوع کے اعتبار سے کلی ہونا ضروری ہے تاکہ صغری (مختصر دائرے پر مشتمل دلیل) اور مدعا کے لئے دلیل بن سکے۔
یہ لوگ انسانی تخلیقات، انسانی افعال اور طبیعی و فطری امور کے درمیان فرق کرتے ہیں اور انسان کی تحقیق شدہ چیزوں اور فطری اشیاء کے درمیان موازنہ کو صحیح اور منطقی نہیں سمجھتے؛ بلکہ اس کو تمثیل قرار دیتے ہیں، چونکہ یہ لوگ اس بات کو ممکن نہیں سمجھتے کہ انسان کے افعال سے مخصوص قاعدے کو غیر انسان پر بھی عمومیت دی جائے؛ جبکہ عمومیت کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہو۔
وضاحت یہ ہے کہ انسان گھڑی بناتا ہے تاکہ منظم اور دقّت کے ساتھ زمان کے جوہر کو ظاہر کرے؛ یہ بات صحیح ہے کہ اس گھڑی کے پیچھے ایک ماہر بنانے والا موجود تھا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فطری اور غیر انسانی افعال بھی اسی طرح سے سرزد ہوتے ہیں۔ زیادہ بہتر الفاظ میں؛ انسان کے افعال اور فطری امور کے درمیان موازنہ نہیں کرنا چاہیئے، انسان کی آنکھ کی پیچیدگی اور انسان کی بنائی ہوئی گھڑی کے درمیان موازنہ نہیں کرنا چاہیئے؛ گھڑی اور آنکھ کے درمیان کا تعلق جوڑنا یہ منطقی نہیں ہے؛ بلکہ یہ تو تمثیل اور انسان کے مخصوص افعال کے متعلق قاعدے کو غیر انسان پر عمومیت دینا ہے۔ انسان کی تخلیق شدہ چیز چاہے وہ کتنی ہی دقیق کیوں نہ ہو اس کام کے انجام دینے والے کی دقّت کو بیان کرنے والی ہے اور یہ بات قابل قبول ہے، مگر اس قاعدے کی غیر انسان پر عمومیت کی کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔
۲۔ انسان کے ساتھ خدا کی شباہت
ہیوم کی تحریرات میں موجود دوسرا اشکال یہ ہے کہ تمثیل کا لازمہ خدا کو انسان کے مشابہ قرار دینا ہے۔ ہم انسان کی تخلیق شدہ اشیاء اور افعال میں ہمیشہ نظم کو ناظم کے وجود پر علامت قرار دے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خدا تعالی کے افعال بھی اسی طرح سے ہیں، تو ایسی صورت میں خدا تعالی کے افعال میں بھی وہ احکام اور قواعد جاری ہو جائیں گے جو انسان کے افعال پر جاری ہوتے ہیں۔اور اس طرح کی تمثیل اس بات کا سبب بنے گی کہ خدا انسان کے مشابہ ہو جائے اور یہ بات قابل قبول نہیں ہے۔
۳۔ انسان کے علم کی محدودیت
ہیوم کا تیسرا اشکال یہ ہے کہ اس عالم کے متعلق انسان کا علم انتہائی محدود ہے۔ ایک طرف اس عالم میں بدی و خرابیاں موجودہیں اور دوسری طرف موجودات کے اسرار پر انسانی علم اور اس کی معلومات کا دائرے انتہائی محدود ہے۔ انسان کے علم کی محدودیت اور بدی و خرابیوں کے وجود کی طرف توجہ دیتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ نطم کے قانون کا انکار کیا جائے اور اس عالم کے اتفاقی طور سے واقع ہونے کے معتقد ہوا جائے۔ دوسرے الفاظ میں؛ ممکن ہے کہ انسان کو دکھائی دینے والا نظم یہ اتفاقی طور سے وجود میں آیا ہو۔
ب: اشکالات کے جواب
ہیوم ان اشکالات کے ذریعے چاہتا ہے کہ برہان نظم کو چلینج کرے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے یہ اشکالات جاری نہیں ہوتے اور ہر ایک کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
پہلے اشکال کا جواب
اس اشکال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ برہان، برہان کے یقینی مقدمات سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ تمثیل سے۔ اوریہ قاعدہ کے ’’پیچیدہ نظم و تخلیق کسی ماہر و عالم ناظم اور خالق کے وجود کے یقین کا باعث ہے‘‘ یہ تو انسان کے نزدیک واضح ترین یقینی باتوں میں سے ہے کہ جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس قاعدے اور یا اس قاعدے کے کلی ہونے میں شک کرنا، کسی دوسرے یقینی قاعدے میں شک کرنے کی مانند ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بدیہی (کہ جو بالکل واضح و آشکار وہ ایسی) چیز میں شک کرنا ہے؛ کیونکہ یقینی قوانین کے جو معیارات ہیں وہ ساری معیارات اس قاعدہ و قانون میں بھی موجود ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ قاعدہ جزئی پیمانہ نہیں ہے؛ بلکہ ایک کلی قاعدہ ہے، اس معنی میں کہ عالم میں پایا جانے والا ہر نظم اور تعجب خیز امر انسان کو اس یقین تک پہنچاتا ہے کہ جو مخلوق اس نظم اور استحکامت کے ساتھ ہو ضروری ہے کہ اس مخلوق کا ایک عالم اور قادر خالق اور بنانے والا ہو۔ اس کلی قاعدہ کو تطبیق اور استعمال کے مقام پر انسانی تخلیق شدہ اشیاء یا پروردگار عالم کے افعال کے لئے استعمال کرنا ممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عالم کی عجیب و غریب اور حیرت انگیز چیزیں ہمیشہ خدا کے وجود اور اس کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس اشکال کو پش کرنا یہ کسی بالکل واضح و آشکار اور روشن امر پر اشکال کرنے کے مساوی ہے۔
اشکا ل دوم کا جواب
دوسرا اشکال، یہ تھا کہ برہانِ نظم کا لازمہ خدا کو انسان سے مشابہ قرار دینا ہے۔ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ شبہ مفہوم اور مصداق کو آپس میں مخلوط کرنے کے سبب پیدا ہوا ہے۔ وضاحت یہ ہے کہ کلام کے ادبیات میں ایسے معانی پائے جاتے ہیں جن کا استعمال خدا تعالی پر بھی ممکن ہے اور انسان پر بھی ممکن ہے، جیسے لفظِ وجود، جس کا استعمال خدا تعالی پر بھی ہو سکتا ہے اور غیر خدا پر بھی ہو سکتا ہے جبکہ اللہ تعالی کا وجود انسان کے وجود سے جدا ہے۔ چونکہ خدا تعالی کا وجود بےنیاز، مستقل اور لامتناہی ہے؛ مگر انسان کو وجود محتاج، غیر مستقل اور محدود ہے۔ اس بنا پر کسی بھی دلیل میں مفہوم کو مصداق کے ساتھ مخلوط نہیں کرنا چاہیئے۔ جب برہانِ نظم کی مانند ایک کلی قاعدہ بیان کیا جاتا ہے تو بنیادی طور پر یہ قاعدہ انسان کے افعال اور پروردگار عالم کے افعال کی کا اندازہ لگا سکتا ہے، مگر اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ پروردگار عالم کے افعال بالکل انسان کے افعال کی مانند ہے۔ پروردگار عالم کے افعال اپنے وجود کے ساتھ ہے اور وہ خالقِ حقیقی ہے؛ جبکہ انسان کے افعال اس خصوصیت کے حامل نہیں ہے۔
تیسرے اشکال کا جواب
ہیوم کے تیسرے اشکال کا تعلق عالم کے شرور کے متعلق تھا کہ انسان کا علم محدود ہے، اس بنا پر ممکن ہے کہ عالم میں پائی جانے والی بدنظمی سے وہ باخبر نہ ہو۔ یہ بات صحیح ہے کہ انسان کے علم کا دائرہ انتہائی محدود اور نہ ہونے کے برابر ہے اور کم و بیش شرور بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ مگر بات یہ ہے کہ اس عالم کے متعلق انسان جس حد تک معلومات رکھتا ہے اور خاص طور سے مختلف علوم میں ایجاد شدہ جدید وسائل کو بروئے کار لاکر جب اطرافِ عالم، انسان کے اندر پائی جانے والی حکمت عملی اور اسی طرح سے مختلف پودوں اور درختوں کی خلفت میں غور و فکر کرتا ہے تو اسے اس عالم پر کارفرماں نظم کے متعلق مجموعی معلومات حاصل ہو جاتی ہے؛جس بنا پر انسان کے لئے ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اس بات کا یقین حاصل کر لے کہ اس منظم، باریک بینی سے آراستہ، مہارت اور حکمت سے بھرپور اس نظام کے پیچھے ایک ماہر اور اقتدار رکھنے والا ناظم موجود ہے۔
اگر کسی بڑی کتاب جیسے جواہر الکلام میں کوئی نقص اور اشکال دکھائی دے اور اس کے درمیان میں کوئی ضعیف نکتہ دکھائی دے اور یا ان میں سے کوئی ایک پیراگراف اچھی طرح سے سمجھ میں نہ آئے تو اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ پوری کتاب کو بیکار قرار دیا جائے اور یا فقہ کے موضوع میں لکھنے والے کی مہارت میں شک کیا جائے۔ اگر انسان اپنے نفس کی طرف رجوع کرے تو کتنے فیصد وہ اس بات کو ممکن سمجھے گا کہ کتاب جواہر خود بخود وجود میں آ گئی ہوگی اور ان کے تمام حرورف اتفاق سے یکجا ہو گئے ہوں گے اور الفاظ کی شکل اختیار کر لی ہوگی اور بعد میں یہ تمام الفاظ ملکر جملے، پیراگراف اورابواب میں تقسیم ہو گئے ہوں گے اور پھر یہ سارے ابواب مل کر ایک جلدی کتاب وجود میں آ گئی ہوگی؛ اور وہ بھی اس قدر دقیق کہ اس کے مطالعہ سےوسیع اور عمیق معلومات حاصل ہوتی ہو؟ یقینی بات ہے کہ کوئی بھی شخص اس امکان کو قبول نہیں کرے گا۔ تو پھر کس طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ عالم جس میں ہزاروں جلدوں کی کتاب میں سما سکے اتنی معلومات اور کروڑوں رموز پوشیدہ ہے، اتفاق سے وجود میں آ گئی؟!
ہاں یہ حقیقت ہے کہ:
اس عالم میں وہ باتیں جو ہم سے پوشیدہ ہیں اور ہم جن کو نہیں جانتے وہ زیادہ ہیں، کئی باتیں ایسی ہیں جو اب تک ظاہر نہیں ہوئی ہے، اسی طرح سے کئی نامعلوم باتیں جو انسان کے لئے سو سال پہلے ظاہر نہیں تھی وہ اب ظاہر ہو چکی ہے۔
فرض کریں کہ اگر آپ ایک چالیس جلدی تحریر شدہ کتاب کا مطالعہ کریں، ان جلدوں میں سے کسی ایک میں ایک پیراگراف کی باتوں کو آپ نہ سمجھ پائیں، تو یہ نہ سمجھ پانا کبھی بھی کتاب کی باقی جلدوں کی اہمیت کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اس عالم کے سلسلہ میں بھی انسان کے لئے نامعلوم چیزیں بہت زیادہ ہے اور ممکن ہے کہ کچھ چیزیں شرور کے عنوان کے تحت واقع ہوتے ہو جو انسان کے لئے ایک راز کی حیثیت رکھتے ہے، اور ان کی حکمت اور فلسفہ کے متعلق انسان کو مکمل سمجھ حاصل نہیں ہے اور وہ نہیں جانتا کہ ان افعال کے پیچھے کونسی حکمت پوشیدہ ہے؛ مگر یہ نامعلوم باتیں اور شرور کے سبب یہ ممکن نہیں ہے کہ اس عالم کے پورے نظام کو نگاہوں سے اوجھل ہو جائے۔
اس بنا پر شرور کا وجود اس عالم کے اتفاق سے وجود میں آنے اور اس عالم کا کوئی ناظم نہ ہونے کے امکان کو ثابت نہیں کر سکتا، چونکہ انسان ایک کتاب میں موجود نقص کو بنیادبنا کر اس کتاب کے اتفاقی اور اچانک وجود میں آنے کی بات کو قبول نہیں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ عقائد کی ابحاث میں عالم میں شرور کے وجود کی بحث بیان کی گئی ہے، اور ان چیزوں کے وجود کے رمز و راز اور ان کے منطقی جواب کو بخوبی انداز میں دیا گیا ہے۔
( مرتضٰی، مطہری، عدل الھی،اس کتاب کے بائیسوے درس میں بھی شرور کی بحث کو اجمالی طور سے پیش کیا گیا ہے۔)
یاد دہانی:
ممکن ہے کہ کوئی برہانِ نظم پر اس طرح سے اشکال کرے کہ اگرچہ برہانِ نظم وجود کا یقین دلاتا ہے؛ مگر اسی طرح سے انسان کے نفس میں اس کے بر خلاف امکان اور اتفاقی ہونے کا خیال بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ: اس طرح کا بالکل معمولی ناقابل شمار امکان مانع نہیں بن سکتا۔ اس طرح کے امکانات ایک عظیم ریاضی طاقت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، ورنہ کسی بھی سالم انسان اس طرح کے امکانات کا کسی قسم کا اثر قبول نہیں کرتا۔ اس احتمال کی قیمت ویسی ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ سعدی اپنے تمام ان علمی اور ادبی آثار کے باوجود ذرّہ برابر بھی ادبی ذوق نہیں رکھتا تھا؛ بلکہ اتفاقی طور سے اور بغیر توجہ کے قلم کو کاغذ پر پھیرتا تھا اور اس طرح کے ادبی شاہکار وجود میں آ جاتے تھے۔
(مرتضٰی، مطہری، مجموعہ آثار، ج ۶، ص ۹۴۲)
نتیجہ یہ ہے کہ:
برہانِ نظم ایک قابل قبول برہان ہے، اس برہان میں پروردگار عالم کی شناخت محسوس اور فطری امور کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ جس حد تک انسان کی معلومات اور مطالعہ عالم کے بارے میں وسعت و پھیلاؤ حاصل کرتا جائے گا، اس کے لئے پروردگار عالم کی معرفت کے لئے نئی نئی راہیں کھلتی چلی جائے گی۔ نتیجہ یہ ہے کہ خدائے متعال کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے عقل کے طریقے کی بنیاد پر بھی اور قرآن کریم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی راہنمائی کی بنا پر بھی برہان نظم ایک قابل قبول برہان ہے۔
(مرتضٰی، مطہری، مجموعہ آثار، ج ۶، ص ۹۳۳ و عبد اللہ، جوادی آملی، تبین براھین اثبات وجود خدا و جعفر، سبحانی، الھیات، ج ۱، ص ۳۳ (مزید مطالعہ کے لئے مندرجہ بالا تین ذرائع کی طرف رجوع کریں۔ برہان نظم پر وارد کئے گئے اشکلات کے جواب کے سلسلہ میں کسی حد تک کتاب ’’سیری در ادلہ ی اثبات وجود خدا‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔))