واجب الوجود کا ہونا
- شائع
-
- مؤلف:
- محمد ہادی نبوی-مترجم: دلاورحسین لاکھانی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: صراط مستقیم-عقائد )امامیہ پر ایک نظر
ساتواں درس
واجب الوجود کا ہونا
پانچویں اور چھٹے درس میں اس عالم میں پائے جانے والے نظم، خلقت کے عجائبات، خلقت میں پائی جانے والی باریک بینی اور اس عالم پر کار فرماں نظام کی بنیاد پر خداوند متعال کے وجود کو ثابت کیا گیا تھا اور اس دلیل پر عائد کئےگئے اشکالات کے جواب دیئے گئے تھے۔ اسی طرح سے اشارہ کیا گیا تھا کہ برہانِ نظم کے ذریعے سے پروردگار عالم کے علم، قدرت اور حکمت کو بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ یہ درس سابقہ دونوں دروس کی طرح سے پروردگار عالم کے وجود کو ثابت کرنے کے حوالے سے ہے مگر مقدمات عقلی سے استفادہ کرتے ہوئے۔
ب۔ واجب الوجود کو ثابت کرنے کے لئے عقلی دلیل
اصلی دلیل کو واضح کرنے سے پہلے لازم ہے کہ واجب الوجود اور ممکن الوجود اور تسلسل کے باطل ہونے کے خصوصی معانی کو واضح کیا جائے اور اس کے بعد دلیل عقلی کو پیش کیا جائے۔
۱۔ واجب الوجود اور ممکن الوجود
واجب الوجود سے مراد، ایسا موجود ہے جو اپنے وجود کے لئے کسی علت و سبب کا محتاج نہ ہو اور اس کا وجود بذات خود اپنی طرف سے ہی ہو۔ ممکن الوجود سے مراد ایسا موجود ہے جو اپنے وجود کے لئے کسی علت کا محتاج ہوتا ہے اور اس کا وجود اپنی ذات سے نہیں ہوتا ہے۔
ان دونوں اصطلاحوں کے واضح ہو جانے کے بعد، واجب الوجود کو ثابت کرنے کے تسلسل اور اس کے باطل ہونے کو برہان عقلی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے کو اجمالی طور سے اس کو بیان کیا جاتا ہے، اوربعد میں اس کو دوبارہ پیش کیا جائے گا۔
عقلی فرض کے حساب سے اس عالم کے تمام موجودات یا تو واجب الوجودہوں گے یا تمام موجودات ممکن الوجود اور کسی علت کے محتاج ہوں گے، یا بعض موجودات واجب الوجود اور بعض دوسرے ممکن الوجود ہوں گے۔ صورت حال ان تین کیفیتوں کے باہر نہیں ہوگی۔ ان عقلی طور سے متعین تقسیم میں پہلی اور تیسری صورت میں موجودات علّت یعنی واجب الوجود سے بےنیاز طور پر ثابت ہوں گے۔ البتہ تمام مخلوقات کو ممکن الوجود ہونا تسلسل کے باطل ہونے کے سبب قابل تسلیم نہیں ہے۔
۲۔ تسلسل کا باطل ہونا
تمام موجودات ممکن الوجود ہو یہ بات واضح طور سے باطل ہے؛ چونکہ اس کی وجہ سے تسلسل لازم آتا ہے اور تسلسل بھی باطل ہے۔ اگر ہم آسان الفاظ میں تسلسل کے باطل ہونے کو بیان کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ یوں کہے کہ اگر تمام موجودات ممکن الوجود ہو؛ تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ ممکنات کبھی بھی وجود میں نہ آئے ہو اور اس عالم میں کوئی موجود پایا ہی نہ جائے۔ چونکہ تمام ممکنات اپنے غیر کے محتاج اور ضرورت مند ہے اور ہمیشہ اپنے وجود کے لئے دوسرے کے محتاج ہیں۔ تو صورت حال یہ ہوگی کہ تمام موجودات کو علت کی ضرورت ہے اور واجب الوجود بھی اس عالم میں موجود نہ ہو، تو فطری بات ہے کہ پھر کسی چیز کا بھی وجود نہیں ہونا چاہیئے۔ جبکہ تمام موجودات اس عالم میں اپنا وجود رکھتے ہیں، معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فرض صحیح نہیں ہے اور اس عالم میں واجب الوجود کے نام سے ایک موجود ہے جس نے اس عالم کو وجود بخشا ہے۔
۳۔ فلسفی اصطلاحات
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس دلیل عقلی میں فلسفی اصطلاحات اور قواعد کو بروئے کار لایا گیا ہے، اس دلیل کو سمجھنے کے لئے دوبارہ اور کامل وضاحت کی ضرورت ہے۔
دو اصطلاح واجب الوجود اور ممکن الوجود، یا امکان اور وجوب یہ اس دلیل کو سمجھنے میں اہم کردار کی حامل ہیں۔ پڑھنے والوں کی آگاہی کے لئے اس کو مثال میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے؛ وضاحت یہ ہے کہ آپ ایک منطقی جملہ یا ترکیب کو مدّ نظر رکھے، جیسے کہ یہ جملہ ’’سورج روشن ہے‘‘ یا ’’سورج میں روشنی ہے‘‘ تو آپ دیکھیں گے کہ ہر جملہ میں ایک موضوع اور ایک محمول ہے اور اس ترکیب کے ذریعے محمول کو موضوع کے لئے ثابت کیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’’تین کا عدد چار سے بڑا ہوتا ہے‘‘ تو اس جملہ میں محمول کو موضوع کے لئے ثابت کرنا محال ہے۔ مثال ’’دو کا عدد چار کا نصف ہوتا ہے‘‘ میں، محمول کا موضوع کے لئے ثابت ہونا لازم اور ضروری ہے۔ مثال ’’سورج ہمارے سر کے اوپر ہوتا ہے‘‘ محمول کا موضوع کے لئے ثابت کرنا نہ تو محال اور نہ ہی ضروری ہے؛ بلکہ ممکن ہے کہ سورج ہمارے سر کے اوپر ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو۔
اس بنیاد پر واضح ہو گیا کہ موضوع اور محمول کا رابطہ یا ناممکن ہوتا ہے، یا واجب و ضروری ہوتا ہے یا ممکن ہوتا ہے۔ جب محمول کا موضوع سے رابطہ ناممکن ہو، تو بحث ختم ہو جاتی ہے اور پیش کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ بحث ان تراکیب میں ہے جہاں پر محمول موضوع کے لئے یا تو واجب کی صورت میں یا امکان کی صورت میں ثابت ہوتا ہو۔دلیل عقلی میں پیش کئے گئے اس امکان اور وجود اسی جگہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس معنی میں کہ وجود کا حمل کسی موجود پر یا واجب و ضروری ہوتا ہے اور یا ممکن ہوتا ہے۔ واجب الوجود اور ممکن الوجود کا معنی اسی فلسفی اصطلاحات کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔
خلاصہ
کے طور پر، وجود کی نسبت کسی موجود کی طرف یا تو ناممکن ہوتی ہے یا ضروری ہوتی ہے اور یا ممکن ہوتی ہے۔ کسی ناممکن چیزکے وجود کو تسلیم کرنا یہ ہمارے محل بحث سے خارج ہے۔ اگر ہم تمام خارجی موجودات کی طرف توجہ کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ تمام کے تمام یا تو واجب الوجود ہوں گے یا بعض واجب اور بعض ممکن ہوں گے یا تمام کے تمام ممکن الوجود ہوں گے۔ بیان ہو چکا کہ پہلے دو فرض کی صورت میں ان شقوں میں واجب الوجود کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ تیسرا فرض کہ تمام موجودات ممکن الوجود ہو عقلی نگاہ سے ممکن نہیں ہے اور اس فرض کا باطل ہونا تسلسل کے باطل ہونے کے ذریعے ثابت ہوتا ہے۔
دوسری فلسفی اصطلاح
جو زیادہ وضاحت کی محتاج ہے، وہ علت و معلوم کا قاعدہ ہے۔ ہر موجود جس کا وجود دوسرے پر موقوف ہو تو اس دوسرے موجود کو علت اور پہلے موجود کو معلول کہا جاتا ہے۔ جبکہ ممکن ہے کہ یہ علت بننے والا موجود خود بھی اپنے وجود کے لئے کسی اور موجود کا محتاج اور اس طرح سے اس دوسرے موجود کا معلول ہو اور ممکن ہے کہ وہ اپنے وجود کے لئے کسی دوسری علت کا محتاج نہ ہو اور فقط علت ہی ہو جس کو ’’علت العلل‘‘ نام دیا جاتا ہے۔
تیسری اصطلاح جس کو زیادہ جاننے اور مکمل شناخت کی ضرورت ہے وہ ممکن الوجود ہے۔ جس جگہ پر بھی وجود کو موجود کی طرف نسبت نسبتِ امکانی ہو، تو وہ موجود ممکن الوجود ہے اور ہر ممکن الوجود علت کا محتاج ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ محمول کا اپنے موضوع پر حمل کرنا یا تو بالذات ہوتا ہے یا بالغیر؛ مثلاً نور اور روشنی ایک نورانی چیز ہے اس کا یہ نور یا تو خود اپنی ذات سے ہے یا کسی دوسرے چیز سے حاصل شدہ نور ہے اور اس میں تیسری صورت کا ہونا محال ہے۔ اگر نور بذات خود اپنی ذات سے ہو تو فلسفی اس کو بالذات سے تعبیر کرتے ہیں اور اگر اپنے غیر سے ہو تو اس کو بالغیر کا نام دیتے ہیں۔ جسم کے ساتھ چربی کا تعلق بھی ویسا ہی ہے؛ چونکہ جسم کی چربی یا تو بذات خود یا تو اسی جسم کی ہے یا کسی اور جسم سے حاصل کی گئی ہے۔ اس بنا پر ہر موجود کا وجود بھی یا تو اپنی ذات سے ہے یا دوسرے موجود سے حاصل شدہ ہے۔
اگر موجود کا وجود اپنی ذات سے ہی حاصل شدہ ہو تو وہ موجود واجب الوجود ہے اور اگر دوسرے سے حاصل شدہ ہو، تو ممکن الوجود ہو قرار پائے گا۔ اور ایسی صورت میں محمول کا موضوع کے ساتھ رابطہ امکان والا ہوگا۔وجود کا موجود سے جدا ہونا ممکن ہے اور ایسی صورت میں محمول کو موضوع کے لئے ثابت کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بنا پر ہر ممکن الوجود علّت کا محتاج ہے اور علّت کے لئے وجود ضروری ہے تا کہ وہ دوسرے موجود کے لئے وجود کو ممکن بنا سکے۔
ممکن الوجود کی بحث کا آخری نکتہ یہ ہے کہ فقط ممکن اور معلول علّت کے وجود کا محتاج ہوتا ہے اور یہ قاعدہ واجب الوجود کو شامل نہیں کرتا۔ بعض افراد اس غلطی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اگر اللہ تعالی کے علاوہ جو کچھ ہے اس کی علّت اللہ تعالی ہے تو اللہ تعالی کی علّت کون ہے؟ تو جو وضاحت بیان کی گئی اس سے معلوم ہو گیا کہ ہر چربی رکھنے والے جسم کی چربی یا تو خود اس کی ہے یا اس کو اس نے دوسرے جسم سے حاصل کی ہے۔ اس مثال کی بنیاد پر ہر موجود کا وجود یا اپنی ہی ذات سے حاصل شدہ ہوتا ہے اور یہ وہی واجب الوجود ہے جس کو علّت کی ضرورت نہیں ہے؛ یا موجود نے اپنے وجود کو کسی دوسری جگہ سے حاصل کیا ہوگااور اس کا اپنا نہیں ہوگا، اس موجود کو علّت کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر دوسرے کا محتاج اور ضرورت مند ہونا یہ ممکنات سے مخصوص ہے اور اس میں واجب الوجود کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔
چوتھا قاعدہ جو زیادہ وضاحت کا محتاج ہے وہ تسلسل کا محال ہونا ہے۔ فرض کریں ایک معلول علت کا محتاج ہو، اور اس کی علت بھی ایک اور علت کی محتاج ہو اور یہ سلسلہ غیر متناہی طور پر چلتا رہے، اس کو فلسفی اصطلاح میں ’’علّتوں میں تسلسل‘‘ کہا جاتا ہے اور فلسفہ میں اس کا محال اور باطل ہونا ثابت شدہ ہے۔ تسلسل کے باطل ہونے کو ثابت کرنے کے مختلف طریقے ہیں جن میں آسان ترین یہ فرض ہے۔
اگر فرض کریں کہ اس عالم کے تمام موجودات ممکن الوجود ہو اور تمام ہمیشہ اپنے وجود کو دوسرے سے حاصل کرتے ہو اور یہ کیفیت لامتناہی حد تک چلتی رہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس عالم میں کسی موجود کا وجود ہی نہیں ہوگا، جبکہ خارج میں کثرت سے موجودات وجود رکھتے ہیں۔
اس مقصد کے لئے کہ بات زیادہ واضح ہو جائے، مثال کے طور پر ایک دس رکنی ٹیم کا تیزرفتاری کا مقابلہ ہو جس کا آغاز ایک لکیر سے شروع ہوتا ہو اور وہ سب مقابلہ کے لئے آمادہ ہو۔ اگر یہ تمام دس افراد آپس میں یہ شرط کرے کہ میں اس وقت تک حرکت نہیں کروں گا جب تک تم حرکت نہیں کرو گے، تو جس مقابلہ میں بھی اس طرح کی شرط کی جائے گی وہ مقابلہ خارج میں وجود میں آ ہی نہیں سکے گا؛ چونکہ ان میں سے ہرایک نے اپنے دوڑننے کو دوسرے کے دوڑنے پر موقوف قرار دیا ہے۔
اگر فرض کیا جائے کہ اس عالم کے تمام موجودات ممکن الوجود اور علت کے محتاج ہو، اس کا معنی یہ ہے کہ ان موجودات میں سے ہر ایک کا وجود میں آنا دوسرے کے وجود میں آنے سے مشروط ہے اور چونکہ یہ تمام معلول ہیں اور علّت کے محتاج ہیں، اس بنا پر کسی ایک کے لئے بھی وجود میں آنا ممکن نہیں رہے گا، نتیجہ یہ نکلے گا کہ خارج میں کوئی وجود ہی پایا نہیں جائےگا؛ چونکہ کوئی موجود بھی بغیر علت کے وجود میں نہیں آ سکتا۔
(محمد تقی، مصباح یزدی، آموزش عقاید، ص ۷۹-۸۴ (اس درس کے مواد کے لئے اس کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے۔))
۴۔ نتیجہ:
یقینی عقلی فرض کے حساب سے اس عالم کے تمام موجودات تین سے زیادہ صورتِ حال کے حامل نہیں ہیں؛ یا واجب الوجود ہیں، یا ممکن الوجود ہیں؛ یا بعض موجودت واجب الوجود اور بعض دوسرے ممکن الوجود ہیں۔ اس عقلی تحدید کے پہلے اور تیسرے فرض میں موجود علت یعنی واجب الوجود سے بےنیاز قرار پاتا ہے۔ البتہ تمام موجودات کا ممکن الوجود ہونا جو کہ دوسرا فرض ہے، تسلسل کے باطل ہونے کے مسلم قاعدے کی بنیاد پر قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ یہ دلیل بنیادی طور پر واجب الوجود کے فقط وجود کو ثابت کرنے کی ذمہ دار ہے، پروردگار عالم کی دیگر صفات اور یکتائی دیگر دلائل سے ثابت ہوتی ہے۔